شخصیات

ہاں میں ایڈوکیٹ راجیو دھون ہوں۔۔۔!

ہاں میں ڈاکٹر ،ایڈوکیٹ، بیرسٹر راجیو دھون ہوں۔ سپریم کورٹ کا سینئر وکیل، منصف مزاج، سیکولر انسان، مسلمانوں کی طرف سے بابری مسجد کاکیس لڑنے والا، رام للا براجمان کے دعوئوں کو خارج کرنے والا، اعلیٰ تعلیم یافتہ، فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکنے والا، حقوق انسانی کا کارکن، انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ (آئی سی جے) کا سابق کمشنر، آئی سی جے کمیٹی کا سابق چیئرمین، آئی سی جے کا لائف اعزازی ممبر ، شرپسندوں سے دھمکیاں کھانے والا، نڈر، بے باک، جرأت مند، باہمت،عزم واستقلال کا پہاڑ ، محنتی، کثیرالمطالعہ، بہترین کالم نگار ، آئینی پہلوئوں کو باریکی سے سمجھنے والا، کیمبرج یونین کا سابق صدر، کیمبرج یونیورسٹی کا فارغ، لندن یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ، انڈین لاء انسٹی ٹیوٹ کا پروفیسر کئی کتابوں کا مصنف راجیو دھون ہوں۔
میری پیدائش اگست ۱۹۴۳ میں غیر منقسم ہندوستان میں ہوئی۔ والد کا نام شانتی سوروپ دھون تھا جو ہندوستان کے برٹش سفیر ، مغربی بنگال کے گورنر اور لاء کمیشن کے رکن رہ چکے ہیں۔ میری ابتدائی تعلیم الہ آباد یونیورسٹی سے ہوئی، قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے بیرون ممالک کا سفر کیا اور کیمبرج یونیورسٹی، لندن یونیورسٹی میں طویل عرصے تک تحصیل علم کیا۔پھر بیلفاسٹ کی کیونس یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ویسٹ لندن، یونیورسٹی آف ٹیکسس وغیرہ میں پڑھایا بھی۔میں نے وکالت کی شروعات کانگریس کے سینئر لیڈر ایڈوکیٹ کپل سبل کے ہمراہ کی ، لیکن بعد میں ان سے الگ ہوگیا ۔ منڈل کمیشن اور ایودھیا تنازعے کا کیس اپنے ہاتھوں میں لیکر بہترین طریقے سے اس کی وکالت کی جس کی وجہ سے مجھے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی اور میری وکالت کی تعریف کی گئی ، بابری مسجد تنازع اور منڈل کمیشن معاملے میں سپریم کورٹ نے بھی میری جرح سے متاثر ہوکر ۱۹۹۴ میں مجھے سینئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نامزد کیا۔میری وکالت بہت مشہور ہے جب میں کورٹ میں داخل ہوا تھا تو لوگوں کی زبان پر میرے بارے میں یہ رائے رہا کرتی تھی کہ سپریم کورٹ میں ایک ایسا وکیل آیا ہے جو چن چن کر ایسے مدعے اُٹھاتا ہے جو آئینی اور انسانی حقوق سے منسلک ہوتے ہیں۔
ہاں میں وہی ایڈوکیٹ راجیو دھون ہوں جسے بابری مسجد مقدمہ کا کیس لڑنے کےلیے گالیاں دی گئیں، مسلمانوں کا زرخرید غلام کہاگیا، کانگریس کا تلوا چاٹنے والا کہاگیا، مجھ پر میری قوم نے لعنتیں بھیجیں، میری موجودہ زندگی کو غلیظ زندگی قرار دیا، مجھے میرے ہندو ہونے کا واسطہ دیاگیا کہ میں ہندو ہوں، مسلمانوں کا کیس نہ لڑوں، بابری مسجد کی وکالت نہ کروں، ہندوئوں کے جذبات ایودھیا سے منسلک ہیں میں ان کے جذبات سے نہ کھیلوں،مجھے بڑھاپے کا بھی واسطہ دیاگیا کہ میں اخیر عمر میں نیک کام کروں؛ لیکن انہیں کیا پتہ میں تو نیک ہی کام کررہا تھا، مجھے علم ہے کہ وہاں مندر نہیں تھی، مسجد کو توڑ کر مندر بنانے کی سازش کی گئی اور اس مندر کے بہانے سینکڑوں مسلمانوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا پھر ایسے مندر میں رام کیوں کر آتے؟ میں یہی نیک کام تو کررہا تھا؛ لیکن وہ سمجھ رہے تھے میں رام مخالف ہوں، میں رام کو نہیں مانتا؛ لیکن ایسا نہیں ہے میں اپنے بھگوان رام کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں، میرا عقیدہ ہے کہ جس مندر میں اینٹوں کی جگہ لاشیں ہوں ایسے مندر میں رام نہیں آتے ہیں، مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے میں نے ان کی طرف سے بابری مسجد کا کیس لڑنے کی مکمل حامی بھرلی، لیکن فرقہ پرست میرے باز نہ آنے پر مجھے دھمکیاں دینے لگے، مجھے گالیوں سے نوازا گیا ، مجھےپیسوں کےلیے ضمیر کا سودا کرنے والا کہاگیا؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔ میری رگوں میں ہندو خون نہیں کسی اور کے خون کی باتیں کی گئی مجھے رام بھکت بدعائیں دینے لگے کہ کسی طرح میں باز آجائوں لیکن میں ٹس سے مس نہیں ہوا۔اپنے کام میں مشغول رہا، میں جس کام کےلیے حامی بھرلیتا ہوں اس سے پیچھے نہیں مڑتا یہ تو ملک کی جمہوریت کا سوال تھا، ملک کے مظلوم طبقے کی مدد کا مسئلہ تھا، مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے میں نے یہ مقدمہ اپنے ہاتھوں میں لیا، میں نے ہر وہ ممکن کوشش کی جس سے عدلیہ کو یقین دلایا جاسکے کہ وہاں مسجد تھی، مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی۔ میں نے ۴۰ دن تک سپریم کورٹ میں ہونے والی بحثوں میں مسلم فریق کی طرف سے حصہ لیا اور بابری مسجد کی وکالت کی۔ مسجد کے موجود ہونے کے ٹھوس دلائل دیے ، آستھا وعقیدت کا نعرہ لگانے والوں کو گھیرا ، ان کی من گھڑت دلیلوں کو واضح اور پختہ دلائل سے بے بنیاد ٹھہرایا، انہیں ان کے عقائد کی روشنی میں ہی جھوٹا قرار دیا۔ انہوں نے جتنے دعوے اور جھوٹی دلیلیں پیش کیں سبھی کو مدلل جرح کرکے بے بنیاد قرار دیا۔ آخری دن بھری عدالت میں جسٹس کے حکم پر ان کی جانب سے پیش کیے گئے غلط نقشے کو پھاڑ کر بتادیا کہ ملک کو کنفیوژ کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔ خیر مجھ ناتواں اور ضعیف العمر سے جتنابن سکا جمہوریت کو کاندھا دینے کی کوشش کی؛ لیکن مسلم فریق جس میں سنی سیٹرل وقف بورڈ بھی شریک تھا سنا ہوں وہ سودے بازی پر اتر آیاہے، بھلا ہو جمعیۃ علما ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہ وہ بھی فریق بنے تھے، اگر یہ دوراندیشی سے فریق نہ بنے ہوتے تو معاملہ یکطرفہ ہوجاتا،… اب اُمید ہے کہ عدالت جمہوریت کا جنازہ نہیں نکالے گی؛ بلکہ دلائل وشواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرکے عظیم ہندوستان کا نام روشن کرے گی۔ اور یہ ثابت کردے گی کہ ہندوستان میں اب بھی جمہوریت کا بول بالا ہے، عدالت کی بالادستی قائم ہے۔ امید ہے ایسا ہی ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×