شخصیات

مجاہد ملت مولانا نصیر الدینؒ؛ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ہر ذی روح کو موت تو آنا ہی ہے۔ دنیا میں ہزاروں انسان پیدا ہوتے ہیں اور اس دنیا سے رخصت بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان ہی میں کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں، جن کو گزارنے کے بعد بھی زمانہ یاد رکھتا ہے۔ ایسے لوگ محض ایک انسان نہیں ہوتے بلکہ اپنے ویژن اور بلند مقاصد کے تحت قوم و ملت کے رہبران میں شمار ہوتے ہیں۔

حیدرآباد دکن کے مشہور و معروف عالم دین، بےباک مقرر اور عزم و استقلال کے پہاڑ مولانا نصیر الدین صاحب المعروف نصیر بھائی کا 27 جون 2020 کو انتقال ہوگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ مولانا نصیر الدین صاحب کے اندر ملی ہمدردی، غیرت، اسلامی حمیت اور قومی درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ گویا ان کے سینے میں ملت کے لیے ایک دھڑکتا ہوا دل تھا۔ جو ہمیشہ ہر ملی واقعہ کا فورا تاثر لیتا تھا۔ ان کی حمیت بھڑک اٹھتی تھی اور وہ برملا حق کا اظہار کرتے۔

زندگی جہد مسلسل کی پیکر:
مولانا نصیر الدین صاحب اپنے بچپن سے ہی متحرک اور سرگرم تھے۔ وہ جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظم ایس آئی او سے طویل زمانہ تک وابستہ رہے۔ ایمرجنسی 1975 کے دوران محض 26 برس کی عمر میں انھیں شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔

بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہندوستان کی تاریخ اور اس کی ‘جمہوریت’ پر بد نما داغ ہے۔ 6 ڈسمبر 1992 کے دن ایودھیا میں واقع بابری مسجد کی شہادت کے فورا بعد انھوں نے حیدرآباد کے مشہور علاقہ عابڈز میں نماز قنوت نازلہ کا اہتمام کرایا اور خود اس جماعت کی امامت کی۔ اسی بنیاد پر انھیں اور دیگر 62 لوگوں کو ٹاڈا اور پوٹا جیسے نہایت ہی ظالمانہ قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اس وقت انہیں خوب ٹارچر کیا گیا۔ لیکن اس بندے خدا نے ہر وقت بابری مسجد کے حق میں اپنے آواز بلند کی۔ مولانا ہر سال 6 دسمبر کو یوم شہادت کا خاص اہتمام کرتے اور اس مسئلہ کی حساسیت کا اظہار کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت (9 نومبر 2019) کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو مولانا اور ان کے افراد خاندان نے احتجاج کیا اور انھوں نے قنوط نازلہ پڑھائی، جب تمام ہندوستانی مسلمان اور دینی و ملی جماعتیں خاموش تھی۔

سنہ 2002 کے گجرات فسادات ہندوستان میں طاقت اور اقتدار کے ذریعے مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی علامت ہے۔ ان فسادات کے بعد نومبر 2004 میں مولانا مرحوم کو ملزم اور مجرم بنا کر پھنسایا گیا، یہی نہیں ان کے دو فرزندوں کو بھی اس کیس میں ملوث بتایا گیا۔ اسی وجہ سے 2004 تا 2009 تک مولانا کو جیل میں رکھا گیا۔ ستمبر 2009 میں ان کی رہائی ہوئی۔ اس کے بعد جنوری 2012 میں کورٹ نے تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے باعزت بری کردیا۔ تاہم ان کے ایک فرزند ابھی بھی جیل کی سلاخوں میں قید ہیں۔

این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج، جلسوں، کارنر میٹنگز اور مظاہروں میں آپ سرگرم انداز میں شریک رہے ہیں۔اس دوران تقریریں بھی کرتے۔ مولانا کو دیکھ کر نوجوانوں نے تحریک حاصل کی۔ مولانا محترم کی پوری زندگی باطل کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر حق کا اظہار کرنے میں گزری ہے۔ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی مولانا کے پائے استقامت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی۔ بلکہ وہ اور توانا اور مضبوط ہوتے گئے۔

وہ انا اور تکبر سے کوسوں دور تھے۔ مولانا نے ہروقت زمینی سطح پر رہ کر کام کیا۔ ان کی شخصیت بے لوث اور بے باک تھی۔ عالم اسلام کے سلسلے میں گہری دلچسپی اور قلبی لگاو تھا۔ حیدرآباد میں اندرا پارک کے قریب واقع دھرنا چوک اس بات کا گواہ ہے کہ جب کبھی فلسطینی مسلمان ماؤوں اور بچوں پر ظلم و زیادتی کی جاتی تو آپ احتجاج کا کال دیتے۔ جن کی آواز پر لبیک کہہ کر لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے۔ شامی مسلمانوں کے حق میں بھی آپ نے کئی مظاہرے کیے۔ عالم اسلام کی کئی معروف شخصیات کے انتقال پر آپ نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ گزشتہ برس جب مصر کے پہلے منتخب اور جمہوری صدر ڈاکٹر حافظ محمد مرسی کا انتقال ہوا تو مولانا نے ان کی غائبانہ نمازجنازہ کی امامت کی۔

مقبولیت:
مولانا کو تمام مکاتب فکر اور مسالک کے درمیان یکساں محبوبیت اور مقبولیت حاصل تھی۔ حیدرآباد کی تمام ملی جماعتوں اور تنظیموں کے مختلف پروگرامز میں انھیں خصوصی طور مدعو کیا جاتا۔ مولا نصیر الدین صاحب کی مقبولیت صرف مسلمانوں کے درمیان ہی تک محدود نہیں تھی، بلکہ برادران وطن کے درمیان بھی وہ جانے پہچانے جاتے تھے۔ وہ لوگ بھی ان کی عزت و توقیر کرتے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت بابری مسجد کی شہادت کے ضمن میں احتجاج کرنے پر مولانا کو گرفتار کیا گیا تھا، اسی وقت شہر کی ایس سی، ایس ٹی اور دلت تنظیموں نے احتجاج کیا تھا۔ جس کے بعد مولانا کی ہردلعزیزی کے سلسلے میں سیاسی حلقوں اور محکمہ پولیس میں گہرام مچ کیا۔

مولانا نوجوانوں میں بھی بہت مقبول تھے۔ حیدرآباد کے مختلف محلہ جات میں جاکر وہ خود اور ان کے ساتھی محلے کے نوجوانوں کو جمع کرتے اور شعور بیدار کرتے۔ وہ خاص طور پر خوشگوار خاندانی تعلقات اور ایک دوسرے سے اچھا سلوک کرنے پر بہت زور دیتے۔ مولانا اپنی پیش تر تقریروں میں مسلمانوں کو اپنی صحت پر خصوصی توجہ دلاتے۔ مولانا اپنی تقریروں میں بار بار ایک حدیث کا تذکرہ کرتے کہ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ مولانا کی ان تقریروں سے نوجوانوں کے اندر جوش اور ولولہ پیدا ہوتا۔ مولانا کی حق گوئی تو علامہ اقبال کے اس شعر کی واضح مثال تھی۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

وحدت اسلامی کا پیغام:
مولانا شہر حیدرآباد کے مختلف مقامات پر درس قرآن دیا کرتے۔ ان دروس میں بھی نوجوانوں کی زیادہ تعداد شریک رہتی۔ اس کی سب سے خاص اور اہم وجہ یہی ہے کہ آپ ہمیشہ وحدت اسلامی اور ملی اتحاد کا درس دیا کرتے۔ قرآن کی تشریح، احادیث کی تفہیم اور سیرت کے واقعات کو بڑے ہی آسان، خوبصورت اور دلنیش انداز میں پیش کرتے۔

ادھر چند برسوں سے گردے کے عارضہ میں مبتلا تھے لیکن کبھی بھی بیماری سے گھبرا کر جدوجہد کے راستے سے نہیں ہٹے۔ یہی بیماری ان کے انتقال کا سبب بنی۔ مولانا کا انتقال بالخصوص مسلمانان دکن اور بالعموم پورے ملک کے مسلمانوں کے لیے بڑا سخت اور اندوہناک نقصان ہے۔ الله تعالٰی مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے۔ ان کا نعم البدل بھی عطا فرمائے۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×