شخصیات

جبینِ عدل پہ اب تک رقم ہے خوئے عمر

اسلامی حکومت مصر تک پہنچ چکی تھی، تاریخِ اسلام میں جس قدر ترقی ؛فاروقِ اعظم کے دورخلافتِ میں ممکن تھی مکمل ہوچکی تھی، اسلام عرب سے نکل کر عجم کی جانب گامزن تھا، لشکرِ اسلام نئی نئی سر زمینوں اورمختلف عجمی ممالک کے در پر دستک دے رہا تھا، ایران اور روم اس وقت کی دو سب سے بڑی طاقتیں بھی اسلام کے ہاتھوں فتح ہو چکی تھیں،عدل و انصاف اپنی حدود کو پہنچ چکا تھا اور مساوات کا یہ حال تھا کہ وہ جہاں تھی اس سے زیادہ ممکن ہو نہیں سکتی تھی،امیر المومنین کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔
لیکن وہاں آسمانوں پر فیصلہ سنایا جا چکا تھا کہ خلافتِ عمرؓ کا مقصدپوراہوچکاہے ، فیروز نامی پارسی، مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا، جو چکیاں بنانے میں ماہر تھا، عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں ایرانی فتوحات سے اس قدر نالاں تھاکہ اس کے دل میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انتقام لینے کی آگ بھڑک رہی تھی،ایک روز وہ اپنے مالک کی شکایت لے کر امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا میرا مالک مجھ سے زائد ٹیکس وصول کرتا ہے ، آپ نے دریافت کیا کہ کتنا ٹیکس وصول کرتا ہے ؟ بتایا: دودرہم یومیہ۔ آپؓ نے فرمایا پھر توتمہارے فن اور کاریگری کے لحاظ سے مناسب ہے زیادہ نہیں ہے ،اس کے بعد آپؓ نے فرمایا 148سنا ہے تم چکیاں بہت اچھی بناتے ہو، ایک چکی مجھے بھی بنا کر دو۔148 اس نے کہامیں آپ کے لئے ایسی چکی بنا کر دوں گا جس کی دھوم ساری دنیا میں ہو گی، اس کے جانے کے بعد آپ نے وہاں موجود صحابہ کرامؓ سے فرمایا یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے ، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:148اے امیر المومنین !حکم دیں تواس کو گرفتار کر لیں؛148 آپ کا عدل دیکھئے ! فرمایا: اس نے مجھے دھمکی ضرور دی ہے ، مگر اقدام جرم نہیں کیا ہے ؛ لہذا تعزیر نہیں لگائی جا سکتی۔
۲۶ ذوالحجہ (کچھ روایات میں ۷۲ذوالحجہ بھی ہے )سن ۲۳ھ بدھ کے دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسبِ معمول نمازِ فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع فرمائی ابھی تکبیرِ تحریمہ ہی کہی تھی کہ وہی فیروز نامی شخص مسجد کے محراب میں چھپا ہوا تھا اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شکم میں زہر آلود خنجر کے تین وار کیے جس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافی گہرے زخم آئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے سپرد کیا اور خود اشاروں سے نماز مکمل فرمائی ، نماز کے بعد پہلا سوال تھا کہ میرا قاتل کون ہے ؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیاائے امیر المومنین ! ایک کافر ہے ۔
آپ نے بلند آواز میں کہا الحمد للہ۔ گویا آپ کو معلوم ہو گیا کہ آپ کی شہادت کا وقت قریب آ گیا ہے ۔ حکیم بلایا گیا، اس نے دوا دی مگر وہ زخموں کے راستے باہر آ گئی، آپ کو یقین ہو گیا کہ میر ی شہادت کی خواہش ضرور پوری ہو گی،چنانچہ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جاؤ!جاکر میرا سلام کہنا اور درخواست پیش کرنا کہ عمر خادم اسلام کی حیثیت سے حضور اقدس ﷺکے پہلو میں جگہ چاہتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلے آئے اور آپ کی درخواست پیش کی۔ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ بہت قیمتی ہے کوئی اور ہوتا تو میں شاید انکار کر دیتی ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیسے انکار کروں جنہوں نے ایسے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا جب سبھی میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے اُس عظیم انسان کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں،جب اس نے برملا اعلان فرمایا تھا: 148 سبحٰنک ھذا بھتان عظیم145145 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے توآپ نے فرمایا مجھے اٹھا کر بٹھاؤ!اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جواب لیٹ کر سننا بے ادبی و گستاخی سمجھتا ہوں۔ آپ کے بیٹے نے خوشخبری سنائی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے ، سجدہ شکر ادا کیا اور حاضرین محفل کو ایک بار پھر وصیت کی کہ جب 148جب میرا انتقال ہو جائے ، میرے کان سننا بند کر دیں، میری زبان بولنا چھوڑ دے ، میرے پاؤں چلنے سے عاجز آجائیں، میرے ہاتھ میرا ساتھ چھوڑ دیں، میرا جسم کفن میں لپیٹ دیا جائے ،اور میری میت اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے کے دروازے پر رکھ دی جائے ،تو میرے چہرے سے کفن ہٹا کر ایک مرتبہ پھر اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روضۂ اقدس میں تدفین کی اجازت طلب کی جائے ۔ اگر وہ اس امر کی اجازت دیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے جنت البقیع میں دفن کر دیا جائے ؛ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا، آپ ہفتے کے دن یکم محرم الحرام کو جامِ شہادت نوش فرما گئے ، بوقتِ وفات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تریسٹھ برس تھی۔ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے روضہ مبارکہ ہی کے اندر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے ۔
مختصر فضائل وکمالات:
امیر المؤمنین ، خلیفۃ المسلمین سیدنا عمرفاروقؓ باتفاق صحابہ کرام ، حضرات انبیاء اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہیں ، آپ مرادِ نبی ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے رب سے مانگ کر آپ کو طلب فرمایا ، آپ کی رائے کے موافق متعدد آیاتِ قرآنی نازل ہوئیں ، آپ کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میرے بعد اگر نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمر نبی ہوتے ۔مزید فرمایاکہ جس گلی سے عمر گزرتے ہیں اس گلی سے شیطان نہیں گزرتا ، یوں بھی ارشاد فرمایا کہ آپ کمالِ علم اور کمالِ دین کے حسین امتزاج ہیں ، آپ روحانیت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز تھے کہ اللہ نے آپ کے لئے درمیان کے زمینی حجاب تک اٹھادئیے ، دریائے نیل نے آپ کے حکم پر سرِتسلیم خم کردیا جن کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ماطلعت الشمس علی رجل خیر من عمر (مستدرک حاکم) حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے فرمایا: ان مات عمر رق الاسلام (طبقات)حضرت سعید بن زیدؓ نے فرمایا کہ شہادتِ فاروق سے اسلام میں ایسا شگاف پڑگیا جو قیامت تک بندہوتا نظر نہیں آتا۔
حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم حضرت عمر فاروقؓ تیز فہم اور دوربیں تھے ، حضرت علیؓ نے تو آپ کو مختلف القاب سے یاد فرمایا ، کبھی رجل مبارک فرمایا تو کبھی قوی امین فرمایا، کبھی رشید الامر فرمایا توکبھی امام الھدی فرمایا (تاریخ الامم، طبقات)ان سب رفعتوں اور بلندیوں کے باوجود آپ حددرجہ متواضع، عبدیت اور بندگی کے اعلیٰ معیارپر فائز ،اور خوف وخشیت ، تقویٰ وللہیت کے بلند مینار تھے ، زندگی سادہ ، غذابے تکلف اور لباس معمولی تھا جس پر ۱۷،۱۷پیوند لگے ہوتے تھے ۔
تنظیم مملکت:
فاروق اعظمؓ نے اپنی حسن تدبیر اور سیاسی بصیرت سے پورے ملک کے نظم ونسق اور حساب وکتاب کی جانچ پرکھ کا ایک ایسا جامع نظام مرتب فرمایا کہ حج کے مہینہ میں تمام صوبوں کی مفصل رپورٹیں لائی جاتیں، مالیات کا جائزہ لیا جاتا، حاکموں اور گورنروں کا محاسبہ ہوتا، مظلومین کی شکایتیں سنی جاتیں، حق داروں کے حقوق دلوائے جاتے ، ہر نئے عامل وحاکم کے لئے یہ اعلان جاری کیا جاتا کہ عوامی فلاح وبہبود کا خاص خیال رکھے ، نام ونمود اور ظاہری آرائش وزیبائش سے کنارہ کشی اختیار کرے ، دن ورات اپنا دروازہ عوام کے لئے کھلا رکھے ، ترکی گھوڑے پر سواری ترک کردے ، سلے ہوئے باریک کپڑوں سے اجتناب کرے ، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھائے ، اپنے دروازہ پر کوئی دربان نہ رکھے ۔
خود امیر المؤمنینؓ کا یہ عالم تھا کہ راتوں کو گشت کے لئے نکل پڑتے ،محتاجوں کی حاجت پوری کرتے ، اپنے کندھوں پر لادھ لادھ کر غلہ کا انتظام کرتے ، غلام عرض کرتا کہ امیر المؤمنین ! آپ کیوں زحمت اٹھاتے ہیں؟میری پیٹھ پر لادھ دیجئے ! ارشاد فرماتے : لاتزروازرۃ وزر اخری کیا قیامت میں بھی عمر کا بوجھ اٹھاؤگے ؟ ۔
قرآن مجید اور سنت رسول کے سب سے بڑے عالم تھے ، تلاوت قرآن کے دوران ایسی حالت طاری ہوتی کہ کئی کئی دن بیمار رہتے مگر اس حال میں بھی خلقِ خدا سے کبھی غافل نہ رہے ۔
الغرض آپ نے حدودمملکت کی تنظیم وتوسیع میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، راتوں کو جاگ جاگ کر فریضۂ خلافت ادا کیا، ملکی انتظام وانصرام کے لئے متعدد شعبے قائم کئے ، افتاء وقضاکا نظام برپا کیا ، بیت المال کو وسعت بخشی ،نظم ونسق ، امن وامان ، فتح ونصرت ، تعمیر وترقی، ہر نوعیت سے حضرت عمرؓ کا دور سب سے مثالی اور ممتاز دور کہا جا سکتا ہے ۔
آپ کی حیات طیبہ کے ایک ایک گوشہ کو اس مختصر مقالہ میں بیان کرنا ناممکن اور محال ہے ،جس عظیم شخصیت کا تذکرہ مؤرخین نے متعدد جلدوں میں کیا ہے اس کو چند صفحات وسطور میں کیونکر سمیٹا جاسکتا ہے ؟؟؟ ؂دامانِ نگہ تنگ، گلِ حسن تو بسیار
فتوحات فاروقی پر ایک نظر:
فتوحاتِ فاروقی کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل بیان کیا جاتا ہے ، یہ فتوحات ، ایران وروم کی عظیم سلطنتوں کے مقابلہ میں عرب کے مفلوک الحال بدّووں کو حاصل ہوئیں ، ایک طرف روم کی حکومت ، جزیرہ نما بلقان، ایشیائے کوچک، شام، فلسطین ،مصر ، سوڈان پر محیط تھی تو دوسری طرف ایرانیوں کے قبضہ میں بھی رومیوں سے کم ملک نہیں تھے ، یہ دونوں سلطنتیں مشرقی ومغربی دنیا پر اپنے اثر ورسوخ اور تہذیب وتمدن کے اعتبار سے سب پر غالب وفائق تھیں، کسی تیسری طاقت میں اس بات کی مجال نہیں تھی کہ وہ ان سے آمادۂ پیکار ہوسکے ، مگر مسلمانوں نے ان کے خلاف لشکر کشی کی اور بیک وقت دونوں کا مقابلہ کیا اس حال میں دشمنان اسلام کے ہاں سامانِ حرب کی فراوانی، وسائلِ حیات کی بہتات، اور اعلیٰ فوجی افسران ودانشمند اہلِ کاروں کی کثرت تھی جبکہ مسلمان ان سب ظاہری اسباب سے تہی دست وتہی دامن تھے مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ، دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے حصے میں ایسی حیرت انگیز ،خارقِ عادت اور محیر العقول فتوحات آئیں کہ دشمنانِ اسلام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے 146146 اگر حضرت عمرؓ کی خلافت مزید 10?سال ہوتی تو عالم کا چپہ چپہ اسلام کے زمزموں سے معمور ہوجاتا 145145۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی نمایاں فتوحات اور اہم کا رناموں کا صرف اجمالاً ذکر کردیا جائے ، جہاں تک تفصیل واحاطہ کا تعلق ہے تو ؂ سفینہ چاہئے اس بحرِبیکراں کے لئے
(۱)نجران کے عیسائیوں کی جلاوطنی(۲)عراق پر لشکر کشی (۳)فتح دمشق(۴)جنگ فحل (۵)فتح بیساں (۶)صداء(۷)عرقہ(۸)جیل (۹)بیروت (۱۰ )عراقی معرکے (۱۱)فتح کسکر (۱۲)فتحِ باقشیا (۱۳)جنگ لویب (۱۴)جنگ قادسیہ(۱۵)فتحِ بابل (۱۶)فتح کوفہ (۱۷)فتحِ مدائن (۱۸)معرکۂ جلولا (۱۹)شامی معرکے (۲۰)فتح حمس (۲۱)فتحِ فسریں ، فتحِ حلب، فتح انطاکیہ (۲۲)فتحِ نصراس ومرغش وحرث(۲۳)فتحِ قیساریہ وفتح اجنادس(۲۴)فتحِ بیت المقدس (۲۵)فتحِ کریب وجزیرہ(۲۶)فتحِ اہواز(۲۷)فتحِ مصر(۲۸) جنگ نہاوند (۲۹)ملک عجم کی عام تسخیر (۳۰)ایران پر لشکر کشی (۳۱)فتحِ اصفہان(۳۲)ہمدان وغیرہ کی فتح (۳۳) آذربائیجان(۳۴)طبرستان (۳۵) آرمینیہ (۳۶)فارس (۳۷) کرمان (۳۸) سیستان (۳۹)مکران (۴۰) خراسان ۔(تاریخ طبری مترجم،عظمت صحابہ نمبردارالعلوم )
یہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں پیش آنے والے جنگی معرکوں کی مختصر فہرست ہے جس سے آپ کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور سرفروشانہ کارناموں کا اندازہ ہوتا ہے ۔ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
المختصر : حضرت عمر فاروقؓ کا بے مثال اعلیٰ کردار، ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے ان کی انتظامی قابلیت ؛ذمہ داروں اور عہدیداروں کے لئے ،سیاسی تدبر؛ حکمرانوں اور بادشاہوں کیلئے ، آہ سحر گاہی؛ زاہدین وصوفیاء کے لئے ، ایثاروقربانی ؛ہر مرد مومن کے لئے آج بھی لائقِ تقلید ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×