سیرت و تاریخ

مدینہ منورہ: تاریخ اور فضائل

از قلم : مفتی سعید احمد تانڈ وری ( استاذ مدرسہ قاسم العلوم تانڈور )

مد ینہ منورہ مکہ معظمہ کے شمال میں ۴۵۵ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک شہر ہے، یہ شہر مکہ معظمہ اور شام کے تقریباوسط میں پایا جاتا ہے، محقق عصر علامہ سید سلیمان ندوی متوفی ۱۳۷۳ ھ رقم طراز ہیں کہ یہ شہر ۱۶۰۰ قبل مسیح اور ۲۲۰۰ قبل مسیح کے درمیانی زمانہ میں معرض وجود میں آیا،معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شہر کی تعمیر کا زمانہ ۱۶۰۰ قبل مسیح اور ۲۲۰۰ قبل مسیح کے درمیان ہے۔( ارض القرآن ج ۱ ص ۸۲) یہ مقدس شہر کب آباد ہوا اس سلسلہ میں علامہ سمہودی کی تحقیق یہ ہے کہ طوفان نوح کے بعد سب سے پہلے یہی بستی آباد ہوئی۔ ( خلاصۃ الوفاء )

مدينه کے سب سے پھلے باشندے : علماء تاریخ وسیر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ حضرت نوح کی کشتی سے اترے تو ان کی کل تعداد اسی (۸۰) تھی وہ شہر بابل کی طرف پھیل گئے سب نے جمع ہو کر نمرود بن کنعان بن حام کو اپنا بادشاہ بنایا جب ان میں کفر و کافری کی رسم شروع ہوئی تو ان میں اختلاف و تفریق شروع ہوگئی اور ان میں بہتر (۷۲) زبانیں ہوگئیں ان میں سے ایک جماعت نے جو سام بن نوح کی اولاد سے تھی اللہ تعالی کے الہام سے عربی زبان ایجاد کی اور مدینہ منورہ میں رہنا اختیار کیا پہلے پہل جن لوگوں نے زمین پر زراعت کی اور زمین پر درخت لگائے وہ یہی لوگ تھے ان کو عمالقہ اورعمالیق کہتے ہیں۔( تاریخ مدینہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ص ۵۴)
مدینہ میں سب سے پہلے آباد ہونے والے شخص کا نام یثرب‘‘ تھا جس کی نسبت سے یہ شہر یثرب کہلایا، یہ حضرت نوح کی اولاد میں سے تھا جس کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: ” یثرب بن عبیل بن مہلائیل بن عوض بن عملیق بن لاوذ بن سام بن نوح ( سبا ئک الذہب: ۱۳، تاریخ مدینہ لابن المعبود ص۲۱) قوم عمالقہ سے جنگ کرنے اور ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد یہودیوں نے اس سرزمین کو اپنا وطن بنایا۔( تاریخ مدینہ عبدالحق محدث دہلوی)

مدینہ کے اسماء: محبوب جن وانس کا محبوب شہر بے شمار ناموں سے موسوم اور بے شمار خوبیوں کا سدا بہار گلشن ہے : علامہ شیرازی اللغوی نے اس کے تیس (۳۰) نام ذکر کیے ہیں جبکہ علامہ سمہودی نے ۹۴ نام ذکر کیے ہیں اس مقدس شہر کے ناموں کی کثرت اس کی شرافت وعظمت کی واشگاف دلیل ہے ذیل میں کچھ مشہور نام ذکر کیے جاتے ہیں :

(۱) المدینہ : یہ اس شہر کا سب سے مشہور نام ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں ہجرت فرمائی اور یہیں مدفون ہوۓ ۔(۲) مدینہ کو”طابہ” بھی کہا جاتا ہے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس پیارے شہر کا نام "طابہ” رکھا ہے ( مسلم حدیث : ۱۳۸۵) طابہ اور طیبہ کے معنی پاک کے ہیں آپ ﷺ کی برکت سے یہ شہر شرک سے پاک ہوگیا اس لیے اس کو”طابہ” اور طیبہ کہا جا تا ہے ۔(۳) یثرب : یہ اس شہر کا قدیم نام ہے چونکہ اس شہر کو منصہ شہود پرلانے اور اسے آباد کرنے والا سیدنوح کی اولاد میں سے یثرب نامی ایک فردتھا اس لیے یہ شہر اسی کے نام کی مناسبت سے یثرب مشہور ہوا۔ ( معالم دارالہجرۃ: ۲۲)

امام یحیی بن شرف الدین تحریر فرماتے ہیں: کہ یثرب لفظ تثریب سے بنا ہے جس کے معنی تو بیخ اور ملامت کے ہیں چونکہ رسول اللہ ﷺ کوعمدہ نام محبوب ومرغوب اور برے ناموں سے نفرت تھی اسی وجہ سے آپﷺ نے یثرب کا نام طابہ رکھ دیا۔( شرح مسلم ا/ ۴۴۴ ) آپ ﷺ کا ارشاد ہے "يقولون يثرب وهي المدينة‘‘ کہ منافق لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ اس کا نام مدینہ ہے ( بخاری ٫۱ ۲۵۲ مسلم ا٫ ۴۴۴ ) اس کے علاوہ مدینہ کے اور بہت سے نام ہیں مثلا: ارض اللہ ،ارض الہجرۃ، دارالسلامۃ، دارالفتح ،دارالسنہ ،ذات النخل اورالشافیۃ وغیرہ

هجرت سے قبل مدینہ کی آب و هوا: اسلام سے قبل جزیرہ نمائے عرب میں آب و ہوا کی خرابی کے لحاظ سے مدینہ سب سے مشہور تھا، چنانچہ جب رحمت کائناتﷺ وباؤں ، بیماریوں اور مہلک امراض کے شہر میں قدم رنجہ فرما ہوئے تو وہاں کی آب و ہوا صحابہ کوموافق نہ آئی اور اکثر مسلمان بیماری میں مبتلا ہو گئے جیسا کہ حضرت صدیقہ عائشہ سے مروی ہے کہ :
جب ہم مد ینہ منورہ آئے تو وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وباؤں والا شہر تھا اس میں’بطان‘‘نامی ایک نالے میں ہر وقت بدبو دار پانی بہتا تھا حضور ﷺ نے کفارکو بد دعا دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کرے جنہوں نے ہمیں ہمارے وطن سے وبائی زمین کی طرف دھکیل دیا ہے یا اللہ! مدینہ کی محبت سے ہمارے دلوں کو لبریز فرما‘‘( بخاری شریف: ۲۵۳ مؤطا امام مالک باب ماجاء فی و باءالمدینة )
جب رحمت دو عالم ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا بلال بخار میں مبتلا ہو گئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’ میں نے ان دونوں کی حالت سے آپ ﷺ کو آگاہ کیا جس پر آپ ﷺ نے یوں دعا فرمائی: یا اللہ! مکہ مکرمہ کی محبت سے کہیں زیادہ ہمارے دلوں کو مدینہ کی محبت سے بھر دے اور اس کی آب و ہوا کو صحت افزا بنادے اور اس کے مُد اور صاع میں ہمارے لیے برکت عطا فرما اور اس کے بخارکو یہاں سے منتقل کر کے جحفہ میں بھیج دے۔ ( بخاری ، باب من کذب فی حلمه ٫۴ ۲۵۲) سیدنا عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ خواب میں بکھرے ہوئے بالوں والی ایک سیاہ فام عورت دیکھی جو مدینہ منورہ سے نکل کر بھاگ رہی تھی اور پھر جحفہ میں جاٹھہری آپ نے اس خواب کی تعبیر اس طرح ارشاد فرمائی کہ مدینہ طیبہ کی وباؤں کو جحفہ میں پہنچادیا گیا۔(الترغیب والترہیب ۱۲۷٫۳)

الغرض ابتدائے ہجرت میں مہاجرین پر مدینہ کی آب و ہوا کا ایسا مضراثر پڑا کہ تقریبا سب بیمار ہو گئے صرف چند اشخاص صحت مند تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک نماز ہوتے تھے لیکن خداوند تعالی نے اس تھوڑی سی آزمائش کے بعد مد ینہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے نہایت صحت بخش مقام بنادیا اور اس کی آب و ہوا کو بے حدلطیف اور خوشگوار کردیا۔( تاریخ حرمین ندوی ۱۶۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے محبت: نبی کریمﷺ کو مدینہ بہت عزیز اور محبوب تھا چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر سے آتے اورمدینہ کی دیواروں پر نظر پڑتی تو مدینہ کی محبت کی وجہ سے اپنی اونٹنی کو تیز کرتے اور اونٹنی کے علاوہ کوئی دوسری سواری ہوتی تو اس کو تیز کر لیتے ( بخاری ا/۲۵۳) مدینہ کے احد پہاڑ کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (مؤطاامام مالک باب ماجاء فی المدینۃ: ۳۴۱)

مدینه منورہ کی حرمت وعظمت: نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورکو محترم ومکرم قرار دیا ہے چنانچہ حضرت علی سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ محترم ومکرم ہے عیر اورثور (مدینہ کی دو پہاڑیاں ) کے درمیان جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے تو اس پر اللہ ،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور اسکی کوئی فرض اور نفل نماز قبول نہیں ہوگی۔ ( بخاری باب حرم المدینۃ ۱/ ۲۵۲) نیز

رسول اللہﷺ نے مدینہ کے خاردار درختوں کو کاٹنے اور شکار کرنے سے منع فرمایا۔( مصنف ابن ابی شیبہ باب مسامحه حرم المدینه ۲۹۵/۷)
مد ینہ منورہ اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب:
حضرت عمر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا،دراں حالیکہ و ہ وادی عقیق میں تھے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اس مبارک وادی (مدینہ منورہ ) میں نماز پڑھواس میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک حج اور عمرہ کے برابر ہے ( بخاری باب قو النبی فی عقیق 1/ ۱۳۵) علاوہ ازیں اس مقدس زمین میں مسجد نبوی واقع ہے جس میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے اور بعض روایات میں پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ’’صلاة في مسجدي هذا تعدل ألف صلاة فيما سواه إلا المسجدالحرام‘‘ ( مسلم ۴۴۷/۱)

مدينه منورہ میں انتقال کی فضیلت:
نبی ﷺ نے مومنین کو مدینہ منورہ میں انتقال کرنے کی ترغیب دی ہے چنانچہ عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کے بس میں ہو کہ وہ مدینہ میں انتقال کرے اس کو چاہیے کہ مد ینہ ہی میں انتقال کرے اس لیے کہ جوشخص مدینہ میں انتقال کرےگا اس کی میں سفارش کروں گا‘‘ (سنن ابن ماجہ باب فضل المدینۃ ٫۴ ۲۹۲)

قرب قیامت مدینه کی تادیر بقا: اس مقدس سرزمین کی اہم خصوصیت وفضیلت یہ ہے کہ جب قیامت کا وقوع ہو گا تو مدینہ کی بستی سب سے آخر میں فنا ہوگی حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اسلام کی بستیوں میں سب سے آخر میں فنا ہونے والی بستی مد ینہ ہے۔ ( ترمذی باب ماجاء فی فضل المد ینۃ ۸۲۵٫۵)

قرب قیامت اهل ایمان کامدینه میں اجتماع: قیامت کے قریب تمام اہل ایمان دنیا کے گوشے گوشے سے سمٹ کر مدینہ آجائیں گے جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اہل ایمان سمٹ کر اس طرح مدینہ آجائیں گے جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جا تا ہے ( بخاری باب الایمان یازرالی المدینۃا/ ۲۵۲)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×