اسلامیات

خدمت خلق قرآن وحدیث کی روشنی میں

اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سراپا خیر و رحمت ہے حسن سلوک خیر خواہی سے عبارت ہے دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور مخلوق خدا کی خدمت اس کا طرۂ امتیاز ہے یہی وجہ ہے کہ اس دین کو رحمت اس کے خدا کو رحمن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمۃ اللعالمین کہا گیا ہے
اسلام میں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردی وغمخواری کوبڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے کلام اللہ اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے چناں چہ قرآن کریم میں خدمت خلق پر ابھارتے ہوئے بہترین انداز میں کہا گیا ہے کہ "لیس البر ان تولو وجوه‍كم قبل الشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملئكة والكتاب والنبيین وآتي المال على حبه ذوي القربي واليتمي والمسكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب  الخ۔ (البقرہ۔ ١٧٧)
(ترجمہ)سارا کمال اسی میں نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق کی جانب کرو یا مغرب کی جانب لیکن اصلی کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتب سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے حاجتمند رشتہ داروں کو اور نادار یتیموں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو بھی اور بے خرچ مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو ۔
ایک حدیث شریف میں تو مخلوق کو اللہ کا کنبہ کہا گیا ہے اور ان کے ساتھ بھلائی وہمدردی کو محبت الٰہی کے حصول کا ذریعہ بتایا ہے الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ (مشکوۃ)
ترجمہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو اللہ کی عیال کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئے۔
مخلوق پر خرچ کرنا ان تین اعمال میں سے ایک ہے جن کا اجر وثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور مرنے والا برابر اس سے منتفع ہوتا رہتا ہے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اذامات الانسان انقطع عملہ الا من ثلثۃ الا من صدقۃجاریۃ او علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ (صحیح مسلم) ترجمہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔ (١) صدقہ جاریہ (٢) علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (٣) صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرے۔”
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی خدمت خلق کا حسین مجسم تھی آپ بے سہاروں یتیموں اور کمزوروں کے والی تھےاور آپ کے صحابہ نے آپ کی پیروی کرتےہوئے آپ کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہے اپنے کردار سے سماجی فلاح و بہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی مذھب پیش نہیں کرسکتا قرآن کریم نے صحابہ کے ان اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا "ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا (الدھر۔ ٨) ترجمہ اور وہ صحابہ اللہ کی محبت میں فقیروں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں
صحابہ کرام‌ کا ہی یہ امتیازی وصف ہے کہ انہوں نے خود فاقےمیں رہ کر دوسروں کو ترجیح دی مہمانوں کا خیال کرتے ہوے  اپنے معصوم بچوں کوتک بھوکا سلایا قرآن کریم نے صحابہ کے جذبہ ایثار کی تعریف یوں کی ہے "ویوثرون علی انفسھم ولوکان اہم خلاصۃ "(الحشر۔٩) ترجمہ اور صحابہ ان لوگوں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود فاقہ ہو۔
قرآن مجید نے زندگی کے کسی گوشے کو نظر انداز نہیں کیا اعزاء و اقربا میں کچھ ایسے بھی چہرے ہوتے ہیں جو فقر و محتاجگی سے دوچار ہیں لیکن حیا  نے انہیں شکایت کا موقع نہیں دیا قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی امداد کے حوالے سے فرمایا وفی أموالهم حق للسائل والمحروم (الذاريات۔١٩)  دوسری جگہ فرمایا والذين فى أموالهم حق معلوم، للسائل والمحروم (المعارج۔٢٥،٢٤) فرمایا مانگنے والوں کو تو ہر کس وناکس دیتا ہے لیکن کہیں محروم ۔ سوال نہ کرنے والے محروم نا رہ جائے۔
بعض مواقع پر تو انسانی خدمت کے عمل کو حقوق اللہ پر فوقیت حاصل ہے ہمسایوں اور پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ میں سمجھ گیا وہ پڑوسی کووارث بنا دیں گے۔
الغرض ان مذکورہ تمام آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام ہمیں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے بیواؤں مزدوروں یتیموں غریبوں مزدوروں اور بے کسوں کے ساتھ غمخواری اور اظہار ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے خصوصاً آج کے اس ماحول میں عالمی وباء سے کئی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں مزدور کسان اور بہت سے لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوچکی ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے محض انسانیت کی بنیاد پر ذات پات رنگ ونسل کا لحاظ کیے بغیر پریشان حال لوگوں کا تعاون کریں ہمدردی مساوات اور رواداری کا نمونہ پیش کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×