شخصیات

آہ! صاحبِ قلم حضرت مولانا عبد اللہ صاحب قاسمیؒ ناظم وفاق المدارس مرٹھواڑہ اورنگ آباد

بروز جمعہ پندرہ شعبان ١۴۴١ھ 10 /اپریل 2020ء بعد نماز جمعہ واٹسپ پر یہ حادثہ فاجعہ کی اطلاع دیکھ کر دل قبول نہ کیا میرے بزرگ استاذحضرت مولانا عبد اللہ صاحب قاسمی اس دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کرگیے لیکن تحقیق کے بعد دل کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا فورا میرے ذہن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جو آپ نے حضرت ابوذر سے فرمایا: یعیش فریدا ویموت فریدا  گشت کرنے لگا۔

حضرت مولانا مرحوم کی ساری زندگی دیکھیں تو اس جملے کی عکاسی کرتی ہے۔ مولانا مرحوم ساری زندگی اشاعت دین کی خاطر گھر واحباب سے یکسو ہوکر بسر فرمائی موت نے اپنے آغوش میں لیا آپ گھر سے دور میدان خدمت میں سرگرم ہیں آپ ملنسار خوش مزاج سادہ دل احقر ایک سال قبل جب اطلاع ہوئی مولانا مرحوم فریش ہوئے ہیں تو اپنے رفقاء مولانا قمرالدین رشادی مولانا عبدالقادر رشادی حافظ حسین واڑی کی معیت میں اورنگ آباد کاسفر عیادت وزیارت کی غرض سے کیا آپ کی زبان پر لڑکھڑاہٹ تھی ہمت میں کسی قسم کی پستی نہیں وہی بلند ہمت شاہین کی پرواز کی مانند اشاعت دین وکتابت علوم قلم وقرطاس سرہانے کئی ایک کتابیں جو زیر طباعت تھی تکمیل کاجذبہ زبان حال سے کہہ رہا تھا۔
شاگردان ومحبان سے ملاقات وخیریت معلوم کرنا آپ کے اخلاق کا لاینفک جز تھا احقر اور احقر کے رفقا ءکو وہ منظر نظروں میں گردش کر رہا ہوگا ہمارے اورنگ آباد حاضری پر آپ نے فرمایا ایک دومہینے میں ضرور شاہ آباد حاضر ہوگا میرے ایک ساتھی نے منع کیا آپ اپنی طبعیت کا خیال رکھیں سفر سے گریز کریں لیکن حضرت مرحوم کی شفقت عنایت اورنگ آباد سے اپنے وعدہ کےمطابق اس پیرانہ سالی ضعف و اضمحلال کے باجود بذریعہ کارگلبرگہ حضرت نصیر الملت مولانانصیر الدین خان صاحب رشادی کے ادارہ مدرسہ عربیہ مصباح العلوم ایک رات قیام فرماکر شاہ آباد مدرسہ عربیہ انوارالعلوم تشریف لائے گاڑی سے قدم نیچے رکھنے کی سکت نہیں عصا کا سہارا لے کر چلنے کی طاقت بھی مفقود ہے حوصلہ تو مولانا مرحوم کا ہمالیہ پہاڑ تھا کارکا دروازہ کھلا کرسی طلب کرکے اس پر تشریف فرما ہوئے خدام کرسی سمیت آرامگاہ تک لے آے جمعہ کی صبح کاوقت تھا احقر تناول ماحضر سے ضیافت کی کوشش کرتے ہویے ناشتہ کی گذارش کی مولانا مرحوم کے خدام نے معذرت کی یہ کہہ کر گلبرگہ حضرت نصیر الملت کےیہاں ناشتے سے فارغ ہوکر آیے ہیں حضرت مرحوم نے اس وقت بخوشی ناشتہ طلب کرتے ہویے اپنے ساتھ آنے والے علماو خدام سے کہا میں بھی ناشتہ کر کے آیا ہوں لیکن میزبان کی خدمت کے جذبات سرد نہیں کرنا چاہیے
استاذ گرامی میں احقر یہ بات بچپن سے عیاں دیکھا ہے آپ کبھی کسی کی دل شکنی نہیں فرماتے تھے نرم گو تھےکمسن بچہ سے گفتگو بھی مشفقانہ روش کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرماتے تھے احقر کو علم سے جوکچھ نسبت حاصل ہے اس میں استاذ گرامی مولانا مرحوم کا بھی نمایا کردار ہے
احقر مدرسہ عربیہ انوار العلوم میں زیر تعلیم رہتے ہویے اور تعطیلات میں بھی آپ کی خدمت میں رہا کرتا تھا آپ کی شفقت ناچیز پر اور دیگر طلبا پر بھی ایک مشفق والد سے کم نہیں تھی ماہانہ خرچ کی رقم تیس روپیے آپ کی یہاں جمع کی جاتی روازنہ ایک روپیہ چھٹی کےبعد لینے کے لیے دفتر کے دروازے پر سلام عرض کرکے کھڑے ہوتے آپ مسکراتے ہویے عنایت فرماتے جمع شدہ رقم ختم ہوئے کئی دن مہینے گذرجاتےلیکن کبھی آپ کسی طالب علم کو یہ کہہ کر تہی دست واپس نہیں فرماتے میاں تمہاری رقم ختم ہوگئی ہے رقم ختم ہوتی لیکن اس کریم کی سخاوت کا دست طولی کبھی توقف نہیں کرتا تھا
شہر شاہ آباد میں آپ کی خدمات کے درخشند ہ کارنامے
موجود ہیں آپ شاہ آباد اردو ہائی اسکول میں بحیثیت اردو ٹیچر خدمت انجام دی ہے آج بھی آپ کے معمر نام چیں تلامذہ موجود ہیں مدرسہ عربیہ انوار العلوم میں وقفہ بوقفہ غالبا تین مرتبہ ناظم اعلی کے منصب پر فائز رہے ہیں احقر کی یہ سعادت کے آپ کی جوتیاں سیدھی کرنے اور زانو ادب طے کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور آپ کی نظامت میں تحفیظ وتدریس کی خدمت انجام دیتے ہویے آپ کے غائبانے میں نائب کے طور پر آپ کی گراں بار ذمہ داری کو دوش ناتواں پر اٹھا نے موقع ہوا ہے
ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
استاذ گرامی حضرت مولانا عبد اللہ صاحب قاسمی رحمہ اللہ کی ابتدائی تعلیم حضرت بندہ نواز میں موجود ادارہ دینیہ بارگاہ بندہ نواز میں ہوئی جہاں اس زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے مولانا معراج الحق صاحب جیسے جید علما بطور ممتحن تشریف لاتے تھے اس کے بعد آپ علمی تشنگی سے سیراب ہونے کے لیے مرکزی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا رخ فرمایا اور اس زمانے کے علوم کا سمندر رکھنے والے اساتذہ سے اکتساب علم وفیض کیا جن میں قابل ذکر اساتذہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب شیخ المعقولات والمنقولات حضرت مولانا ابراھیم صاحب بلیاوی
حکیم الاسلام قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند ہیں
اورآپ کے ہم درس ساتھیوں میں نمایا نام حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کا ہے
شاہ آباد میں مولانا مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں ایک جلسہ ہوا آپ کی خدمات پر مشتمل ایک کتابچہ کا اجرا ہوا جس کے آخر صفحے پر احقر کافون نمبر درج تھا اس کتابچہ کو دیوبند حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری کی خدمت میں ارسال کیا گیا کتابچہ کے پہنچتے ہی احقر کے نمبر پر حضرت بجنوری صاحب نے فون کیا اور اپنے ہم درس رفیق کی خدمات کے اعتراف پر جلسے کے انعقاد پر مسرت وخوشی کا اظہار فرمایا
استاذ گرامی ضلع گلبرگہ میں دار العلوم دیوبند کے اول فارغ ہیں
اللہ نے آپ کو بیش بہا صلاحیتوں سے نوازا تھا جس میں نمایا آپ کی قلمی صلاحیت تھی آپ صاحب قلم اور تحریری میدان کے شہسوارتھے تا دم زیست آپ قلم وقرطاس سے رشتہ جوڑے رکھا جبکہ آپ کے ہاتھوں میں ضعف کی وجہ سے رعشہ طاری ہوتاتھا
موت العالم موت العالم کے مصداق آپ کا ہم شاگردین ومحبین ومتعلقین سے جدا ہونا ہمارا ہی نہیں بلکہ علمی دنیا کا خسارہ ہے
اللہ آپ کی ہمہ جہت خدمات کو قبول فرمائے غریق رحمت فرمائے اعلی علیین میں جگہ عطا فر مائے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×