اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

وقت ِ فرصت ہےکہاں کام ابھی باقی ہے

افادات :حضرت مولاناسید محمود اسعدمدنی مدظلہ (صدر جمعیۃ علماءہند)

تلخیص وترتیب:مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
جمعیۃ علماءہندکے زیر اہتمام اور جمعیۃ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش کے زیر انتظام مسجد عالم گیر بیگم پیٹ مادھاپورحیدرآباد میں 17،ا18جنوری 2024 بروز چہارشنبہ وجمعرات حضرت مولانا حافظ پیر شبیر صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ وآندھرا پردیش کی صدارت میں دو روزہ ورکشاپ برائے مثالی اضلاع کا کامیاب پروگرام منعقد ہوا۔جس میں مفکرقوم وملت ،قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعدمدنی مدظلہ صدر جمعیۃ علماء ہند اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی مدظلہ ناظم عمومی جمعیۃ علماءہند نےشریک رہے۔مولانا ڈاکٹر ساجد فلاحی(موٹیویشنل اسپیکر) صاحب کے تربیتی بیانات بھی ہوئے۔
اجلاس کے پہلی نشست میں قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی مدظلہ نے بڑا پُر مغز اور فکر انگیز خطاب فرمایا۔خطاب کیا تھاایک دل ِ درد مند کی صدا تھی ،قوم وملت کے فکر مند کی آواز تھی،ملت کے لئے احساسِ دروں پیدا کرنے کی پکار تھی،اپنی صلاحیت اور فکروقابلیت کو قوم وملت کے لئے لگانے کی تڑپ تھی،دل کو جھنجھوڑدینے،ذمہ داری کے احساس کو بیدا رکرنے ،اپنی زندگی کا جائزہ لے کراس کو صحیح استعمال کرنے کی دعوت ِفکر وعمل تھی۔روایتی اندا زِ خطاب سے الگ ایک مؤثراور فکر انگیز بیان تھا۔آپ کا انداز ِ بیان علامہ اقبال کی زبان میں کچھ اس طرح تھا کہ:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے ميری طرح صاحب اسرار کرے
دے کے احساس ز یاں تيرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
اُس خطاب کی تلخیص اور چند اہم باتیں افادہ ٔ عام کی غرض کی پیش کی جارہی ہیں،بلکہ اس خطاب کو اپنے الفاظ میں نذرِ قارئین کیاجارہا ہے،اس اعتراف کے ساتھ کے اُس بیان کی کیفیت کو الفاظ میں منتقل نہیں کیا جاسکتا،لطف اور مزہ ،کیفیت اور تاثیر تو براہ ِ راست ہی میں زیادہ ہوتی ہے۔
نیت کی اصلاح:
ہمیں اپنی تمام خدمات میں نیت کو درست کرنا ضروری ہے،نیت صحیح ہوگی تو خدمات اللہ تعالی کے نزدیک قبول ہوں گی،ورنہ ہماری محنت اکارت جائے گی۔آپ جانتے ہیں نبی کریمﷺ نے اعمال کی درستی کے لئے نیت کو شرط قرار دیا۔اگر ہماری نیتیں درست ہوں گی تو اللہ تعالی ہم سے کام بھی لیں گے،اور اگر نیتوں میں خرابی آجائے تو ہمارے کام بھی ادھورے رہ جائیں گے۔اس لئے خدمات انجام دیتے ہوئے ہمیشہ نیت کو صحیح رکھنے کی فکر کریں۔
اتباع سنت:
دوسری اہم چیز یہ ہے ہمارا ہر کام نبی کریمﷺ کی اتباع کے مطابق ہو۔اللہ تعالی نے قرآن کریم سورہ ال عمران (آیت نمبر:۳۱)میں اپنی محبت کو اتباع سنت پر موقوف فرمایا ہے،یعنی تم نبی ﷺ کی ابتاع کرو،میری محبت تم کو حاصل ہوجائے گی۔اتباع ِ سنت ہی پرکاموں اور خدمات کی بنیاد ہے۔اتباع ِ سنت ہی سب سے بڑی کرامت ہے،ایک بزرگ کے بارے میں ہے کہ ان کے یہاں ایک مرید تقریبا بارہ سال رہا،اور خدمت انجام دیتے رہا،لیکن بارہ سال کے بعد جانے اور شیخ کو چھوڑکر رخصت ہونے کے لئے تیار ہوگیا۔شیخ نے پوچھا کیوں جانا چاہتے ہو؟اس نے کہا کہ میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ آپ بڑے بزرگ ہیں ،آپ کی صحبت میں رہوں گا تو آپ کی بڑی بڑی کرامتیں دیکھوں گا۔مگر کوئی خاص کرامت مجھے اس پورے عرصے میں نظر نہیں آئی۔بزرگ نے پوچھا :کیا اس پوری مدت میں تم نے مجھ سے کوئی خلاف ِ سنت کام ہوتے ہوئے دیکھا؟تو مرید نے بہت سوچنے کے بعد جواب دیا کہ اس بارہ سالہ عرصہ میں کوئی کام خلافِ سنت آپ سے ہوتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا۔توشیخ نے فرمایا کہ اس سے بڑی کرامت اور کیا ہوگی۔یعنی اتباع سنت ہی اصل کرامت ہے،اسی سے آدمی کی فوز وفلاح اور کامیابی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس پر مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا ہوں ۔
جذبۂ خدمت کی ضرورت:
قوم کا جو سردار ہوتا ہے ،وہ قوم کا خادم ہوتا ہے ،یہی تعلیم ہم کو دی گئی ہے،اس لئے اپنے اندر خدمت کے جذبے کو پروان چڑھائیں،اگر آپ صدر نہ بھی ہو اور قوم کی ،جماعت کی بے لوث خدمت کریں تو آپ قابل ِ قدر ہیں ،اور اگر صدر ہیں لیکن خدمت کا جذبہ نہیں ہے تو لا حاصل ہے۔صدر بننا مقصود نہیں ہے بلکہ خدمت گزار بننا ضروری ہے،اور جو سچی نیت سے لگا ہوا ہوگا وہ عہدے کے بغیر بھی خدمات انجام دینے کے لئے تیار رہے گا،اسی لئے خادم بنئے اورکسی عہدہ ومنصب کے بغیر خدمت کرنے والے بنیں۔تواضع اختیار کیجیے،ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں میں خدمت والی صفات پیدا ہوں،وہ لوگوں کو لے کر چلنے والے بنیں۔
جسمانی صلاحیت:
اپنی صحت کی بھی فکر کیجیے،روزانہ تھوڑی ورزش کیجیے تاکہ صحت بہتر رہے،کھانا کھائیے،کم کھانے کو تو نہیں کہا جائے گا،لیکن اتنا زیادہ بھی مت کھائیے جو صحت کے لئے نقصان دہ ہو،کیوں کہ زیادہ کھانا آدمی کو کاہل اور سست بنادیتاہے۔
آج کا کام کل پر نہ ڈالیں:
اگر کچھ کام کرنے کا ارادہ ہو تو اُسے کل پر مت ٹالیئے،بلکہ آج ہی سے اُس کام کو شروع کردیجیے ،کیوں کہ جو لوگ آج کے کام کو کل پرٹالتے ہیں پھر وہ لوگ کام نہیں کرپاتے ہیں ،اور ٹال مٹول میں ان کے ارادے اور عزائم ختم ہوجاتے ہیں۔
معاف کرنا:
معاف کرنا سیکھئے ،اس لئے کہ معاف کرنےسے آپ کی شخصیت کا لیول بڑھتا چلا جائے گا،اور معیار بلند ہوجائے گا،معاف کرنےمیں انسان کو راحت ہی راحت ہے،جو لوگ معاف نہیں کرتے اور معمولی معمولی باتوں پر انتقام کا مزاج بنالیتے ہیں وہ پھر خود ہی حسد اور انتقال کی آگ میں جلتے رہتے ہیں ،کسی بھی طرح ان کو سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔معاف کرنا بڑی صفت ہے،یہ صفت جس کے اندر آتی ہے اُس کی شخصیت کو سنواردیتی ہے۔معاف کرنے سے محبتیں بڑھتی ہیں اور تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔
خود کو پہچانیے:
اپنی عزت کرنا سیکھیں،اپنے آپ کو پہچانیے،کہاگیا ہے ،جو اپنے آپ کو پہنچانے گا وہ اپنے رب کو پہنچانے گا،من عرف نفسہ عرف ربہ۔اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیجئے ،اللہ تعالی نے آپ میں جو خوبی اورکمال رکھاہے،اس کوجانئیے اور اس کو درست استعمال کیجیے،اپنی صلاحیت کو استعمال کرنے سے وہ  بڑھتی ہے،اور نفع رسانی کا ذریعہ بنتی ہے۔ڈھونڈئیے اپنے آپ کو،اور اس کے ذریعہ اچھے کام کرنے کا عزم وارادہ کیجیے۔خود کو اتنا مصروف کرلیجیے کہ خواب میں آنا چاہیں تو اجازت مانگ کر آئیں ،کیوں کہ جو لوگ مصروف ہوجاتے ہیں تو اُن کے بے کار خواب وخیال کی فرصت نہیں ملتی ،بلکہ وہ دن رات اپنے کام میں سرگراں اور مصروف رہتے ہیں۔جولوگ ساتھ نہیں دینا چاہتے ہیں ان کو چھوڑئیے،اور جو زندگی سے نکلنا چاہتے ہیں ان کو نکال دیجیے ،تاکہ آپ کے کاموں میں خلل نہ ہوں۔
اچھے دوست بنائیے:
اچھے دوست بنائیے،کیوں کہ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا،اچھے دوست چاہے آپ کو دینی علوم سے وابستہ ملیں،یاعصری علوم سے وابستہ ملیں،ان کو ضرور اپنابنائیے،ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیے،بلکہ اپنوں کے علاوہ غیروں میں بھی اگر کوئی اچھا ملتا ہے تو اس کو بھی اپنا دوست بنائیے۔اچھے دوست آپ کے کام میں معاون ہوں گے۔
گھروالوں سے حسن سلوک:
حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کے سب سے زیادہ مستحق آپ کے گھر والے ہیں،آپ کے والدین ہیں،آپ کی بیو ی اور بچے ہیں۔بچوں کے ساتھ دوستی کیجیے،تاکہ وہ آپ سے اپنی ہر بات بیان کرسکیں،انہیں آپ کی موجودگی سے خوشی ہو،اگر آپ باہر ہوں تو وہ آپ کے گھر آنے کاانتظار کریں،وہ اپنی ہر غلطی کا اعتراف آپ سے کرسکیں،گھر میں بچوں کو فیصلہ کرنے کااختیار دیں،آپ سرپرست بن کر ان کے غلط فیصلوں کی نشان دہی کریں،تاکہ وہ دنیا کو سمجھ سکیں،ذمہ داریوں کو محسوس کرسکیں،اگر آپ اپنے بچوں کوگھر میں محبت او ر اپنائیت نہیں دیں گے تو باہر تلاش کریں گے اور اس کے نتیجے میں آپ کا گھر بے رونق ہوجائے گا۔
زمانہ گوش بر آواز ہے:
میں اکثر کہتاہوں کہ ’’زمانہ گوش بر آواز ہے‘‘لوگ آپ کےانتظار میں ہیں،ان کو آپ کی سخت ضرورت ہے،یقین جانیے برصغیر کی تقدیر کو بدلنے کی صلاحیت اللہ تعالی نے آپ کے اندر رکھی ہے،آپ زمانہ کو سمجھیں،لوگوں کی ضروریات کو سمجھیں،جولوگ آپ کو برا بھلاکہتے ہیں وہ آپ کے دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ اس لئے بُرا بھلا کہتے ہیں انہیں آپ ہی سے امیدیں وابستہ ہیں،انہیں معلوم ہے کہ آپ ہی نظام کو بدل سکتے ہیں،آپ ہی انقلاب برپاکرسکتے ہیں۔آپ کے اکابر نے ہی انقلاب برپا کیا،تو وہ صلاحیت و فکر آپ میں بھی لوگ دیکھنا چاہتے ،جب انہیں وہ نظر نہیں آتے ،او ر ان کی امیدیںٹوٹتی نظر آتی ہیں تو وہ آپ کے خلاف بولتے ہیں۔آپ اٹھیےاور حالات ِ زمانہ کوبدلنے میں اپنا کردار اداکیجیے ۔اس ملک کو آپ کی صلاحیتوں کی سخت ضرورت ہے۔کام کرنے کا موقع اس سے پہلے ایسا نہیں تھا،جیسا اب ہے،بھر کام کرنے کے تقاضے اس وقت موجود ہیں۔
آخری بات:
حضرت مولانا محمود اسعدمدنی مدظلہ کی تقریر کا ہر لفظ اپنے اندر درد اور پیغام لیے ہوئے تھا،اور وہ اس طرح ارکان ِ جمعیۃ کے سامنے اپنے دل کی بے چینیوںکو پیش کررہے تھے۔یقینا جس کے سامنے حالات ہوں ،تیزی کے ساتھ بدلتا ہوا دنیا کا منظر نامہ ہو،سسکتی انسانیت زخموں سےچور افراد ہوں،لوگ اپنی دوا اور مرہم کی تلاش میں میں پریشان نظر آتے ہوں تو پھر اس وقت زبان دل کے درد کی ترجمان بن جاتی ہے،اور پھر ایسے بے لوث قوم وملت کے قائد ورہبر جہاں جاتے ہیں ذمہ داران ِ قوم کو بالخصوص جگاتے اور بیدارکرتے جاتے ہیں
نگہ بلندسخن دل نواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لئے
آخر میں آپ کی تقریر کاخلاصہ علامہ اقبال کی زبان میں مختصر یہ ہے :
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری
وقت ِ فرصت ہےکہاںکام ابھی باقی ہے
نور ِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×