اسلامیاتسیاسی و سماجیمضامین

مسلمانوں کی موجودہ ذلت وپستی کا سبب

از افادات:امیر ملت نمونۂ اسلاف حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ، مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند

حالاتِ حاضرہ کے تناظرمیں امتِ مسلمہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور جن حالات سے پوری امتِ مسلمہ دوچارہے، اُن سے نکلنے کےلیے اور اِن صبرآزما حالات میں ثابت قدم رہنے کےلیے کس نسخۂ کیمیاکی ضرورت ہے، کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺ کی روشنی میں چندباتیں آپ کے سامنے عرض کروںگا۔
پیش آمدہ مسائل کی پیشین گوئی:
جوصورتِ حال پوری دنیامیں ہے یہ کوئی غیرمتوقع چیز نہیں ہے، حضرت نبیٔ اکرم نے بہت پہلے اس کی پیشین گوئی فرمادی تھی کہ ایک وقت ایسا آئےگا جب دنیاکی ساری قومیں مسلمانوں کےخلاف اِس طرح متحد ہوجائیں گی اور اِس امت کو نقصان پہنچانے کے لیے، ان کو زَک دینے کےلیے، اِن کو ٹھیس پہنچانے کےلیے؛ بلکہ ان کاوجود ختم کرنے کےلیے اپنے باہمی نظریاتی، مذہبی، سماجی اور سیاسی اختلافات کےباوجود ایک مسئلےپر سب متفق ہوجائیںگے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اُن کاایجنڈا ایک ہوگا، یہ وقت آئےگا اور آپﷺ نے بڑی محسوس مثال دےکر سمجھایا کہ ایک وقت آئےگا کہ ساری قومیں مسلمانوں کےخلاف اِس طرح ایک دوسرےکو دعوت دیںگی، جس طرح دسترخوان پر کھانے کےلیے کوئی جماعت بیٹھے اور اپنے ساتھیوںکو آوازدے: آؤ، یہ چیز بہت لذیذ ہے، یہ سالن بہت عمدہ ہے، ذرا یہ بھی لےلو، ذرا یہ بھی چکھ لو، اِس طرح مسلمانوں کو لقمۂ تر بنانے کےلیے ساری کی ساری قومیں آپس میں ایک دوسرےکو دعوت دیںگی۔
کثرتِ تعداد کے باوجود بے حیثیت ہونا:
یہ بات جب رسول اللہﷺ نے فرمائی ہے، اُس وقت مسلمان اگرچہ تعدادکے اعتبارسے بہت مختصرتھے؛ لیکن اُن کا ایمان پہاڑسےزیادہ مضبوط، اللہ کے اُوپر اُن کا بھروسہ، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ اور اسلام کے ایک ایک حکم پر عمل کرنےکے سلسلےمیں اُن کاجذبہ اِتناغیرمتزلزل تھا اور اُن کی دھاگ اِس طرح بیٹھی ہوئی تھی کہ اُن کےلیے یہ بات عجیب وغریب تھی، حیرت کی بات تھی کہ ایسابھی وقت آئےگا کہ مسلمانوں کے خلاف ساری قومیں متحدہوجائیں گی؟ آخر اِس کاسبب کیاہوگا؟ انھوں نے خیال کیا کہ شاید مسلمان اُس زمانےمیں تعدادکے اعتبارسے بہت تھوڑےہوںگے، تو بعض صحابہL نے پوچھا: ’’وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ؟‘‘ (کیا اُس زمانےمیں ہم لوگ بہت تھوڑےہوںگے؟) دشمنوں کے مقابلے ہماری تعداد کم ہوگی؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ‘‘ (نہیں! تم تھوڑے نہیں ہوگے، تمہاری تعداد بہت ہوگی) ’’وَلٰکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ‘‘ (لیکن تعداد کی کثرت کے باوجود تمہاری حیثیت ایسی ہوگی جیسے سیلاب کے زمانےمیں پانی کی سطح پر بہنےوالا کوڑاکرکٹ ہوتاہے، بہترین مثال دی آپﷺ نے، کہ سیلاب آیاہواہو ہرطرف سے بارش کا نالےکاپانی ایک ندی میں اکٹھا ہورہاہو اور اپنےساتھ جھاڑجھنکاڑ، کوڑاکرکٹ بہاکر لےآئے، تو یہ کوڑاکرکٹ مقدار کے اعتبارسے اتنا زیادہ ہوتاہے کہ پانی کی پوری سطح پر چھا جاتاہے؛ لیکن اُس کے باوجود اُس کی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے، نہ اُس کا کوئی وزن ہوتا ہے، جدھر بہاؤ اُس کو لےکرجائے بہتا چلاجائے، کہیں کوئی رکاوٹ آئی ٹکراگیا، کہیں نشیب آیا نیچےگرگیا، کہیں موڑآیا گھوم گیا، کوئی اُس کو کوڑی کےبھاؤ لینے کےلیے تیار نہیںہوتا، تو مقدارکے اعتبارسے سیلاب کا بہنےوالا کوڑا بہت ہوتاہے؛ لیکن حیثیت کے اعتبارسے اُس کی کوئی قدروقیمت نہیں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس زمانےکا میں تذکرہ کررہاہوں اُس زمانےمیں مسلمان تعدادکے اعتبارسے بہت ہوں گے؛ لیکن حیثیت وہی ہوگی جوسیلاب کےاندر پانی کی سطح پر بہنےوالے کوڑاکرکٹ کی ہوتی ہے۔ اور صورتِ حال کیا ہوگی؟ دوباتیں فرمائیں: ’’وَلَيَنْزِعَنَّ اللّٰهُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ‘‘ (اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوںسے تمہاری ہیبت نکال دیںگے) ’’وَلَيَقْذِفَنَّ اللّٰهُ فِيْ قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ‘‘ (اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں کمزوری پیداکردیںگے)۔
وہن کسے کہتے ہیں؟
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بندوں کےدل اللہ تعالیٰ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں، جدھرچاہے اُسے پھیردے، وہی دلوں میں قوت پیدا کرتےہیں وہی دلوں میں کمزوری لےآتےہیں، وہی کسی کا رعب ڈال دیتےہیں وہی کسی کارعب نکال دیتے ہیں، فرمایاکہ بڑی تعدادمیں مسلمان ہوں گے؛ لیکن دشمنوںکے دلوںسے اُن کی ہیبت نکل گئی ہوگی اور خود اُن کے دلوں میں کمزوری پیداہوچکی ہوگی، اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں وہن ڈال دےگا، تو صحابہL نے پوچھا: ’’وَمَاالْوَهَنُ يَارَسُوْلَ اللّٰهِ؟‘‘ (آخر اُس بزدلی اور اُس کمزوری کی وجہ کیاہوگی؟) آپﷺ نے فرمایا: ’’حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ دووجہیںہوںگی: ایک دنیاسے محبت اور دوسرے موت کی کراہیت، یہ حاصل ہے اِس حدیث کا۔
مجموعی اعتبار سے مسلمانوں کی اکثریت:
آج مسلمان تعدادکے اعتبارسے پوری دنیامیں دوسری بڑی اکثریت کےاندر اگر عیسائیوں کو جو خواہ مذہبی طورپر عیسائی ہوں یاقومی مردم شماری کے اعتبارسے اپنےکو عیسائی کہتےہوں اُن سب کو ایک مذہبی یونٹ تسلیم کرلیاجائے تو اُس کےبعد پوری دنیامیں سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے، کم ازکم بائیس اسٹیٹ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں خود اُن کی حکومت بنے کئی ایسےممالک ہیں کہ جہاں اُن کی بہت بڑی تعدادہے، اگر پوری دنیا کے مسلمانوں کو شمار کیاجائے تو اُن کو قلیل نہیں کہاجاسکتا، حضورﷺ نے فرمایا کہ: ’’بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيْرٌ‘‘ (تم بہت ہوگے)۔
اسباب ووسائل کے باوجود وہن کیوں؟
آج کے جوحالات ہیں وہ بتارہےہیں کہ واقعی اِتنی حکومتیں، اتنی تعداد اور دولت کے سرچشمے مسلمانوں کے پاس ہیں، پٹرول کے کنویں ان کےپاس ہیں، دولت کی فراوانی ہے، عددی اکثریت ہے؛ لیکن آج پوری دنیامیں مسلمانوںکا کوئی وزن نہیں ہے، کوئی اِن کی طاقت نہیںہے، اِس کی بنیاد کیاہے؟ رسول اللہﷺ نے دوباتیں ارشاد فرمائی ہیں، حقیقت میں وہی ہمارے لیے غور کرنےکی چیزہے۔ دواسباب ہیں، ایک دنیا کی محبت اور دوسرے موت کی کراہیت۔
دنیا کی محبت اور اُس کی حقیقت:
دنیاکی محبت کا مطلب کیاہوا؟دوچیزیں ہیں، رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِاٰخِرَتِهِ وَمَنْ أَحَبَّ اٰخِرَتَهُ أَضَرَّ بِدُنْيَاهُ فَاٰثِرُوْا مَايَـبْقٰى عَلٰى مَايَفْنٰى‘‘.
(مسندأحمد:٢٠٢٢٧)
ارشاد فرمایاکہ: جو آدمی اپنی دنیاکو محبوب بنائےگا اُسے اپنی آخرت کا نقصان اٹھانا پڑےگا اور جو اپنی آخرت سے محبت کرےگا اُسے دنیاکانقصان برداشت کرناپڑےگا، دونوں چیزیں برابراور یکساںطورپراُس کے ہاتھ لگ جائیں دنیاکے اعتبارسےبھی کوئی نقصان نہ ہو اور آخرت کےلیے مکمل کامیابی حاصل ہوجائے، یہ ہونہیں سکتا، دونوںمیں تقابل ہے، کرناکیاہے؟ فرمایا: ’’فَاٰثِرُوْا مَايَـبْقٰى عَلٰى مَايَفْنٰى‘‘ (جوچیز باقی رہنےوالی ہے اُس کو ترجیح دو اُس چیزکے اوپر جو ختم ہوجانےوالی ہے)، یعنی آخرت کی کامیابی، وہاںکی سرخ روئی، وہاںکی عزت جن چیزوںسے حاصل ہوسکتی ہے اُن کو اختیارکرو۔
آپﷺ نے ارشادفرمایا: ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ‘‘ (دنیاکی محبت ہرخطا اور ہرگناہ کی بنیادہے)۔ آدمی جھوٹ کیوںبولتاہے؟ بےایمانی کیوں کرتاہے؟ حقوق طلب کیوں کرتاہے؟ خوںریزی کیوںکرتاہے؟ کوئی نہ کوئی دنیوی منفعت اس کے پیشِ نظر ہوتی ہے اور اسلامی تعلیمات، شرعی احکام، اُن پر عمل کرنا دشوار کیوں ہوجاتا ہے؟ اس لیے کہ اُن اعمال کا جوصلہ آخرت میں ملنےوالاہے، اِن پر جوکامیابی کا فیصلہ ہے اللہ کی طرف سے وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوچکاہے۔
تشخیص کے بعد تجویز:
میرےبھائیو! رسول اللہﷺ نے جہاں آنےوالے حالات کی پیشین گوئی کی وہیں مرض کی بھی نشان دہی کی ہے اور جب مرض کی نشان دہی ہوگئی تو اِسی کے ضمن میں اس کا علاج بھی آگیا کہ آج ہمیں سب سے پہلے اپنی زندگی میں تبدیلی لانےکی ضرورت ہے، وہ تبدیلی کیاہوگی؟ اسی ضمن میں ایک بات اور عرض کرتاچلوں، ساری دنیا مسلمانوں کے خلاف ہے اور اسلام کےخلاف ہے ہرمحاذپر سیاسی اعتبارسے اور اسی کے ساتھ ساتھ جتنی کوششیں ہوسکتی ہیں اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنےکے لیے، ہرسطح پر اُن کوششوں کو، ان ذرائع کو اختیار کیاجارہاہے، استعمال کیاجارہاہے اور یہ زمانہ پروپیگنڈے کا ہے۔ گوبلس کا جوفلسفہ تھا کہ جھوٹ اتنابولو کہ خود جھوٹ بولنےوالےکو شبہ ہونےلگے کہ کہیں یہ سچ تو نہیں ہے؟
ماحول کا اثر:
آج جھوٹ مسلسل اور اتنی قوت کےساتھ اسلام اور مسلمانوں کے بارےمیں بولا جارہاہے، پروپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ اچھےخاصے لوگ بھی شک وشبہ کے شکار ہوجاتے ہیں۔ بڑی عجیب وغریب بات ہے کہ کچھ دنوںپہلے دیندار مسلمان ڈاڑھی، کرتا، ٹوپی والے معزز وقابلِ اعتماد سمجھے جاتےتھے اور آج ماحول ایسا بنادیاگیا ہے کہ جودینی شکل وصورت والے ہیں، ڈاڑھی کرتاوالے ہیں، دیندار لوگ ہیں، اُن کو مشکوک قرار دےدیاگیا اور جن لوگوں کو پہلے ناقابلِ اعتماد سمجھاجاتاتھا، آج وہ قابلِ اعتماد ہوگئےہیں، یہ نتیجہ ہے اس پروپیگنڈہ کا۔ کبھی مسلمانوںکو دہشت گرد کہاجاتاہے، کبھی مدارس کو دہشت گردی کا اڈّہ کہاجاتاہے؛ لیکن ہماری طرف سے اسلام کی، مدارس کی اور مسلمانوںکی صحیح تصویر پیش کرنےکی کوشش جس سطح پر ہونی چاہیے وہ نہیں ہورہی ہے، مثبت جواب یہ ہے کہ ہم اپنی عملی زندگی ایسی بنائیں کہ ہمیں دیکھ کر لوگ اسلام کو سیکھیں، ہم سے اسلام کوجانیں۔
اسلام میں حسنِ معاشرت کی تعلیم
میں زیادہ تفصیل کےساتھ گفتگو نہیں کرپاؤں گا؛ لیکن ہمیں زندگی گذارنےکا جو طریقہ عطا کیاگیا ہے کچھ تو وہ اعمال ہیں جو ہماری اپنی ذات سے ہیں: عبادات ہیں، طاعات ہیں، فرائض وواجبات ہیں، کچھ محرمات ہیں، کچھ کرنے کے کام ہیں، کچھ نہ کرنےکے؛ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ بہت سے اعمال واخلاق وہ ہیں جس میں مسلمان اور غیرمسلم کی کوئی تمیز نہیں ہے، ہر ایک کےساتھ یکساں معاملہ۔ مثال کے طورپر تجارت میں دیانت داری اور ایمان داری کامعاملہ، کسی کےساتھ ہمارا لین دین ہورہاہو، اُس کو اطمینان ہے کہ یہ مسلمان ہے؛ لہٰذا یہ ہم کو کوئی دھوکا نہیں دےگا، اِس سے کوئی نقصان نہیں پہنچےگا۔ اسی طرح پڑوسیوں کےساتھ حسنِ اخلاق کی جوتعلیم دی گئی ہے، رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
’’وَاللّٰهِ لَايُؤْمِنُ، وَاللّٰهِ لَايُؤْمِنُ، وَاللّٰهِ لَايُؤْمِنُ، قِيْلَ: مَنْ يَارَسُوْلَ اللّٰهِ؟ قَالَ: ’’مَنْ لَايَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ‘‘.
’’فرمایاکہ بخدا! وہ مسلمان نہیں، بخدا! وہ مسلمان نہیں، بخدا! وہ مومن نہیں، پوچھا گیا کون یارسول اللہ! فرمایا کہ جس کا پڑوسی اُس کی اذیت سے محفوظ نہ رہے‘‘۔
اِس میں کوئی امتیاز نہیںہے کہ وہ پڑوسی مسلمان ہے، یہودی ہے، عیسائی ہے یاکسی اور مذہب سے تعلق رکھنےوالا ہے، جوپڑوسی ہے، پڑوسی ہونےکی بناپر ہمارے حسنِ سلوک کا وہ مستحق ہے۔قرآن نے تو فرمایاکہ پڑوسی کی بھی مختلف قسمیں ہیں ﴿الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَالْجَارِالْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ایک پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہے اور رشتہ دار بھی، ایک پڑوسی وہ ہے جوصرف پڑوسی اور اجنبی ہے، اور ایک وہ شخص ہے جو مستقل پڑوسی نہیں ہے، تھوڑی دیر کے لیے آپ کے پہلو کا ساتھی بن گیا ہے، ایک ٹرین میں آپ سفر کررہے ہیں، آپ کی سیٹ پر، آپ کے بغل میں جوشخص بیٹھا ہوا ہے، فلائٹ میں آپ سفرکررہےہیں، آپ کے بازومیں جوآدمی بیٹھاہواہے وہ آپ کا پڑوسی ہوگیا۔
اسلام کے علاوہ کسی نے یہ حق چندمنٹ کے پہلومیں بیٹھنےوالےکو نہیں دیاہے، یہ قرآن کی تعلیم ہے، آپ یہ محسوس کریں کہ ہمارا مذہب ہم کو یہ سکھلاتاہے، اُس کو یہ بات محسوس ہونی چاہیے کہ ایک اجنبی شخص کے مقابلے میں، ایک دوسرےکے مقابلےمیں مسلمان کے بغل میں بیٹھنےمیں مجھ کو عافیت ملےگی، راحت ملےگی، رسول اللہﷺ نے اس کابھی حق بیان فرمایا، قرآن نے اس کاحق بیان فرمایا۔ ہمارے بغل میں ایک شخص نماز پڑھ رہاہے، حکم یہ ہے کہ بازوکو نرم رکھو، آپ کے بغل میں جونمازی کھڑاہواہے تو اِتنے ٹائٹ مت رہوکہ اُس کو تکلیف ہو، خود دب جاؤ، سجدےمیں جاؤتو تھوڑاسمٹ جاؤ، مجلس کےاندر بیٹھو ﴿اِذَاقِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوْا﴾ آپ مجلس میں بیٹھےہوئے کہ کچھ لوگ آگئے، تھوڑا سمٹ کر اُن کو جگہ دےدیجیے، چند منٹ کےلیے ایک آدمی آیاہے، ہرچیزکےاندر اپنے مقابلے میں دوسروںکو ترجیح دی جائے۔
چندواقعات:
(۱) واقعات تاریخ کےاندر بھرے پڑےہیں، امام ابوحنیفہb کے زمانے میں اُن کا ایک غیرمسلم پڑوسی تھا یہودی، جوشراب پیتاتھا، او ر جب رات کو شراب میں دُھت ہوکر گھرمیں آتاتو وہ شعر پڑھاکرتاتھا:
أَضَاعُوْنِيْ وَ أَيَّ فَتًی؁ أَضَاعُوْا
لِيَوْمِ كَرِيْهَةٍ وَسِدَادِ ثَغْرٍ
’’لوگوںنے مجھےکھودیا، مجھے ضائع کردیا اور کیسے جوان کو ضائع کردیا جو جنگ کےدن اور سرحدوںکی حفاظت کے موقع پر کام آسکتاتھا‘‘۔
اِس رنگ کے اندر پڑھتاتھا، ایک مرتبہ گرفتارہوگیا، پولیس اُس کو پکڑکر لےگئی، امام ابوحنیفہb کو خبرلگی، پڑوسی تھا، یہودی تھا، شرابی تھا، بہت نیک آدمی نہیںتھا؛ لیکن پڑوسی تھا، امام صاحبb تشریف لےگئے، اُس کا جرمانہ اداکیا، اُسے رِہاکرکے لےآئے اورفرمایا: ’’مَاأَضَعْنَاكَ‘‘ تو کہتاتھا کہ لوگوںنے ہمیں ضائع کردیا، ہم نے تجھ کو ضائع نہیںکیا، دیکھو تم کو رِہاکردیا۔
(۲) غالباً وہی پڑوسی یاکوئی دوسراپڑوسی اُس نے اپنامکان بیچنےکا ارادہ کیا اور اعلان کیا کہ میرےمکان کی قیمت بیس ہزار درہم ہے، لوگوںنے کہا تمہارے مکان کی قیمت دس ہزارسے زیادہ نہیں ہے، اُس نےکہا ٹھیک ہے، مکان کی قیمت دس ہزار اور ابوحنیفہ کے پڑوس کی قیمت دس ہزار۔ یہ مکان ابوحنیفہ کے پڑوس میں ہے، میں اس کو بیچ کر جاؤں گا تو مکان بھی چھوٹےگا اور پڑوس بھی چھوٹےگا جو اُس مکان میں رہےگا اُس کو مکان بھی ملےگا، اور ابوحنیفہ کا پڑوس بھی ملےگا؛ لہٰذا جتنی قیمت مکان کی ہے اُتنی قیمت ابوحنیفہ کے پڑوس میں ہونےکی۔ امام صاحبb کو خبرملی تو اُسےبلایا، اُس کو پورے مکان کی قیمت دےدی اور کہاکہ مکان بھی تمہارا اور پیسہ بھی تمہارا، جس نے اپنے پڑوسی کی اِتنی قدر کی ہے معلوم نہیں اُس کے جانےکےبعد کون دوسراپڑوسی آجائےمیرا؛ اس لیے اس پڑوسی کی قدرکرنی چاہیے۔
میرےبھائیو! لین دین میں، تجارت کےاندر ہمارامعاملہ دوسروںکےساتھ ایسا ہو کہ وہ نمونہ بن جائے۔
(۳) امام ابوحنیفہb کا نام آیا، ابھی میں پڑھ رہاتھا راستےہی میں شیخ ابوزہرہ مصری کی کتاب کا ترجمہ جو انہوں نے امام ابوحنیفہb کی حیات کے اوپر لکھاہے، اُس میں لکھا ہے کہ ایک عورت ایک کپڑےکا تھان لےکرآئی، امام صاحب کے ہاتھ بیچناچاہا، یہ کپڑےکے تاجرتھے، اُس نےکہا کہ اُس کا سودرہم دےدیجیے، فرمایا کہ اس سے زیادہ قیمت کاہے، اُس نے کہاکہ دوسودرہم دےدیجیے، فرمایا کہ اس سے زیادہ قیمت کاہے، اُس نےکہا کہ تین سو درہم دےدیجیے، اُس نے کہا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں؟
فرمایا کہ کسی اور آدمی کو بلالو اور قیمت لگالو، تو ایک شخص کو بلایاگیا، اُس سے پوچھاگیا کہ اس کی قیمت کتنی ہے، اُس نے بتایاکہ پانچ سودرہم، امام ابوحنیفہb نے پانچ سودرہم دےکر اُس تھان کو خریدلیا، گھٹانے کےلیے نہیں قیمت بڑھانے کےلیے، قیمت زیادہ دینے کےلیے دوسرے شخص کو بلایا جارہاہے؛ تاکہ وہ قیمت زیادہ بتاکر اُس کو بیچنےوالے کو نفع اور اُس کو راحت پہنچائے۔
(۴) اِسی طرح دیانت داری کے سلسلےمیں امام صاحبb کا واقعہ مشہورہے کہ ایک تھان میں تھوڑاسا عیب تھا، انہوںنے اپنے کارندےکو ہدایت دی کہ اگر کوئی خریدار آئے تو اُس کو پہلے عیب دکھلادیاجائے اور اگر خریدنےپر تیارہو تو جتنی قیمت پر خریدے اتنی قیمت پر اُس کو فروخت کردیاجائے۔ اتفاق کی بات ہے کہ کوئی گاہک آیا اور کارندے نے عیب دکھلائےبغیر اُس تھان کو فروخت کردیا، امام صاحب تشریف لائے پوچھا وہ تھان کیاہوا؟ اُس نے کہا کہ وہ بِک گیا، تم نے خریدارکو عیب دکھلایاتھا؟ اُس نے کہا نہیں! وہ خریدار کون تھا؟ اُس کو میں پہچانتانہیں، امام صاحب نے اُس دن کی پوری بِکری جتنی قیمت آئی تھی سب اٹھاکر صدقہ کردیا، اُس کےاندر غلط قسم کا پیسہ تھوڑاسا شامل ہوگیاہے۔
خود کو نمونہ بنائیں:
میرےبھائیو اوربزرگو! ہم اپنے اخلاق اور اپنےکردارسے اپنا تعارف کرائیں، اسلام کا تعارف کرائیں، ہمیں اسلام یہ تعلیم دیتاہے، ہمارامذہب یہ بتلاتاہے، ہم بہت سے کام کرتےہیں؛ لیکن اس کا حوالہ کچھ اور دےدیتےہیں، دوسروںکے سامنے ہماری شبیہ صحیح آنی چاہیے، اس میں امن پر امن بقائےباہم کی تعلیم جتنی اسلام نے دی ہے وہ کسی کے یہاں نہیںہے۔
میرےبھائیو اوربزرگو! ’’حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ جو دوچیزیں رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی ہیں اُن سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ آخرت کی کامیابی کے جوراستے ہوسکتےہیں۔ اُن کو ہمیں اختیار کرناہے، اگر ہم دنیا کی محبت میں آخرت کا نقصان برداشت کریںگے تو یہ ہماری ذلت اور ناکامی کا پہلاسبق ہوگا۔
موت کی کراہیت اور اُس کی حقیقت:
مختصراً دوسرےجزکی طرف بھی اشارہ کردوں، فرمایا: ’’وَکَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘، مسلمانوںکے ذلیل ہونے اور بےوقعت ہونےکی دوسری بنیاد موت کی کراہیت ہے، موت کی کراہیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان مرنےسے ڈریںگے، موت سے خوف کھائیںگے، ایمان والےکا تو یہ عقیدہ ہے کہ جب دنیامیں انسان آتاہے تو اللہ کی طرف سے ایک متعین عمر لےکر آتاہے، بچہ جب ماںکے پیٹ میں ہوتاہے وہی فرشتہ پوچھتا ہے: ’’مَاأَجَلُهُ مَارِزْقُهُ‘‘ پروردگار اس کی روزی کتنی لکھی جائے، اس کی عمر کتنی لکھی جائے اور دونوںکے بارے میں جو فیصلہ ہوگیا اس میں نہ عمرمیں ایک لمحہ کی کمی زیادتی ہوسکتی، نہ رزق میں ایک دانےکی کمی زیادتی ہوسکتی ہے، ﴿اِذَاجَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَایَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ۝۴۹﴾ موت اپنے وقت پر آئےگی اور جہاں جس حال میں لکھی ہوئی ہوگی اُسی طرح آئےگی، پھر ہم موت کاخوف اپنےاندر بیٹھاکر بزدلی اور کم ہمتی کا شکار کیوںہوں؟ اس لیے مؤمن اللہ سے ڈرتاہے اور موت پر اس کا یقین ہے موت اپنے وقت پر آئےگی، ﴿وَلَوْكُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ١ؕ﴾ سات قلعہ کے اندربھی اگر ہم محفوظ ہوجائیں اور اگر اللہ کی طرف سے ہمارے مرنےکا وقت آچکاہے، طے ہوچکاہے، اُس کو ہم ٹال نہیںسکتے۔
ناگواری سے کیامراد ہے؟
ایک مطلب تو یہ ہےکہ موت کا جو خوف اورڈر ہمارے اندر بزدلی پیداکرتاہے اُس کو اپنے دل سے نکالیں؛ لیکن صرف یہی مراد نہیں ہے؛ اس لیے کہ موت سے کراہیت یہ ایک فطری چیزہے؛ چناںچہ جب رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا کہ:
’’مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَاللّٰهِ أَحَبَّ اللّٰهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللّٰهِ كَرِهَ اللّٰهُ لِقَاءَهُ‘‘. (صحیح البخاري:٦٥٠٧)
ارشادفرمایا کہ: جوشخص اللہ سے ملنےکو پسند کرتاہے اللہ تعالیٰ اُس سے ملنےکو پسند کرتےہیں اور جو اللہ سے ملنےکو ناپسند کرتاہے، اللہ تعالیٰ اُس سے ملنےکو ناپسند کرتےہیں۔ اِس کامطلب کیاہوا؟ جو مرنےکو پسند کرتاہے؛ کیوںکہ اللہ سے ملاقات موت کےبعدہوگی، اللہ تعالیٰ اس سے ملنےکو پسند کرتےہیں اور جو اللہ سے ملنےکو ناپسندکرتاہے، یعنی موت کو ناپسند کرتاہے، اللہ تعالیٰ اُس سے ملنےکو ناپسند کرتےہیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہJ نے فوراً عرض کیا یارسول اللہ! ’’إِنَّالَنَكْرَهُ الْمَوْتَ‘‘ ہم میںکا ہرآدمی موت سے فطری طورپر موت کو ناگوار سمجھتاہے، کوئی مرنےکو پسندنہیں کرتا، زندگی ہرایک کو عزیز ہواکرتی ہے، تو رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا: ’’لَیْسَ ذَاكَ‘‘ موت کی جوفطری ناگواری ہے وہ مراد نہیںہے؛ بلکہ میں اور کچھ کہنا چاہتاہوں، آپﷺ نے ارشادفرمایا کہ جب اللہ کا نیک بندہ جس نے اپنی زندگی اللہ کی مرضی کےمطابق، شریعت کے احکام کےمطابق گزاری ہے، جب اُس کے مرنےکا وقت آتاہے، تو رحمت کےفرشتے اُس کی روح قبض کرنے کےلیے آتےہیں، جنت کی نعمتیں ﴿فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ١ۙ۬ وَّ جَنَّتُ نَعِیْمٍ۝۸۹﴾ کا منظر اُس کےسامنے ہوتاہے اور اُس کی روح نکلنے کےلیے بےچین ہوجاتی ہے، وہ چاہتاہے کہ جلدازجلد میری روح پروازکرے، میں پروردگارکے حضورمیں حاضرہوجاؤں، وہ اللہ سے ملنےکو پسند کرتاہے، اللہ اُس سے ملنےکو پسند کرتےہیں اور جوانسان فسق وفجور، اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی مخالفت میں؛ بلکہ عملی بغاوت میں زندگی گذارتاہے، جب اس کے مرنےکا وقت آتاہے تو عذاب کے فرشتے آتےہیں عذاب کے سازوسامان کےساتھ اور اُن کو دیکھ کر اُس کی روح بدن کےاندر پھڑپھڑاتی ہے، نکلنانہیں چاہتی اور وہ مرنےسے گھبراتاہے؛ کیوں کہ اس کےسامنے یہ منظرہوتاہے کہ جب روح نکلی اور میں گرفتار کیاگیا تو مجھے سزا ملےگی، یہ ہے ’’کَرِهَ لِقَاءَاللّٰهِ‘‘ کہ اللہ سے ملاقات کو وہ ناپسندکرے۔
اِس کا کیامطلب ہوا؟ زندگی ایسی گزارو جب آخری وقت ہوتو شوق ہو اللہ کے پاس جانےکا اور ایسی زندگی سے بچو کہ آخر وقت کےاندر مرنےکا خوف پیدا ہوجائے۔
ایک دل نشیں مثال:
شیخ سعدیb نے مختصر لفظوں میں بہت خوبصورت اندارمیں یہ بات کہی ہے، ارشادفرمایا:
یاد داری کہ وقت زادہ نے تو
ہمہ خنداں بدند تو گریاں
آں چناں ذی کہ وقت مردن نے تو
ہمہ گریاں شوند تو خنداں
فرماتےہیں:
یاد داری کہ وقت زادہ نے تو
ہمہ خنداں بدند تو گریاں
تجھے یادہے؟ جب تو پیدا ہواتھا تو سارے لوگ ہنس رہےتھے خوشیاں منارہے تھے، کسی کالڑکاپیداہوا، کسی کا پوتاہے، کسی کا نواسہ ہے، کسی کا بھتیجاہے، کسی کا بھانجاہے، سب خوش ہورہےہیں اور تو رورہاتھا، تو روتاہوا دنیامیں آیاتھا اور باقی سب لوگ ہنس رہےتھے۔ فرماتے ہیں کہ: ’’آں چناں ذی کہ وقت مُردہ نےتو‘‘، کہ زندگی ایسی گذارے کہ دنیاسے جاؤ کہ وقت مردن نے تو، جب تمہارے مرنےکا وقت آئے تو ’’ہمہ گریاں شوند تو خنداں‘‘، سارےلوگ رورہےہوں، آنسو بہارےہوں، تیری جدائی کے اوپر اور تو ہنستاہوادنیاسے جائے؛ کیوںکہ آگے رحمتِ الٰہی تیرااستقبال کرنےوالی ہے۔
حدیث کا ماحصل:
اب روایت کی روشنی میں دیکھیں تو ’’حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ کا مطلب کیاہوا؟ کہ مسلمانوںکےاندر بزدلی، کمزوری اور بےوقعتی پیداہونےکے دواسباب ہوں گے: ایک تو دنیاکی محبت، دوسری ایسی زندگی گذارنا کہ اُس زندگی کےبعد جب دنیاسے جانےکا وقت ہوتو مرنے کےلیے تیار نہ ہو، خوف ہوکہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوجاؤںگا؛ اس لیے اس کی تیاری یہ ہے کہ آدمی شریعت اور سنت کےمطابق زندگی گذارنےکی کوشش کرے، ان شاءاللہ یہی نسخہ ہے کہ جو ہرشخص اپنے طورپر اپناسکتا ہے، اپنی جگہ پر اس کو اختیار کرسکتاہے، رسول اللہﷺ نے جہاں بیماری بتلائی ہے اُس کا علاج بھی بتلادیا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنےکی توفیق عطافرمائے، اِس عظیم الشان مجمع کے ذریعے حدیثِ پاک کا یہ پیغام، میں پوری امت تک پہنچانا چاہتاہوں، اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطافرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

ماخوذ از: نبوی معاشرے کی تعمیر و تشکیل؛ چند رہنما اصول

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing