سیاسی و سماجیمضامینمولانا سید احمد ومیض ندوی

سرزمین شام!تیری عظمت کو سلام

از:مولانا سید احمد ومیض ندوی، استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد

شام کے قصاب بشار الاسد کے وحشیانہ مظالم  کی دل خراش داستان اتنی طویل ہے کہ کوئی ایک کالم اس کے لیے ناکافی ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ سفاک الاسد کے مظالم کا کا ایک نیا باب منظر عام پر آتا جا رہا ہے، تاریخی جامع اموی کی جب صفائی کی گئی تو رافضی توسیع پسندانہ ذہنیت بری طرح آشکارا ہوئی، روافض نے اس عظیم الشان مسجد کی مٹی پلید کر دی تھی، اور اسے غلاظت سے بھر دیا تھا، مسجد کے باہر اور اطراف کے علاقوں کو ایرانی، افغانی اور دیگر ملکوں کے روافض سے آباد کر دیا گیا تھا، رافضی درندوں نے ملک شام کے سنی مسلمانوں کے ساتھ کیسے کیسے مظالم ڈھائے! الامان و الحفیظ!!کسی کے کان کاٹے گئے، کسی کے ہاتھ کاٹے گئے، کسی پر تیزاب ڈالا گیا، کسی کو بھوک پیاس سے مارا گیا، بشار کے فرار کے بعد کتنی ہی کھوپڑیاں ملیں، کتنے ہی مردہ گھر ملے اور کتنے ہی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، اور سیاسی قیدیوں کے لیے کیسے کیسے خفیہ قید خانوں کا انکشاف ہوا تفصیلات جان کر سر چکرا جاتا ہے.
شامی کارکن اور صحافی قتیبہ یاسین کے مطابق دمشق دیہی علاقوں میں واقع الحسینیہ علاقے میں تقریبا 75 ہزار قیدیوں کی لاشوں پر مشتمل 150 اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، ہر ایک گڈھا 20 میٹر گہرا ہے، ان گڈھوں میں لاشوں کو اس طرح دفن کیا گیا ہے کہ پہلے ایک ڈھیر لاشیں ڈالی گئی ہیں اور ان پر مٹی ڈالی گئی ہے، پھر ان کے اوپر لاشیں ڈالی گئی ہیں پھر ان پر مٹی ڈالی گئی ہے، ایک گڈھا بھر جانے تک یہی عمل کیا گیا ہے، پھر دوسرا گڈھا، تیسرا، یہاں تک کہ تقریبا 150 ایسے گڈھے ہیں جو مکمل طور پر بھرے جا چکے ہیں، ابتدائی اندازے کے مطابق تقریبا 75 ہزار ہیں، اس قبرستان میں روزانہ تقریبا 400 لاشیں آتی تھیں اور یہ کئی اجتماعی قبروں میں سے ایک ہے، شام کو اس بڑی فائل کو کھولنے اور ان دسیوں ہزار قیدیوں کی لاشیں نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیموں کی مدد کی ضرورت پیش آئی، اور وہ ویڈیو تو بہت سوں نے یقینا دیکھی ہوگی جس میں درجنوں افراد کو آنکھوں پر پٹی ہم باندھ کر لایا جاتا ہے اور ایک گڈھے میں گرا کر گولیاں ماری جاتی ہیں، اور پھر ساری لاشوں کو ٹائروں کے ساتھ آگ لگائی جاتی ہے، شام کی حالیہ تاریخ کا یہ گھناؤنا قتل عام عرب میڈیا میں مجزرہ حی التضامن کے نام سے مشہور ہے، التضامن دمشق کے ایک محلے کا نام ہے جہاں 16 اپریل 2013 کو مظاہرین کا یہ قتل عام ہوا تھا، بشاری فوج کے اہلکار خاص طور پر فوجی انٹلی جنس دائریکٹوریٹ کی شاخ فرع 227 سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں نے 280 سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا تھا ،ان شہریوں کو دمشق کے ایک الگ تھلگ علاقے میں لے جایا گیا جہاں انہیں ایک اجتماعی قبر کے پاس ایک کے بعد ایک کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،یہ اجتماعی قبر پہلے سے تیار کی گئی تھی جیسا کہ امریکی جریدے نیو لائنز میں شائع ہونے والی تفصیلی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے، بعد میں برطانوی اخبار دی گارڈین نے اس حوالے سے مزید تفصیلی اور جامع تحقیق شائع کی تھی، اس قتل عام کا مرکزی سرغنہ صالح الراس ابو منتجب نامی فوجی افسر تھا جسے بعد میں مقاومتی تحریک کے ذمہ داروں نے گرفتار کر لیا ہے.
برسوں سے قید قیدیوں کی جب رہائی ہوئی تو ان کا عجیب حال تھا، اور ان سے متعلق حیران کن باتیں سامنے آئیں، ایک قیدی جب رہائی کے بعد کھلی فضا میں آیا تو اسے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ دنیا میں موبائل فون بھی ایجاد ہوا ہے، وہ 40 سال سے جیل کی کوٹھیوں میں زندگی بسر کر رہا تھا، جب مجاہدین نے جیل کا دروازہ کھول کر قیدیوں سے کہا کہ چلو! تم آزاد ہو تو ایک قیدی کہنے لگا کہ کیا صدام حسین نے اسد خاندان کا خاتمہ کر دیا ہے؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ خود صدام حسین دنیا سے جا چکا ہے، وہ 30 سال سے قید تھا، کچھ قیدی ایسے بھی تھے جو جیل ہی میں پیدا ہوئے اور انہوں نے سورج، دھوپ، درخت، گھاس وغیرہ جیل سے رہائی کے بعد پہلی مرتبہ دیکھے، جہاں تک جیل میں دی گئی سزاؤں کا تعلق ہے تو ان کی تفصیلات انتہائی دردناک ہیں، ایسی سزائیں دی گئیں کہ بہت سے قیدی مجنون اور پاگل ہو گئے، ان کو اپنا نام شہر اور علاقہ بھی معلوم نہیں، جیل میں کئی کئی دنوں بلکہ کئی کئی ہفتوں تک کھانا اور پانی نہیں دیا جاتا تھا، بے تاب ہو کر بعض قیدی پیشاب پینے پر مجبور ہو جاتے، جیل میں قیدیوں کے لیے نماز روزہ اور کسی بھی قسم کی عبادت ممنوع تھی، جیل کے اندر ہر وقت آگ کی ایک بڑی بھٹی دہکتی رہتی تھی جسے حافظ الاسد کی جہنم کہا جاتا تھا اور جس قیدی کو اس میں جلانا ہوتا تھا تو کہا جاتا تھا اسد کی جہنم میں خوش آمدید. جیل کے اندر ایسی کلنگ مشین تھی جس میں لاش کو دبا کر خون اور ہڈیوں کو الگ الگ کر کے گٹھڑی میں باندھ کر گڈھوں میں دبا دیا جاتا تھا، قیدیوں کے دانت توڑ دیے جاتے تھے، اور کرنٹ کے جھٹکے دیے جاتے تھے، بعض قیدیوں کے پیر توڑ کر ان کو دوڑنے کے لیے کہا جاتا تھا، اور کھانے کے لیے مرے ہوئے چوہے دیے جاتے تھے، ہر ہفتہ 20 سے 50 قیدیوں کو پھانسی دی جاتی تھی اور جس کو پھانسی دینی ہوتی اس کو رات بھر پیٹا جاتا تھا، جیل کے اندر نمک کی کان بنا کر رکھی گئی تھی، قیدیوں کو زخمی کر کے نمک پر لٹا دیا جاتا تھا، ایک قیدی نے رہائی کے بعد کہا کہ آج میری اور میرے 50 ساتھیوں کی پھانسی کا دن تھا، لیکن اللہ نے آج ہی مجاہدین کو فتح عطا فرمائی، اور میں اور میرے 50 ساتھی بچ گئے.
خیر بشار کے مظالم کی داستان کافی طویل ہے لیکن ملک شام میں آیا یہ انقلاب دیگر ممالک میں رونما ہونے والے عام انقلابوں سے مختلف ہے، اور اس کی بنیادی وجہ سرزمین شام کی تاریخی ثقافتی اور مذہبی اہمیت ہے، بقول شاہ نواز سیال کے”شام کی تاریخ درحقیقت آرٹ، ثقافت اور انسانی تعلقات کی دریافت کا سفر ہے، بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع شام کی سرزمین کے ہر قدم پر ایک تاریخ موجود ہے، اسے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے ملاپ کی سرزمین اور مشرق و مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت بھی حاصل ہے، ہزاروں سال سے بحر اوقیانوس اور دریائے فرات کے درمیان کا یہ علاقہ تاریخی تبدیلیوں کا مرکز رہا ہے، شام میں 6 ہزار سال پرانی تاریخ کے آثار اب بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں، یہاں دنیا کی قدیم ترین عمارات اور مذاہب کے آثار بھی ملتے ہیں، شام کے صحرا وادیاں، ساحل، عبادت گاہیں، نوادرات اور محلات سب اپنے اندر صدیوں پرانی تاریخ سموئے ہوئے ہیں، عیسائیت کی بنیاد اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کا آغاز بھی شام ہی سے ہوا، دمشق کو طویل عرصے تک اسلامی دارالسلطنت کی حیثیت حاصل رہی، اسپین اور ایشیا تک اسلام کا ابدی پیغام بھی شام ہی سے پہنچا، شام کے دارالحکومت دمشق کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا ایسا شہر ہے جو کبھی تباہ و برباد نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ دمشق شہر کی گلیوں میں جدید اور قدیم کا ایسا امتزاج نظر آتا ہے جو شاید ہی دنیا میں کہیں دیکھا جا سکے، یونانی اور رومن دور میں یہ شہر تہذیب و تمدن کا مرکز رہا، شام کی 82 فیصد آبادی مسلمان ہے، 13 فیصد عیسائی جبکہ بقایا پانچ فیصد آبادی میں دوسرے مذاہب کے افراد شامل ہیں، فرانسیسی اور مغربی حکمرانی کے اثرات شام کی معاشرتی زندگی میں بڑے نمایاں ہیں، آزاد خیال اور جدت پسند لوگوں کی کثرت ہے، اگر جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو ملک شام کے شمال میں ترکی، مغرب میں بحیرہ روم لبنان، جنوب میں اسرائیل اور اردن، جبکہ مشرق میں عراق واقع ہے، شام کا کل رقبہ ایک لاکھ 85 ہزار 180 مربع کلومیٹر ہے جبکہ مجموعی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے، تاریخی اعتبار سے شام ایک قدیم تہذیبی و ثقافتی ملک رہا ہے، اپنی زرخیزی کے باعث یہ سرزمین عرب بدوؤں کے لیے پرکشش رہی ہے، دوسری صدی قبل مسیح کے آغاز میں عربوں نے ریاست قائم کر لی تھی، اور پانچویں صدی عیسوی میں شام کی سرحدوں کی حفاظت کا کام مقامی سرداروں کی ذمہ داری تھا جو کہ نسبتا عرب اور مذہب کے لحاظ سے عیسائی تھے، 636 عیسوی میں مسلمان شام کے قدیم شہر دمشق میں داخل ہوئے، اور اس علاقے کو فتح کر لیا ،750 عیسوی تک شام میں اموی سلطنت قائم رہی، اسی سال عباسیوں نے اموی سلطنت ختم کر کے شام کا مرکز دمشق سے بغداد منتقل کر دیا، 19 ویں صدی کے شروع تک زیادہ تر حصہ سمانی سلطنت کے ماتحت رہا، 1918 میں فرانسیسیوں اور برطانوی گٹھ جوڑ سے حکومت قائم ہوئی، بعد میں یہ فرانس کے قبضے میں آگیا اسی سال فیصل بن حسین نے دمشق میں ایک قومی حکومت قائم کی، جس کے تحت شام کے کچھ علاقے لبنان اردن اور فلسطین کے کچھ علاقے شامل تھے، 1921 میں شام چھ ریاستوں میں تقسیم ہوا، اسی اثنا شام دیگر تحریکوں کی مزاحمت کا شکار رہا، جس میں فرانس شام کو طویل مصنوعی آزادی کا دھوکہ دیتا رہا، 1932 میں پہلی دفعہ شام میں آزادی کا اعلان ہوا، لیکن فرانس کی جنگی حکمت عملی اور ہٹ دھرمی شام کی آزادی میں رکاوٹ بن گئی، دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس، برطانیہ و دیگر یورپی ممالک معاشی بدحالی کا شکار ہو گئے، ان تمام ممالک نے محسوس کیا کہ جن پر ہم قابض ہیں ان کو چلانا مشکل ہے، مسلسل معاشی بدحالی کا سامنا ہونے سے فرانس جب یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اب وہ شام پر مزید حکومت کرنے سے قاصر ہے، تو اس نے شام کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا، برطانوی اتحاد جن ممالک پر قابض تھا ان ممالک کو آزادی دے کر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ جان چھڑائی اور خود اپنے اوپر احسان کیا.”(نواے وقت ١٠ڈسمبر٢٠٢٤) فرانس سے آزادی کے بعد بھی اہل شام کے برے دن ختم نہیں ہوئے، ملک ایک ظالم کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے ظالموں کے ہاتھ چلا گیا، سات اپریل 1948 کو شام ایک علیحدہ مملکت بن گیا، جس کا نظام حکومت صدارتی اور جمہوری طرز کا تھا، 1958 میں مصر اور شام کے اتحاد کے نتیجے میں متحدہ عرب جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا، ٣/ ستمبر 1961 کو فوج نے بغاوت کر دی اور اس نے عرب جمہوریہ اتحاد سے قطع تعلق کرلیا، پھر ١٩٦٦ کو فوجی حکومت کا تختہ الٹ گیا، 1971 میں جنرل حافظ الاسد صدر بنا، آخر کار سن 2000 میں اپنے تمام تر مظالم کےساتھ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا جس کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد کرسی صدارت پر براجمان ہو گیا،بیٹا باپ کا بھی باپ نکلا جس کے مظالم کا سلسلہ تا حال جاری رہا.
شام کا مصداق:
کتب سیر و مغازی میں جس خطے کو بلاد شام کہا جاتا ہے وہ ایک وسیع علاقے پر محیط ہے، جس میں حالیہ شام ( جس کا دارالحکومت دمشق ہے) کے بشمول فلسطین، اسرائیل، لبنان اور اردن شامل ہیں، ملک شام میں مسلمانوں کا سب سے پہلے داخلہ غزوہ موتہ کے سلسلے میں عہد نبوی میں ہوا ، فتح شام کی بشارت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، چنانچہ آپ نے فرمایا تھا کہ عنقریب شام فتح ہو جائے گا. (مسند احمد ٩/٣٧ حدیث ٢٢٣٢٣) اس بشارت نبوی کے مطابق خلافت صدیقی میں فتح شام کا آغاز ہوا، اور دور فاروقی میں وہ مکمل فتح ہوا.اس خطے کا نام شام کیسے پڑا اس سلسلے میں متعدد وجوہات ذکر کیے گئے ہیں، ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ نام حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی مناسبت سے پڑھا کیونکہ اس سرزمین پر قدم رکھنے والے یہ پہلے شخص تھے، عجمی لفظ کی تبدیلی کے سبب لفظ سام کی سین کو شین کر دیا گیا. (معجم البلدان ١١٧/٣)
انبیاء کرام کا مسکن:
شام کی مذہبی اہمیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ نبیوں اور رسولوں کی سرزمین ہے، انبیاء کرام کی ایک بڑی تعداد نے اسی علاقے کو اپنا مسکن بنایا، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو عراق سے ملک شام ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا، پھر انہوں نے ملک شام سے مکے کے بے آب وگیاہ صحرا میں اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو چھوڑا اور خدا کے حکم سے ملک شام لوٹ آئے، انبیائے بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد نے اسی مقدس سرزمین کو آباد کیا، حضرت عیسی علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام کا جائے پیدائش بیت اللحم کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے.
ملک شام اور قران پاک:
یہ وہ مقدس سرزمین ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر کیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا بڑی بابرکت ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے. (بنی اسرائیل/١) بیت المقدس اور اس کے اطراف و اکناف کا علاقہ دراصل قدیم شام ہی کا علاقہ کہلاتا ہے، اس آیت میں اس سرزمین کے لیے” بارکنا حولہ” کی تعبیر اختیار کی گئی، اسی طرح ایک اور جگہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ہم نے تیز و تند ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا جو ان کے فرمان کے مطابق اسی زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی ہے. (الانبیاء ٨١) اس سے ملک شام ہی کی سرزمین مراد ہے، نیز حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے تذکرے کے ضمن میں ایک جگہ یوں ارشاد ہے: حضرت موسی علیہ السلام نے کہا: اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے نام لکھ دی ہے. (المائدہ ٢١) مقدس سرزمین سے سرزمین شام ہی کی طرف اشارہ ہے، حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کا مسکن بھی بیت المقدس تھا البتہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہوئے، ایک اور مقام پر حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے: ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی. (الانبیاء ١٧) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام عراق سے مقدس سرزمین ملک شام کی طرف ہجرت کر گئے تھے. ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کیے جاتے تھے اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے. (الاعراف ١٣٧) اس سرزمین کی عظمت کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ نے اسے پیغمبروں کے لیے منتخب فرمایا، چنانچہ یہ سرزمین حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت الیاس، حضرت الیسع، حضرت زکریا، حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کا مسکن رہی ہے، اور بعد میں مدفن بھی بنی، اس طرح یہ سرزمین تینوں آسمانی مذاہب کی حامل اقوام مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کے لیے مذہبی تقدس رکھتی ہے.
نبی آخر الزماں کی معراج گاہ:
یہ سرزمین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج گاہ بھی ہے، مسجد حرام سے اپ کو بیت المقدس اور مسجد اقصی لایا گیا، پھر وہاں سے معراج سے سرفراز کیا گیا، علاوہ ازیں نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ملک شام کا سفر کیا جس کے دوران عیسائی راہب بحیرا سے ملاقات ہوئی اور اس نے آپ کے اوصاف کو پہچان لیا اور ابو طالب سے کہا کہ یہ پیغمبر آخر الزماں ہیں، انہیں واپس لے جائیں، کہیں کوئی انہیں نقصان نہ پہنچا دے. (سیرت النبی: علامہ شبلی نعمانی)
قیامت کی نشانیاں اور ملک شام: اس سرزمین کے تقدس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ قیامت کی بعض بڑی نشانیوں کا ظہور بھی اسی مقدس سرزمین پر ہوگا، چنانچہ حضرت مہدی اسی سرزمین سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں گے، دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر فجر کے وقت حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا، اور پھر وہ امت مسلمہ کی باگ ڈور سنبھالیں گے، نیز دجال اور یاجوج و ماجوج جیسے بڑے فتنوں کی سرکوبی بھی اسی سرزمین پر کی جائے گی، اور اسی علاقے کی سرپرستی میں دنیا کے چپے چپے پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی، یمن سے نکلنے والی آگ لوگوں کو اسی بابرکت زمین کی طرف ہانک کر لے جائے گی.
مسلمانوں کا قبلہ اول: ملک شام اور اس مقدس سرزمین کو ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس اور مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی، جسے بعد میں تبدیل کیا گیا، عین حالت نماز میں قبلے کی تبدیلی عمل میں آئی، اسی مقدس سرزمین میں مسجد اقصی واقع ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی، اور امام الانبیاء کہلائے.
شام کا ذکر احادیث میں: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ارشادات کے ذریعے اس سرزمین کے تقدس کو خوب اجاگر فرمایا، احادیث شریفہ میں نہ صرف ملک شام کا ذکر آیا ہے بلکہ اس سرزمین کی خصوصیات اور اس کی برکات پر بھی کافی روشنی ڈالی گئی ہے.
ایمان کی سرزمین: ارشاد نبوی ہے: میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے، میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا ادھر سے نور پھوٹ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دیا گیا ہے، پس جب فتنے رونما ہوں گے تو امن شام میں ہوگا.(مسند الشامیین لطبرانی:٣٠٩ مسند احمد: ١٧٧٧٥) اسی طرح حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی دوران کہ میں سو رہا تھا میں نے دیکھا کہ کتاب اللہ کا ستون میرے سر کے نیچے سے اٹھا لیا گیا، میں نے گمان کیا کہ وہ چلا جائے گا، پس میں نظر باندھ کر اس کو دیکھتا رہا، بس شام کی جانب اس کا رخ کر دیا گیا، ایک اور روایت میں جس کے راوی حضرت ابو امامہ ہیں یوں وارد ہوا ہے: اس کے آخر میں یہ فرمایا کہ میں نے اس کی تعبیر یہ لی کہ فتنے جب واقع ہوں گے تو امن و امان شام میں ہوگا. (فتح الباری ٤٠٣/١٢) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی رحمہ االلہ لکھتے ہیں: ستون کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر یا تو دین ہوتی ہے یا ایسا شخص جس پر اعتماد کیا جاتا ہے، لہذا یہاں مراد دین ہے.
اللہ کی چنندہ سرزمین: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ملک شام اللہ تعالی کا چنا ہوا شہر ہے، اور وہ اپنے چنے ہوئے بندوں کو اس میں جمع فرما دے گا. (معجم کبیر ٥٧٨/٨)
رحمت کے فرشتوں کا گھیراؤ: یہ وہ سرزمین ہیں جس پر رحمت کے فرشتے اپنے پر پھیلائے رہتے ہیں، چنانچہ حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم خدمت اقدس میں حاضر تھے، آپ نے فرمایا: شام کے لیے خوشخبری ہے، بے شک رحمان عزوجل کے فرشتے اس پر اپنے پر پھیلائے رہتے ہیں. (سنن ترمذی ٤٩٧/٥)
شام کے لیے برکت کی دعا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور اہل شام کے لیے برکت کی دعا فرماتے ہوئے یوں فرمایا: اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، نجد والوں نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی دعا فرمائی، اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، وہ پھر بولے اور ہمارے نجد میں بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا. (سنن ترمذی ٤٩٦/٥)
شام کے لیے خوشحالی: حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کے لیے خوشحالی ہے، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کس وجہ سے ہے؟ آپ نے فرمایا: رحمن کے فرشتے اس پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں. (سنن ترمذی ٢٢١٧)
شام والوں کے ساتھ رہنے کا حکم: حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب ایسی حالت پیش آئے گی کہ تمہارے مختلف لشکر ہو جائیں گے، ایک شام کا لشکر، ایک یمن کا لشکر اور ایک عراق کا لشکر. حضرت ابن حوالہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں یہ صورتحال پاؤں تو کس کو اختیار کروں؟ ارشاد فرمایا: شام والوں کے ساتھ رہنا، کیونکہ وہ اللہ کی زمین میں بہتر ہوگی، اور اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو اس میں جمع کر دے گا، اگر تمہیں یہ قبول نہ ہو تو یمن والوں کے ساتھ رہنا اور اپنے حوضوں سے پانی پینا اور اللہ پاک نے شام اور اس کے رہنے والوں کا میری خاطر ذمہ لے لیا ہے. (تاریخ ابن عساکر ٧٥/١)
بہترین بندوں کی بہترین زمین:
حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت یوں وارد ہوئی ہے: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں رہوں؟ اگر مجھے پتہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے تو میں آپ کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہ دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شام کی طرف جاؤ! شام کی طرف جاؤ! جب آپ نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ اس بارے میں کیا فرماتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں. (رواہ ابو داؤد و احمد)
ایمان والوں کا مسکن: حضرت سلمہ بن نفیل کندی رضی اللہ عنہ سے نسائی شریف کی صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان والوں کا گھر شام ہے. ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو کہ اسلام کا مرکز شام میں ہوگا. آپ نے اس کو تین بار ارشاد فرمایا، اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے منتخب لوگوں کو اس جانب لے جائے گا، شام کی جانب رغبت کر کے جانے والا مرحوم اور اس سے اعراض کرنے والا فتنے میں گرفتار ہوگا، شام پر زمانے کے پہلے دن سے اس کے اخیر دن تک شبنم و بارش سے اللہ تعالی کی نظر خاص ہے، اور اگر وہاں کے لوگ مال و دولت سے عاجز بھی ہو جائیں تو روٹی اور پانی سے عاجز نہ ہوں گے. (الفتن لحماد ابن نعیم:٧١٦)
طائفہ منصورہ کا مقام: ملک شام کو اس طائفہ منصورہ کا مقام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے جس کے ہر دور میں دین حق کے لیے کوشاں اور دشمن کے مقابلے میں غالب رہنے کی خوشخبری حدیث میں دی گئی ہے، چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں سے ایک طبقہ اللہ تعالی کے حکم پر قائم و دائم رہے گا، ان کو کسی کی تکذیب و مخالفت سے کوئی نقصان نہ ہوگا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم ( فتح) آ جائے. (البخاری: ٧٤٦٠)
اہل حق کا مسکن و ماوی: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک طبقہ مسلسل دین پر قائم اور اپنے دشمن کے اوپر غالب رہے گا، جنہیں ان کے مخالف کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے، سوائے اس کے کہ ان کو تنگ دستی یا شدت پہنچے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا امر اس حال میں ان کو آ جائے گا، صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ وہ لوگ کہاں ہیں؟ فرمایا کہ بیت المقدس اور اس کے اطراف و اکناف میں. (مسند احمد: ٢٢٣٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک جماعت حق کے لیے لڑتی رہے گی اور قیامت تک حق انہی کے ساتھ رہے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کیا. (سنن ابو داؤد
دور فتن میں شام کی طرف ہجرت کی تلقین: چونکہ ملک شام دور فتن میں اہل حق کا ماوی و مسکن ہوگا اس لیے متعدد احادیث میں آخری زمانے میں شام کی طرف ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہجرت مدینہ کے بعد ایک اور ہجرت ( ملک شام) کی جانب ہوگی، پس اہل زمین میں سب سے بہترین لوگ وہ ہوں گے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام ہجرت (شام) کو لازم پکڑیں گے، اور باقی زمین میں سب سے بدترین لوگ(کفار و فجار) رہ جائیں گے جن کو ان کی زمینیں پھینک ڈالیں گی، اور اللہ تعالی کی ذات ان سے نفرت کرے گی، اور ان کو ایک آگ (یعنی فتنہ) بندروں اور خنزیروں (یعنی کفار وفجار) کے ساتھ جمع کر دے گی. (سنن ابو داؤد:٢٤٨٢) حدیث بالا میں پہلی ہجرت سے ہجرت مدینہ مراد ہے اور دوسری ہجرت سے بقول علامہ خطابی کے شام کی ہجرت مراد ہے. (معالم السنن:٢٣٥/٢) ملا علی قاری نے بھی یہی مراد لیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک ہجرت شام کی جانب ہوگی اس ہجرت کے بعد جو مدینے کی جانب ہو چکی ہے. (مرقات المفاتیح: ٤٠٤٠/٩)
فتنوں کے زمانے میں امن کا مقام: ایک روایت میں فتنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فتنے واقع ہوں تو شام میں امن ہوگا. (فتح الباری ٤٠٢/١٢)
غنائم اور رزق کی سرزمین: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے، اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے، اور تمہارے پیچھے مدد رکھی ہے. (سنن ترمذی)
حشر و نشر کی سر زمین: شام وہ زمین ہے جہاں آخری بار جمع کیا جائے گا اور جہاں محشر سجے گا. (الجامع الصغیر: ٦٠٣٩) ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ قیامت کے قریب یمن سے ایک آگ نکلی نکلے گی جو لوگوں کو اسی بابرکت سرزمین شام کی طرف ہانک کر لے جائے گی، اور سب مومنین اس مقدس سرزمین میں جمع ہو جائیں گے۔
ایک اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الشام ارض المحشر. شام کی سرزمین ہی سے حشر قائم ہوگا. (مسند احمد سنن ابن ماجہ
اہل شام کا فساد: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اہل شام میں فساد برپا ہو جائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے، میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالی کی مدد حاصل ہوگی، اور اس کو نیچا دکھانے والے کل قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں. (سنن ترمذی سنن ابن ماجہ معجم طبرانی)
ملک شام کا شہر غوطہ مومنوں کا مرکز ہوگا: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ شام کے شہروں میں سب سے اچھا شہر دمشق کے قریب الغوطہ کے مقام پر ہوگا. (سنن ابو داؤد،مستدرک حاکم) ایک اور روایت میں یوں آیا ہے: قتل کرنے کے دن (یعنی جنگ میں) مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ میں ہوگا جو دمشق کے قریب واقع ہے. (مسند احمد سنن ابو داؤد) حضرت عوف ابن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جبکہ آپ ایک چھوٹے سے خیمے میں موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت مجھے قیامت کی چھ نشانیاں بتائیں ١-میری موت ٢-بیت المقدس کی فتح ٣-میری امت میں اچانک اموات کی کثرت ٤-میری امت میں فتنہ جو ان میں بہت زیادہ گھر کر جائے گا. ٥-میری امت میں مال و دولت کی فراوانی ہوگی، تمہارے اور بنی اصفر (یعنی صھیونی طاقتوں) میں جنگ ہوگی، ان کی فوج میں 80 ٹکڑیاں ہوں گی اور ہر ٹکڑی میں 12 ہزار فوجی ہوں گے، اس دن مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ نامی جگہ میں ہوگا، جو دمشق شہر کے قریب میں واقع ہے. (معجم طبرانی)
دجال کی ہلاکت کی زمین: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان دائیں جانب ہے اور کفر مشرق کی جانب ہے، گھوڑوں اور اونٹوں والوں میں غرور و تکبر پایا جاتا ہے، اور مسیح الدجال مشرق سے آئے گا، پھر فرشتے اسے شام کی طرف بھگا دیں گے، اور پھر ادھر اسے ہلاک کر دیا جائے گا. (سنن ترمذی)
شام والے غالب رہیں گے: حضرت معاویہ ابن ابو سفیان رضی اللہ عنہما نے ممبر پر بیان کیا کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم کو قائم رکھے گا، انہیں رسوا کرنے یا ان کی مخالفت کرنے والا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ پاک کا حکم اور فیصلہ آ جائے اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے، یہ روایت سن کر مالک بن یخامر نے کھڑے ہو کر عرض کیا: امیر المومنین! میں نے حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا ہے کہ اس گروہ سے مراد اہل شام ہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اونچی آواز میں فرمایا: یہ مالک گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ اس فرمان رسول میں گروہ سے مراد اہل شام ہیں. (مسند احمد: ٣٢/٦)
صحابہ و تابعین اور نیک بندوں کا مدفن: سرزمین شام کے انہی فضائل کی وجہ سے حضرات صحابہ و تابعین کی ایک بڑی جماعت نے اسی سرزمین میں پیوند خاک ہونا مناسب سمجھا، شام اور اس کے ارد گرد کے خطوں میں جہاد کرنا صحابہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ تھا، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد اگر کوئی خطہ ایسا ہے جہاں صحابہ کرام کی بڑی تعداد مدفون ہے تو وہ بلاد شام ہے، یہاں جگہ جگہ حضرات انبیاء علیہ السلام بھی مدفون ہیں، نیز صحابہ ،تابعین و تب تابعین اور ان کے بعد کے ادوار کے حضرات اولیاء کرام و ائمہ عظام و شہداء اور سلاطین بڑی تعداد میں مدفون ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing