شخصیات

مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی : حیات و خدمات

جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اورنگ آباد جس کی تأسیس ۱۹۵۹ء؁ میںڈالی گئی تھی اور تأسیس سے اب تک جامعہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس عظیم جامعہ کی تعمیر و ترقی کی راہ میں مولانا سعید خان صاحبؒ اور مولانا محمد ریاض الدین فاروقی ندویؒ نے جو انتھک جدوجہد کی، وہ جامعہ کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔
مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی جو ۷/جولائی ۲۰۱۹ء؁ مطابق ۳/ذو القعدہ ۱۴۴۰ھ؁ بروز اتوار باتفاق آراء مجلس عاملہ، جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے ناظم منتخب کیے گئے۔ آپ کی پیدائش شہر خجستہ بنیاد اورنگ آباد میں ۱۷/ مارچ ۱۹۴۷ء؁ میں ہوئی۔ آپ کا خانوادہ اس شہر کے متمول اور کاروباری خانوادہ میں شمار ہوتا تھا اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں اللہ نے ان کے خاندان کو اور خاص طور پر ان کے برادر بزرگ جناب عبد الرحیم سیٹھ ہونڈیکر کو بڑی عزت و شہرت عطا فرمائی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی وفات حسرت آیات پر تاریخ میں پہلی بار پورا مونڈھا بند رہا اور ہر شخص سراپا حسرت و یاس بنارہا۔ اس خاندان کی کاروباری حیثیت اور روایت کے مطابق مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی اس میدان میں کافی شہرت حاصل کرسکتے تھے، لیکن اپنی سلامتی طبع اور دینی و تبلیغی رجحان کے سبب انھوں نے عصری تعلیم کے بجائے دینی تعلیم کے میدان کا انتخاب کیا اور ابتدائی دینی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب خلیفہ اجل حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے عظیم ادارہ مفتاح العلوم جلال آباد (یو-پی) کا رُخ کیا اور وہاں اس عظیم ادارہ کے بانی سے کسب فیض کرنے کے بعد عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور اس جامعہ کے ناظم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ او راس ادارہ کے مؤقر اساتذہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی (موجودہ ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء) حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی (موجودہ مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء) سے تفسیر و حدیث، فقہ و ادب عربی ،تاریخ و سیرت اور دیگر علوم کے رموز حاصل کیے اور تعلیم کے دوران نمایاں نشانات سے کامیابی حاصل کرتے رہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے کاروبار اختیار کرنے کے بجائے جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کے حلقہ تدریس میں شامل ہونے کو ترجیح دی اور دورانِ تدریس جامعہ کی مالی، تعلیمی، تربیتی اور تعمیری ترقی کے لیے کوشاں رہے۔تقریباً دس سال تک جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دوران انھوں نے طلبہ کی تقریری و تحریری میدان میں ترقی کے لیے جمعیۃ الطلبہ ، النادی العربی اور جمعیۃ الاصلاح کی بنیاد ڈالی اور عملی طور پر شب و روز ان شعبوں کے تحت طلبہ میں تحریر و تقریر کا ایسا ملکہ پیدا کیا کہ شہر اور بیرون شہر کاشف العلوم کے طلبہ کی ایک شناخت قائم ہوئی۔
حضرت مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی چونکہ ایک حساس دل رکھتے تھے اور تعلیمی میدان میں مزید ترقی کے خواہاں تھے، اس لیے سعودی عربیہ کی مشہور دینی درسگاہ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ (ریاض) میں داخلہ لیا اور نمایاں درجات سے کامیابی حاصل کی۔ وہاں سے فراغت کے بعد مولانا یہ چاہتے تھے کہ عربی زبان و ادب میں صلاحیت پیدا کریں اور عربوں کی طرح لکھنے پڑھنے کا ذو ق حاصل کریں اور یہ ہندوستان میں ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے عربی ذوق و صلاحیت پیدا کرنے کی خاطر سعودی عربیہ کی مشہور یونیورسٹی جامعۃ الملک عبد العزیز (جدّہ) میں ملازمت اختیار کی اور تقریباً ۳۵ سال اس عظیم یونیورسٹی اور اس کے عظیم کتب خانے سے منسلک رہے۔ لیکن اس پینتیس سالہ ملازمت کے دوران بھی جامعہ کو ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کیا۔ مولانا حلیمی وقفہ وقفہ سے قیمتی او رنادر کتابیں جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کی لائبریری کے لیے ارسال کرتے رہے اور عربی ٹائپنگ میں طلبہ مہارت پیداکریں، اس مقصد کے لیے اپنے ذاتی صرفہ سے کئی عربی ٹائپ رائٹر مشین اور پھر بعد میں کئی کمپیوٹر ہدیہ میں دیئے اور جامعہ میں کمپیوٹر میں مہارت پیدا کرنے کے لیے اربابِ جامعہ سے گفت و شنید کرکے کمپیوٹر کی کلاس کا آغاز کروایا اور اس سلسلہ میں ہونے والے مصارف برداشت کیے۔اور اطراف اورنگ آباد سے غلہ کی وصولی کے لیے جب جامعہ کو ٹاٹا چار سوسات (TATA 407) کی ضرورت پیش آئی اور جامعہ اس موقف میں نہیں تھا کہ نئی گاڑی خریدسکے، اس نازک موقعہ پر موجودہ ناظم جامعہ حضرت مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی کے حسن توسط سے ہی ٹاٹا چار سوسات کی خریداری عمل میں آئی اور ایسے بہت سے مواقع پیش آئے جہاں مولانا کے ذریعہ ہی جامعہ کوکئی چیزیں حاصل ہوسکی۔ اسی طرح کاشف آباد مٹمٹہ کی چودہ ایکٹر زمین کی خریداری کا مرحلہ پیش آیا اور کچھ دشواریاں بھی تھیں۔ اس نازک مرحلہ پر مولانا حلیمی نے اربابِ جامعہ کی رہنمائی فرمائی اور رجسٹری کے مرحلہ کو انجام تک پہونچایا۔ اس طرح سعودی عربیہ میں اپنے پینتیس سالہ قیام کے دوران جامعہ کا خاموش تعاون فرماتے رہے اور باربار ا س کی تاکید کرتے رہے کہ میں یہ کام صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کررہا ہوں۔ اس لیے کہیں بھی میرا نام و تذکرہ نہ ہو۔ لیکن یہ چیزیں صرف اس لیے لکھی جارہی ہیں تاکہ عوام الناس اور خواص کا وہ طبقہ جو مولانا موصوف اور کاشف العلوم کے سلسلہ میں مولانا کی خدمات سے ناواقف ہیں، ان کو تمام چیزوں سے واقفیت حاصل ہو اور مولانا کی شخصیت کے سلسلہ میں ان کے دل میں عظمت کی پہلو اجاگر ہو۔
ناظم جامعہ مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی ایک کامیاب مدرس کی حیثیت سے اپنے طلبہ میں مشہور تھے۔ وہ مطالعہ کے بعد ہی اپنے مضمون کی تدریس کرتے تھے اور دورانِ تدریس جب تک طلبہ مطمئن نہ ہوں اس وقت تک طلبہ کے درمیان افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رکھتے۔
تدریس کے ساتھ ساتھ ان کو اس کا بھی احساس تھا کہ جامعہ کی ترقی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے انھوں نے آگرہ، علی گڑھ اور دہلی کے متعدد اسفار کیے اور وہاں کے متمول افراد کے سامنے جامعہ کا تعارف پیش کیا اوران حضرات نے بھی فراخ دلی کے ساتھ جامعہ کا مالی تعاون پیش کیا۔جامعہ کو جب کبھی غلّہ کی ضرورت پیش آئی تو مولانا موصوف اساتذہ کو ساتھ لیکر قرب و جوار دیہاتوں میں سائیکلوں پر سوار ہوکر غلہ وصول کرتے۔
اس کے ساتھ ساتھ مولانا کو اس کا احساس تھا کہ دین کی تبلیغ و دعوت بھی جامعہ کی ترقی کے لیے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر وہ تبلیغ و دعوت کے میدان میں مولانا سعید خان کے شانہ بہ شانہ رہے اوران کی رفاقت میں قرب وجوار کے متعدد اسفار کیے۔ مولانا محمد ریاض الدین فاروقی ندویؒ سے ان کی رفاقت اور ذہنی ہم آہنگی اتنی زیادہ تھی کہ وہ جب بھی سعودی عربیہ سے اورنگ آباد تشریف لاتے تو ان کا زیادہ تر وقت مولانا مرحوم کے ساتھ ہی گذرتا تھا اور مولانا مرحوم بھی مدرسہ کے علاوہ اوقات مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی کے ساتھ ہی ان کے گھر پر گذارتے اور یہ رفاقت اس حدتک بڑھی کہ مولانا عبد الوحید حلیمی مولانا ریاض الدین فاروقی ندوی کی بیس سال تک جدہ آمد پر میزبانی کا فریضہ انجام دیتے رہے اور مولانا مرحوم بھی کہیں اور قیام کے بجائے ناظم جامعہ مولانا عبد الوحید حلیمی کے دولت کدہ پر ہی قیام کو ترجیح دیتے ۔
مولانا کا اس جامعہ سے تعلق کے ایام پچاس سال پر محیط ہے۔اس پچاس سالہ تعلقات کی اگر پوری تاریخ لکھی جائے تو اس کے لیے سیکڑوں صفحات درکار ہوں گے ، لیکن مختصر یہ کہ مولانا نے مختلف میدانوں میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ تعلیمی میدان میں مولانا کے نقوش کی کارفرمائی یہ ہے کہ مولانا محمد نسیم الدین مفتاحی (صدر مدرس جامعہ کاشف العلوم) مفتی محمد معز الدین قاسمی (ناظم دار العلوم دولت آباد) ڈاکٹر عبد الرشید ندوی مدنی (سابق پروفیسر سرسید کالج) مولانا محمد منصب قاسمی (صدر مدرس دار العلوم یکخانہ) مولانا مفتی محمد نعیم مفتاحی (نائب صدر مدرس جامعہ کاشف العلوم) مولانا سردار خان ندوی (صدر مدرس جامعۃ الرضوان الاسلامیۃ) مولانا شیخ علیم الدین ندوی (معتمد تعلیمات جامعہ کاشف العلوم) مولانا عبد الشکور جامعی (ناظم جامعۃ الصالحات مٹمٹہ) ، قاری سید عارف الدین (صدر شعبۂ تجوید و قرأت ، جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا)اور سینکڑوں طلبہ آپ کے شاگردوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔
تعمیراتی میدان میں ناظم جامعہ مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی کے دست تعاون کی کارفرمائی یہ ہے کہ اس وقت جامعہ میں جو تعمیری ترقی نظر آرہی ہے، وہ مولانا کی ہی کاوشوں کی مرہون منت ہیں۔ تربیتی میدان میں مولانا کی کوششوں کی کارفرمائی یہ ہے کہ جمعیۃ الطلبہ، النادی العربی اور جمعیۃ الاصلاح کی جو بنیاد ڈالی تھی، انہی بنیادوں پر طلبہ کی تحریری و تقریری کاوشیں اب بھی جاری ہیں اور طلبہ ان شعبوں کے ذریعہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر پورے علاقہ میں تحریر و تقریر کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں اور علاقہ کی جامعات میں تدریس اور دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی کے مزاج میں انکساری اور تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بچپن، عنفوانِ شباب اور آج جب کہ وہ اپنی عمر کی بہتّر ویں بہار میں ہے، ہمیشہ اخفاء اور کسر نفسی ان کی فطرتِ ثانیہ رہی اور آج بھی ماشاء اللہ ان کی یہ صفت ان کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز رکھتی ہے۔ علمی حیثیت اور مالی حیثیت دونوں میں وہ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن کبھی بھی نہ انھوں نے اپنی علمی حیثیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی او رنہ کبھی اپنی مالی حیثیت کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔
آج جب کہ وہ اس عظیم ادارہ کے ناظم ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور اس جامعہ کی ترقی کے لیے اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور تقریباً چالیس سال سے جس اخلاص کے ساتھ وہ جامعہ سے منسلک رہے ہیں، اُسی اخلاص کے ساتھ وہ آئندہ بھی اپنے اس ارتباط و تعلق کو باقی رکھے۔ اخیر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مولانا عبد الوحید حلیمی کو حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کا اعتماد حاصل تھا اور اب موجودہ ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ اور یہ تذکرہ بھی بیجا نہ ہوگا کہ شہراورنگ آباد کے تمام علماء کرام مولانا موصوف سے قلبی تعلق رکھتے ہیں اوران کا پورا احترام کرتے ہیں اور جب مولانا موصوف کا بہ حیثیت ناظم انتخاب ہوا تو تمام علماء کرام نے اپنی قلبی مسرت کا اظہار کیا۔
جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کی مجلس عاملہ جو چیریٹی کمشنر میں ایک رجسٹرڈ ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے، مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی تقریباً چالیس سال سے اس مجلس عاملہ کے معزز رکن ہیں اور اب اس مجلس عاملہ کے معزز رکن کے ساتھ ساتھ جامعہ کے ناظم بھی ہیں۔ جامعہ کی مجلس عاملہ نے مولانا کا بہ حیثیت ناظم انتخاب فرماکر اپنے حسن انتخاب اور ’’حق بحقدار رسید‘‘ کا جو اہم فریضہ و کارنامہ انجام دیا ہے، ہم مجلس عاملہ کو اس انتخاب پر اور مولانا عبد الوحید حلیمی کو ناظم جامعہ منتخب ہونے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرکے میں امید کرتے ہیں کہ جامعہ ان کے دورِنظامت میں ترقی کی آخری منزلوں تک پہونچے گا اور شہریانِ اورنگ آباد، متوسلین جامعہ، اساتذۂ جامعہ، ہمدردانِ جامعہ اور رفقاء جامعہ سے یہ گذارش کرتے ہیں کہ وہ مولانا عبد الوحید حلیمی کا جامعہ کے سلسلہ میں بھرپور تعاون فرمائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×