اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

سال ِ نوکی آمدجائزہ اور احتساب کی ضرورت

سال دوہزار اکیس کی شروعات ہوگئی،اوربہت سی یادیں اور باتیں ذہن ودل پر نقش کرکے سال دوہزار بیس رخصت ہوگیا۔سال کی آمد ورفت اور دن ورات کی تبدیلیاں انسانوں کے لئے سبق اور پیغام ہیں،عبرت وموعظت کے بہت سے پہلوگردش ِلیل ونہار میں پوشیدہ ہیں ۔انسانی زندگی برف کی طرح پگھلتی ہے اور انسان آہستہ آہستہ اپنے انجام کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔نئے سال کی آمد پر وقتی جشن ومسرت کی بجائے جائزہ واحتساب کرنا چاہیے،نیا سال زندگی پر ایک نظر دوڑانے اور محاسبہ کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ نیا سال کن باتوں کا پیغام دیتا ہے اس کا ایک سرسر ی جائزہ لیتے ہیں تاکہ زندگی کی قیمتی بہاریں ضائع ہونے کے بجائے کارآمد ہو جائیں،اور مقصد ِ حیات کی تکمیل کے ساتھ جہا نِ رنگ و بو سے رخصت ہوں۔
زندگی ایک نعمت ہے:
زندگی اللہ تعالی کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے،انسان صرف ایک بار کے لئے دنیا میں بھیجا جاتا ہے ،اور اپنی دنیا وآخرت کو سجانے اور خوب سے خوب سنوارنے کااسے اختیار دیدیا جا تا ہے ،جس نے اپنی زندگی کی قدر کی اور لمحات ِ زندگی کو غنیمت جانایقیناکامیابی اور کامرانی ان کے قدم چومے گی ،قرآن کریم فرمایا گیا کہ جب انسان دوزخ میں چلا جائے گا اور چیخ پکا ر کرتے ہوئے نکلنے کی تمنا کرے گا تو ارشاد ہو کہ :بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچناسمجھنا ہوتا،وہ سمجھ لیتا؟۔( الفاطر:۳۷) ہر روز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اعلان کرتا ہے کہ :آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے،آج کے بعد میں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔حضرت علی ؓ فرمایا کرتے کہ : یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں،اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایاکہ : ائے ابن آدم!تو ایام ہی کا مجموعہ ہے،جب ایک دن گذرگیا تو یوں سمجھ تیرا یک حصہ بھی گذرگیا۔(قیمۃ الزمن عند العلمائ:۲۷)
بہر حال زندگی کو بنانے اور اچھائیوں میں لگانے کا ایک سنہری موقع اللہ تعالی نے عمر کی شکل میں عطا فرمایا،جتنا انسان ا س کو رب کی مرضیات میں لگا ئے گا اتنا ہی زیادہ اس کی زندگی کارآمد اور نفع بخش ہوگی ،اور جتنا زیادہ اس کو لایعنی اور فضول چیزوںمیں کھپائے گا نقصان اور خسران اٹھا نا پڑے گا۔نبی ﷺ نے انسان کے اسلام کی خوبی اور حسن بھی یہ بتلا یا ہے کہ وہ لایعنی اور بے کار چیزوں سے اجتناب کرے ۔(ترمذی:۲۲۵۰)زندگی کی قدر وقیمت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کو مغربی تہذیب ،اور اس کے بے ہودہ رسومات میں ضائع کرنے کے بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پروان چڑھایا جائے۔
کوتاہیوں کی تلافی:
زندگی میں کئی ایک واقعا ت ایسے ہوتے ہیں جس سے یقینا انسان کو اپنی کو تاہیوں کا احساس بھی ہوتا ہے اور نئے تجربا ت حاصل ہوتے ہیں ، جس کو مشعل ِ راہ بنا کر وہ اپنی زندگی کو سدھار اور اپنے حالا ت کو سنوار سکتا ہے۔نیا سال دراصل اس بات کی طرف توجہ دلا تا ہے کہ سابق میں اس نے کیا کیا کوتا ہیاں کیں اور کون کون سے غلطیا ں اس سے سرزد ہوئیں؟؟تا کہ آئندہ وہ ان کا ازالہ کرکے نئی شروعا ت کرسکے ،کیوں کہ ایک مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ ایک ہی سوراخ سے دومرتبہ ڈھنساجائے،اور جس طرح کوتا ہیوں کا احساس دنیوی امور میں ضروری ہے اسی طرح دینی اعمال ،عبادات و طاعات میں ہونے والی کوتاہیاں بھی ہیں جس کو بندہ سدھار سکتا ہے ،اور عمل واطاعت کی راہ میں جتنی سستی ولاپرواہی اس نے کی اس کو ختم کرکے ایک نئی عملی زندگی کی شروعات کرسکتا ہے۔
نئے عزائم و ارادوں کی ضرورت:
نیا سال وقتی مسرتوں اور خوشیوں کے جذبات لے کر ہی نہیں آتا ہے بلکہ ایک نئے سفر کی شروعا ت،اورتازہ دم ہو کر زندگی کو آگے بڑھانے کے شوق کو بیدار بھی کرتا ہے ،دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ پر عزم اور بلند حوصلہ حضرات ِ انبیا ء کرام گذرے ہیں ،جن کی پوری زندگی مضبوط عزائم اور بادی مخالف کے مقابل دیوار ،ا ٓہنی بن کر گذری ہیں ،اور انہوں نے اپنے متبعین کو بھی انہیں عزائم سے آراستہ کیا،خود نبی کریم ﷺ کی ذات ِگرامی اس کی دلیل ہے ،کن حالا ت میں اور کیسی مخالفتوں میں آپ نے دین ِ حق کی تبلیغ کی اور انسانیت تک خدا کے پیغام کو پہنچا یا ؟عزائم اگر سرد ہوجائیں ،اور ارادوں میں تھکن آجائے تو پھر کامیابی و کامرانی ایک ادھورا خواب بن کر رہ جائے گی۔اسی لئے شاعر نے کہا کہ:
؎ ٹہرو نہ ارادوں کی تھکن جاگ پڑے گی
ایک لمحہ کو رکنا بھی قیامت ہے سفر میں
اس لئے نیا سال خفتہ عزائم کو بیدار کرنے ،سوئے ہوئے جذبات کو جگانے کا پیغام دیتا ہے ،مضبوط قوتِ ارادی کے ساتھ کچھ کرنے اور غفلتوں سے دامن جھاڑ کر میدان ِ عمل میں رنجہ ہونے کی دعوت دیتا ہے ۔
مقصد ِ حیات کی تکمیل:
نیا سال انسان کو مقصدِ حیات کی تکمیل کا پیغام دیتا ہے ۔دنیا میں انسان کو عبادت و بندگی کے لئے بھیجا گیا ، دنیا کی تمام تر رونقیں ،اور یہاں کی چمک دمک قدم قدم پر انسا ن کو خالقِ حقیقی کی طرف بلاتی ہیں ،اور اس کی عظمت کو کبریائی کے گنگاتی ہیں۔اللہ تعالی اس سارے جہاں کو انسانوں کے لئے بنایا اور خود انسان کو اپنی بندگی کے لئے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے :اور میں نے جنات اور انسانوں کواس کے سوائے کسی اورکام کے لئے نہیں پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔( الذٰریٰت:۵۶)نیک اعمال انجام دینے کے لئے یہ سارا نظام بنایا۔اس کو قرآن کریم میں ذکر کیا گیاکہ:جس نے زندگی اور موت اس لئے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میںزیادہ بہتر ہے۔( الملک:۲) ایک جگہ فرمایا:یقین جانو کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں ،ہم نے انہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لئے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے ۔( الکہف:۷)
وقت کی قدر دانی:
نیا سال وقت کی قدر دانی کا سبق دیتا ہے کہ عمرِ عزیز رفتہ رفتہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے ،ایک دن وہ بھی آئے گا کہ انسان اپنی حیات ِ مستعار کی بہاریں پوری کرکے پروردگار عالم کی بارگاہ میں پہنچ جائے گا ،جس نے بھی وقت کی قدر کرتے ہوئے اس کا سہی استعمال کیا لایعنی مشاغل سے بچا کر ضروری کاموں میں خود کو لگایا وہ انسان دنیا میںبھی کامیاب رہے اور آخرت میں کامیاب رہے گا۔وقت انسان کے پاس موجود ہوتا ہے اور انسا ن اس کی قدر نہیں کرتا پھر جب وقت ختم ہوجاتا ہے اور مشاغل اور مصروفیات آجاتی ہیں تو وہ پھر تھوڑی سی فرصت کے لئے تڑپتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:دو نعمتیں ایسی ہیںکہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں ایک صحت ،اور دوسری فراغت۔(بخاری:۵۹۶۰)عربی شاعر نے کہا کہ:
؎ والوقت انفس ماعنیت بحفظہ واراہ اسھل ماعلیک بضیع
یعنی وقت ایک نفیس شی ہے جس کی حفاظت کا تمہیں مکلف بنایاگیا ،جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی چیز تمہارے پاس سب سے زیادہ ضائع ہورہی ہے۔مولانا محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب نیرنگ خیال میں وقت کی بڑی خوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :وقت ایک پیرہن کہن سال کی تصویر ہے ،ا س کے بازؤں میں پریوں کی پرواز لگے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑتا چلاجاتا ہے ، ایک ہاتھ میں شیشہ ساعت ہے کہ جس سے اہل عالم کے لوگوں کی کشت امید یا رشتہ عمر کوکاٹا جاتا ہے یاظالم خونریز ہے کہ جو دانا ہیں اسے پکڑ کر قابو میں کرلیتے ہیں لیکن اوروں کی چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں کہ اس کی چوٹی آگے رکھی ہے ،ا س میں نکتہ یہ ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ قابو میں نہیں آسکتا ،ہاں جو پیش بین ہو وہ پہلے ہی سے روک لیا۔( نیرنگ خیال:۱۱بحوالہ وقت کی قدر:۲۴)الغرض نیا سال وقت کی قدر کرنے کی تعلیم دیتا ہے ،گذرے ہوئے وقت سے سبق لیتے ہوئے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کی ترغیب دیتا ہے ،اور خاموش پیغام دیتا ہے اگر ناقدری کی جائے تو موجودہ وقت بھی ماضی کا حصہ بن جائے گااور انسان کو سوائے افسوس و ندامت اور شرمندگی کے کچھ نہیں آتا ۔
آخری بات:
سال نو بہت سے پیغامات دنیا میں رہنے والے ہر انسا ن کو دیتا ہے ،اس میں کسی کی تخصیص نہیں اور نہ کسی ملک اور علاقہ کی تفریق !!! لیکن بطور خاص ایک مسلمان جس کے پاس اللہ تعالی کے فرامین اور نبی کریم ﷺ کی ہدایات ہیں ا ن کے لئے ایک عبرت کی ضرورت ہے۔مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا ہے وہ غیروں کی نقالی میں اپنی تہذیب وکردار کو فراموش کرے اور اپنے مذہب کی تعلیمات کو پس ِ پش ڈال دے ۔اور دیکھادیکھی میں اورو ں کی طرح نئے سال کا جشن منائے ،اور روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے خوشی ومسرت کے جو طریقے ایجاد کئے ان کو اپنائے ۔اس موقع پر ایک مسلمان کو اپنے اسلامی سال کی شروعات سے سبق لینا چاہیے کہ وہ کس انداز میں شروع ہوتا ہے اور قربانیوں شہادتوں اور ایثار ووفاداریوں کاپیغام دیتا ہے ،اور کس قدر خاموشی اور سادگی کے ساتھ سال کا آغاز ہوتا ہے ۔وقتی ،عارضی اور مادی خوشیوں کے بجائے نگاہوں کے سامنے دائمی اور لافانی کامیابیوں اور مسرتوں کو رکھنا چاہیے کہ جس کے لئے ہر قربانی دینا اور خواہش کو تج دینا آسان ہوتا ہے ۔نیا سال عبرت اور موعظت کا پیغام ہے کہ اس کے ذریعہ عمر مقرر کے ماہ و سال میں کمی ہوئی ہے ،اور انسان اپنی آخری منزل کی طرف قریب ہورہا ہے اور بہت جلد وہ وقت بھی آجائے گا کہ وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ اور ماضی کا ایک جز بن کر رہ جائے گا۔اس لئے نئے سال کے موقع پر ہمارا معاشرہ جو دن بدن بد تہذیبی کا شکار ہورہا ہے اور اس عنوان پر جو بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے اور اخلاق و کردار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے اس سے بچا جائے اور نوجوانوں کو روکا جائے ۔
؎ غافل تجھے گھڑیا ل یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×