اسلامیاتسیرت و تاریخ

خانہ کعبہ تعمیر کے مختلف مراحل میں

ازقلم:مفتی محمد سعید احمد قاسمی تانڈوری

خانۂ کعبہ وہ مقدس اور بابرکت خطہ ہے جو پوری کائنات ارضی کا منبع وسرچشمہ ہے ، دنیا کے بتکدوں میں یہ خدا کا پہلا گھر ہے جس کی عظمت ورفعت میں کوئی اس کا ثانی نہیں ، اس کے چشمۂ فیض سے پورا عالمِ انسانیت مستفیض ہورہاہے ،رو ئے زمین پر سب سے محترم، مقدس اورباعظمت مقام خانۂ کعبہ ہے قرآن کریم میں ہے ’’مبارکاوهدی للعلمین فيه أيات بينات "(آل عمران97:)
ارضِ بیت اللہ کی تخلیق:امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے پہلا ٹکڑا جسے اللہ رب العزت نے زمین سے پیدا کیا وہ بیت اللہ کی جگہ ہے پھر اسی سے زمین کو پھیلا یا گیا "ثم مدت منه الارض”(شعب الايمان للبيهقي ۷؍۵۳۴حديث۳۶۹۸)حضرت کعب احبار سے روایت ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش سے چالیس برس پہلے کعبہ شریف کی سرزمین پانی پر قائم تھی پھر اس سے زمین کو پھیلایا گیا(اخبار مکہ للازرقی ۱؍۳۱)
پہلا گھر:قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی ہے :”إن أول بيت وضع للناس للذي ببكة مبٰركا وهدى للعلمين”(آل عمران96:) بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے جو لوگوں کے لیے متبرک جگہ اور سارے جہاں والوں کے لیے ہدایت کا مقام ہے۔
تعمیرِ ملائکہ:بعض مفسرینؒ کا کہنا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر آسمان وزمین کی پیدائش سے پہلے ہوئی ہے اس گھر کو حضرت آدمؑ کے بھیجے جانے سے قبل فرشتوں نے تعمیر کیا تھا چنانچہ امام بغویؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سیدنا آدمؑ کی پیدائش سے دوہزار سال قبل فرشتوں نے بیت اللہ شریف تعمیر کیا زمین پر رہنے والے ملائکہ کو باری تعالیٰ نے اس کا طواف اور حج کرنے کا حکم دیا تھا (مرقاۃ المفاتیح ۵؍۲۶۳) ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ بیت المعمور کے مثل اس کے سائز اور مقدار میں گھر روئے زمین پر بنائیں اللہ عزوجل نے فرشتوں کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کی پھر اللہ عزوجل نے روئے زمین پر بسنے والی مخلوق کو خانہ کعبہ کے طواف کا ایسا ہی حکم دیا جیسا کہ اہلِ آسمان بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں (مثیر العزم الساکن الی اشرف الاماکن ۱؍۳۹۳)
تعمیرِ سیدنا آدمؑ:بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :حضرت آدمؑ وحوا کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل امین کے ذریعہ ان کو یہ حکم بھیجا کہ وہ بیت اللہ (کعبہ ) کی تعمیر کریں ان حضرات نے حکم کی تعمیل کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا طواف کریں اور ان سے کہا گیاکہ آپ اول الناس یعنی سب سے پہلے انسان ہیں اور یہ گھر اول بیت وضع للناس یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے(ابن کثیر ، معارف القرآن)
تعمیرِ سیدنا ابراہیمؑ:روایات میں ہے کہ حضرت آدمؑ کی یہ تعمیرِ کعبہ نوحؑ کے زمانے تک باقی تھی طوفانِ نوح میں منہدم ہوگئی اور اس کے نشانات مٹ گئے اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے انہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم ؑ کے لیے کعبہ کی بنیادوں کی نشاندہی کی تھی (اخبار مکہ للازرقی) حضرت ابراہیمؑ واسماعیلؑ نے کعبہ کی نشان زدہ بنیادوں کی کُھدائی شروع کردی کچھ دیر بعد وہ قدیم بنائے آدم بھی ظاہر ہوگئی حضرت اسماعیلؑ ایک مزدور کی طرح پتھر لانے کی خدمات سرانجام دیتے جبکہ حضرت ابراہیمؑ ایک معمار کی حیثیت سے اپنے مقدس ہاتھوں سے دیوار تعمیر کرتے۔
مقامِ ابراہیم:تعمیر کعبہ کے دوران جب دیواروں کی بلندی کچھ زیادہ ہوگئی اور پتھر لگانے میں دشواری محسوس ہونے لگی تو سیدنا ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا کہ کوئی ایسا پتھر لاؤ جس پر کھڑے ہوکر تعمیر مکمل کی جاسکے سیدنا اسماعیلؑ کی نظرِ انتخاب جس پتھر پر پڑی وہ وہی یادگار پتھر ہے جسے قرآنِ حکیم نے ’’مقامِ ابراہیم‘‘ کے مبارک اعزاز سے نوازا ، بعض روایات میں ہے کہ پتھر تعمیر کی بلندی کے ساتھ ساتھ خودبخود بلند ہوجاتا اور نیچے اترنے کے وقت نیچا ہوجاتا تھا اس پتھر کے اوپر حضرت ابراہیمؑ کے قدمِ مبارک کا گہرا نشان آج تک موجود ہے۔
حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام کی تعمیر کردہ کعبہ کی عمارت ایک عرصہ تک رہی پھر ایک مرتبہ کسی حادثہ میں اس کی تعمیر منہدم ہوگئی تو قبیلہ جُرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی ، پھر ایک مرتبہ منہدم ہوئی تو قومِ عمالقہ نے اس کی تعمیر کی۔
تعمیرِ قریش:وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب کعبہ کی عمارت بوسیدہ ہوگئ تو قریش نے از سرِ نو اس کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اس وقت سرکارِ دوعالم ﷺ کی عمر مبارک تقریباً ۲۵ سال تھی وجہ یہ ہوئی کہ ایک عورت خانہ کعبہ کے قریب میں خوشبو سلگارہی تھی جس سے اچانک شعلہ اٹھا اور پردے میں آگ لگ گئی اور پھر پوری عمارت جل گئی اس کے بعد قریش نے از سر نو خانہ کعبہ کی تعمیر کی جس میں رسول اللہﷺ بھی شریک ہوئے اور حجرِ اسود کو اپنے دستِ مبارک سے قائم فرمایا ۔
تعمیرِ ابراہیم اور تعمیرِ قریش میں فرق:قریش نے مالِ حلال کی کمی کے سبب تعمیر بناء ابراہیمی سے کسی قدر مختلف کی تھی (۱)ایک حصہ بیت اللہ کا بیت اللہ سے الگ کردیا جس کو حطیم کہا جاتاہے (۲) حضرت خلیل اللہ کی بناء میں کعبہ کے دودروازے تھے ایک داخل ہونے کے لیے دوسرا پشت کی جانب نکلنے کے لیے،قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا۔(۳) تیسرا تغیر یہ کیا کہ بیت الہ کا دروازہ سطحِ زمین سے کافی بلند کردیاتاکہ ہر شخص آسانی سے اندر نہ جاسکے بلکہ جس کو وہ اجازت دیں وہی جاسکے۔
رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے اس کو بالکل بناء ابراہیمی کے مطابق بنادوں قریش نے جو تصرفات بناء ابراہیمی کے خلاف کیے ہیں ان کی اصلاح کروں لیکن نومسلم ناواقف مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے اسی لیے سردست اس کو اسی حال پر چھوڑتا ہوں اس ارشاد کے بعد دنیا میں آپﷺ کی حیات زیادہ نہیں رہی۔
تعمیر عبداللہ بن زبیر:حضرت عائشہؓ کے بھانجے عبداللہ بن زبیرؓ آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد سنے ہوئے تھے خلفاء راشدین کے بعد جس وقت مکہ پر ان کی حکومت آئی تو انہوں نے بیت اللہ منہدم کرکے ارشادِ نبوی اور بناء ابراہیمی کے مطابق بنادیا مگر عبداللہ بن زبیرؓ کی حکومت مکہ میں چند رہی ظالم الامۃ حجاج بن یوسف نے مکہ پر فوج کشی کرکے ان کو شہید کردیا اور حکومت پر قبـضہ کرکے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ عبداللہ بن زبیر کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک ان کے لیے مدح وثنا کا ذریعہ بنارہےاس لیے لوگوں میں یہ مشہو رکیا کہ عبداللہ بن زبیرؓ کا یہ عمل غلط تھا رسول اللہﷺ نے اس کو جس حالت پر چھوڑا تھا ہمیں اسی حالت پر رکھنا چاہیے اس بہانہ سے بیت اللہ کو پھر منہدم کرکے اسی طرح تعمیر بنادی جو زمانہ جاہلیت میں قریش نے بنائی تھی، حجاج بن یوسف کے بعد آنے والے بعض مسلم بادشاہوں نے پھر حدیث مذکور کی بناپر یہ ارادہ کیا کہ بیت اللہ کو از سرِ نو حدیثِ رسول کے موافق بنادیں لیکن اس زمانہ کے امام حضرت مالک بن انسؒ نے یہ فتویٰ دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا آگے آنے والوں بادشاہوں کے لیے بیت اللہ کو ایک کھلونا بنانا ہے اس لیے اب جس حال میں ہے اسی حال میں چھوڑدینا مناسب ہے تمام امت نے اس قول کو قبول کیا اسی وجہ سے آج تک وہی حجاج بن یوسف کی تعمیر باقی ہے البتہ شکست وریخت اور مرمت کا سلسلہ جاری ہے ( معارف القرآن ج۲ ص۱۱۶)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×