جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا! ساؤتھ انڈین مسلم پرسنل لابورڈ کے قیام کی کوشش
گزشتہ دنوں یہ خبرسوشل میڈیا پر گشت کرنے لگی کہ شہر حیدرآباد میں کچھ لوگ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے مقابلے میں ایک نئے بورڈ’’ساؤتھ انڈین مسلم پرسنل لابورڈ‘‘ کے قیام کے لئے خفیہ اور غیر معروف لوگوں کے ساتھ مشورہ اورمیٹنگیں کررہے ہیں۔ان افراد میں ایک جلی نام سابق کے معروف عالم ِ دین مولانا سلمان حسینی ندوی کاپیش پیش رہا اور ان کی صدارت میں اجلاس کے انعقاد کی خبر بھی ایک اخبار میں شائع ہوئی ۔
مولانا سلمان ندوی نے ماضی میں جو عزت ومقبولیت پائی تھی اور ہر دل عزیزی حاصل کی تھی وہ بڑوں کی گستاخی اور صحابہ کرام ؓ کی توہین کی وجہ سے ضائع کرلی ،صحابہ کرام ؓ کے خلاف زبان درازی اور غیر ضروری عنوانات کو موضوع ِ سخن بناکر امت میں انتشار واختلاف پیدا کرنے کی وجہ سے ان کی تمام تر اہمیت دینی ،علمی حلقوں میں ختم ہوگئی،اور’’ ثریا سے زمیں پر آسماںنے ہم کو دےمارا‘‘کے بقول عظمت و رفعت خاک ہوگئی اوراس کے بعد ’’کھسیانی بلی کھمبانوچے‘‘ کے مترادف ہر کسی کے خلاف محاذ آرائی انہوں نے شروع کردی ۔
مولانا سلمان ندوی کی شخصیت کا ایک دور وہ تھا کہ آپ دلوں پر حکمرانی کرتے،آپ کے زور ِ خطابت کےسحر میں لوگ فریفتہ رہتے ،قوت ِ گویائی پر عش عش کرتے رہ جاتے ،اور ایک طویل زمانہ آپ نے بھر پور مقبولیت کا گذارا،عظیم خانوادہ سے تعلق ہونے ،ملک کی ممتاز درس گاہ ندوۃ العلماء لکھنوکے استاذ ہونے کی حیثیت اور مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ کی نسبت پر آپ نے خوب نام وشہرت حاصل کی۔لیکن یہ اللہ تعالی ہی کی توفیق ہے کہ انسان آخری سانس صراط ِ مستقیم پر قائم رہے اور جادہ ٔ حق پر گامز ن ہو۔ورنہ عزت،شہرت ،مال ودولت کی وجہ سے انسان بے راہ بھی ہوجاتا ہے اور صحیح راستے سے بھٹک بھی جاتا ہے۔
مولانا سلمان ندوی نے 2018ء میں جب آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کا اجلاس حیدرآباد میں منعقد ہوا تھا،اسی وقت سےبورڈ سے اختلاف کرتے ہوئے منظر عام پر آئے،اور بھرپور انداز میں بورڈ کی مخالفت کرنے لگے ،اس کے بعد فلاح ِ انسانیت بورڈ کا جلد بازی میں اعلان کیا،اس کے بعد مرشد العلماء حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب مدظلہ کے خلاف زبان درازی شروع کی ،ملک کی عظیم جامعہ ندوۃ العلماء کے ماحول کو متاثر کرنے لگے ،قدیم اساتذہ کے خلاف اظہار ِ خیال شروع کیا،اور پھر روئے زمین کی مقدس جماعت ،نبی کریمﷺ کے تربیت یافتہ حضرات صحابہ کرام ؓ کو موضوع ِ سخن بنایااور بے ادبی وگستاخی کے ساتھ صحابہ کے آپسی معاملات کو بیان کرنا شروع کیا،جب کہ ملک وملت کے حالات نہ اس کے متقاضی تھے اور ہی اس کی ضرورت تھی ،لیکن اپنی بے چین طبیعت کو تسکین پہنچانے کے لئے آپ نے غیر ضروری اس موضوع پر لب کشائی کی۔یہیں سے آپ کا دور ِ زوال شرو ع ہوگیا،جس عظیم جامعہ کے آپ نامور سپوت اور قابل ِ فخر فرزند تھے وہیں سے آپ کو سبکدوش ہونا پڑنا،آپ کے نام پر ہزاروں کا مجمع ہوتا لیکن آپ کی وجہ سے جلسے ملتوی ہونے شروع ہوئے ،اور اب تک کے حالات سب کے سامنے ہیں کہ آپ دن بہ دن اہل حق سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آپ کے ارد گرد ایسے افراد نظر آرہے ہیں جن کی اہل علم وفضل میں کوئی اہمیت نہیں ۔
اور اب تازہ صورت حال یہ ہے کہ حیدرآباد میں ساؤتھ انڈین مسلم پرسنل لابورڈ کے قیام کے لئے کوشاں ہیں ،اگر آپ کو واقعی ملت کی خدمت کا جذبہ ہے تو بہت سے عنوانات اور ناموں کے ساتھ آپ کام کرسکتے ہیں لیکن ایک بورڈ جو سالہاسال سے قائم ہے اس کے خلاف نئے بورڈ کو قائم کرکے صرف بے قرار جذبات کی تو تسکین ہوسکتی لیکن ملک وملت کے لئے کوئی نفع نہیں ہوسکتا ۔بلکہ انتشار کی فضا پروان چڑھے گی اور شخصیت کا قدمزید چھوٹا ہوگا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ حیدرآباد میں بورڈ کے قیام کے لئے آپ رونق افروز ہیں لیکن شہر واطراف کے کوئی بااعتماد عالم ِ دین آپ کے ساتھ نہیں ۔اس سے خود آپ کا خلوص واضح ہوجاتا ہے۔
ساؤتھ انڈین بورڈ کے مشاورتی اجلاس میں مولانا نے کہا کہ ’’یکساں سول کوڈ ہوگا تو اس میں شریعت چھاپ ہوگی،اوریکساں سول کوڈ کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں جب بھی تشدد اور ریپ کے کوئی بڑے واقعات رونماہوتے ہیں تواس کے بعد مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی سزاؤں کی مانگ کرتے ہوئے اسلامی سزاؤں کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ جب بھی یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا اس میں ان سب چیزوں کا خیال رکھاجائے گا۔‘‘( عصر حاضر ای پیپر)
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کس قدر سادہ لوحی ہے یا کس قدر مجبور وبے بسی ہے۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
خیر مولانا نے اس طرح کی بہت سی کوششیں چند سالوں میں کی ہیں جن سے اتحاد کے بجائے اختلاف ،قربت کے بجائے دوریاں پیداہوئیں اور اب بھی اسی طر ح کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ،لیکن ان کی یہ کوشش سراب کی مانند ہے جس کی ان شاء اللہ حقیقت نہیں ہوگی ،جہاں نیتوں میں فتور آجائے اور جذبوں سے خلوص ختم ہوجائے تو ایسے کام جھاگ کی طرح ہوتے ہیں اور خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کامینارہ ہے،کمیوں ،کمزوریوں ،کوتاہیوں کے باوجود مسلمانان ِ ہند اس پر اعتبار کرتے ہیں ،اور اس کوخانوں میں بٹتا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتے۔اتحادملت کو پارہ پارہ کرنے کی کوششیں ناکام ہوںگی اور ملت کی اکثریت اپنے بڑوں پر اعتماد کرتی ہیں۔
مولانا سے بھی گذارش ہے کہ وہ اس طرح تفرقہ والے کاموںسے اجتناب کریں ،اپنے مقام ومرتبہ پر ایک نظر ڈالیں ،اپنے شاندار ماضی کو دیکھیں ،اپنی نسبتوں کو پہنچانیں ،اپنی سابقہ خدمات کو یادکریں، اہل حق کے ساتھ وابستہ ہوجائیں ،سواد اعظم کے ساتھ جڑجائیں ،دلوں سے نفرتوں کو نکال دیں ،آ پ کو دربہ در پھرتا ہوا دیکھ کر اچھا نہیں لگتا ،اپنے سے دور ہوکر غیروں کے ساتھ نشست وبرخاست پر افسوس ہوتا ہے ۔اس لئے خدارا ایسی چیزوں سے ترک ِ تعلق فرماکر آجائیے ،اپنے بڑوں سے وابستہ ہوجائیے ،پھر ان شاء اللہ
ہر طرف آپ کا والہانہ استقبال ہوگا اور یہ آ پ کے لئے خیر وسعادت کا باعث ہوگا۔
؎ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میر ی بات