مولانا ابوالکلام آزاد کا صحافتی سفر
محی الدین احمد (ابوالکلام آزاد) 11 نومبر 1888ء کو مقدس شہر مکہ میں پیدا ہوئے، آپ کا گھرانہ علم لیاقت کے لیے کافی مشہور تھا، آپ کے آباؤ اجداد مغل بادشاہوں کے دربار کے کئی اہم منصبوں پر فائز رہے۔ آپ نے بچپن میں والدین کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی اور اردو، عربی، فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا؛ علاوہ ازیں تاریخ، فلسفہ، الجبرا، منطق، کیمیا اور اسلامیات جیسے مضامین میں بھی مہارت حاصل کی۔ آپ کو مطالعہ کا شوق جنون کی حد تک تھا، چراغ کی روشنی میں دیر رات تک مطالعہ میں مصروف رہتے تھے۔ اس وسیع مطالعے کی وجہ سے آپ کے خیالات میں جدت، فکر میں وسعت اور معلومات میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوئی۔ اللہ تعالی نے آپ کو بیک وقت بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ نے زبان و ادب کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا اور بیش بہا خدمات انجام دیں۔
آپ نے زبان وادب کے سفر کی ابتدا شعر وشاعری سے کی اور محض بارہ سال کی عمر میں اشعار کہنے لگے۔ کم سنی میں شاعری کا ایک مجلہ نیرنگ عالم جاری کیا جو آٹھ مہینے تک شائع ہوا۔ پھر اس کے بعد الصباح نکال کر چار مہینے تک اس کی اشاعت کی۔ اور اسی زمانے میں خدنگ نظر کی ادارت بھی کی۔ شعر و شاعری کے بعد آپ نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور 1901ء کے آخری حصے میں آپ کی ادارت میں المصباح نامی مجلہ کلکتہ سے جاری ہوا۔ آپ کی ادارت میں شائع ہونے والا یہ پہلا ادبی ماہنامہ تھا، جس کا اداریہ عید کے عنوان سے تھا، یہ ماہنامہ عید کے دن جاری ہوا تھا۔ پھر المصباح کے بند ہوجانے کے بعد آپ نے ہفتہ وار احسن الاخبار کی ادارت کی، 1902ء ماہنامہ مخزن لاہور میں آپ کا پہلا مضمون فن اخبار نویسی شائع ہوا۔ ان کم عمری کی تحریروں سے آپ کی صحافت سے دلچسپی اور فن اخبار نویسی کے متعلق آپ کی معلومات کا پتہ چلتا ہے۔ 1903ء تک کا زمانہ گویا تجرباتی زمانہ ہے۔ اس زمانے کی تحریرات مختلف موضوعات تاریخ، ادب، سیاست، مذہب، سائنس اور دیگر علوم سے متعلق تھیں۔ ساتھ ہی مختلف اخبار و رسائل کے مدیر رہ چکے تھے۔ آپ کے مضامین اور تحریریں اتنی مقبول ہوئیں کہ اپریل 1904ء میں انجمن حمایت الاسلام لاہور کے اراکین نے 1904ء کے سالانہ جلسے میں آپ کو پروگرام میں شریک ہونے اور خطاب عام کے لیے مدعو کیا۔ آپ نے اس جلسے میں تبلیغ اسلام کا طریقۂ کار کے عنوان پر پرمغز تقریر کی، جس سے سامعین نے بخوبی محسوس کیا کہ ایک پختہ، باشعور اور باصلاحیت تحریروں کا مصنف تقریر کررہا ہے۔ 1905ء میں علامہ شبلی نعمانی نے آپ کو ندوہ آنے کی دعوت دی اور الندوہ کی ادارت میں شرکت کے لیے آمادہ کیا۔ آپ نے اسے قبول کیا اور ادارے میں بحیثیت معاون مدیر آپ کا انتخاب ہوا۔ اندازہ لگائیے! شبلی نعمانی جیسا شخص ایک کم عمر نوجوان کو الندوہ کی ادارت میں شامل کر رہا ہے! واقعی معمولی بات نہیں تھی۔ اس میں آپ کے علم وفضل، باشعور انداز تحریر اور خداداد صلاحیتوں کو کافی دخل ہے۔
اس کے بعد 13 جولائی 1912ء میں آپ نے الھلال شائع کیا، جو ہندوستان میں صحافت کے میدان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ پہلا رسالہ تھا جس میں تصویروں کی اشاعت ہوئی اور جو کمپیوٹر تحریر شدہ تھا۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی اشاعت گیارہ ہزار سے زائد ہوگئی تھی۔ الہلال کے ذریعہ آپ نے مسلمانوں کی اخلاقی زبوں حالی پر سخت تنقید کی، ملکی سیاست میں مسلمانوں کی قابل نظر انداز مداخلت پر قوم کو آڑے ہاتھوں لیا اور آزادی کی لڑائی میں مسلمانوں سے جہاد کرنے کی درخواست کی۔ اس رسالے کی آتش فشانی، مقبولیت اور اثرات نے برطانوی حکومت کی نیندیں اڑا دیں؛ اور حکومت نے 1914ء میں اس رسالے پر قانونی پابندی لگا دی۔ لیکن اس سے آپ کے حوصلے سرد نہیں ہوئے۔ الہلال کے بند ہونے کے بعد ایک سال کے اندر ہی آپ نے ایک دوسری پریس قائم کرکے الھلال ہی کی نہج پر 12 نومبر 1915ء کو البلاغ کلکتہ سے شائع کیا۔ ان دونوں رسالوں کے مقاصد ایک ہی تھے، (دین الہی کی تجدید اور اس کے بنیادی اصول امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) صرف نام کا فرق تھا۔ لیکن آپ کو ان دونوں رسالوں کی پاداش میں چار سال قید و بند میں گزارنے پڑے۔ 1920ء میں رانچی سے رہا ہوئے اور 23 ستمبر 1921ء کو ہفتہ وار پیغام کی اشاعت کی، لیکن اس کی پاداش میں پھر گرفتار کر لیے گئے۔ اتنی مشقتوں اور مصیبتوں کے باوجود بھی صحافت سے آپ کا تعلق نہیں ٹوٹا، اور اقدام، پیغام، الجامعہ (عربی) کے علاوہ الہلال ثانی کا پہلا شمارہ 10 جون 1927ء کو دہلی سے شائع کیا۔ جو تقریباً 9 دسمبر 1927ء تک جاری رہا۔
اسی کے ساتھ آپ نے ترجمان القرآن، غبار خاطر، تذکرہ، الحریۃ فی الاسلام، جہاد اور اسلام، اسلام اور نیشنلزم، قرآن کا قانون عروج و زوال، انڈیا ونس فریڈم وغیرہ کتابیں تصنیف فرمائیں۔ علاوہ ازیں بہت سے مقالات و مضامین لکھے، آپ کے مقالات اور خطبات کے سینکڑوں مجموعے چھپ کر منظر عام پر آگئے ہیں۔
آپ کی تحریروں میں ایک پختہ باشعور مصنف اور ایک اچھے صحافی ہونے کی کامل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ آپ کی صحافتی عظمت کے سب ہی معترف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ابوالکلام کے لقب سے نوازا گیا۔ آپ صحیح معنی میں ابوالکلام تھے۔