شخصیات

عظیم باپ کا باکمال بیٹا

مفتی عبدالمنعم فاروقی

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے  ’’ العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً وانما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافرِ ‘‘(ترمذی:۲۶۸۲) ’’بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کاوارث بنایا ہے اس لئے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا ‘‘۔ اس حدیث شریف کے آخری حصہ میں اسلامی علوم سیکھنے اور اس میں دسترس حاصل کرکے علماء کی جماعت میں شامل ہو جانے کو بڑی خوش بختی اور بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا ہے،علماء اور ان کی مجلسوں کو دیگر مجالس پر فضیلت وبرتری حاصل ہے خود رسول اللہ ﷺ نے ذکر ومناجات کی مجلس کے مقابلہ میں علمی مجلس میں بیٹھنے کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ وہاں جاکر بیٹھ بھی گئے اور اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں ہی خیر اور نیکی کی مجلسیں ہیں (پہلی مجلس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا)یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے اور مناجات میں مشغول ہیں اللہ چاہے تو دیں اور نہ چاہے تو نہ دیں وہ مالک ومختار ہے اور(دوسری مجلس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) یہ لوگ علم دین سیکھنے میں اور نہ جاننے والوں کو سکھا نے میں لگے ہوئے ہیں ،لہذا ان کا درجہ بلند وبالا ہے ،اور فرمایا ’’ انما بعثت معلماً‘‘ میں تو معلم ہی بناکر بھیجا گیا ہوں ،(یہ کہہ کر آپ ﷺ ) ا ن میں بیٹھ گئے ۔
علماء اور ان کی علمی مجالس دراصل مجالس نبوی ﷺ کا پر تو ہیں شرکاء مجلس جہاں ایک طرف علم کے ٹھاٹے مار تے سمندر میں غوطہ لگاتے ہوئے علمی پیاس بجھاتے ہیں تو د وسری طرف استاذ ِ کامل کی شمع علم سے خدا اور رسول کی محبت و معرفت کے راستے طے کرتے ہیں، ہر زمانہ اور علاقہ میں علماء کی علمی مجلسوں سے لاکھوں لوگوں نے استفادہ کیا ہے ، کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک کرتے رہے ہیں ، ان مجالس کا حصہ بننے اور معلمین ِ کاملین کی صحبت سے علمی فیض پانے والوں کو تاریخ میں ایک نمایاں مقام عطا ہوا ہے اور تاریخ ان علمی فرزندوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے ، یوں تو ہر زمانے میں علمی شہسوار پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے گراں قدر علمی کارناموں سے جگ کو روشن کیا اور تاریخ میں ایک اونچا مقام پایا انہیں بلند پایا علمی شخصیتوں میں ایک نہایت قد آور نام ،علم حدیث کے بے تاج بادشاہ حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ کا لیا جاتا ہے جنہیں دنیا امیر المومنین فی الحدیث کے نام سے جانتی ہے ۔
دوسری صدی ہجری میں مبارک نامی نہایت شریف، دیندار، خداترس اور دیانت دار شخص کے گھر میں ایک حسین بچہ پیدا ہوا ،بیٹے کی پیدائش کی خبر سن کر باپ کا چہرہ دمک اٹھا ، آنکھیں خوشی سے ڈبڈبانے لگی اور پورے وجود میں خوشی کی برقی لہر دوڑگئی ،باپ نے بچے کو گلے لگایا اس کے پیشانی کو چوما اور نومولود کا نام عبداللہ رکھا یہی وہ بچہ ہے جو آگے چل کر رئیس المحدثین استاذ العلماء کہلایا،تاریخ میں باپ بیٹے دونوں کا ذکر ’’ عظیم باپ اور باکمال بیٹے ‘‘ سے کیا گیا ہے ، عبداللہ بن مبارک کے والد ایک شخص کے غلام تھے مگر شرافت ،امانت اوردیانت کا گویا پتلہ تھے انکی دیانت داری کا واقعہ تاریخ میں کافی مشہور ہے کہ ایک مرتبہ اپنے آقا کے باغ میں کام کر رہے تھے کہ اچانک آقاباغ میں داخل ہوا اور انار کھانے کی خواہش ظاہر کی ،مبارک ایک درخت سے انار توڑ کر آقا کی خد مت میں پیش کیا ،آقانے چکھا تو وہ کھٹا تھا ، بہت غصہ ہوا پھر دوسرا لانے کو کہا ،مبارک دوسرے درخت کا انار لے آئے آقا نے جب اُسے کھاکر دیکھا تو وہ بھی کھٹا تھا ، خوب ڈانٹ پلائی پھر اور ایک لانے کو کہا ،مبارک گئے اور تیسرے درخت سے انار توڑ لائے اتفاقاً وہ بھی کھٹا تھا ، اب کی بار مارے غصہ کے آقا کا چہرہ سرخ ہوگیا اور نہایت سخت لہجے میں کہا ’’مبارک کیا تمہیں کھٹے اور میٹھے کی بھی تمیز نہیں ہے؟ ،مبارک نے جواب دیا آقا میٹھے کھٹے کی پہچان کھا کر ہی ہو سکتی ہے اور میں نے آج تک اس باغ سے کوئی انار کھایا نہیں لہٰذا مجھے میٹھے اور کھٹے کی تمیز کیسے ہو سکتی ہے ،آقانے حیرت سے پوچھا وہ کیوں ؟ مبارک نے جواب میں کہا آپ نے باغ کی دیکھ بھال کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ باغ کے پھل کھانے کا اور آپ کی اجازت کے بغیر میرے لئے باغ کے کسی بھی پھل کا کھانا جائز نہیں ، مبارک کی دیانت داری پر آقا دنگ رہ گیا وہ بھیگی پلکوں سے اپنے شریف اور دیانت دار غلام کو بہت دیر تک پیار بھری نظروں سے دیکھتارہا، پھر کیا تھا شریف النفس غلام کی دیانت داری اس کے دل میں گھر کر گئی اور اس قدر متاثر ہوا کہ اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا انہی خاتون سے حضرت عبداللہ تولد ہوئے ۔
عبداللہ بن مبارک ؒ کو بچپن ہی سے علم کا شوق تھا ،علم کے شوق نے آپ کو اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء اور محدثین کی مجالس میں پہنچادیا ، امام احمد ابن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن مبارک کے زمانہ میں ان سے بڑھ کر کسی نے حدیث کی تحصیل میں کو شش نہیں کی ،خود عبداللہ ا بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ میں نے چار ہزار شیوخ سے حدیث سیکھی جن میں سے ہزار شیوخ سے روایت کی ، عبداللہ ابن مبارکؒ کو امام ابو حنیفہ ؒ اور سفیان ثوری ؒ سے خاص لگاؤ تھا ،وہ ان حضرات کو اپنے خاص اساتذہ میں شمار کرتے تھے چنانچہ آپ کا مشہور قول ہے ’’ اگر اللہ تعالیٰ ابوحنیفہ ؒ اور سفیان ثوری ؒ کے ذریعہ میری دستگیری نہ فرماتا تو میں ایک عام آدمی سے بڑھ کر نہ ہوتا‘‘آپ کی شبانہ روز محنتیں رنگ لائیں اور بہت ہی قلیل عرصہ میں قابل وباصلاحیت علماء ومحدثین میں آپ کا شمار ہونے لگا اور آپ امیر المؤمنین فی الحدیث کے لقب سے پکار ے جانے لگے،آپ کے علم وفضل اور ورع وتقوی کا ڈنکا چہار سو بجنے لگا ، بڑے بڑے علماء ومحدثین موجود ہونے کے باوجود لوگ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے آپ کے حلقۂ درس حدیث میں شریک ہوکر زانوئے تلمذ تہ کرنے لگے ،آپ کے درس کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ بسا اوقات چالیس چالیس ہزار طالبان علوم درس میں شریک ہوتے تھے جن میں کافی تعداد بڑے بڑے علماء اور محدثین کی ہوا کرتی تھی ۔
محدث کبیر امام نووی ؒ نے تہذیب الاسماء واللغات میں آپ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ’’ وہ یعنی عبداللہ ابن مبارکؒ جس کی امامت وجلالت پر ہر باب میں عموماً اجماع کیا گیا ہے ،جس کے ذکر سے خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے ،جس کی محبت سے مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے‘‘ ایک مرتبہ آپ کے شاگردوں میں سے کسی نے آپ ؒ کو یاعالم المشرق کے الفاظ سے خطاب کیا تو امام سفیان ثوری جو مشہور محدث ہیں اس وقت موجود تھے فرمانے لگے کیا غضب ہے عالم مشرق کہتے ہو یہ تو ’’ عالم المشرق والمغرب ہیں ‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن مبارکؒ کے علم وعمل ،فضل وکمال اور زہد وتقوی نے لوگوں کو اس قدر مسخر کر دیا تھا جو بڑے بڑے امرا ء،سلاطین اور بادشاہِ وقت کو بھی حاصل نہ تھا ،کہتے ہیں کہ خلافت عباسیہ کا زمانہ تھا ہارون رشید بادشاہت کے تخت پر متمکن ہے ،ایک مرتبہ ہارون رشید اپنے شاہانہ تزک واحتشام کے ساتھ رقہ میں مقیم تھا کہ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کی آمد ہوئی ،سارا شہر استقبال کے لئے آبادی سے باہر نکل پڑا، ازدحام کا یہ حال تھا کہ لوگوں کی جو تیاں ٹوٹ گئیں ، ہزاروں لوگوں کی وجہ سے ہر طرف گرد چھا گئی ،ہارون رشید کی ایک حرم بُرج کے غرفہ سے یہ منظر دیکھ رہی تھی حیرت زدہ ہوکر پوچھا کیا معاملہ ہے ،لوگوں نے بتایا کہ خراسان سے امیر المؤمنین فی الحدیث اور رئیس المحدثین حضرت عبداللہ بن مبارکؒ تشریف لائے ہیں اور سارا شہران کا استقبال کر رہا ہے ،یہ سن کر وہ کہنے لگی حقیقت میں سلطنت اس کا نام ہے، ہارون رشید کی سلطنت بھی کوئی سلطنت ہے جو پولس کے بغیر ایک آدمی بھی حاضر نہیں ہوتا ،کسی نے سچ کہا ہے اصل میں بادشاہ تو وہی ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے نہ کہ وہ جو لوگوں کے جسموں پر حکومت کرتا ہے ۔
درحقیقت علماء، صلحاء اور اولیاء ہی حقیقی با دشاہ ہوتے ہیں کہ ان کے سروں پر علم کا تاج ہوتا ہے ،ان کی علمی درسگاہیں بادشاہوں کے دربار خاص سے بہت بڑھ کر ہوا کرتی ہیں ، ان کے پاس دولت علم کا وہ ذخیرہ ہوتا ہے کہ جس کے گم ہو جانے کا انہیں نہ ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی چوری ہوجانے کا خوف ،بادشاہوں کے خزانے دینے سے خالی ہوتے ہیں مگر ان کے خزانوں سے علمی جواہرات لٹائے جاتے ہیں،بادشاہ تو صرف لوگوں کے جسموں پر حکومت کرتے ہیں مگر علماء اور اولیاء تو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور دلوں پر حکومت کرنے والے ہی حقیقی بادشاہ ہوتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×