مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

سالار ِصحابہ ،خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ

پیغمبر انقلاب ﷺ کی تاثیر صحبت، فیضانِ تربیت اور تعلیم کتاب وحکمت نے امت مسلمہ اور تاریخِ اسلام کو ایسے باصفا،باوفا،بااثر، باخبر،بلند ہمت، نیک طینت، پاک سیرت اور صاحبِِ بصیرت جانشین عطاکیے، جنہوں نے آپ کے وصال کے بعد شجر اسلام کی نہ صرف آبیاری کی؛ بلکہ اس کو نخلستانِ عرب سے نکال کر چاردانگِ عالم میں ایک لہلہاتے ہوئے، سرسبزو شاداب باغ کی صورت بخشی؛ان ہی عظیم المرتبت، رفیع الشان، بلند پایہ اور برگزیدہ ہستیوںمیں سب سے نمایاں نام اس قدسی صفت اور جامع الکمالات ہستی کا ہے جو پیکرِ جودوسخا، مجسمۂ صدق ووفا، منبعِ تسلیم ورضا، افضل البشر بعد الانبیاء،ثانی اثنین فی الغار، حب خداوعشق نبی سے سرشار، خلافت علی منہاج النبوت کی معمار، تحریکِ دعوت وجہاد کی علم برداراور یار غار ویار مزارہے؛ آپ کے مکمل فضائل ومناقب اور اخلاق ومحاسن کا احصاء احاطۂ قلم سے باہر ہے، البتہ زیرنظر تحریر کامقصدآپؓ کی تابندہ زندگی کے چند اہم نقوش کو اجاگر کرنااور آپ کی اہم ترین نمایاں خدمات کوخراج عقیدت پیش کرناہے۔
مختصرسوانحی خاکہ:
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام: عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔ آپؓ کی نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کی آپؓ کی چار پشتوں کو صحابیت ؓرسولﷺکا شرف حاصل ہے۔ شراب نوشی اسلام میں بہ تدریج حرام قرار دی گئی؛ لیکن عرب میں جاہلیت کے دورمیںبھی بعض ایسے سلیم الفطرت لوگ موجود تھے جنہوں نے شراب نوشی کو خود پر حرام قراردے رکھا تھا۔ سیدنا ابوبکر ؓ بھی انہی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زمانہ جاہلیت ہی میں شراب اپنے اوپرحرام کر لی تھی۔ بعثت کے بعد مردوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا پھر آپ کی دعوتی جدوجہد سے بے شمار صحابہ حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے، جن میں بعض اہم نام یہ ہیں: حضرت عثمان غنی، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم۔آپ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ،آپؓ کا حلیہ مبارک اس طرح بیان فرماتی ہیں:رنگ گورا، بدن چھریرا، رخساروں پرگوشت کم، پیشانی بلندجو اکثر عرق آلود رہتی۔ آپ مہندی اور تیل کا خضاب لگایاکرتے۔ بڑے نرم دل اور نہایت برد بار تھے، ہجرت کے زمانے میں ریش مبارک کچھ سیاہ اور کچھ سفیدتھی۔لباس بہت سادہ اور غذا بھی معمولی تھی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ازواج (بیویوں) کی تعدادچار ہے۔ آپ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں کیے اور دو مدینہ منورہ میں۔ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔
جانثاری و فداکاری:
حیات صدیق اکبر کاسب نمایاں پہلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت اور جذبۂ جانثاری وفداکاری ہے۔ابتداء اسلام کامشہورواقعہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب خانہ کعبہ تشریف لاکردینِ متین کی دعوت دینے لگے توکفارنے جواباًگردن مبارک میں کپڑاڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تشددکرناشروع کردیا، اسی دوران آپؓ کو معلوم ہواتوآپؓ فوراآئے اور کفار سے مخاطب ہوکر گویاہوئے : کیا تم ایسے فرد پرظلم وستم ڈھارہے ہو جوتمہیں اللہ کے علاوہ باقی معبودوں کی عبادت کرنے سے منع کرتاہے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلاتاہے؟! یہ کہنا تھا کہ کفارِمکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آپؓ پر حملہ آور ہوگئے۔ کفارنے آپؓ کواتنا مارا کہ آپؓبے ہوش ہوکرگرگئے۔ آپؓ کو اسی حالت میں گھر لایاگیا۔ گھر پہنچ کر جب آپؓ کو ہوش آیا تو سب سے پہلا سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرنے سے متعلق تھا۔ والدہ دودھ کا پیالہ لے کر سرہانے کھڑی تھیں کہ آپؓ دودھ نوش فرمائیں؛ مگر آپؓ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بارہا استفسار فرمارہے تھے۔چناں چہ والدہ نے امِ جمیل کو طلب کیا، باوجود ام جمیل کی جانب سے مطلع کرنے کے کہ آپؑ بخیر و عافیت ہیں، آپؓ کی تسلی نہ ہوئی، اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حوصلہ ملنے پر آپ جیسی اولوالعزم شخصیت نے اپنے دکھ دردو تکلیف کو بھلا کر اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بھرپور وابستگی کا اظہارکرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ دعاکریں میری والدہ اسلام قبول کرلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مطالبہ پر ہاتھ اُٹھا کر اپنے رب کے حضور دعامانگی جس کے نتیجہ میں آپ کی والدہ محترمہ مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
اسلام کی خاطر مالی قربانی:
روایتوں میں آتاہے کہ قبول اسلام کے وقت حضرت ابوبکر چالیس ہزار درہموں کے مالک تھے؛لیکن ہجرت کے وقت صرف پانچ ہزار باقی رہ گئے تھے، انھیںانھوں نے راستہ کے خرچ کے لیے ساتھ رکھ لیاتھا، پورے پینتیس ہزار درہم حضرت ابوبکر نے اسلام کی راہ میں خرچ کیے۔ ان غلاموں و باندیوں کو آزاد کرایا جو پہلے سے ہی غلامیت کی وجہ سے نامساعد حالات سے دوچار تھے، قبول اسلام نے، ان کے کافر آقاؤں کو ظالم وجابر بنادیا، مگر یہ وہ نشہ تھا، جو اذیتوں کی ترشی کی وجہ سے اتر نہیں سکتا تھا،حضرت ابوبکر نے ان ظالموں کو منہ مانگی قیمتیں دے کر متعدد غلاموں اور باندیوں کوآزاد کرایا۔ان میں مشہور ومعروف: مؤذن رسول حضرت بلال حبشی، ان کی والدہ حمامہ، عامر بن فہیرہ، حضرت ابوفکیہ، حضرت زنیرہ، حضرت ام عبس، حضرت نہدیہ،اور ان کی صاحبزادی، اور بنی مومل کی لونڈی لبینہ، یا لبیبہ ہیں۔پھر آزاد کرنے کے بعد کبھی احسان نہ جتلایا، ایک موقع پرحضرت بلال سے اذان دینے کے لیے کہا تو حضرت بلال نے برجستہ کہا کہ اے ابوبکر کیاتم مجھے اپنی خلافت کے زعم میں حکم دے رہے ہو، یا پھر وہ احسان جتلارہے ہو،جو تم نے خطیر رقم خرچ کرکے مجھے آزاد کرایاتھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں تو حضرت بلال نے درخواست ٹھکرادی۔ابوقحافہ جو حضرت ابوبکر کے والد تھے اور اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے، کہا کرتے تھے کہ بیٹا! اگر ان کمزوروں کے بجائے، مضبوط جوانوں کو آزادکرواتے تو وہ تمہارے لیے قوت بازو بنتے، اور تمہاری پشت پناہی کرتے، حضرت ابوبکرنے جواب دیا: ابا جان! میں تو وہ اجر چاہتاہوں جو اللہ کے یہاں ہے۔
سادگی و بے نفسی:
حضرت صدیق اکبرؓ اپنے ذریعہ معاش کے لیے مدینہ کی نواحی بستیوں میں کپڑے کی تجارت کرتے تھے، منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد دوسرے دن کپڑوں کی گٹھری اٹھائے بازار میں جا رہے تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ سے ملاقات ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ یا خلیفۃ رسول اللہ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ کپڑے بیچنے جا رہا ہوں، حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ تو خلیفۃ المسلمین ہیں اگر آپ کپڑے بیچنے نکل پڑیں گے تو مسلمانوں کے معاملات کون دیکھے گا۔ آپ کی عدم موجودگی میں کسی ملک کا وفد آگیا، کوئی مقدمہ آگیا، کوئی ریاستی مسئلہ درپیش ہوا تو اسے کون نمٹائے گا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر میں مسجد میں بیٹھ گیا تو بچے کہاں سے کھائیں گے، میرا تو یہی ذریعہ معاش ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جناب آپ گھر تشریف لے جائیے میں اصحابِ شوریٰ کو اکٹھا کر کے اِس مسئلے کا حل تلاش کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ اصحابِ شوریٰ کے گھروں میں گئے اور سب کو مسجدِ نبوی میں اکٹھا کیا۔ خلافت راشدہ کے قیام کے بعد سب سے پہلا اجلاس اِسی مسئلے پر ہوا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے مسئلہ پیش کیا کہ میں نے راستے میں خلیفۃ المسلمین کو دیکھا کہ گٹھری اٹھائے کپڑا بیچنے جا رہے تھے، یہ صاحب عیال ہیں اگر یہ کام نہیں کریں گے تو گھر کس طرح چلائیں گے۔ اس لیے ہمیں بیت المال سے خلیفۃ المسلمین کے لیے تنخواہ مقرر کرنی چاہیے۔ چنانچہ سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ خلیفۃ المسلمین کے لیے بیت المال سے تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، پھر اس بات پر بحث ہوئی کہ خلیفۃ المسلین کی تنخواہ کتنی ہونی چاہیے؟ اُس وقت کے امیر المؤمنین بیک وقت حاکم وقت بھی تھے، چیف جسٹس بھی تھے اور افواج کے کمانڈربھی تھے، تمام بڑے بڑے عہدے ان کے پاس تھے۔ تنخواہ کے متعلق مختلف آراء سامنے آئیں؛ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے پر فیصلہ ہوا۔ حضرت علیؓ نے فرمایاکہ مدینہ منورہ کے ایک عام آدمی کا تخمینہ لگایا جائے کہ اس کا خرچہ کتنا ہے اس کے مطابق خلیفۃ المسلمین کی تنخواہ مقرر کر دی جائے۔ یہ وہی اصول تھا جو رسول اللہؐ نے قائم کیا تھا کہ حاکم وقت کا معیارِ زندگی عام آدمی کے برابر ہونا چاہیے۔
حضرت صدیق اکبر ؓ کا عہد خلافت صرف سوادوبرس کی قلیل مدت پر محیط رہا ؛مگر اس مختصر عرصہ میں آپ نے بہ توفیق ایزدی جو عظیم الشان دینی ، ملی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ تاریخ ِ اسلام کا روشن، منور او رقابل ِ فخر باب ہے انہی خدمات میں سے چند کو یہاں اختصار کے ساتھ رقم کیا جاتا ہے :
وصال نبوی ﷺاور امت کی دست گیری:
اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ الم ناک ، کرب ناک اور اندوہ ناک حادثہ ، حیات ِصحابہ کا نہایت جاں گداز ،دل دوز اور روح فرسا سانحہ، اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ وصال نبیﷺ کا جاں بلب واقعہ ہے جس نے تمام صحابہ ؓ پر سراسیمگی ودہشت طاری کردی ، ہر کوئی ورطۂ حیرت میں مستغرق خاموش کھڑا ہے ، شدت ِکرب والم سے جگر گوشۂ رسول فاطمہ الزھراؓ کا براحال ہے ، ادھر حضرت عمرؓ ننگی تلوار لئے مسجد میں کھڑے ہیں کہ جو شخص بھی کہے گا کہ اللہ کے نبی فوت ہوگئے ہیں اس کی گردن اڑادوںگا ، ایسے مشکل حالات میں حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی فراست ِایمانی ، دانش مندی اور اولوالعزمی کا جو ثبوت پیش کیا وہ صحابہ کرام میں صرف ان ہی کا حق تھا ، وفات نبی کی اطلاع پاکر آپ سیدھے حضرت عائشہؓ کے مکان میں داخل ہوئے اور آقائے نامدارﷺکے نورانی چہرہ سے نقاب اٹھا کر جبین مبارک کا بوسہ دیا اور باہر آکر بہ آواز بلند لوگوں سے مخاطب ہوئے کہ اگر لوگ محمد ﷺکی پرستش کرتے تھے تو بے شک وہ وفات پاگئے اور اگر وہ خدا کی عبادت کرتے تھے تو وہ زندہ ہے کبھی نہ مرے گا پھر اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :‘‘وَمَا مُحَمَّدالاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُل’’(آل عمران:۴۴۱)،یہ تقریر ایسی دل نشیں تھی کہ ہر ایک کا دل مطمئن ہوگیا سب پرسکون کی کیفیت طاری ہوگئی ، خصوصاً آپ نے جس آیت کریمہ کی تلاوت کی تھی اس کے متعلق حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ! ہم لوگوں کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گویا یہ آیت ابھی نازل ہورہی ہے ۔
جیش ِاسامہؓ کی روانگی:
جنگ موتہ اور غزوہ تبوک کے بعد آپ علیہ السلام کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزیوں کے باعث اہل روم، عرب پر حملہ نہ کردیں، ادھر رومیوں کی سرحد ِعرب پر پیش قدمی اور جنگ کی پرزور تیاریوں نے اس خطرہ کو مزید تقویت دیدی چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی دوراندیشی اور عاقبت بینی سے مرض ِوفات ہی میں حضرت اسامہ ؓ کی زیر قیادت سات سو جوانو ںپر مشتمل ایک لشکر تشکیل دیا جو وفات نبی کی خبر سن کر مقام جرف سے واپس لوٹ آیا ، حضر ت ابوبکر ؓ نے بحیثیت خلیفہ سب سے پہلے یہ حکم جاری کیا کہ جیش اسامہ ؓ کی روانگی عمل میں لائی جائے اور سرکار دوعالم ﷺنے اپنی حیات طیبہ میں جس کا امر فرمایا اس کو روبہ عمل لانے میں ہرگز تاخیر نہ کی جائے مگر وصال نبی کے بعد مملکت اسلامیہ کو درپیش داخلی وخارجی خطرات کے پیش نظر صحابہ کرام ؓ کی اکثریت اس لشکر کی فوری روانگی کے حق میں نہیں تھی؛ کیونکہ ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت کی شرانگیزی حائل تھی تو دوسری طرف مرتدین اور مانعین زکوۃ نے علاحدہ شورش برپا کررکھی تھی ، ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت مسلمان بکریوں کے اس گلہ کے مشابہ تھے جو جاڑوں کی سردرات میں بحالت ِبارش میدان میں بے گلہ باں کے رہ گئے ہوں ،ان صعوبات ومشکلات کے ساتھ حضرت اسامہ ؓ کا ان چیدہ وچنیدہ افراد کو لے کر جنگ کی مہم پر جانا دشمنان ِاسلام کے لئے لقمہ تر بن جانے کے مترادف تھا ؛لیکن ابوبکر ؓ ڈٹے رہے ان کے پایۂ ثبات میں ذرہ برابر لغزش پیدا نہ ہوئی ، اور آپ نے برملا یہ اعلان کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھ کو یہ گماں ہوتا کہ درندے مجھے اٹھالے جائیں گے تو بھی بہ تعمیل ِحکم ِرسول ،اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کرتا ، اس کے بعدکسی کو ممانعت کی ہمت نہ ہو ئی ، حضرت اسامہ ؓ کی جماعت حدود شام پہونچی اور نہایت کامیابی کے ساتھ اپنا مقصد پورا کر کے چالیس دن میں واپس ہوئی ۔
مدعیان نبوت کا قلع قمع:
سرکار دوعالم اﷺکی زندگی ہی میں بعض مدعیان نبوت نے سرابھارا چنانچہ مسیلمہ کذاب ، ۱۰ھ میں نبوت کا دعویدار ہوا اور آپ علیہ السلام کو منصب نبوت میں شرکت کا مفصل خط لکھا جس کا جواب آپ ﷺنے روانہ فرمایا :دھیرے دھیرے یہ مرض متعدی ہونے لگا چنانچہ نواح مدینہ میں طلیحہ بن خویلد نے ، یمن میں اسود عنسی نے اور یمامہ میں خود مسیلمہ نے ، مردتو مرد عورتوں میں سجاح بنت حارث نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور اپنے ہم نواؤں کے ساتھ مل کر وہ فساد برپا کیا کہ ہزاروں پر مشتمل ایک پورا لشکر ان کے ساتھ ہوگیا ، حضرت ابوبکر ؓ کی غیرتِ ایمانی جوش میں آئی او رانہوں نے لشکر اسلام کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک پر ایک سردار مامور فرمایا اور ان فتنوں کی منظم سرکوبی کے ذریعے ’’ تحفظ ختم نبوت ‘‘کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ۔
مرتدین کی سرکوبی :
ادھر مدینہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے دست ِ اقدس پر صحابہ کرامؓ بیعت فرمارہے تھے ادھر قبائل عرب میں رسول اللہ ﷺکی خبر وفات آگ کی طرح پورے عرب میں پھیل گئی اور آناً فاناً ارتداد کی ایسی لہر چلی کہ سوائے دو قبیلوں (قریش، ثقیف)کے سبھی اس کی لپیٹ میں آگئے ارتدا د کا زیادہ زور یمن اور نواح مدینہ کے قبائل میں تھا کہ یہ سب جدید الاسلام تھے ، اس لئے معرکہ طلب طبائع نے اپنے عروج وسرداری کا حیلہ ارتداد کی شکل میں ڈھونڈنکالا ، حضرت ابوبکرؓ نے ان کے خلاف کمر کس لی اور مختصر مدت میں ارتدا د کامکمل خاتمہ فرمایا چنانچہ علاء بن حضرمیؓ کو بحرین روانہ فرماکر نعمان بن منذر کا قلع قمع فرمایا، حضرت حذیفہ ؓ بن محصن کی تلوار سے لقیط بن مالک کو کیفرِکردار تک پہونچایا، زیاد بن لبید کے ذریعہ ملوک ِکندہ کا صفایا فرمایا ، اسی طرح اس مرد حق آگاہ نے ’’ أینقص الدین وأنا حی ‘‘کا نعرہ لگا کر مانعین زکوٰۃ کے خلاف ایک محاذکھڑا کردیا ، او ر ان کا استیصال کر کے ہی دم لیا ان سب کے باوجود وہ ملکی نظم ونسق سے بھی غافل نہیں رہے؛ بلکہ اپنی قوت ایمانی اور حمیت دینی کے ذریعہ اس نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے اس پر ایک شاندار محل تعمیر فرمایا مزید برآں عراق وشام جیسے اہم ترین علاقوں کی فتوحات بھی آپ ہی کے کاوشوں کی رہین منت ہے ۔
الحاصل:
بہ نظر غائر سیرت صدیق ؓ کا مطالعہ کرنے والے کو یہ بات عیاںنظر آئے گی کہ حضرت ابوبکر ؓ کی پوری زندگی عشق مصطفوی کی آئینہ دارتھی ؛شہادت گہہ الفت میں قدم رکھتے ہی ہجوم بلا میں گھر گئے ،گفتارصدق مایۂ آزار بن گیا ، شہادت حق ورسالت پر کفار نے متعدد مرتبہ اپنی گرفت میں لے کر اتنا زدوکوب کیا کہ بے ہوش ہوکر گرگئے ، سفر وحضر خلوت وجلوت ، لیل ونہار، غرض ہردم وہر آن اس طرح حق رفاقت ادا کیا کہ زبان نبوت خود گویا ہوئی کہ میں نے ابوبکر کے علاوہ سب کے حقوق ادا کردئیے ،تمام غزوات میں آپ ﷺکے ساتھ رہے اور اسلام کی بھرپور معاونت ونصرت فرمائی،اسی پس منظرمیں شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے یوں مدح سرائی کی ؎
بولے حضور: چاہئے فکر عیال بھی؟
کہنے لگا وہ عشق ومحبت کا راز دار
ائے تجھ سے دیدہ مہ وانجم فروغ گیر
ائے تیری ذات باعث تکوین روزگار
پروانہ کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×