اسلامیاتمفتی عبدالمنعم فاروقی

مایوس کیوں کھڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے

مفتی عبدالمنعم فاروقی

یہ دنیا اور یہاں کی ہر ایک چیز فانی اور ختم ہونے والی ہے ،اس کے مقابلہ میں آخرت اور وہاں کی ہر ایک چیز باقی رہنے والی ہے،یہی وجہ ہے کہ دنیا کو فانی اور آخرت کو باقی کہا گیا ہے،ہرمسلمان و مومن آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ دائرہ اسلام سے باہر ہوجاتا ہے،اللہ تعالیٰ نے دنیا کو دارالامتحان اور آخرت کو دارالانعام بنایا ہے،ہر انسان کی اچھی یا بُری دنیوی زندگی کا اصل بدلہ آخرت ہی میں دیا جائے گا ،اسی لئے دنیا کو اعمال کے فصل بونے کی جگہ اور آخرت کو فصل کاٹنے کی جگہ سے تعبیر کیاجاتا ہے،جس طرح ایک کاشت کار زمین میں دانہ ڈال کر اس پر خوب محنت کرتا ہے اوررات دن اس کی نگرانی کرتا ہے جس کے بعد وہ دانہ لہلہاتی کھیتی بن کر اپنے بونے والے کو خوب نفع دیتا ہے اور جو دانہ ڈالتا ہی نہیں اور ڈالتا تو ہے مگر اس کی نگرانی نہیں کرتا تو وہ دن گزرنے کے بعد کف افسوس ملتا ہے اور اپنی بے توجہی ونادانی پر روتا ہے ،ٹھیک اسی طرح جو بندہ دنیاکی زندگی میں ایمان کا بیج ڈالتا ہے اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اس کو مضبوط اور پھل دار درخت کے مانند بناتا ہے تو آخرت میں نفع کی شکل میں انگنت انعامات اور جنت کو پاکر خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور جو دنیا کی زندگی کو بے مقصد اور ایمان کا بیج بوئے بغیر خالی ہل چلاتا ہے تو وہ آخرت میں ذلت ورسوائی اٹھاتا ہے اور خود کی نظر میں گرکر اس قدر گرجاتا ہے کہ ہمیشہ کے مصائب اس کا مقدر بن جاتے ہیں۔
آخرت اور وہاں کی دائمی زندگی کو پُر لطف بنانے کے لئے دنیا کی زندگی میں قدم قدم پر امتحانات اور مصائب و آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے ، دنیا میں آنا امتحان گاہ میں داخل ہونا ہے اور ایمان لانا امتحانی پرچہ حاصل کرنا ہے اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا گویا امتحانی پرچا تحریر کرنا ہے اور امتحان اسی کا لیا جاتا ہے جو امتحان گاہ میں داخلہ لیتا ہے اور جو امتحان گاہ میں داخل تو ہوا مگر پرچہ سے محروم ہو گیا تو یہ اس کے لئے بہت بڑی محرومی ہے ،اسے سمجھایا جائے گا اور پرچہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے گی مگر اس کے باوجود اس نے اس جانب توجہ نہ دی اور یوں ہی گھومتا رہا اور پرچہ لکھنے والوں پر طنز کرتا ہے اور اپنی وقتی آزادی پر خوش ہوتا رہا اور اگر موت تک یہی صورت حال رہی تو موت کے ساتھ ہی اس پر ناکامی کی مہر لگادی جاتی ہے اور انعامات سے محرومی اس کا مقدر بن جاتی ہے،اس کے برخلاف جو امتحان گاہ میں داخل ہوکر پرچہ حاصل کیا اور اپنی بساط ، طاقت اور صلاحیت کے بقدر پرچہ امتحانی پُر کرنے کی کوشش کی اور اسی حالت میں وقت امتحان ختم ہوگیا یعنی موت واقع ہوگئی تو اسے کامیاب قرار دے دیا جائے گا البتہ امتحانی پرچہ سامنے رکھ کر اس کے لئے انعامات کا اعلان کیا جائے گا ،یقینا آخرت میں ہر شخص اپے سر کی آنکھوں سے امتحان گاہ کا منظر دیکھے گا اور اس وقت نتیجہ امتحان ان کے ہاتھوں میں دیا جائے گا ،جن کا نتیجہ داہنے ہاتھ میں ہوگا وہ کامیاب اور جن کا پرچہ بائیں ہاتھ میں ہوگا وہ ناکام قرار دئے جائیں گے ،اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ کامیاب کون ہیں اور ناکام کون اور کامیابی اور ناکامی کی وجہ بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آجائے گی،کامیاب دنیوی زندگی پر فخر کریں گے اور ناکام افسوس مگر اس وقت افسوس صرف افسوس ہی رہ جائے گا ۔
یہ بات بھی ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ امتحان دینے اور نہ دینے والے میں زمین وآسمان کا فرق ہے ،امتحان دینے والا پابند یوں کا پابند ہوتا ہے ، ہر وقت فکر میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور آزمائشوں میں گھرا رہتا ہے اور وہ شخص جو امتحان سے دور رہتا ہے وہ آزاد اور بے فکر رہتا ہے اور اس پر کسی قسم کے تفکرات کا اثر نظر نہیں آتا ،اس کے باوجود امتحان دینے والا گرچہ مشقتوں سے دوچار ہوتا ہے مگر وہ اس مشقت سے گھبراتا نہیں بلکہ اس حالت میں بھی اس کا دل مطمئن رہتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ امتحان لینے والا بڑا رحم دل ہے اور ’’رحمنٰ ورحیم‘‘ اس کی دو صفتیں ہیں ،وہ بوقت امتحان ہونے والی غلطیوں کو اپنے فضل سے معاف کردیتا ہے اور کامیابی پر ایسا انعام دینے والا ہے جس کا دنیا میں اور دنیا والے تصور نہیں کر سکتے،یہ سوچ کر امتحان دینے والا ہر تکلیف اور مشقت کو نہایت صبر وتحمل سے برداشت کرتا ہے اور جو پرچہ لینے سے گریز کرتا ہے وہ وقتی طور پر خود کو آزاد سمجھتا ہے اس لئے روک ٹوک سےآزاد ہوکر وہ سارے کام کرتا رہتا ہے جسے وہ چاہتا ہے مگر وہ جانتا نہیں یہ آزادی وقتی اور عارضی ہے ،اس وقتی آزادی اور من مانی کے بعد جب اس کی پکڑہوگی تو پھر وہ کبھی آزاد نہیں ہو پائے گااور اس آزادی کے بعد اسے آخرت کی جو ناکامی اسے ہاتھ آئے گی اور اس کی زندگی کا حصہ بنے گی تو لمحہ واحد میں دنیا کی ساری آزادی وہ بھول جائے اور خواہش کرے گا کہ کاش اگر دنیا کی دوبارہ زندگی میسر آجائے تو اسے ویسا ہی گزارے گا جس طرح امتحان دینے والوں نے گزارا تھا مگر یہ خواہش صرف خواہش ہی ہوگی اور اسے پورا نہیں کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا امتحان کے بعد نتیجہ دیا جاتا ہے اور دوبارہ امتحان لیا نہیں جاتا۔
قرآن وحدیث کی روشنی میںاہل علم فرماتے ہیں کہ دنیا میں مومن پابند ہے یعنی اس پر دینی پابندی عائد ہوتی ہے اور وہ اسی کو سامنے رکھ کر زندگی گزارتا ہے ،اس پابندی کا انعام یہ دیا جاتا ہے کہ وہ آخرت میں اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے ،اسے وہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں جو اس کا دل چاہتا ہے ،برخلاف کافر دنیا میں آزاد رہتا ہے یعنی وہ شرعی پابندیوں سے دور ہوکر زندگی گزارتا ہے اور ان چیزوں کو اپناتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آخرت میں اس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور وہاں اسے اپنی مرضی کے خلاف جینا پڑتا ہے ،رسول اللہؐ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر(مسلم:۷۴۱۷)’’دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے‘‘ جس طرح قیدی جیل میں قوانین کا پابند ہوتا ہے ،بلااجازت وہ کچھ نہیں کر سکتا اسی طرح مومن دنیا میں من مانی نہیں کر سکتا بلکہ ہر قدم شرعی احکام پر عمل کرتا ہے ،یہاں کی پابندی کے بدلے میں جنت اور وہاں کی آزادی حاصل ہوتی ہے اور دنیا میں آزادی یعنی بے قید زندگی گزارتا ہے مگر یہاں کی آزادی اسے جہنم میں پہنچادیتی ہے اور وہاں وہ سخت پابندیوں کے درمیان ہوتا ہے۔
آخرت کے طالب ،وہاں کی دائمی نعمتیں اور وہاں ہمیشہ کی آزادی کے خواہش مند کے لئے دنیا کی پابندیاں اور یہاں کی مشقتیں لازمی ہیں ،اس کے بغیر آخرت کی نعمتوں اور دائمی راحتوں کا تصور ممکن نہیں،جس طرح دھاتیں آگ میں پگھل کر اور اس کی مشقت برداشت کرکے خوبصورت چیزیں بن کر لوگوں کی نور نظر بن جاتی ہیں اسی طرح مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی نظر کرم کے مستحق بننے کے لئے دنیوی مشقتوں کو نہایت صبر وتحمل سے برداشت کرناضروری ہے ،اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی نظر میں محترم بننا اور رحمت الٰہی کے مستحق بننا ممکن نہیں ہے ،قرآن کریم کی متعدد آیات اور بکثرت احادیث مبارکہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے ،قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:ٔأحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۲)کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا کہنے پر ہی چھوڑ دئے جائیں گے ہم ایمان لائے اور ان پر کوئی ابتلانہیں آئے گی ،یعنی یہ بات طے ہے کہ مومنین آزمائے جائیں گے ،ایمان لانے کے بعد ان کی آزمائش ہوگی اور انہیں جانچا جائے گا کہ وہ رضا بالقضا پر کس قدر ایمان رکھتے ہیں اور حالات پر کس قدر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور رجوع الیٰ اللہ کے ذریعہ اس آزمائش سے کیسے باہر نکلتے ہیں ،قرآن کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْئٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ(البقرہ:۱۵۵)اور ہم ضرور بالضرور تمہاری آزمائش کریں گے ،دشمن کے ڈر سے ،بھوک پیاس سے،مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے ،یعنی مومنین الگ الگ طرح کے آزمائش سے گزارے جائیں گے اور الگ الگ انداز سے انہیں مصائب وآلام میں مبتلا کیا جائے گا ،کبھی بھوک پیاس کے ذریعہ تو کبھی مال ودولت میںکمی کے ذریعہ تو کبھی ان کی جانوں کے ذریعہ ،مگر قابل تعریف ہیں وہ مومنین جو ان تمام حالات میں صبر وضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں ،ان حالات سے گزرنے کے باوجود ان کے پائے استقامت کمی نہیں آتی ہے بلکہ وہ دین وشریعت پر مستقیم رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے صبر وتحمل کے ذریعہ مدد طلب کرتے ہیں ،جو اس کا مظاہرہ کرتے ہیں کامیابی انہیں کو میسر آتی ہے اور بالآخر آزمائش کا دور ختم ہوتا ہے اور اس کے بعد راحتوں کے دروازے ان کے لئے کھول دئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے پچھلی قوموں اور سابق میں امت مسلمہ کے ساتھ کیا تھا ۔
اسلامی تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ دورِ نبوت سے لے کر خلافت راشدہ تک اور خلافت راشدہ کے بعد سے لے کر آج تک ان چودہ سو سالوں میںامت مسلمہ کئی ایک آزمائشی دور سے گزری ہے ، ان پر مصائب وآلام کبھی سمندری طوفان سے بھی زیادہ شدید تھے تو کبھی زلزلوں جیسے مسائل نے انہیں ہلا کر رکھدیا جس کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے وہ ہواس باختہ ہو کر رہ گئے تو کبھی اسلام دشمن طاقتوں نے ان کے طاقتور حکمرانوں کے تخت کو ہلا کر رکھ دیا تو کبھی یہود ونصاریٰ نے مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کی کوشش کی اور زمین سے ان کے وجود کو ختم کرنے منصوبے کے تحت ان پر اس قدر شدت سے حملہ کیا جس کا انہوں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا ،بغداد پر تاتاریوں کا حملہ ،اندلس کی تاریخ اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور اس جیسی بہت مثالیں تاریخ میں موجود ہیں اور ماضی قریب میں عراق،لبنان ،شام،لیبیا ، برما میں اس طرح کے حالات سے امت مسلمہ دوچار ہو چکی ہے اور فلسطینی اس وقت بھی کڑی آزمائش کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے اس طرح کے حالات کے باوجود نہ تو اسلام خطرہ میں ہے اور نہ ہی امت مسلمہ کا وجود خطرہ میں ہے بلکہ اسلام تو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ مذہب ہے اور قیامت تک پورے انسانوں کی ضرورت ہے ،اس کے بغیر انسانیت کی فلاح وصلاح ممکن ہی نہیں ،اسلام مغلوب نہیں بلکہ غالب ہونے کے لئے آیا ہے ،اسلام کی مثال اس درخت کی سی ہے جسے جتنا کاٹا جاتا ہے وہ اتنا ہی ہرا بھرا اور تروتازہ ہوکر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتا ہے،تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر اور اسلام دشمنی میں آگے بڑھ کر مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کی املاک وجائداد اور جانوں کو نقصان پہنچایا اور اتنی شدت سے نقصان پہنچایا کہ جس کے بعد دنیاوالوں کو یہ گمان ہونے لگاتھا کہ شاید اب مسلمان دنیا میں خال خال ہی باقی رہیں گے مگر کہتے ہیں کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے ،وہ جب کسی کو بچانے کا ارادہ کرلیتا ہے تو پوری طاقتیں مل کر بھی اس کا خاتمہ نہیں کر سکتی ،ان مسلمانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ،اللہ تعالیٰ نے ایک تو ان کی نسل میں برکت عطا فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس طرح پھیلنے لگے جس طرح مسافروں کا قافلہ کسی مقام پر پڑاؤ ڈالنے کے بعد پورے علاقے کو گھیر لیتا ہے جس کی وجہ سے چوطرف مسافر ہی مسافر نظر آتے ہیں دوسرے اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے صفوں میں دراڑیں پیدا کردی اور وہ اسلام قبول کرکے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو گئے ،اس طرح مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور دشمنوں کے خواب خاک میں مل گئے ۔
اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر زمانے میں حق وباطل آمنا سامنا ہوتے ہیں اور ہر زمانے میں ان کے درمیان کشمکش کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کے ذریعہ اہل ایمان کی جانچ پڑتال اور ان کا امتحان ہوتا رہے گا ، باطل قصر اسلام کی مضبوط دیواروں میں شگاف ڈالنے اور اسے نقصان پہنچانے کیلئے ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دشمنوں کو چھوٹ تو دیتا ہے مگر لوٹنے نہیں دہندوستان جسے سیکولر ملک کہا جاتا ہے ، اسے آزاد کرانے میں ہر ایک محنت لگی ہے اور ہر ایک نے اسے اپنے خون جگر سے سینچا ہے ،مسلمانوں نے اپنے وطن عزیز کے لئے جو کچھ قربانیاں دی ہیں اسے تاریخ ہند میں سنہرے حرفوں سے لکھا گیا ہے ،دشمن اسے مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر وہ مٹ جائیں گے لیکن ہندوستان کی سنہری تحریک آزادی کی تاریخ ہرگز مٹ نہیں پائے گی،جس وقت سبھوں نے مل کر اس ملک کو غاصب انگریزوں کے چنگل سے آزاد کیا تھا تو اس آزاد ہندوستان کو اس وقت ’’ جمہوریت‘‘ کا نام د یا گیا تھا اور اس کے قانون میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل اور اس کے تبلیغ کی آزادی دی گئی تھی اور واضح طور پر پر سنل لاء میں مداخلت نہ کرنے کا تیقن دیا گیا تھا،لیکن یہ ملک کی بد قسمتی ہے کہ ان دنوں ایک مخصوص نظریات کے حامل لوگ جن کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے مگر عام لوگوں میں غلط فہمی پھیلاتے ہوئے اور نفرت کی آگ بھڑکاتے ہوئے ملک کے امن ومان کو چکنا چور کرنے کے درپہ ہیں اور آئے دن اپنی طاقت واقتدار کا فائدہ اٹھا کر نئے نئے قوانین وضع کرتے جارہے ہیں اور اس کے ذریعہ ان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں ،ان جدید منصوبوں سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید مسائل پیدا ہورہے ہیں ،اگر چہ عمومی طور پر تمام باشندگان ہند اس سے متاثر ہورہے ہیں مگر خصوصا اس ملک کے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر اس گہرا اثر ہورہا ہے اور صاف طور پر معلوم ہورہا ہے کہ اس کے ذریعہ منظم منصوبے کے ذریعہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل دینا چاہتے ہیں ، بابرہ مسجد کا فیصلہ ،گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں فریق ثانی کو عبادت کی اجازت ،طلاق ثلاثہ ،نکاح کے لئے عمر کی قید ، ملک کے تعلیمی نصاب میں مخصوص مذہبی تعلیم کا لزوم ، سوریا نمسکار ،وندے ماترم ،خواتین کے حجاب پر پابندی اور دیگر کئی ایسے قوانین ہیں جو ملک کے جمہوری قوانین میں مذہبی آزادی سے براہ راست متصادم ہیں اور اس سے مسلم پر سنل لا ء کی حیثیت خطرہ میں دکھائی دے رہی ہے ، مزید یہ کہ اس وقت پھر سے ین،آر ،سی کا بھوت بوتل سے باہر نکلنے کے لئے بے چین ہے ،اگر چہ کہ حکومت اطمنان دلارہی ہے مگر بعض ماہرین قانون اور دوراندیش حضرات کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ بلاوجہ باشندگان ہند کو ڈپریشن میں ڈالا جارہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ مخصوص طبقہ تعصبیت کی بھینٹ چڑھ جائے ، ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسلمانوں میں تشویش پائی جارہی ہے اور جتنی منہ اتنی باتیں ہو رہی ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانان ہند کریں تو کیا کریں ، اس سلسلہ میں مسلمانوں کی رائے منقسم ہو گئی ہے ،بعض خاموش ہیں تو بعض مایوسی کا شکار ہورہے ہیں اور بعض جن میں اہل علم کا طبقہ شامل ہے اپنی بساط کے مطابق دستور بچانے کی فکر کرتے ہوئے ہمت وحوصلہ سے کام لے رہے ہیں اور لوگوں سے مایوسی سے نکالتے ہوئے ان میں ہمت حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بتارہے ہیں کہ اس ملک کو سبھوں نے مل کر آذاد کیا ہے اور اس کے دستور میں سب کے لئے حقوق متعین کئے گئے ہیں ،اپنے حقوق واجبہ کا مطالبہ کرنے کا حق بھی دستور ہی نے دیا ہے اور یہ بات خاص کر مسلمانوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وہ ایسی ذات پر ایمان لایا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ساراجہاں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اس کی مرضی کے بغیر درخت کا پتہ ہل نہیں سکتا ،سمندر کا قطرہ پھیل سکتا ہے اور نہ ہی زمین کا ذرہ حرکت کر سکتا ہے ،ان حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ رسول اللہ ؐ کی مکی زندگی کا مطالعہ کریں اور ان حالات میں رسول اللہؐ کا جو طرز عمل تھا اور صحابہؓ جو ہدایت دی گئی تھی اسے سامنے رکھ کر زندگی گزاریں ،چنانچہ ان حالات میں بطور رہنمائی کے اہل علم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے مسلمان اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور وہ اعمال اختیار کریں جن سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے،پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تصور کریں اور قرآن میں بیان کئے گئے سابقہ اقوام کے حالات کا بغور مطالعہ کریں کہ کس قدر طاقتور ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کی پکڑ فرمائی اور انہیں قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بنادیا ،اپنے اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں ،خوب توبہ واستغفار کریں کیونکہ قرآن میں بتلایا گیا ہے کہ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کی توبہ قبول کرتے ہیں بلکہ اس کے لئے حالات کو سازگار بنادیتے ہیں ،دعا کو مومن کا ہتھیار کہا گیا ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہیں ،نیز اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر دعائیں کریں یقینا اللہ تعالیٰ ان اعمال پر نظر رکھتے ہوئے بندہ کے لئے راستہ ہموار کر دیتے ہیں جیسا کہ حدیث میں تین مسافر کا واقعہ نقل کیا گیا ہے ،اور تقوی والی زندگی اختیار کریں ،قرآن کریم میں بتلایا گیا ہے کہ وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا(الطلاق:۲) جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ،اللہ تعالیٰ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتے ہیں ۔
اور اہل علم یہ بھی فرماتے ہیں کہ حالات سے باہر نکلنے کے لئے مذکورہ چیزوں کے ساتھ حکمت اور ظاہری جائز تدبیر اپنائے،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی(النجم: ۳۹) ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود وہ کر سکتا ہے، صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباب اختیار کرے اور اسباب پر اعتماد کرنے کے بجائے مسبب الاسباب پر بھروسہ کرے ،ان شاء اللہ مدد ونصرت شامل حال ہوگی ،یاد رکھیں کہ ایک مسلمان کے لئے مایوسی کسی طرح اس کی شایان شان نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مومن اور مایوسی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ،وہ اپنے اندر بلند ہمتی پیدا کرے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی فکر کرے ،قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(آل عمران۱۳۹)اور (مسلمانو! حالت کے شکار ہونے پر) تم ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو اور آخر تم ہی غالب رہوگے اگر تم پورے مومن رہے ، ان حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان پر ثابت قدم رہیں ،خدا سے مدد ونصرت طلب کریں، تدبیر تقدیر کا حصہ ہے اسے ہر گز نہ چھوڑیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×