اسلامیات

گزرتے ماہ وسال اور ہمارا معاشرہ

مفتی محمد سلمان قاسمی کریم نگری، مدرس مدرسہ عربیہ نعمانیہ

وقت کا سفر انتہائی برق رفتاری سے جاری و ساری ہے، ایک بار پھر شمسی کیلنڈر تبدیل ہونے جا رہا ہے اور ہم سب کی فانی زندگی و سلسلۂ روز و شب کا ایک اور برس کم ہو رہا ہے،یہ تو اصول زندگی ہے کہ وہ جتنا بڑھتی ہے اتنا ہی گھٹتی ہے، غم و خوشی دھوپ اور چھاؤں کے ہجوم میں گزرنے والی اس زندگی کو گزرناہی ہوتا ہے اور وہ گزر جاتی ہے لیکن اس حیات مستعار کا سب سے بڑا انمول تحفہ ایمان پر خاتمہ اور فلاحِ آخرت ہے۔

وقت کے اس طرح تیز رفتار سے گزرنے پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد اتی ہے جس میں سرور کائنات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘لا تقوم الساعة حتى يتقارب الزمان فتكون السنه كالشهر” کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمانہ کا فاصلہ قریب نہ ہو جائے چنانچہ اس وقت سال ایک ماہ کے برابر ہوگا مہینہ ہفتے کے برابر ہفتہ دن کے برابر اور دن ایک ساعت کے برابر ہوگا اور ساعت ایسی ہوگی جیسے اگ کا شعلہ لپک کر بجھ جاتا ہے( جامع الترمذی الرقم:2332)
مذکورہ بالا حدیث کے مطالب میں محدثین نے "تقارب زمان” کا مطلب یوں بیان کیا ہے کہ اس سے مراد وقت میں برکت کا نہ ہونا ہے اور وہ اس طرح کے پہلے دور کے لوگ جو کام ایک گھنٹے میں کر لیتے تھے بات کے دور والے وہ کام کئی گھنٹوں میں بھی نہ کر سکیں گے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں یہ صورتِ حال ہمارے زمانے میں واقع ہو چکی ہے(مذکرہ احادیث اربعین ص/42) ہماری زندگیوں سے برکت کا ختم ہو جانا واضح ہے کیونکہ ہر مسلمان زندگی کی تلخیوں سے پریشان ہیں ایک طرف ذاتی مسائل زیست کا پہاڑ ے تو دوسری طرف عالمین ناگفتہ بہی حالات کے بادل من لا رہے ہیں تو تیسری طرف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ علامت قیامت ثابت ہو رہی ہے۔

بہرحال سال کی تبدیلی خواہ وہ شمسی ہو یا قمری ہم سب کو اس بات پر غور و فکر کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے کہ ختم ہونے والا سال ہم نے کیسے گزارا، کیا پایا اور کیا کھویا؟دینی اعتبار سے ہمارے اندر کیا تبدیلی اور ترقی ہوئی ہماری کون سی مصروفیات اللہ رب العزت کی منشا و مرضیات کے خلاف تھی اور کون سی مشغولیات شریعت مطہرہ کے موافق؟ہم نے اپنی زندگی کا مقصد کیا طے کیا ہے ان سوالات کو سامنے رکھ کر اگر ہم مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وقت کا پہیہ حسب معمول گھوم رہا ہے لیکن ہم اپنے سفر کی اسی منزل پر ہے جہاں پہلے تھے مسلمانوں کی حالت زار اس پھول کی طرح ہو گئی ہے جس میں مہک نہیں ہے اور اس پھل کی طرح ہو گئی ہے جس کا کوئی بیج نہیں ہے، ہم زندگی تو گزار رہے مگر بے مقصد اور بے فکری کے گہرے سمندر میں ڈوبتے ہوئے یہ ہمارے لیے ایک بڑا المیہ ہے کہ ہمارا مسلم معاشرہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مانند ہو گیا ہے ہماری اس حالت پر یہ شعر پوری طرح صادق آرہا ہے:

نہ کسی کو فکر منزل نہ کوئی سراغ جادہ
یہ عجیب کارواں ہیں جو رواں ہے بے ارادہ

لہذا حالات کی تبدیلی کے لیے اس پرفتن اور ناگفتہ بہ حالات میں ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ماضی کا جائزہ لیں اور حال و مستقبل کو روشن کرنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں، ہم سب کو ذاتی طور پر اپنی زندگی کا مقصد طے کرنا چاہیے کہ مجھے اللہ زندگی دی ہے تو اسکا مقصد کیا ہے، ہم سب کو چاہیے کہ اپنا محاسبہ کریں کہ اس سال میں نے اپنی ذاتی معاشرتی معاملاتی زندگی کیسے گزاری،اگر شریعت مطہرہ کے اصول کے موافق گزاری تو اس پر رب کائنات کا شکر بجا لائیں اور اگر خلاف شریعت گزاری تو اپنے آپ کو اور اپنے افراد خاندان کو شریعت کے تقاضے کے مطابق ڈھالنے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور حالات و معاملات کی بہتری کے لیے مستعد ہو جائیں،یاد رکھیں! زندگی اللہ کی ایک نعمت ہے اس کو بے مقصد گزار کر ضائع نہ کریں کیونکہ اس کی ہر حالت انسان کے لیے خالی از اجر نہیں ہے زندگی کی خوشیوں پر شکر اس کا اجر ہے اور زندگی کی تلخیوں پر صبر بھی اس کا اجر ہے،اس لیے اپنی عمر کو یوں ہی ضائع ہونے سے بچائیں اور مستقبل کی فکر کرتے ہوئے کچھ لائحہ عمل طے کریں ورنہ ہمارا حال کچھ اس طرح ہو جائے گا کہ
صبح ہو رہی ہے شام ہو رہی ہے
عمر یوں ہی تمام ہو رہی ہے

اسی طریقے سے سال کے اختتام پر ہمیں اس بات کو بھی جاننا چاہیے کہ دنیا جس تیز رفتار سے ترقی کر رہی ہے اتنی ہی تیز رفتار سے ہمارا مسلم معاشرہ خصوصا ہمارے نوجوان دینی اعتبار کتنی تنزلی اور انحطاط کا شکار ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہم میں سے کتنے ایسے نوجوان ہیں جن کو اسلامی مہینوں کے نام تک کا علم نہیں ہے، وتر کی نماز میں پڑھی جانے والی دعائے قنوت یاد نہیں ہیں،انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اسلامی سال کا اغاز کون سے مہینے سے ہوتا ہے اور اختتام کون سے مہینے پر ہوتا ہے، لیکن بڑے درد سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انہیں یہ ضرور معلوم ہے کہ ہیپی نیو ایئر ہیپی برتھ ڈے ہیپی اینیورسری اور ویلنٹائنز ڈے کس طرح مناتے ہیں،اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس قسم کے تہواروں میں اپنا قیمتی متاع ضائع کر رہی ہے۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان قوم کو یہ باور کرایا جائے کہ ساڑھے نو کا پیغام رنگ رلیوں اور جشن منانا نہیں ہے بلکہ ایام ماضیہ کے محاسبے اور بقیہ زندگی کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ہے اور اپنی زندگی کو بامقصد بنانا ہے،اور یہ بات ان کے ذہن نشین کریں کہ ایک مسلمان ماڈرن زمانے کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کا سودا ہرگز نہیں کر سکتا اس کے نزدیک اسوہ نبوی سے بڑھ کر کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے لہذا جو انسان اپنے مافات کے تدارک کے لیے کچھ منصوبہ تیار کرے اور اس سلسلے میں فکرمند رہے تو پھر کامیابی ہمیشہ اس کا انتظار کرتی رہے گی اور اگر سستی لاپرواہی غفلت میں اپنی عمر عزیز کو برباد کریں گے اور زندگی کے رخ کو بدلنے کے لیے جن اوصاف اور صلاحیتوں کی ضرورت ہے اس سے اپنے اپ کو اراستہ نہیں کریں گے تو پھر زوال اور تنزلی کے سیاہ بادل ہم پر چھا جائیں گے۔ اور ہماری یہ قیمتی زندگی ضائع ہوجائے گی،
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی زندگی کو قیمتی بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے آمین یارب العالمین

Related Articles

One Comment

  1. ماشاء الله تبارك الله وبارک بک، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے مفتی صاحب اور ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے والا بنائے آمین یارب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×