شخصیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

حضرت شاہ کمال الرحمن صاحب (حیات وخدمات کے چند درخشان وتابندہ نقوش)

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی، ادارہ علم وعرفان حیدرآباد

دکن کی تاریخ لکھی جائے اور خانوادہ صوفی غلامحمد صاحبؒ کی خدمات کا تذکرہ نہ ہو، ایسا نہیں ہوسکتا، خانوادہ غلام صوفی صاحب رحمہ اللہ نے دکن میں علم دین کی اشاعت وفروغ اور اصلاحی ودینی خدمات میں بھر پورحصہ لیا ہے اور اس خطہ ارضی پر اس خانوادے نے بڑے تابندہ وجاوداں نقوش چھوڑے ہیں،اس خانوداہ نے سر زمین دکن کو اپنی خدمات عالیہ سے سجایا اور سنوارا ہے،حضرت غلام صوفی صاحب کی دینی واصلاحی وتبلیغی خدمات، مسلمانوں کی دینی اصلاح کے حوالے سے ان کی تڑپ اور کڑھن، دین کے ساتھ ان لگاؤ اور فکراس کا صاف پرتوان کی زندگی اور ان کے بعد ان کے فرزندان کی زندگی میں صاحب اور واضح طور پر نظر آتا ہے ۔
ہر فرزند اپنی جگہ دین کی وسیع اور بڑے پیمانے پر بلکہ نمایاں خدمات کرناہوا نظر آتا ہے ، یہ حضرت غلام محمدصوفی صاحبؒ کی دین کی تئیں فکر مندی کا ترجمان اور غماز ہے، آدمی کی فکر وجستجو اور مخلصانہ وبے لوث تڑپ وکڑھن اورمحنت وجستجو کا صاف پرتواس کے آل واولاد اور اس کی آنے والی نسلوں میں خوب نظر آتا ہے ، اس کی واضح مثال خانوادہ صوفی غلامحمد صاحبؒ اور ان کے چار فرزندان کبار ہیں۔جنہوں نے اپنے والد کی طرح سر زمین دکن میں دینی واصلاحی وتبلیغی طرز پر بڑے پیمانے پر خدمات انجام دی ہے ۔
اس خانوادہ کا دکن کی سرزمین پر اتنا احسان گراں ہے ، جس کو ہر گز فراموش نہیں کیا جاسکتا ، خود صوفی غلام محمدصاحب ؒ کی دین کے تئیںفکر وکڑھن ، ان کا دین کا ساتھ لگاؤ، للہیت ، ذکر وشغل اور مخلوق خدا کی اصلاح فکر ان کا ایسا اوڑھنا بچھونا تھاکہ جس کے نتیجے میں اللہ عزوجل نے آپ میں ایسی تاثیر پیدا کی تھی آپ کی صحبت بابرکت اور دست حق پر بے شمار فاسق وفاجر لوگ توبہ کر کے نیکوکار بن گئے۔
بلکہ دین کے تعلق سے صوفی غلام محمد صاحب رحمہ اللہ کا لگاؤ ایسا تھا کہ مولانا محبوب شریف صاحب نظامی ’’بیسویں صدی میں دن کی علمی، دینی ، اصلاحی وادبی شخصیتیں‘‘ کتاب میں رقم طراز ہیں:
’’مغل گدہ میں صوفی غلام محمد صاحب نے بنام’’ دار العلوم مؤتمر العلماء‘‘ ایک مدرسہ قائم کیا، یہ درسگاہ دو تین سال میں کافی شہرت پائی، حضرت صوفی صاحب نے حسب وعدہ ممکنہ تعاون فرمایا ؛اور سب سے بڑا تعاون یہ کہ اپنے لائق صاحبزادوں کو عصری مدرسے سے نکال کر ’’دار العلوم موتمر علماء‘‘ میں شریک کروایا۔، حالانکہ خود صوفی صاحب کسی دینی جامعہ کے فارغ التحصیل نہیں تھے، عصری تعلیم مدرسہ وسطانیہ مغل گدہ میں ہوئی اور امتحان منشی پنچاب یونیورسٹی سے کامیاب کیا، آپکے پیر ومرشد حضرت مولانا محمد حسین صاحبؒ ونپرنی سے بیعت ہدایت نے جلا بخشی ، ۲۰؍سال راہ طریقت کو طئے کرنے کے بعد ۲۷؍رجب ۱۳۷۵ھ کو خلافت سے نوازا۔
حضرت شاہ کمال الرحمن صاحب ، حیات وخدمات
اسی خانوادہ غلام صوفی صاحب کاایک گل سر سبد، چشم وچراغ،حضرت شاہ کمال الرحمن صاحب جوکہ صوفی غلام محمد صاحب کے بڑے فرزند ارجمند ہیں، بروز چہارشنبہ ۴؍مئی ۲۳۰۲، ۱۳؍شوال المکرم ، ۴۱۴۱ھ کو اس دارفانی سے رحلت فرماکر راہی عالم بقا ہوگئے۔
نماز جنازہ دار العلوم حیدرآباد کے وسیع احاطہ میں ۴؍مئی بروز جمعرات بعد نماز فجر انجام پائی،دار العلوم کے احاطہ میں علماء فضلاء ، اہل علم او ر فرزندان اسلام کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر خود شخصیت کی صالحیت اور صالحیت کا غماز نظر آرہا تھااس کے بعد تدفین قبرستان فرمان واڑ عقب دفتر سیاست عابڈس میں عمل میں آئی، پس ماندگان میں ۵؍دختران اور ۶؍فرزندان شامل ہیں، مولانا مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی سرپرست امارت ملت اسلامیہ تلنگانہ واے پی، مفتی نوال الرحمن صدر شریعہ بورڈ امریکہ، مولانا محمد ظلال الرحمن ناظم تعلیمات مدرسہ احیاء العلوم ٹپہ چبوترہ امام وخطیب مسجد ابرار ٹولی چوکی برادران بزگورا ہیں۔
مختصر احوال
مولانا کی پیدائش ۱۹۵۰ء کو مغل کدہ شاد نگر میں ہوئی، ابتدائی تعلیم شادنگر میں حاصل کی، پھر حیدرآباد تشریف لائے اور یہاں تعلیم کی تکمیل کے بعد ندوۃ العلماء اور دار العلوم دیوبند کا رخ کیا، وہاں سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد علاقہ دکن کے مایہ ناز ، شہرت یافتہ مدرسہ دار العلوم حیدرآباد میں کئی برسوں تک تدریسی خدمات انجام دی، بانی دار العلوم حضرت مولانا عاقل صاحب رحمہ اللہ کے دست وبازو بنے رہے ، اسی کے ساتھ ساتھ مسجد عالمگیری شانتی نگر میں تقریبا ۰ ۳ سال تک خطابت کے فرائض انجام دیئے، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں، تلنگانہ ، آندھراپردیش ، کرناٹک ، مہاراشٹرکے علاوہ کئی ایک بیرونی ممالک میں دینی واصلاحی وتبلیغی اسفار کئے، جن میں ساتھ افریقہ کے علاوہ دبئی، سعودی عرب، امریکہ، کینڈااور دیگر ممالک شامل ہیں۔
تصنیف وتالیف
مولانا کو تصنیف وتالیف کا ذوق لطیف حاصل تھا، تدریسی واصلاحی اور سلسلہ کے خدمات کے علاوہ بڑے پیمانے پر تصوف کے تعلق سے کتابیں تصنیف کی، ان تصنیفات میں ’’سکون دل حاصل کرنے کا طریقہ‘‘، ’’خوف الٰہی، اثرات وثمرات‘‘، ’’ولایت: مفہوم، حقیقت، اقسام ، شان اولیاء‘‘،’’ ایمان ، اجمال ، تفصیل، تحقیق، نتائج وبرکات‘‘، ’’ سلوک کے دو اہم مدارج‘‘ ، ’’تفسیر وتشریح سورہ اخلاص‘‘ ، ’’ ہدایت اور راہ وسط‘‘ اور ’’تلاوت قرآن ، آداب وفضائل، ’’مختصر حالات شاہ کمال اللہ رحمہ اللہ ، حضرت مچھلی والے شاہ صاحب‘‘’’ علم اور اہل علم ، اجمالی فضائل واحکام‘‘ ، ’’زکوۃ ضرورت، حکمت ، فضلیت حقیقت‘‘، ’’سورۃ الکوثر کا پیغام امت مسلمہ کے نام‘‘ ، ’’ ادراکات، ایمان وعقیدت کا افکار کا گلدستہ ، اخلاق ونصیحت کا اشعار کا گلدستہ‘‘قربانی ، حقائق ومسائل، ’’جامعہ اسلامیہ دار العلوم میں پہلا درس بخاری، حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی‘‘، ’’سلوک ونقوش ، برائے سالکین وعارفین‘‘ ’’طریقہ صلاۃ وسلام بہ حضور سرور کائنات‘‘، ’’نعمائے نورانی‘‘،’’خدا کی پہچان‘‘ ’’دعوت وتبلیغ، اجمالی آداب وأحکام‘‘، ’’تقلید کیا اور کیوں‘‘ ، ’’خود شناسی اور حق شناسی‘‘، ’’ اسرار ورموز ، الفاتحۃ‘‘’’زندگی میں غم کیوں، مصائب کیوں علاج کیا؟‘‘، ’’کچھ کچھ تذکرہ اللہ والوں کا ‘‘،’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام‘‘ ، ’’دو برکت والی راتیں‘‘، ’’معراج النبی‘‘ ، ’’کلمہ لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ (مالکیت الٰہیہ)، ’’سیدھا راستہ اور اخلاقی اصول‘‘، ’’جنت، قرآن اور حدیث کی روشنی میں اجمالی بیان‘‘، ’’احوال دل‘‘،’’افکار سالک‘‘،’’بیعت حقیقت اقسام، احکام‘‘، ’’اسرارنفس‘‘،’’دعائیں کس طرح قبول ہوںگی‘‘ ،’’ حالات وتعلیمات قطب ربانی محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی ؒ‘‘،’’ ایمان واحسان‘‘ ،’’مجاہدہ‘‘ ، ’’شیطان سے جنگ‘‘’’سرزمین دکن میں‘‘ ، ’’نجارت اور درجات کا راستہ‘‘ ’’سیر النفس‘‘ ’’دیدہ دل‘‘ ، ’’استعانت کے طریقے‘‘ ، ’’آئنہ غلام‘‘ ، ’’ مکاتیب عرفانی‘‘،’’ دینی باتاں منظوم‘‘ ’’تابدار نقوش‘ ‘،’’ ایمان واحسان‘‘ ،’’ولایت‘‘ ، اس کے علاوہ بے شمار بیش بہاکتابیں تصنیف فرمائی، جس میں مختلف علمی واصلاحی اور تصوف سے متعلق مضامین اور موضوعات کو رقمطراز فرمایا ۔، ان کتابوں کا خاص وصف یہ ہے کہ مثالوںاور واقعات کی روشنی میں عام فہم انداز میں تصوف اوردیگر علمی ودینی اصطلاحات کو سہل اور آسان کرکے پیش کیا گیا ہے، بڑے بڑے حقائق واقعات وامثال کی روشنی میں فہم سے قریب تر کئے ہیں، واقعتا یہ ساری کتابیں مؤلف کی علمی گہرائی اور تصوف وسلوک کے راہ میںسخت تگ ودو پر دال ہیں، یہ کتابیں اور اس کا مواد علمی اور قلبی تشنگی کا سامان فراہم کرتا ہے، واقعۃ قابل دید اور قابل مطالعہ اور حزز جان بنانے کے لائق ہیں۔یہ کتابیں پڑھتے جائیں، مست مئے شراب علم سے سرشرار ہوتے ہوجائیں،ساتھ ہی یہ کتابیں قرآن وسنت کے دلائل سے بھی مزین ہیں، انداز تصنیف ہی جداگانہ ہے ، جو عموما صوفیاء ،صفیاء اور اولیاء کا طرز وطریق وکار ہوتا ہے ، کہ بڑی بڑی اصطلاحات کو چھوٹی چھوٹی مثالوں اور واقعات سے قریب تر کرتے ہیں، یہ کتابیں’’سلسلہ کمالیہ‘‘ نام سے سائٹ پر دستیاب ہیں، جس میں مولانا کے بیانات بھی موجود ہیں۔
درس وتدریس، تصنیف وتالیف، تصوف وسلوک، اور خطابت کے لائن سے اپنی حیات بھر دین کی اشاعت کی خدمات انجام دیتے رہے ۔پھر اپنے حیات مستعار کے ان لمحات کو خدا کی رضا وخوشنودی اور دین کی نشر واشاعت ، کلمہ لا الہ إلا اللہ کی توحید وتلقین اور یاد الٰہی، ذکر الٰہی ، اصلاح امت کی فکر وکڑھن میں گذار کر راہ حیات جاویدی وسرمدی ہوگئے۔
فرزندان بھی بڑی عظیم خدمات کی انجام دہی میں مصروف ومعمور ہیں، مولانا محمد فضل الرحمن محمود خطیب مسجد خدیجہ ولی کالونی ٹولی چوکی ، والد صاحب کی جانشیں اور ان کے مسند کے حقیقی وارث ، والد صاحب کی دینی وعلمی وراثت حامل ، اس دینی اور خانوادے کی وراثت کو لے کر چل رہیں، دیگر فرزندان میں میں مولانا محمد حفظ الرحمن مسعود مفتاحی، مولانا محمد ودود الرحمن مقصود رشیدی بانی وناظم مدرسہ منبع العلوم تیگل کنٹہ، مولانا محبوب الرحمن مشہود قاسمی، ناظم معز العلوم کوہیر (میدک) مولانا مقبول الرحمن منصور مفتاحی قاسمی خطیب وامام مسجد مکرم چندولال بارہ دری، مولانا مرغوب الرحمن ممدود مفتاحی قاسمی امام وخطیب حال مقیم قطر شامل ہیں۔
سب اسی خانوادہ صوفی غلام محمد کے موروثی خدمات کو آگے بڑھاتے ہوئے مصروف عمل ہیں۔
اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ اللہ عز وجل اس خانوادے کے فیض کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اوراس خانودے کی علمی ، دینی واصطلاحی خدمات کو عام وتام فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×