شخصیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

مولانا ابن الحسن عباسیؒ کا انتقال:علم وادب کی محفل سونی ہوگئی!

علم وادب کی دنیا کے لئے یقینا یہ خبر نہایت اندوہ ناک ہے کہ صاحب ِ طرز ادیب ،ممتاز قلم کار ومصنف حضرت مولانا ابن الحسن عباسی صاحب ؒ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔گزشتہ چند دنوں میں بطور خاص پڑوسی ملک میںممتاز علماء ِ کرام کی رحلت ہوئی اور علمی دنیا کابڑا خسارہ ہوا ہے ،مفتی زرولی خان صاحب ؒ بھی انتقال فرماگئے،اور اب یہ افسوس ناک اطلاع کہ مولانا ابن الحسن عباسی صاحب ؒ بھی نہیں رہے۔مولاناابن الحسن عباسی صاحب کی موت کی خبر نے چونکا کر رکھ دیا،ان کی تحریروں اور منفرد اسلوب وانداز میں لکھی جانے والی کتابوں نے ہمیں ان کی محبت کا اسیر اورزبان وقلم کا شیدائی بنادیا تھا،موت ہر انسان کو آنی ہے لیکن بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن کی موت سے دل غم میں ڈوب جاتا ہے اور متاعِ گراں مایہ کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کی وجہ سے بے پناہ رنج والم بھی ہوتا ہے۔مولانا عباسی ؒ انھیں چند شخصیات میں سے ایک تھے۔
حضرت مولانا ابن الحسن عباسی ؒمجھ جیسے ان گنت طالبا ن علوم کی محبوب شخصیت رہی ہیں،انھوں نے اپنے منفرد اسلوب اورانوکھے انداز ِ تحریرسے نہ صرف حیران کیا بلکہ اپنی الفت ومحبت میں گرفتار بھی کیا۔مولانا ابن الحسن عباسی صاحب ؒ سے کتابی اور ادبی اعتبار سے جوتعلق رہااور دور رہ کر ہی ان کی تحریروں سے جو استفادہ کرتے رہے اس کی ایک مختصر روداد پیش ِ خدمت ہے۔مولانا سے شناسائی ان کی پہلی کتاب ’’التجائے مسافر‘‘سے ہوئی اور پھر وہ شناسائی اور ان کے اسلوب ِ نگارش نے ایسے متاثر کیا کہ آج بھی ان کی کتابیں اور تحریریں جہاں ذوقِ ادب میں نئی حلاوت وچاشنی پیداکرتی ہیں وہیں علم وتحقیق اور نادر ونایاب علمی ،تحقیقی موتیوں سے فیض یاب کرتی ہیں۔غالبا ً عربی اول میں حضرت الاستاذ مولاناسید احمد ومیض ندوی (استاد حدیث دارالعلوم حیدرآباد ) کے پاس ایک مولانا آئے ،اور چند نئی کتابیں پیش کیں،جن میں ایک خوبصورت ٹائٹل سے سجی کتاب ’’التجائے مسافر‘‘ بھی تھی ،اسی وقت کتاب کے انوکھے نام، دلکش سر ِ ورق اور اندرون کے قیمتی مضامین نے اپنی گرفت میں لے لیا۔پہلی بار جب دیوبند سے کتابیں منگوانے کا موقع ملا تو اس کتاب کو بھی بڑے شوق کے ساتھ منگوایا۔اس پہلی کتاب نے دل میں مولانا عباسی صاحب ؒ کے قلم اور اسلوب کا فریفتہ بنادیا ،اس کے بعد آپ کی دیگر کتابوں کی تلاش اور اس کے حصول کی فکر سوار ہوگئی ،چناں چہ بہت معلوم کرنے پر ایک کتاب ’’دینی مدارس:ماضی ،حال ،مستقبل‘‘ہاتھ کو لگی ۔درسی اعتبار سے مجھے مقامات ِ حریری پڑھنے کا موقع نہیں ملا،لیکن جب دارالعلوم دیوبند میں داخلہ امتحان دینے کا موقع آیاورکتاب’’ مقاماتِ حریری‘‘ کی تیاری کرنا تھا،تو اُ س کے لئے مولانا عباسی صاحب ؒ کی مقامات ِ حریری کی بے نظیر شرح ’’درس ِ مقامات ‘‘سے تیاری کی سعادت ملی ۔مولانا عباسی صاحب ؒ چوں کہ خود ایک باذوق ادیب تھے ،آپ نے اپنے خوبصورت ادب سے اپنی شرح کو مزین کیا۔
اس کے بعد مولانا کی کتابوں کی تلاش وجستجو بڑھ گئی ،اسی دوران آپ کی کتاب ’’کتابوں کی درسگاہ میں ‘‘ملی اپنے منفرد نام کے ساتھ اس کتاب نے بھی بہت جلد علم وادب میں بہت پذیرائی حاصل کی اور طالبان علوم کے لئے سرمہ ٔ بصیرت بن گئی ،کتاب کا نام بھی دلوں کو اپنی طرف کھینچنے والاہی ہے ،اس میں درج عناوین اور منتخب واقعات اس کی افادیت کو مزید بڑھادیتے ہیں ،بلکہ بہت سوں کو ایک سلیقہ اور انداز ملا کہ مضمون کاعنوان کس طرح رکھا جاسکتا ہے،فکر ونظر میں وسعت اور افکار وخیالات میں جدت بھی آپ کی کتابوں او ربالخصوص اس کتاب سے بہت سوں کو ملی ۔اس کے بعد آپ کی مقبول ِ زمانہ تصنیف ’’متاع ِ وقت اور کاروان ِ علم ‘‘ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔متاع ِ وقت کاروان ِ علم اپنے موضوع پرجامع،خوبصورت اور بے مثال ہے اوراردوادب کا شاہ کار ہے۔تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات کا تعارف اور وقت کے تئیں ان کی فکر مندی کو جس البیلے انداز میں آپ نے تحریرکیا ہے وہ آپ کا منفرد کمال ہے۔کتاب پر بہت سے اکابر علماء کے تاثرات موجود ہیں جن میں حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ اپنے تاثرات میں رقم طرازہیںکہ:’’۔۔۔۔تقریظ کااصراربڑھاتو بین بین یہ صورت ذہن میں آئی کہ جستہ جستہ چند صفحے دیکھ کر صرف ان کے بارے رائے لکھ دی جائے ،لیکن یہ ابتدائی صفحے ہی ’’وقت لیوا‘‘ ثابت ہوئے ۔ہر مضمون کے کے بعد والا مضمون اپنی طرف کھینچتاچلا گیا،اور جب کتاب ختم ہوئی تو محسوس ہوا کہ اس نے وقت لیا کم اور زیادہ ہے،کیوں کہ اس کتاب نے مجھے اپنے صبح سے رات تک کے مشاغل کا احتساب کرنے پر باربار مجبور کیا۔‘‘کتاب نے اپنی مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیااور ہر طالب کے لئے یہ کتاب متاع گراں ثابت ہوئی اور ان شاء اللہ ہوتے رہے گی۔
مولانا ابن الحسن عباسی صاحب ؒ کی ایک اور قیمتی کتاب ’’کرنیں ‘‘ ہے،جو آپ کے بیش قیمت مضامین کا خوبصورت گلدستہ ہے۔اس کتاب میں اردو کے ممتاز ادیب مشفق خواجہ صاحب اپنے تاثرات میں تحریر فرماتے ہیں:’’۔۔۔۔اس مایوس کن صورت ِ حال میں جو دوچار کالم نگار دونوں ہاتھوں سے اپنی دستار تھامے ہوئے کسی اعلی مقصد کے تحت قرطاس وقلم سے اپنا تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں ،اُ ن میں مولانا ابن الحسن عباسی کانا م بھی شامل ہے۔۔۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مولانا جو پیرایہ ٔ اظہار اختیارکرتے ہیں ،وہ اردو صحافت میں ایک بالکل منفرد اسلوب رکھتا ہے۔ایسی سدا بہار ادبیت اخبارات کے صفحوں پر کبھی کبھار نظر آتی ہے۔‘‘
انوکھے نام کے ساتھ ’’داستاں کہتے کہتے ‘‘ مولانا کی چند ماہ پہلے ہی منظر عام پر آنے والی کتاب ہے۔مولانا کی خوبی اور امتیاز تھا کہ آپ کتاب کا نام بھی دلچسپ منتخب فرماتے ہیں ،کتاب کے عناوین بھی دلفریب ہوتے اور تحریر تو اپنی جگہ تمام تر علمیت وادبیت کے ساتھ آراستہ ہوتی۔آپ کی زندگی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اپنی وفات سے چند ماہ قبل مشاہیر اہل علم کی مطالعاتی زندگی کو جمع فرمایااور ماہ نامہ النخیل کراچی کا یادگار نمبر’’یادگار ِ زمانہ شخصیات کا احوال ِ مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے عالم ِ اسلام کی تقریبا ۸۰ شخصیات کی تحریروں کو شامل کرکے شائع فرمایا۔بھارت میں اس کتاب کے طبع ہونے کے بعد ۱۹ اکٹوبر۲۰۲۰ء کو بندہ نے یہ کتاب حاصل کی،اس کتاب کے ملنے پر ایک تاثراتی تحریر راقم نے لکھی تھی جس میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ’’ میرے نزدیک اس کتاب کو حاصل کرنے کی جستجو اور فکر وشوق میں مولانا ابن الحسن عباسی صاحب کا نام اہم رہا ہے ،کیوں کہ جب انھوں نے اس کو اپنی فکروں کامرکز بنایا ہے تو لازمی طور پراس کی اپنی خصوصیت وانفرادیت ضرور ہوگی۔‘‘کسے معلوم تھا کہ اس عظیم وتاریخی دستاویز کو بڑی محنت وعرق ریزی کے بعد منظر عام پر لانے والی عظیم شخصیت ہمارے درمیان سے رخصت ہوجائے گی۔آپ کی تحریروں سے دلچسپی کے بعد آپ کو دیکھنے کی بہت خواہش رہی ،یہاں تک کہ پہلی مرتبہ مولانا الیاس گھمن صاحب کے ایک پروگرام میں آپ کا ویڈیو بیان دیکھا ،بے پناہ خوشی ہوئی،دل کی حسرت پوری ہونے پر جذبہ ٔ دل کا عالم دیگر تھا۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں سرحدوں کے فاصلے ختم ہوگئے اور پھر فیس بک پر آپ کی تصویر کے ساتھ اکاونٹ ملااور پھر وہاں سے مسلسل آپ کی تحریریں ،تبصرے،تذکرے پڑھنے کوملتے رہے۔جب کل انتقال کی خبر ملی تو واقعہ کی تحقیق کے لئے آپ کے اکاونٹ کودیکھاتاکہ اس کی تصدیق ہو،جب بہرحال مسلسل یہ خبر گشت کرنے لگی تو دل بڑا اداس اور غمگین ہوا کہ جس شخصیت کے علم وادب سے ابھی دنیا کو بہت کچھ فیض پانا تھا وہ اتنا جلد رخصت ہوگئی۔
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
مولانا ابن الحسن عباسی اہل ِ علم میں اپنی علمیت اور تصنیف وتالیف کی وجہ سے بلند مقام رکھتے،بہت سے فضلاء کے لئے آپ کی تحریریں مشعل را ہ ہیں ،ان کی تحریروں اور اسلوب وانداز کو دیکھ کر طلباء نے لکھنا سیکھا،قلم پکڑنا آنا،زبان وادب کی حلاوت محسوس کی،ذوق ِ تحریر کو پروان چڑھانے کا جذبہ پیدا ہوا،اور جدت کے ساتھ ندرت ،علم کے ساتھ ادب کو ایک لڑی میں پیرو کو شو ق نمایاں ہوا۔
آپ کی ولادت ۱۹۷۲۔ء میں ہوئی۔آپ کا اصل نام مسعود عباسی تھا،قلمی نام ابن الحسن استعمال فرماتے۔دارالعلوم کراچی سے ۱۹۹۳ء میں فراغت حاصل کی،۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۰ ء تک جامعہ فاروقیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔پھر ۲۰۱۰ء سے وفات تک جامعہ تراث الاسلام میں۔سولہ سال تک وفاق المدارس کے ماہانہ ترجمان کے بانی مدیر بھی رہے ۔(حالات از:عبدالمتین منیر ی صاحب)آپ نے بڑی محنت کے ساتھ وفاق المدارس کی تاریخ ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،ساٹھ سالہ تاریخ‘‘کے نام سے جمع فرمائی۔اس کے علاوہ بھی آپ کی تصنیفات موجود ہیں۔اللہ تعالی غریق ِ رحمت فرمائے،بلند درجات عطا کرے ،اور آپ کی خدمات کو قبول فرماکر ثواب جاریہ بنائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×