شخصیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ کی زندگی کے تابندہ نقوش

سرزمین دیوبند میں پیدا ہونے والے عالم ِ اسلام کے ممتاز عالم ِ دین ،فقیہ ومحدث مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ ۱۸ نومبر ۲۰۲۲ء کو کراچی میں انتقال فرماگئے۔آپ عظیم مفسر وفقیہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کے فرزند ارجمنداور عالم اسلام کے مایہ ناز عالم دین شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ کے بڑے بھائی تھے۔علمی عظمت ورفعت میں نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے منتخب علماء میں آپ کاشمار ہوتا تھا۔اللہ تعالی نے خوبیوں اور کمالات سے خوب نوازا تھا۔آپ نے بھرپور علمی،عملی،اصلاحی ،انتظامی ،تعلیمی ،تدریسی ،تصنیفی اور تعمیری زندگی گذاری اور مختلف میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دی۔آپ دارالعلوم کراچی کے صدر، پاکستان کے مفتی اعظم اور بے شمار ملکی وعالمی تنظیموں کے رکن اور ذمہ دارتھے۔
آپ کی زندگی کے بے شمار پہلوؤں میں سے چند بطور تذکیر ونصیحت کے پیش کئے جاتے ہیں۔اللہ تعالی نے اہل علم وتقوی کی زندگی میں ایسی تاثیر وکیفیت رکھی ہے جو لوگوں کے لئے نمونہ ٔ عمل ہوتی ہے۔بلاشبہ اس دنیا میں بہت سے اصحاب علم وفضل گذرے ہیں جودنیاسے رخصت ہوگئے لیکن ان کی تابناک وروشن زندگی کے پہلو بالخصوص اہل علم کے لئے سبق آموز ہیں۔حضرت مفتی رفیع صاحب ؒ نے بھی بڑی باکمال زندگی بسر کی اور علم وتقوی کی دنیا میں خوب محبت وعظمت سے نوازے گئے۔آپ نے زندگی کا بڑا حصہ دارالعلوم کراچی کی صدارت سنبھالی،اس کوبنانے،سنوارنے اور خوب سے خوب تر کرکے سجانے میں اپنی عمر کی بہاریں قربان کردیں،اور اس راہ میں ان مٹ نقوش چھوڑے،جو بطور ِخاص ذمہ داران ِ مدارس کے لئے پیغام عمل ہیںکہ ایک ناظم ِ مدرسہ کا کیا کردار ہوناچا ہیے اورمالی معاملات اور طلباء سے شفقت کے سلسلہ میں کس قدر رعایت کرنی چاہیے۔
محبت ِ رسول ﷺ دلکش نمونہ:
محبت ِ رسول ﷺ ہر مومن کا سرمایہ ٔ حیات ہے،اسی میں اس کے ایمان کی تکمیل اور سعادت ِ دارین کی تحصیل ہے۔جتنے اہل علم وتقوی گذرے ہیں ان کی محبت ِ رسول ﷺ کا انداز نرالااور جدا رہا،ہر کسی نے اپنی زندگی کے ظاہر وباطن سے محبت ِ رسول ﷺ کی تعلیم بھی دی ۔مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ جہاں ہر قدم پر اتباع ِ سنت کا غیر معمولی اہتمام فرمایا کرتے تھے ،وہیں آپ کے دل میں نبی کریمﷺ کی بے پناہ محبت موجزن تھی۔جس ایک نمونہ یہ ہے کہ آپ کثرت سے درود کا اہتمام فرماتے اور نام ِ محمد ﷺ کے بعد بڑے ادب واحترام کے ساتھ درود پڑھنے کی تاکید فرماتے اور اس سلسلہ میں کوتاہی کو برداشت نہیں کرتے۔دورہ ٔ حدیث شریف میں احادیث کی کتابوں کادرس ہوتاہے اور روایت پڑھتے وقت نبی کریمﷺ کا نام مبارک آتا تو آپ کامعمول تھا کہ آہستہ اور پورے تلفظ کی ادائیگی کے ساتھ ہر حدیث پرپڑھتے اور درود شریف پڑھنے کی تاکید فرماتے ،آپ کے درس کے بارے میں لکھا ہے کہ:حضرت استاذ مکرم مفتی رفیع عثمانی صاحب قدس سرہ درود شریف اس طرح جلدی جلدی پڑھنے سے بہت ناراض ہوتے تھے کہ کلمات خلط ہوجائیں۔ایک طالب علم نے لکھا کہ :ایک مرتبہ جب استاذ مکرم درس گاہ سے باہر نکل رہے تھے تو بندے نے استاذ جی کہا کہ ایک سوال ہے۔فرمایا:کیجیے:چوں کہ طلباء کا ایک ہجوم تھا تو کوشش ہوتی ہے کہ جلدی جلدی سوال مکمل کرلیاجائے،اس جلد بازی میں بندے نے ’’صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘تیزی سے پڑھ دیا۔تو فرمایا:درود شریف دوبارہ دہرائیں اور ٹھہرٹھہرکے پڑھیں۔تو بندے نے آہستہ رفتار سے درود شریف پڑھ لیا۔پھر سوال جاری کیا تو درمیان میں دوبارہ ’’صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ تیزی سے پڑھتاچلاگیا۔بس اس مرتبہ غصہ سے فرمایا:ہٹ جاؤ ؛ہم تمہارا سوال سننا ہی نہیں چاہتے ۔
مدرسہ کے مال میں احتیاط:
آپ نے دارالعلوم کراچی کا منصب اہتمام نصف صدی تک سنبھالا،اور کمال احتیاط کے ساتھ آپ نے اس ذمہ داری کو اداکیا۔بالخصوص مدرسہ کے مالیہ کے سلسلہ میں آپ نہایت حساس اور محتاط تھے،کسی بھی طرح مدرسہ کی کوئی چیز ذاتی استعمال میں لانے سے حددرجہ اجتناب کرتے ،اس طرح کے سے بہت سے واقعات آپ کے اہل علم نے بیان کئے ہیں۔آپ کے خود نوشت فتاوی ’’فتاوی دارالعلوم کراچی‘‘ ( امدادالسائلین ) کے مرتب مولانااعجاز احمد صمدانی تحریر فرماتے ہیں:دین ودنیا سے متعلق تمام امور میں آپ کا تقوی قابل ِتقلید ہے۔حقوق العباد کے معاملے میں آپ نہایت حساس ہیں،خصوصاً مالی معاملات میں آپ کا تقوی گفتن کے بجائے دیدن سے تعلق رکھتا ہے۔ایک دفعہ طلبہ کو مالی معاملات میں حزم واحتیاط سے کام لینے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ:’’میرا طرز ِ عمل یہ ہے کہ جب بھی کوئی دارالعلوم کے لئے چندہ ،پیسہ دیتا ہے تو میں فوراً اسے لفافے میں ڈال کر یاکسی کاغذ میں لپیٹ کر اس پر لکھ دیتا ہوں کہ فلاں مد کی رقم ہے اور فلاں نے دی ہے،اس کے بغیر قطعا ًاپنی جیب میں نہیں رکھتا تاکہ وہ میرے اپنے پیسوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائے۔‘‘آپ کا یہ قول بھی نہایت قیمتی ہے کہ’’تقوی فی المال کی خاصیت یہ ہے کہ اللہ اس بندے کے مال میں برکت دیتا ہے اور اُسے دوسروں کا محتاج نہیں بناتا۔‘‘
مدارس میں مہمانوں کی آمد ورفت لگی رہتی ہے،مہمانوں کی خاطر ا ن کی ضیافت کا بھی اہتمام ہوتا ہے،لیکن ایک ناظم ومہتمم کا طرز عمل اس معاملہ میں کیا ہونا چاہیے ،اس کو مفتی محمدرفیع صاحبؒ اور ان کے برادر ِ محترم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی زندگی سے سیکھا جاسکتا ہے ۔چناں چہ لکھا ہے کہ:جامعہ میں مہمان کثرت سے آتے ،اُن کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہ ہوں تو ان کے اکرام کے خلاف ہے،اور شریک ہوں تو آپ کو یہ اشکال ہوتا تھا کہ ہم تو جامعہ کے تنخواہ دار ملازم ہیں،مہمان نہیں ،ہم اس کھانے میں کیسے شریک ہوجائیں؟اس اشکال کا حل آپ نے اور آ پ کے برادر ِ عزیز شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب نے جو’’نائب رئیس الجامعہ ‘‘ ہیں یہ نکالا کہ دونوں حضرات ہر ماہ اپنی تنخواہ میںسے ایک مقرر معقول رقم پابندی سے کٹواکر مہمان خانے میں جمع کرادیتے ہیں،یہ اتنی ہوتی ہے کہ ان حضرات کے پاس آنے والے تمام مہمانوں کے کھانے پینے اور تواضع کے لئے آسانی سے کافی ہوجاتی ہے۔
مدرسہ کی دیگر اشیا کے استعمال کے سلسلہ میں آپ کی یہ احتیاط تھی ،چناں چہ آپ کا دفتر ’’رئیس الجامعہ ‘‘ کا دفتر تھا،وہاں آپ کی میز پر جتنی بھی طرح طرح کی اسٹیشنری اور لکھنے پڑھنے کا سامان ہوتا وہ سب آپ کا ذاتی ہوتا ،یہ سب سامان اگرچہ دارالعلوم ہی کے کاموں کے لئے آتا ،اور اُنہی میں استعمال ہوتا ،لیکن دفتر کے منتظمین کو آپ کی طرف سے سختی سے اس کا عادی اور پابند بنادیا گیاتھا کہ اس میز پر کوئی چیز دارالعلوم کی نہ رکھی جائے ،جب کوئی چیز ختم ہونے لگتی تو حضرت ہی کی رقم سے خرید کر مزید پر لاکر رکھ دی جاتی ۔اپنی گاڑی اور اپنا ذاتی موبائل فون آپ بکثرت دارالعلوم کے کاموں میں بے دریغ استعمال کرتے ،،جس کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتے۔لیکن اگر دارالعلوم کی گاڑی یا فون آپ کے ذاتی استعمال میں آجائے تو اس کا معاوضہ مقررہ قاعدے اور نرخ کے مطابق دارالعلوم میں رسید لے کر جمع کرادیتے۔( ملخصا از فتاوی دارالعلوم کراچی ۷۵)ایک موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایاکہ:میں اپنے گھر سے مدرسہ جاتے ہوئے اپنا وصیت نامہ بھی جیب میں رکھتا ہوں ،جس میں ان تمام رقموںکی تفصیلات ہوتی ہیں جو گھر میں یا میری جیب میں ہیں اور ان کا تعلق دارالعلوم سے ہے،تاکہ اگر گھر سے دفتر جاتے ہوئے راستے میں میرا انتقال ہوجائے تولوگ اس کو میری ذاتی رقم تصور کرکے کہیں اس کو میرے ترکہ میں شامل نہ کریں۔‘‘جب کہ گھر سے ان کے دفترکا راستہ پیدل صرف ۲ سے ۳ منٹ کا ہے۔( منقول ازمولانا معاذاشرف )ایک موقع پر طلباء سے فرمایا کہ:دارالعلوم میں تنخواہ سے سب سے زیادہ کٹوتی میری ہوتی ہے کیوں کہ میں دیر سے آتا ہوں اپنے مشاغل کی وجہ سے۔‘‘
احتیاط اور تقوی کا یہ عالم تھااو ر اس درجہ خیال واہتمام کے ساتھ آپ نے منصب نظامت کو سنبھالا،یقینا یہ طرزِ عمل مدارس کے ذمہ داروں اور تنظیموں کے سربراہوں کے لئے لائق ِ عمل ہے۔تقوی اور بزرگی کی باتیں کرنے سے انسان متقی نہیں بنتا بلکہ عملی طور پر تقوی والی باتوں کا اہتمام کرنے سے متقی بنتا ہے۔
طلباء پر شفقت ومحبت:
آپ کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی قابل تقلید ہے کہ آپ اپنے طلباء سے بہت محبت کرتے ،ان کا اکرام واحترام فرماتے اور ان کی راحت وسہولت کے لئے ہر ممکن فکر وکوشش کرتے۔یقینا بہت سے ارباب ِ مدارس ایسے ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی طرح مدرسہ کے طلباء کو بھی چاہتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں ،بلاشبہ ایک مدرسہ کے ذمہ دار کو اسی صفت سے آراستہ بھی ہونا چاہیے ۔مدرسہ کو جو تعاون آتا ہے اور لوگ اپنی کمائیوں سے مدرسہ کی مدد کرتے ہیں ان کا اصل مقصود طلباء مدرسہ کی راحت رسانی ہوتی ہے،اگر بچوں کواچھی غذا ،صحبت بخش ماحول اور اعلی تعلیم کے ساتھ تعمیر پر توجہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ،لیکن اس کے برعکس طلباء کے کھانے پینے،اور رہایش وغیرہ کی سہولتوں سے قطع ِ نظر صرف عوامی چندہ کو تعمیرات ہی پر خرچ کرنا درست نہیں۔اس سلسلہ میں ہمارے اکابر کی زندگی یقینا لائق تقلید ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ طلباء پر توجہ دی۔اس سلسلہ میں حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ کی زندگی بھی روشن وتابناک ہے۔آپ فرمایاکرتے تھے:’’ہمیں ہر وقت اس بات کا احساس رہتا ہے کہ آپ کے والدین نے ہم پر اعتماد کرکے اپنے جگر کے ٹکڑے ہماری جھولی میں ڈال دئیے ہیں ۔لہذا ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دارالعلوم کے طلباء کو یہاں کسی بھی قسم کی پریشانی نہ دیکھنی پڑے۔‘‘ ایک مرتبہ فرمایا کہ :ہمارے بارے میں خیال ہے کہ چوں کہ اللہ تعالی نے ہمیں بہت نوازا ہے اس لئے ہم طلبہ پر خرچ کررہے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ہم طلبہ پر خرچ کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالی اتنا نوازرہے ہیں۔‘‘ آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا :’’میرا تجربہ یہ ہے کہ جب کبھی میں نے دارالعلوم کے طلباء کی سہولتوں میں اضافہ کیا،یاجب کبھی میں نے دارالعلوم کے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا،یاکوئی اور سہولت بڑھائی یا خرچہ بڑھایا،تواضافے کی وجہ سے جتنا بوجھ بڑھا،اس سے زیادہ اللہ نے عطا کیا۔‘‘ آپ کی اسی فکر واحساس نے دارالعلوم کراچی کو اعلی معیار کا دینی جامعہ بنایا،جہاں خوبصورت عمارتیں او ر طلباء کے لئے معیاری سہولتیںہیں۔ایک موقع پر طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’میرا اکلوتابیٹازبیراشرف ہے۔آپ کو نہیں اندازہ کہ زبیر مجھے کتنا محبوب ہوگا۔۔اب آپ لوگ یہاں جومدرسہ میں آئے ہیں تو آپ میں سے ہر ایک کسی کا زبیر ہوگا۔اور انہوں نے آپ کو میرے حوالہ کیا ہے۔تومیں آپ سے سچی بات کہتا ہوں کہ میں آپ کا اسی طرح خیال رکھوں گاجس طرح اپنے بیٹے زبیر کا خیال رکھتا ہوں اور آپ سے اتنی ہی محبت رکھوں گا جس طرح زبیرسے محبت کرتا ہوں اور اے اللہ !طلبہ سے میری محبت بڑھادیجیے۔‘‘ ڈاکٹر مفتی زبیر اشرف صاحب نے جنازہ سے قبل مختصر خطاب میں طلباء پر شفقت ومحبت کے سلسلہ میں ایک واقعہ ذکر کیاکہ:کافی پہلے ایک بار ایسا ہوا کہ کسی طالب علم نے حضرت سے شکایت کی کہ آج کھانا ٹھیک نہیں بنا،ہمارے ذہن میں تھا کہ حضرت طالب علم کو سمجھائیں گے ،مگر حضرت کا رنگ فوراً بدل گیااور ہمیں فرمایا کہ فوراً طلبہ کو باہر سے کھانا منگواکر دو اور کھلاو۔‘‘
طلبا ء مہمان رسولﷺ ہیں،صبح وشام قال اللہ وقال الرسول پڑھتے ہیں ،دینی علوم کے حصول کے لئے انتھک محنت کرتے ہیں ،لہذا ان کے لئے اچھی غذا،اچھا قیام اور اچھی سہولیات فراہم کرنا ذمہ داران مدارس کا اولین فریضہ ہے۔
مطالعہ کا انہماک:
منصب ِ اہتمام کے ساتھ درجنوں علمی ،تحقیقی کتابیں آپ نے تصنیف فرمائی،حدیث وفقہ کی بلند پایہ تصنیفات آپ کے قلم سے منصہ شہود پر آئی ،اس میں آپ کے ذوق ِ مطالعہ کادخل ہے،ورنہ عموماً یہ سمجھاجاتا ہے کہ جو اہتمام وانتظام کی مصروفیات میں لگ جاتے ہیں ،تحقیق وتصنیف اور علمی دنیا سے ان کی دوری ہوجاتی ہے،لیکن مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ نے اپنی تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ کتابیں بھی لکھیں ۔وقت کی قدردانی اور ہر چیز کو منظم کرنے میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔ذوق ِ مطالعہ اور علمی انہماک ہی انسان کی عظمت ورفعت کاذریعہ ہے،اسی بنیاد پر انسان اپنی علمی یادگاریں چھوڑکر جاتا ہے ،جسے دیکھ کر اور پڑھ کر لوگ اس کو یاد کرتے ہیں۔مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:’’اکثر وبیشتر مطالعے میں رات کے ایک دو بج جاتے ہیں ،اور بسااوقات مطالعے میں ایسی محویت ہوتی ہے کہ رات کی طوالت کا بالکل پتہ نہیں چلتا ،اچانک اذان ِ فجر کی آواز رات کے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔‘‘(فتاوی دارالعلوم کراچی:۷۱)
اصلاح وتربیت میں شیخ کی اطاعت:
آپ کے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نہ صرف وقت کے عظیم فقہ ومفتی اعظم تھے ،بلکہ تزکیہ وتصوف اور سلوک واحسان میں بھی مرجع خلائق تھے،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ممتاز اور مقبول خلفاء میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔گویا علم وفن ،اور اخلاق وکردار کی ایک دنیا خود مفتی رفیع صاحب کے گھر میں آباد تھی ۔اپنے بارے میں فرماتے ہیں :عقلی اور عملی طور پر تو اگرچہ طالب علمی کے ابتدائی دور ہی سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اصلاح باطن اور تزکیہ اخلاق کے بغیر علم وعمل دونوں بے جان رہتے ہیں۔۔۔یہ تخصص فی الافتاء کے زمانے میں یہ پیاس پیداہوگئی تھی۔دل میں یہ خلش اکثر رہنے لگی کہ ہم نے ابھی علم دین کا ادھورا نصاب پڑھا ہے،ایک بڑا حصہ باقی ہے۔صرف تعلیم حاصل کی ہے،تربیت باقی ہے،فقہ ظاہر پڑھا ہے فقہ باطن کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔والد صاحب کے مشورے پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ٔ خاص حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی ؒ سے ۱۹۷۰ء کے اوائل میں دونوں بھائیوں نے بیعت کی۔( میرے مرشد حضرت عارفی ؒ :۲۷)شیخ سے اصلاح تعلق قائم کیا،والد صاحب ؒ کی پوری توجہ ونگرانی بھی ہوتی رہی ،ان دونوں حضرات نے اپنے اخلاق کومزین کرنے اور دل کی دنیا کو اوصاف ِحمیدہ سے آراستہ کرنے کے لئے مکمل طور پر فنا کردیا۔سمع وطاعات کا بے مثال مظاہرہ کیا۔اس میںاصل جس واقعہ کو بیان کرنا ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب ؒ اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی مقبولیت کا دائرہ پھیلنے لگااور عین اسی وقت نے شیخ نے ان حضرات پر پابندی عائد کردی کہ دس سال تک عوامی اجتماعات میں خطاب نہ کریں اور کسی طرح کی شہرت والی چیز میں شریک نہ ہوں۔اس کا واقعہ خود حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب بیان کرتے ہیں:’’ایک اور بات آپ سے عرض کرتا ہوں ۔حضرت کی خدمت میں رہتے ہوئے کافی عرصہ گزرچکاتھا۔ایک دن فرمانے لگے:’’بھئی آپ تقریرنہ کیاکریں‘‘اس زمانے میں ہماری تقریریں بہت ہوتی تھیں۔میں دارالعلوم کراچی کا مہتمم تھا،درجہ علیا کا استاد تھا،مسلم شریف پڑھاتا تھا،اخبارات میں اشتہارات چھپتے تھے،ریڈیو پر بھی تقریریں ہوتی تھیں۔تو فرمایابھائی آپ تقریریں نہ کیا کریں ۔اب ہم میں پوچھنے کی ہمت نہیں۔اگلے ہفتے ہم پھر مجلس میں گئے تو پھر فرمایا بھائی تقریر نہ کیاکریں،ہم نے کہا کہ لوگ ہماری تقریر کے لئے آتے ہیں ،اصرارکرتے ہیں ،مانتے ہی نہیں ۔حضرت عارفی ؒ نے فرمایا:انہیں میرے پاس بھیج دیا کرو۔بس دارالعلوم میں رہاکرواور دارالعلوم میں جمعہ کی تقریر جاری رکھو،طلبہ سے خطاب کرلیا کرو،لیکن باہر نہ جایاکرو،ریڈیووالے آئے تو انہیں بھی منع کردیا۔۔۔اس کے بعد الحمدللہ ہم نے پورے دس سال تک اس کی پوری پابندی کی۔( مفتی بننا آسان نہیں :۱۹)
مٹادے اپنی ہستی کو اگرکچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر دگل وگلزار ہوتاہے
اصلاح وتربیت کے لحاظ سے شیخ نے مناسب سمجھااور ان کی تربیت فرمائی اور پوری استقامت کے ساتھ وہ اس پر قائم رہے،پھر جب اللہ تعالی نے راہیں ہموار کردیں تو وعظ وخطاب کے میدان میں دونوںبھائی چھاگئے۔حضرت مفتی رفیع صاحب کے خطبات کا مجموعہ ’’اصلاحی تقریریں‘‘ نو جلدوں میں چھپا ہوا ہے ۔اور وعظ وخطاب میں ایسی تاثیر پیداہوئی کہ لوگ دیوانہ وار ان کی مجلسوں میں شریک ہواکرتے تھے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ جس کو ہر طرف سے شہرت وعزت پکاررہی ہو وہ صرف اپنے شیخ کے حکم کی تعمیل میں گوشہ ٔ خاموشی میں چلاجائے اور اپنی شخصیت کو سنوارنے ،اور اندرون میں بنانے میں بے چوں چرا گمنامی اختیارکرلی۔ایسی ہی سمع وطاعت کے بعد اللہ تعالی عروج وسربلندی اور نیک نامی ومقبولیت عطافرماتا ہے اور پھر انسان بھی اپنی خدمات میں ہردم رضائے الہی کو مقصود اور خوشنودی ٔ مولی کو مطلوب بنالیتا ہے۔
مختصر سوانحی خاکہ:
مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ کی پیدائش دیوبند میں ۱۶جولائی ۱۹۳۶ء میں ہوئی،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے آپ کا نام ’’محمد رفیع‘‘ رکھا۔۔نصف حفظ قرآن دارالعلوم دیوبند میں کیا،یکم مئی ۱۹۴۸ء کو اپنے والد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے۔۱۹۵۹ء میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے دورہ حدیث سے ’’سند الفراغ ‘‘ حاصل کی،۱۹۶۰ء میں تخصص فی الافتاء کی سند حاصل کی۔۱۳۷۹ھ سے لے کر ۱۳۹۰ھ تک درس ِ نظامی کے تقریبا تمام علوم وفنون کی کتابوں کی تدریس کا فریضہ انجام دیا۔پھر ۱۳۹۱ھ سے آپ علم ِ حدیث واصول ِافتاء کی تعلیم وتدریس کی طرف متوجہ ہوئے جو آخر عمرتک جاری رہا۔۱۷ اپریل ۱۹۹۲ء کو مفتی اعظم پاکستان کاخطاب دیا گیا۔۱۹۹۹ء کے اعداد وشمار کے مطابق آپ کے خو دنوشت فتاوی کی تعداد ۳۴۱۱ اور تصدیق کردہ فتاوی کی تعداد ۴۲۶۷ ہے،اس کے بعد تاحیات اس کا سلسلہ جاری رہا۔آپ کی تقریبا ۲۷ کتابیں ہیں جن میں چندمقبول ومشہور ’’التعلیقات النافعہ علی فتح الملھم ،(عربی)بیع الوفا (عربی)الحواشی علی شرح عقود رسم المفتی لابن عابدین ( عربی)ضابط لمفطرات الصوم فی المذاہب الاربعۃ ( عربی)الاخذ بالرخص وحکمھا(عربی)المقالات الفقہیہ ،(عربی)نواردالفقہ (۲جلدیں)علامات قیامت اور نزول مسیح،حیات مفتی اعظم ،میرے مرشد حضرت عارفی،کتابت حدیث عہد رسالت وعہد صحابہ میں۔علم الصیغہ اردو،انبیاء کی سرزمین میں ،فقہ میں اجماع کامقام ( عربی ،اردو)درس ِ مسلم شریف( دو جلدیں )احکام ِزکوۃ،رفیق حج،اسلام میں غلامی کا تصور،یورپ کے تین معاشی نظام ،وغیرہ ۔مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی وفات سے قبل مجلس منتظمہ کے مشورے سے دارالعلوم کراچی کا نائب صدر مقرر کیاگیا،وفات کے بعد مہتمم جامعہ مقرر کیاگیا،حضرت عبدالحئی عارفی ؒ کے انتقال کے بعد صدر جامعہ ،اور تاحیات اس پر فائزرہے۔۱۸ نومبر ۲۰۲۲ ء کو انتقال ہوا،برادرمحترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے نمازِ جنازہ پڑھائی ( مستفاد از:نوادرالفقہ ،فتاوی دارالعلوم کراچی )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×