سیرت و تاریخمفتی محمد صادق حسین قاسمی

مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں کا تعلق کیا ہے؟

محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

سرزمین بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ نہایت گہرا اور ایمان افروز تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے۔فلسطین کی مقدس سرزمین اہل ِ ایمان کے لئے شروع سے عقیدتوں اور محبتوں کی مرکز رہی ہے ،ہر دور میں مسلمانوں نے اسے اپنی جان سے زیادہ اہمیت دی اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی زندگیوں کو نچھاورکیاکیوں کہ یہیں پر مسلمانوں کا قبلہ ٔ اول ’’مسجد اقصیٰ ‘‘ واقع ہے ،جس کی طرف رخ کرکے تقریبا سولہ ،سترہ مہینہ نبی کریم ﷺ نے نماز اداکی ۔(معارف القرآن:1/374)سفرِ معراج کے موقع پر سید الاولین والاخرین ،امام الرسل،خاتم الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے اسی مسجد میں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی،یہیں سے معراج کے سفر کا آغاز ہوا،یہ سرزمین بہت سارے انبیاء کرام کی جائے پیدائش بھی ہے،مسکن ورہائش گاہ بھی ہے اور جائے نبوت بھی ،جس کے ارد گرد اللہ تعالی نے برکتوں اوررحمتوں کو رکھا ہے ،اور قرآن وحدیث میں اس سرزمین کی عظمت واہمیت کو بیان کیا گیا ہے ۔اس کی مختصرتاریخ یہ ہے کہ :
بیت المقدس کو 17ھ ،638ء میں0 300صحابہ ؓنے فتح کیااور یہاں کے پادری صفرونیوسی نے شہر کی چابیاں حضرت عمر ؓ کے حوالے کیں ۔1099ء میں عیسائیوں نے یہاں پھر قبضہ کیا۔بالآخر1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے صلیبیوں کو شکست دی اور بیت المقدس کو آزاد کرایا۔مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے نقل کیا ہے کہ:میدان ِ جنگ میں سلطان کی کیفیت ایک ایسی غمزدہ ماں کی سی تھی جس نے اپنے اکلوتے بچہ کا داغ اٹھایا ہے ،وہ ایک صف سے دوسرے صف تک گھوڑے پردوڑتے پھرتے اورلوگوں کو ترغیب دیتے ،خود ساری فوج میں گشت کرتے اور پکارتے پھرتے :’’یاللاسلام ‘‘اسلام کی مدد کرو!آنکھوں سے آنسو جاری رہتے ۔سلطان کو بیت المقدس کی ایسی فکر تھی اور اس کے دل پر ایسا بار تھا کہ پہاڑ اس کے متحمل نہیں تھے۔90برس بعد یہ پہلا قبلہ جہاں حضور ﷺ نے معراج کی شب انبیاء کی امامت کی تھی ،اسلام کی تولیت میں آیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت:1/264)1516ء میں عثمانی خلافت کے زیر انتظام آیا۔1917ء میں پہلی جنگ ِ عظیم ہوئی ،خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوااور القدس انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔1917ء میں ’’بالفور ‘‘معاہدہ کے تحت یہاں یہودی ریاست قائم کرنے وعدہ کا کیا گیا۔1948ء میں فلسطین کے78فیصد علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا گیا،1967ء میں یہود نے فلسطین کے باقی ماندہ علاقوں پر قبضہ کرلیا۔1987ء میں یہودیوں کے خلاف جدوجہدکا اعلان کیاگیا۔(اقصی کے آنسو:19)
خلافت ِ عثمانیہ کے عہد میں خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کے پاس یہودیوں نے آکر یہ پیش کش رکھی تھی اگر سلطان عبدالحمیدثانی فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کے قیام کی اجازت مرحمت فرمائیں گے تو یہودی تحریک ِ خلافت ِ عثمانیہ کو پچاس کروڑ پاؤنڈاوربطور خاص سلطان کے ذاتی خزانے کے لئے مزید پچاس لاکھ پاؤنڈ دینے کے لئے تیار ہے۔جس وقت یہ پیش کش کی گئی اس وقت خلافت ِ عثمانیہ شدید مالی بحران کا شکار تھی اوردشمنوں کے نرغے میں گھری ہوئی تھی۔لیکن سلطان عبدالحمید ثانی نے نہایت تاریخی اور ایمان افروز جواب دیا،جس سے اس مقدس سرزمین کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور اس کے تحفظ کی فکر کرنا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہونے کا احساس بھی،سلطان نے کہا:’’جاکے کہہ دو وہ اس سلسلے میں آج کے بعد کوئی بات نہ کرے،کیوں کہ میں ہرگز دوسروں کو دینے کے لئے ارض ِ فلسطین کے ایک بالشت سے بھی دست بردار نہیں ہوسکتا ،ارض ِ فلسطین میری ملکیت نہیں،بل کہ وہ میری قوم ِ مسلم کی ملکیت ہے،جس نے اپنے لہو سے اس خاک کو سینچا ہے،یہودی اپنی لاکھوں کی رقم اپنے پاس رکھیں۔‘‘بعض نے سلطان کے الفاظ کی ترجمانی اس انداز میں کی ہے کہ:’’اپنے ملک فلسطین کے تعلق سے جس کے ایک ایک بالشت کو اپنے اجداد کے خون ِ گرم کے صرفے کے ذریعہ حاصل کیا ہے ،ہم ایک بالشت زمین کے تئیں بھی کسی کوتاہی کو راہ نہ دیں گے،بل کہ ہم تو ماضی سے زیادہ اپنا خون دے کر اُس کی حفاظت کریں گے،ہم کسی طورپر وہاں یہودیوں کی ریاست قائم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘( فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں:33)
فلسطین اور اس کی تاریخ پرغیر معمولی مہارت رکھنے والے ،اور اس کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے ،عالم ِ اسلام کے ممتاز قلم کار ومصنف حضرت مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’القدس ہمارا وہ عظیم ورثہ ہے جس کے محافظ وخادم کا منصب خالق ِ کائنات نے ہمیں بخشا ہے،یہود ونصاری نے جب اس مقدس عبادت گاہ کی حرمت کا تحفظ نہ کیا،اس کی پاکیزہ فضاؤں کو اپنے زہریلے گناہوں سے آلودہ کیااور باربار تنبیہ کے باجود باز نہ آئے تو اللہ رب العزت نے انہیں مقام ِ ’’اجتبائیت‘‘ سے معزول کرکے امت ِ محمدیہ کویہ عظیم منصب سونپ دیا ہے۔اس دن سے ۔۔۔۔جب صحابہ کرام ؓ نے نصرتِ خداوندی سے القدس فتح کیا۔۔۔یہ بارِ امانت ہماری غیرت کا امتحان ہے ،ہمارے ایمان کو پرکھنے کی کسوٹی ہے ،اس کے تحفظ میں ہماری ترقی وبقاکا راز مضمر ہے اور اس کے تقدس پر حرف آیاتو ہم سے ’’اجتبائیت‘‘ کا منصب چھن جانے کا خطرہ ہے۔‘‘
عربی واردو کے مایہ ناز مصنف،صاحب ِ طرز ادیب اور تاریخ فلسطین اور اس کے نشیب وفراز سے گہری واقفیت رکھنے والے دیدہ ور عالم ِ دین حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب مدظلہ لکھتے ہیں:’’مشرق ومغرب کے گوشے گوشے میں بسنے والے مسلمانوں کے دلوں میں ’’قدس‘‘کا عظیم مرتبہ ہے،کیوں کہ اس کی گود میں مبارک مسجد اقصیٰ واقع ہے ،شہرِ قدس کو معراج کے موقع پر آپﷺ کی گزرگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔مسلمان دوسرے مقامات کے سلسلے میں کسی چیرہ دستی اور بدتمیزی کو برداشت کرسکتے ہیں؛لیکن فریب دہ امن وسلامتی( جس کا ظاہر رحمت ریزاورباطن ایذااور عذاب دہی سے عبارت ہے)کے عوض قدس سے دست برداری کے بارے میں سوچنا تو درکنار اس کی شان میں کسی زیادتی کوبھی ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘
بیت المقدس دنیا کا تیسرا محترم ومتبرک خطہ ہے ،اوربابرکت مقام ہے،اس سرزمین کا ہر چپہ قابل ِ احترام ہے ،اسی سرزمین پر حشر برپا ہوگا،آخر زمانے میں حضرت مہدی اور حضرت عیسی ؑ کا خاص تعلق رہے گااور بھی بہت سارے فضائل وخصوصیات بیت المقدس اور سرزمین فلسطین کے ہیں ۔اتنا گہرا رشتہ مسلمانوں کا بیت المقد س سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ ناجائز طور پر قائم ہونے والی اسرائیلی مملکت اور اس کے حکمرانوں نے فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ تاریخ کا ایک بدترین باب ہے ،آج بھی فلسطینیوں کو خود ان کی ہی سرزمین میں قید وبند کرکے رکھ دیا ہے ،معصوم بچوں ،بے قصور جوانوں ،عزت ما ٓب ماؤں،بہنوں،نہتے مردوں ،کمزور بوڑھوں کے ساتھ اسرائیلی اپنے روزِ قیام سے ظلم ڈھاتے آرہے ہیں ،ان کے گھروں کو اجاڑنا،ان کے شہروں کو برباد کرنا،ان کی عمارتوں کو ڈھانا،اور ہر طرف خاک وخون کا دل سوز منظر برپا کرنا اسرائیلیوں کا مشغلہ رہا ہے ۔
گذشتہ ایک ہفتہ سے فلسطین کے شہر غزہ میں اسرائیل کی بربریت کا سلسلہ جاری ہے،حماس کے حملہ کو بنیاد بناکر غزہ کو تباہ وبرباد کرنے اور نہتے مسلمانوں کو شہید کرنے کے ناپاک کھیل میں اسرائیل مصروف ہے،دنیا کے ظالم ممالک اسرائیل کی اس حیوانی کاروائی میں شریک اور معاون ہیں،جنہیں خون ِ انسانی کو بہانے میں لطف آتا،معصوم بچوں کو بلکتا دیکھ کر ان کی شیطانی روحیں خوش ہوتی ہیں،بے قصور عورتوں پر ظلم ڈھاکر انہیں اطمینان نصیب ہوتا ہے،نہتے نوجوانوں کو شہید کرکے ان کی آنکھیں ڈھنڈی ہوتی ہیں،اور علاقوں کو تہس نہس کرنے ،ہنستے کھیلتے شہروں کو ویران کرنے میں ان ظالموں کو خوب دلچسپی رہتی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 1570ہوگئی،زخمیوں کی تعداد700ہزار 200سے بھی بڑھ گئی ہے۔اسرائیلی فوج کی بمباری سے ڈھائی ہزار سے زیادہ مکانات تباہ جب کہ 30ہزار کو جزوی نقصان پہنچا ہے،بے گھر فلسطینیوں کی تعداد 3لاکھ 38ہزار تک پہنچ چکی ہے۔رپورٹس کے مطابق 2لاکھ20ہزار فلسطینی اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ایک لاکھ فلسطینی اپنے عزیزوں ،گرجاگھروںمیں رہنے پر مجبور ہیں۔اسپتالوں میں زخمیوں کے لئے بستر اور دوائیں کم پڑگئی ہیں ،اور بجلی بند ہونے سے وینٹی لیٹر چلانا چیلنج بن چکا ہے۔فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی بربریت کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان میں نہتے بچوں کی سب سے زیادہ اموات ہورہی ہیں۔اسرائیلی بمباری میں مجموعی طور پر شہید ہونے والوں کی تعداد1400سے زیادہ ہوگئی،400سے بچے اور 250خواتین بھی شہداء میں شامل ہیں۔( روزنامہ سیاست ،حیدرآباد،۱۴ اکتوبر۲۰۲۳ء)
ایسے حالات میں ہمارے ایمانی تعلق کی بنیاد اورملی رشتہ کی نسبت پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم مسجداقصیٰ کی حفاظت ،بیت المقدس کی بازیابی کے لئے دعائیں کرتے رہیں، امن وامان کے قیام اوراہل ِ فلسطین کی مددونصرت کے لئے رب کریم کی بارگاہ میں التجائیں کریں،فلسطین کے مسلمانوں کی سلامتی کے لئے دعائیں کریں ،ظالم اسرائیل کے خاتمہ اور ظلم وستم سے نجات کے لئے پروردگارعالم سے دعا کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×