اسلامیات

نواقض ایمان کو بھی جاننے کی ضرورت ہے!

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن اعمال کا حکم دیا ہے، وہ زیادہ تر ظاہری اعضاء ہاتھ پاؤں ، زبان، آنکھ ، کان وغیرہ سے متعلق ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج کے افعال، نکاح وطلاق وغیرہ، اور بعض اعمال وہ ہیں، جن کا تعلق انسان کے دل سے ہے، ان کے لئے ظاہری اعضاء کو حرکت دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے؛ البتہ دل میں جو بات ہوتی ہے، بہت سی د فعہ زبان سے اس کا اظہار کیا جاتا ہے، ان ہی میں ایمان بھی ہے، ہم جو اپنی زبان سے کلمہ طیبہ یا کلمۂ شہادت پڑھتے ہیں، یہ در اصل ایمان کا اظہار ہے، ایمان تو وہ یقین ہے، جو دل کے اندر پایا جاتا ہے اور جس میں باطنی اقرار بھی شامل ہوتا ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان کی نسبت دل کی طرف کی ہے: ولم تؤمن قلوبھم (مائدہ: ۴۱)
پھر انسان جن افعال کو انجام دیتا ہے، ان کے ارکان بھی ہوتے ہیں، جن کے پائے جانے سے عمل وجود میں آتا ہے، اور نواقض بھی ہوتے ہیں، جن کے پیش آنے سے وہ عمل ٹوٹ جاتا اور ختم ہو جاتا ہے، جیسے: ہاتھ پاؤں اور چہرہ کے دھونے اور سر کا مسح کرنے سے وضو وجود میں آتا ہے اور استنجاء کرنے سے وضو جاتا رہتا ہے، نیت اور تکبیر تحریمہ کے ذریعہ نماز شروع ہوتی ہے اور اگر کوئی نماز کی حالت میں بات کر لے یا کوئی عمل کثیرکر لے، یعنی ایسا عمل کر گزرے، جس کی نماز میں گنجائش نہیں ہو تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، روزہ کی نیت کے ساتھ بھوکے پیاسے رہنے سے روزہ وجود میں آتا ہے اور جان بوجھ کر کھا پی لے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اسی طرح ایمان کے بھی کچھ ارکان ہیں، اللہ پر یقین ، نبوت پر یقین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا یقین، تقدیر پر ایمان، یعنی اس بات کا یقین کہ خوشی اور تکلیف کی جتنی باتیں پیش آتی ہیں، وہ سب اللہ کی طرف سے ہیں، فرشتوں کا یقین اور آخرت کا یقین، یہ سب مومن ہونے کے لئے ضروری ہے، ان میں سے اللہ پر اور نبوت محمدی پر ایمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھے گا، اس کا ایمان نبوت پر بھی ہوگا، اللہ کی کتاب پر بھی ہوگا ، اللہ کے فرشتوں پر بھی ہوگا، اور جس کا ایمان اللہ پر ہوگا، اس کا یقین اللہ تعالیٰ کی صفات ، اس کی قدرت اور اس کے ضمن میں آخرت کے نظام اور دیگر غیبی حقیقتوں پر بھی ہوگا؛ اس لئے ان دونوں باتوں کو ایمانیات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اللہ پر ایمان لانے میں تین باتیں شامل ہیں، اللہ کا وجود، اللہ تعالیٰ کی صفات اور عقیدۂ توحید ، اللہ کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی ذات اگرچہ دنیا میں ہماری اِن آنکھوں سے نظر نہیں آتا؛ لیکن یقینی طور پر وہ موجود ہے، اگر کوئی شخص خدا کا انکار کرتا ہو، جیسا کہ بعض فلاسفہ کیا کرتے تھے تو وہ ہر گز مسلمان نہیں ہو سکتا، ایسے لوگوں کو ملحد یا دہریہ کہا جاتا ہے، ملحد کے معنی کج رَو کے ہیں، اور دہریہ سے مراد یہ ہے کہ وہ دہر یعنی زمانے ہی کو قدرت کا سر چشمہ سمجھ لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کائنات میں جو بھی تصرف ہو رہا ہے ، وہ اپنے آپ ہو رہا ہے اور گردش زمانہ کا اثر ہے۔
خدا کی صفات کا مطلب یہ ہے کہ خدا کوئی ایسی ذات نہیں ہے، جو صفات واختیارات سے عاری ہو، وہ ایک بت کی طرح ہو جو نہ کسی کو حکم دے سکتا ہو نہ روک سکتا ہو، اگر مکھی بھی جسم پر بیٹھ جائے تو اس کو ہٹانے سے قاصر ہو، ایسے معطل اور بے اختیار نام نہاد خدا کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے جو اسماء حسنیٰ ہیں، وہ ان ہی صفات کو واضح کرتے ہیں، خدا کی محبت، خدا کی خشیت، خدا سے مانگنے کا جذبہ، یہ ساری باتیں اسی وقت ہو سکتی ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا یقین ہو۔
تیسری چیز اللہ تعالیٰ کی توحید ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا ہے، اللہ کا کوئی خاندان نہیں، نہ اس کا باپ ہے نہ بیٹا، نہ بیوی ہے نہ شوہر، نہ کوئی اور رشتہ دار ، نہ اس کی صفات میں کوئی شریک ہے، رزق دینا، اولاد دینا، زندہ رکھنا، موت دینا، دولت مند بنانا، غربت سے دو چار کرنا، آرام دینا اور تکلیف دینا، یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس بات کو انسان کے ذہن میں راسخ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے قصص وواقعات کو اس طرح ذکر کیا ہے کہ خدا کے سامنے ان کی بندگی اور عاجزی کا اظہار ہوتا ہے، رسالت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کئے جانے کے باوجود انبیاء اپنے لئے اولاد کی اور اپنے مخاطبوں کے لئے ہدایت اور اپنے دعوت کے نتیجہ خیز ہونے کی دعا اللہ سے کرتے ہیں، اور اللہ کے بندوں کے سامنے صاف صاف فرماتے ہیں کہ میرے پاس غیب کے خزانے نہیں ہیں، میں تو صرف رب کائناب کا نمائندہ ہوں، جو تم کو صحیح راستہ دکھانے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کا رشتہ اس کے خالق ومالک سے جوڑنے کے لئے آیا ہوں۔
اگر کوئی شخص اللہ کی ذات میں کسی اور کو شریک ٹھہرائے، یا اللہ کی صفات میں بندوں کو شریک قرار دے تو یہ شرک ہے، اور جیسے کھانے پینے سے روزہ جاتا رہتا ہے، اسی طرح ایسی باتوں سے انسان کا ایمان رخصت ہو جاتا ہے، کوئی شخص اگر دیویوں دیوتاؤں کو خدا کا درجہ دے، اس کے سامنے سر جھکائے، حضرت مسیحؑ کو خدا کا بیٹا کہے، یا خدائی کا دعویٰ کرنے والے کسی شخص پر ایمان لائے تو وہ ایمان کے دائرہ سے باہر نکل جائے گا، ہمارے برادران وطن میں تو ماضی قریب میں بھی کئی ایسے لوگ گزرے ہیں ،جو اپنے آپ کے دیوتا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، اور لوگ بھی ان کو دیوتا مانتے تھے؛ مگر افسوس کہ ایسے لوگ جن کے نام مسلمانوں کی طرح کے ہیں، ان میں بھی بعض افراد پیدا ہوئے، جو اپنے آپ کو’’ رب ‘‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر’’ رب الارباب‘‘ یعنی پروردگاروں کے پروردگار کہتے ہیں، میری مُراد ریاض گوہر شاہی اور اس کے متبعین سے ہے، ایسے گمراہ اور مکار لوگوں کے دعویٰ خدائی سے زیادہ حیرت ان لوگوں کی عقل پر ہوتی ہے، جو اُن پر ایمان لاتے ہیں، جن کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح کھانے پینے کا محتاج ہے اور انسانی عوارض سے دوچار ہے، پھر بھی وہ اس کو خدا مانتے ہیں؛ لیکن یہ دنیا چوں کہ جائے امتحان ہے؛ اس لئے نا معقول سے نامعقول مدعیوں کو بھی دو چار متبعین مل ہی جاتے ہیں، غرض کہ اللہ پر ایمان لانے میں اللہ کے وجود، اللہ کی توحید اور اللہ کی صفات پر ایمان لانا ضروری ہے اور خدا کا انکار، خدا کی ذات میں کسی کوشریک سمجھنا یا اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات میں کسی کو اللہ تعالیٰ کا ساجھی ماننا یہ سب نواقض ایمان ہیں، جن سے ایک مسلمان کا ایمان جاتا رہتا ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لانے میں چند باتیں شامل ہیں، اول یہ کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ پر اللہ کی طرف سے قرآن مجید نازل کیا گیا، دوسرے : آپ پوری انسانیت میں افضل ترین شخص ہیں اور آپ کی توہین یا آپ کی شان میں گستاخی جائز نہیں ہے، تیسرے: چوں کہ آپ خدا کے رسول ہیں، مرضیات الٰہی کے ترجمان ہیں اور اپنے قول وفعل کے ذریعہ منشاء الٰہی کولوگوں تک پہنچاتے ہیں؛ اس لئے آپ کا قول و فعل اطاعت اور اتباع کے لائق ہے، چوتھے: آپ اللہ کے آخری نبی ہیں، آپ پر وحی کا سلسلہ بند ہوگیا، آپ کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی نہیں آسکتا، نہ صاحب شریعت نبی نہ غیر صاحب شریعت نبی، ان چاروں عقائد کا ما حصل یہ ہوا کہ نبوت محمدی کے انکار سے ایمان جاتا رہتا ہے، آپ کی شان میں ادنیٰ درجہ کی اہانت بھی انسان کو ایمان سے محروم کر دیتی ہے، آپ کا جو قول وفعل معتبر ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے، اور آپ کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی شکل میں نبوت کا دعویٰ کرے، وہ ایمان سے محروم ہے اور اس کو تسلیم کرنے والے بھی ایمان کے دائرہ سے باہر ہیں۔
افسوس کہ جہالت اور فساد زمانہ کا اثر ہے کہ بہت سے لوگوں نے اپنا نام مسلمانوں کی طرح رکھا ہے اور زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں؛ لیکن رسالت ونبوت میں اور قرآن مجید کے اللہ کی طرف سے نازل ہونے میں شبہ کا اظہار کرتے ہیں اور اس نادانی پر اپنے آپ کے دانشور ہونے کا گمان رکھتے ہیں، بعض لوگ آپ کی نبوت کا تو یقین رکھتے ہیں؛ لیکن آپ کو افضل الرسل نہیں مانتے، آپ کی اہانت پر ان کو کوئی غیرت نہیں آتی، مصر وشام کے تو بہت سے آوارہ خیال لوگ اس میں مبتلا ہیں ہی، ہندو پاک میں بھی شدہ شدہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، یہ الحاد اور مذہب بیزاری کا اثر ہے، آپ کی محبت وعظمت جزو ایمان ہے، اور آپ کی اہانت ہر مسلمان کے لئے ناقابل برداشت ہے، بعض لوگ آپ کو رسول بھی مانتے ہیں؛ مگر آپ کی حدیث کو حجت نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے احکام کی حیثیت ایک امیرو فرمانروا کے احکام کی ہے اور بس، ہمیشہ کے لئے اس کی اطاعت ضروری نہیں، یہ انکار حدیث کا فتنہ ہے، جو بات معتبر طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، اس کا انکار کرنا بھی کفر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسے لوگوں کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو کہیں گے کہ ہم صرف قرآنی آیات کو تسلیم کریں گے، حدیث کو نہیں، یہ حضرات اپنے آپ کو اہل قرآن کہتے ہیں؛ مگر حقیقت میں قرآن مجید سے ان کا کوئی تعلق نہیں، حدیث کی حیثیت قرآن کی تشریح وتوضیح کی ہے، حدیث کا انکار بالواسطہ قرآن مجید کا انکار ہے۔
اور بعض گمراہ وہ ہیں، جو آپ علیہ السلام کے بعد نبوت کو جاری سمجھتے ہیں، اور اس کو مسیحیت کا لبادہ اوڑھاتے ہیں، جیسے قادیانی جو مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح کے پردہ میں نبی کہتے ہیں اور نوپید فرقہ شکیلی مسیح کے پردہ میں شکیل بن حنیف کو نبی مانتے ہیں، آپ علیہ السلام کو غالبا اندازہ تھا کہ بعد میں ایسے لوگ آئیں گے، جو آپ کی ختم نبوت پر حملہ کریں گے اور قرب قیامت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے آنے کی پیشین گوئی کا سہارا لیں گے؛ اس لئے آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام اور امام مہدی– جو نبی نہیں ہوں گے، خلیفہ راشد ہوں گے— کی علامتوں کو کھول کھول کر واضح طور پر بیان فرما دیا؛ لیکن اس کے باوجود دھوکہ دے کر ناواقف نوجوانوں کو اپنا شکار بنایا جا رہا ہے، نبوت محمدی سے متعلق یہ تمام باتیں نواقض ایمان ہیں، یعنی ایک مسلمان کو ایمان سے محروم کر دیتی ہیں۔
موجودہ حالات میں جب کہ مغرب کا خدا بیزار فلسفہ نوجوانوں کو الحاد ومادہ پرستی کی دعوت دے رہا ہے، سنگھ پریوار کی طرف سے ہندوتوا کی تحریک شرک و بت پرستی کی دعوت دے رہی ہے، قادیانیت، شکیلیت اور گوہر شاہیت مسلمانوں کے گنجینۂ ایمان کو آگ لگانے اور ان کو ارتداد کی طرف لے جانے کے لئے کمر بستہ ہے، انکار حدیث کا فتنہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کو اپنا شکار بنا رہا ہے، علماء، مذہبی قائدین اور دینی تنظیموں کی ذمہ داری ے کہ وہ ان فتنوں کی طرف توجہ کریں، ہماری بنیادی کمزوری یہ ہے کہ ہم وضو نماز اور روزہ و حج کی تعلیم دیتے ہوئے تو ارکان کے ساتھ نواقض اور وجود میں لانے والے افعال کے ساتھ ساتھ ان سے محروم کر دینے والی چیزوں کا بھی ذکر کرتے ہیں، ہم ان کو تعلیم دیتے ہیں کہ ان چیزوں کو کروگے تو وضوء ٹوٹ جائے گا، نماز فاسد ہو جائے گی؛ لیکن ہم عقیدہ وایمان کے بارے میں اس بات کو واضح نہیں کرتے، ہم ان کو یہ نہیں بتاتے کہ ایمان میں فلاں فلاں باتیں شامل ہیں اور فلاں فلاں باتوں کی وجہ سے انسان ایمان سے محروم ہو جاتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری تعلیم وتربیت میں ارکان ایمان کے ساتھ ساتھ نواقض ایمان کی اور افعال اسلام کے ساتھ ساتھ اسباب کفر کی بھی وضاحت ہو، لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہ بیٹھ جائے کہ جس نے کلمۂ لاالٰہ الا اللہ پڑھ لیا، وہ مسلمان ہوگیا، چاہے اس کی جو بھی فکر ہو، جو بھی عمل ہو، اگر مدارس اور اہل علم نے اس جانب توجہ نہیں کی تو ارتداد کا فتنہ شدید سے شدید تر ہوتا جائے گا، اللہ تعالیٰ پوری امت اسلامیہ کی اس سے حفاظت فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×