شخصیات

ترجمان حکیم الامت عارف باللہ مفتی محمد ارشد صاحب بجھیڑی دامت برکاتہم تعارف وخدمات

(حیدرآباد تشریف آوری کے موقع سے)
اہل اللہ کی صحبت بڑا قیمتی سرمایہ ہے ، ان کی صحبت سے دین میں پختگی اور اللہ عزوجل سے تعلق پیدا ہوتا ہے، اللہ عز وجل نے مومنین کو اہل اللہ کی صحبت سے استفادہ کے لئے ابھارا ہے ، اللہ عز وجل کا ارشاد گرامی ہے : یا أیہا الذین آمنوا اتقو اللہ وکونوا مع الصادقین‘‘(التوبۃ: ۱۱۹)( اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اورسچوں کی صحبت اختیار کرو )اور دوسری جگہ اللہ عز وجل کا ارشاد مبارک ہے ’’اولئک الذین صدقوا وأولئک ہم المتقون‘‘ (البقرۃ: ۱۷۷)(وہی لوگ سچے اور وہی تقوی والے ہیں)
تقوی در حقیقت نام ہے ’’کف النفس عن الہوی‘‘ یعنی اپنے نفس کو خواہشات ہوی وہوس کا غلام بننے سے روکنا اور یہ تقوی صحبت اہل اللہ سے پیدا ہوتا ہے ، اس لئے کہ اللہ عز وجل نے اوپر ذکر کردہ آیت میں’’ کونو‘‘ امر سے ایمان لانے والوں پر صحبت اہل اللہ کو ضروری قرار دیاہے،اور نبی کریم ﷺ کاارشادمبارک: ’’ خالطوا الحکماء‘‘ (الجامع الصغیر، حدیث: ۳۵۷۷)(اور حکماء سے اختلاط یعنی ملنا جلنا رکھا کرو)۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب’’ التشرف فی معرفۃ احادیث التصوف‘‘ میںفرمایا ہے : ’’اس سے مراد اہل اللہ ہیں‘‘۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ’’التشرف فی معرف احادیث التصوف‘‘ میں فرماتے ہیں: اس سے مراد اہل اللہ ہیں۔
ایک عالم نے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے بحث کی کہ میں تزکیہ نفس کی فرضیت کو تسلیم کرتا ہوں، مگر مزکِی(تزکیہ کرنے والے) کی کیا ضرورت ہے؟ میں خود کتاب پڑھ کے اپنا تزکیہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا: مولوی صاحب! تزکیہ فعل لازم ہے یا متعدی؟ کہا: متعدی ۔ توآپ نے فرمایا: کیا فعل متعدی فعل لازم کی طرح اپنے فاعل پر تمام ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالی فرماتے ہیں: یزکِیہِم ۔۔۔ہمارا نبی ان کاتزکیہ کرتا ہے ۔ یعنی شخصیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تزکیہ کرتی ہے قلوب ِ صحابہ کا۔
پیدائش اور تعلیم
حضرت مفتی صاحب کا نام نامی اسم گرامی’’محمد ارشد‘‘ والد محترم کانام ’’محمد اسلم ‘‘ قاسمی ہیں،حضرت کی ولادت باسعادت سن ۱۹۶۵م ہے، اس طرح مفتی صاحب عمر تقریبا ۵۷ سال ہوتی ہے، والد محترم چونکہ دارالعلوم دیوبند کے فضلاء میں سے ہیں، اس لئے ابتداء سے دینی ماحول میسر آیا، ابتداء تا از انتہا غالبا ساری تعلیم دار العلوم دیوبند سے ہی حاصل کی، حضرت مولانا مفتی سلمان منصوری پوری دامت برکاتہم مفتی صاحب کے درسی رفیق ہیں، ہمیشہ ہی اعلی نمبرات سے کامیاب ہوا کرتے، ایک دفعہ دوران تعلیم ملیشیاء حکومت کی جانب سے دار العلوم کے چند ایک فضلاء کو ایک بڑی کانفرس میں مدعو کیا گیا تھا، جس میں عالمی سطح کے بڑے مدارس کے چند منتخب طلباء کومدعو تھے، چنانچہ دار العلوم دیوبند کی جانب جن تین نمائندہ طلباء کا انتخاب عمل میں آیا اور حضرت مولانا عبد الخالق مدراسی صاحب کی معیت میں جن طلباء نے ملیشاء کی اس کانفر س میں شرکت کی اس میں مفتی صاحب بھی تھے، اس سے پتہ چلتا ہے دار العلوم کے ممتاز اور ذہین وفطین طلباء میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔
تدریس اور دیگر خدمات
دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مفتی صاحب دار العلوم میں ہی ’’معین المدرس‘‘ کی حیثیت سے خدمت انجام دی، بعد ازاں اصحاب حل عقد دار العلوم دیوبند نے مفتی صاحب سے دار العلوم میں ہی مستقل تدریسی خدمت انجام دینے کی پیشکش کی ؛ لیکن چونکہ مفتی صاحب کا تعلق حضرت مسیح اللہ خان سے تھا، اس لئے مفتی صاحب نے دار العلوم دیوبند کے مقابل مدرسہ مفتاح العلوم جلال میں اپنے شیخ کی صحبت میں رہ کر تدریسی خدمات انجام دینا زیادہ مناسب سمجھاکہ تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ صحبت شیخ بھی میسرآئے گی اور شیخ کی نگرانی بھی ہوگی ۔
تقریبا ۱۲ سال تک حضرت مسیح اللہ خان صاحب سے تعلق رہا، حضرت کے حین حیات اور بعد وفات بھی مفتی صاحب وہیں جلال آباد میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،وہاں نہ صرف یہ کہ درجہ علیا کی کتابیںآپ کے مفوض تھی؛ بلکہ شعبہ افتاء کی ساری ذمہ داریاں آپ ہی کے سپرد تھیں،آپ کی علمی لیاقت وصلاحیتوں کی وجہ سے حضرت مسیح الأمت آپ پر بے انتہا اعتماد فرماتے ، حضرت مسیح الامت کے وصال کے بعد حضرت محی السنۃ شاہ ابرار الحق صاحب ؒسے اصلاحی تعلق قائم کیا، حضرت محی السنہؒ کے پاس مفتی صاحب نے تقریبا دس رمضان گذارے ہیں، رمضان کے مہینے میںدرسِ قرآن اور دیگر اصلاحی مجالس مفتی صاحب ہی کے ذمہ تھیں، جہاں ایشیاء بڑے شیوخ علماء اور مفتیان کرام کی موجودگی ہوتی، بلکہ حضرت محی لسنۃ اپنے غیاب میں مفتی صاحب کو اپنے ہردوئی کے مدرسہ کی نظامت سونپتے ،حضرت محی السنہ سے نہایت گہرا اور مضبوط تعلق تھا، درمیان سال بھی حضرت محی السنہ کے پاس آمد ورفت ہوتی، حضرت محی السنہ مفتی صاحب کی فقہی آراء پر بہت اعتماد فرماتے،جس سے مفتی صاحب کی عملی استعداد وصلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے ، بلکہ اکابر امت اور بزرگان دین مفتی صاحب کی فقہی آراء پر اعتماد اور بھروسہ کیا کرتے تھے خود حضرت محی السنہ اپنی ذاتی معاملات اور مدرسہ کے معاملات میں مشورہ لیتے اور مفتی صاحب کی آراء کو قبول وتحسین فرماتے۔
اس کے علاوہ افریقہ اور دیگر ملک وبیرون ملک کے اصلاحی اسفار ہوتے رہے ہیں، دار العلوم دیوبند میں بھی تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لئے مدعو کیا گیا، بحر العلوم حضرت نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ جو آپ کے اساتذہ میں ہیں، مفتی صاحب کی علمی صلاحیتوںاور کمال استعداد کے قائل تھے، مفتی صاحب کی علمی استعداد وصلاحیتوں کی بنیاد پر بحر العلوم، مفتی سعید صاحب اور مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمہما اللہ نے آپ کو کئی دفعہ دار العلوم بغرض تدریس بلوایا، لیکن مختلف وجوہ اور مصلحتوں کی بنیاد پر مفتی صاحب دار العلوم تشریف نہیں گئے۔
مفتی صاحب کے شاگر د رشید یحی صاحب فرماتے ہیں:
حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری ؒ کی عصر بعد والی مجلس میں مفتی صاحب کا ذکر آیا تو حضرت حضرت پالنپوریؒ نے فرمایا کہ وہ ’’بڑے مفتی‘‘ ہیں۔
جامعۃ الابرار
پھر جلال آباد سے مستعفی ہو کر اپنے گاؤں بجھیڑی مظفر نگر میں’’ شعبہ افتاء‘‘ قائم کیا، پہلے سے ہی آپ کی نگرانی میں آپ کے مذکورہ گاؤں میں شعبہ حفظ وناظرہ سے متعلق مدرسہ بنام ’’مدرسۃ الابرار‘‘ چل رہا تھا، شعبہ افتاء اور عالمیت کی ششم تک جماعتیں قائم فرمائی، مدرسہ میں تربیت کے خاطرمفتی صاحب مع اپنے اہل وعیال مدرسہ میں ہی قیام پذیر ہیں، آپ کی فقہی صلاحیتوں کی وجہ سے آپ نے شعبہ افتاء کو ہی در اصل اپنا محور ومرکز بنایا،صرف عربی کتب سے استفادہ کی اجازت ہے، ایک مفتی کو کن صلاحیتوںاور خوبیوں کا حامل ہوناچاہئے، ایک مفتی کی صحیح تربیت اور فقہ وفتاوی پر اس کی کیسی نظر ہو اس حوالے سے خوب تربیت فرماتے ہیں، مفتیان کرام کی خوب مردم سازی کرتے ہیں، دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم کے ہوتے ہوئے بھی ایک بڑی تعداد طلباء کی مفتی صاحب کے یہاں شعبہ افتاء میں داخلہ کی غرض سے آتی ہے ، جن کی تربیت مفتی صاحب نہایت تندہی اور جستجو کے ساتھ فرماتے ہیں، ان کی فقہی استعداد اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر خوب توجہ دلاتے ہیں،اکابراسلاف مفتیان کرام کی فقہی بصیرت، نصوص پر ان کی نگاہ کے حوالے سے طلباء کی تربیت فرماتے ہیں۔
تصوف وسلوک
تصوف وسلو ک کے تعلق سے صرف رسمی بیعت وتعلق کا کا ربط نہیں ؛ بلکہ اکابر کے طرز پر سالکین کی تربیت پر خصوصی توجہ ہوتی ہے ، اکابر ین جس طرز وانداز پر اپنے سالکین ومریدین کی تربیت اور اصلاح فرمائی ، اسی طرز پر اصلاح سازی فرماتے ہیں؛بلکہ طلباء کو فقہ وحدیث اور نصوص وعبارتوں پر گہری نگاہ کی تربیت دیتے ہیں، جہاں طلباء کی علمی استعداد وپختگی کے حوالے کامل توجہ ہوتی ہے ، اسی طرح طلباء کی اکابر کے طرز پر تربیت اور اصلاح بھی فرماتے ہیں۔
بلکہ حضرت مفتی صاحب کو تصوف وسلوک کی راہ میں اکابر کا ترجمان اور خصوصا طلباء اور معتقدین نے مفتی صاحب کو ’’حامی السنۃ‘‘ خصوصا حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کے پیغام اور ان کے علوم ومعارف کے حامل ہونے اور اس کو عام وتام کرنے میں مفتی صاحب کی تگ ودو اور محنت وجستجو کی وجہ سے ’’ترجمان حکیم الامت‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا ہے ۔
، حضرت کی فکر وکڑھن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حضرت تھانویؒنے جواصلاح وتجدید کا کام انجام دیا تھا، حضرت اسی مشن پر گامزن ہیں،حضرت مفتی صاحب فرمایا کرتے ہیں: میرے تین شیخ ہیں: حضرت تھانویؒ، حضرت شاہ جلال آبادیؒ، حضرت شاہ ہردوئیؒ، زمانہ طالب علمی سے ہی حضرت تھانوی ؒ کی کتابوںسے کافی شغف اور تعلق ہے ، حضرت تھانویؒ سے منسوب اقوال کی تحقیق حضرت مفتی صاحب پالنپوریؒ سے فرمایا کرتے، اکابر دیوبند کے مزاج ومذاق مستند انداز میں اپنی مجالس میں ذکر کرتے ہیں، بقول ایک فاضل دیوبند کہ ہم نے اکابر دیوبند کو صحیح معنی میں حضرت کی خدمت میں آکر معلوم کیا، عصر بعد حضرت مفتی صاحب کا معمول ہے کہ ملفوظات تھانویؒ پڑھ کر سناتے ہیں، پھر ان کی گہرائی میں ڈوب کر اس کی جامع انداز میں تشریح کرتے ہیں، جس سے سامعین محظوظ ہوتے ہیں اور ان پر وجد وکیف طاری ہوجاتا ہے۔
ایک دفعہ گناہوں کے ترک کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بھروسہ کچھ نہیں اس نفس امارہ کا اے زاہد
فرشتہ ہوجائے بھی تو اس سے بد گماں رہنا
ایک دفعہ فرماتے ہیں کہ : حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ عام طور پر لوگوں اور خاص طور پر طلباء سے مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے: تم دو باتوں میں پختہ ہوجاؤ میں وصول الی اللہ کا ذمہ لیتا ہوں: (۱) گناہ کو چھوڑ دینا(۲) تھوڑا سا ذکر اور خلوت مع اللہ۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا یہ مقولہ بھی نقل کرتے کہ لوگ زوائد میں مبتلا ہیں،مقاصد کو بھولے ہوئے ہیں، پتہ ہی نہیںلوگوں کو رستہ (راستہ) کیاہے ، یعنی اللہ تک پہنچنے کاراستہ اور فرمایا: اللہ تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے کہ اخلاق رذیلہ جاتے رہیں اور حمیدہ پیدا ہوجائیں، معاصی چھوٹ جائیں اور اعمال صالحہ کی توفیق ہوجائے ، غفلت من اللہ جاتی رہے، توجہ إلی اللہ پیدا ہوجائے، اس کیلئے تعلق پیدا کیاجاتا ہے شیخ سے، مرشد ، وہ تدابیر لکھتا ہے، مریض وسالک اتباع حال کرتا ہے، وہ تدابیر بتاتا ہے ، اس پر عمل کرنا سارا کا سارایہ مسترشد اور طالب وسالک کا کام ہے، گناہ سے بچتے ہوئے، اللہ کا ذکر کرتے ہوئے، اعمال شیخ کی پابندی کرتے ہوئے ، سلوک طئے کرکے دیکھو انشاء اللہ بہت جلد منزل مل جائے گی، ورنہ تو بھائی حضرت جلال آبادی قدس سرہ کے الفاظ میں : ’’یہ تو سلوک کے ساتھ بد سلوکی‘‘ہے۔
اسطرح حضرت والا مفتی صاحب دامت برکاتہم کے سارے بیانات حضرت حکیم الامت اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات سے معمور اور ان کے ارشادات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، جس وجہ سے حضرت مفتی صاحب کو ’’ترجمان حکیم الامت ‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
نوٹ( یہ مضمون میں نے مفتی ارشاد صاحب استاذ احیاء العلوم ٹپہ چبوترہ کی تحریک وتحریض پر تحریر کیا ہے ، جس میں مفتی ارشاد صاحب نے حضرت والا مفتی صاحب کی شاگر د رشید مفتی کلیم صاحب اور مفتی احمدمحی الدین صاحب اور مفتی یحی صاحب سے مفتی صاحب کے حوالے سے معلومات فراہم کی ، جس میں نے کچھ بیانات مفتی صاحب کے سن کر مزید اس میں اضافہ کیا ہے )۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×