حضرت مولانا محمد طلحہ صاحبؒ ، حیات وخدمات (سانحہ ارتحال کے موقع سے تحریر )
آج ملک جن احوال سے گذر رہا ہے ، ایسے میں بڑے بڑے اکابر اسلاف علماء کا دنیا سے گذر جانا دل کو نہایت پریشان اور غم آگیں کرنے والا لمحہ ہے ، آفات وبلیات سے گذرتی امت کے لئے اکابر اسلاف علماء کا سایہ ، ان کی امت کے تئیں کڑھن ، درد وکسک اور ان کا راتوں کا رونا دھونا امت کے حق میں خیر سگالی اور خوش حالی کے دعا گو نا ہونا، یہ امت مسلمہ کے لئے درد کا مداوا اور ان کی مشکل گھڑیوں میں امت کے لئے نیک فال تھا، لیکن جب خاصان خاص ، اللہ والے اور اللہ کے محبوب ومقرب مستجاب الدعوات شخصیات اس دنیا سے گذر جاتے ہیں، تو امت کو اپنی کم دامنی اور کوتاہ قد اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے ۔
ابھی فورا یہ اندوہ ناک خبر پڑھنے کو ملی کہ پرانے اسلاف امت اور علما ء جن کا اس ملک کی دینی وسیاسی اور ملی خدمات میں بہت بڑا حصہ تھا، ان اکابر واسلاف کی نشانی اور علم وعمل کے پیکر محدث عظیم ، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ؒ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب سہارنپوری اس دنیا سے کوچ کر کے راہ دار بقا ہوگئے ، انا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
حیات وخدمات:
آپ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے اکلوتے فرزند او رصاحبزادے ہیں، ۲؍جمادی الاولی ۱۳۶۰ھ؍۲۸؍مئی ۱۹۴۱ ء کو نظام الدین دہلی میں پیدا ہوئے ، مدرسہ کاشف العلوم بستی حضرت نظام الدین دہلی او رمظاہر العلوم میں تعلیم حاصل کی اور فراغت مدرسہ کاشف العلو سے ۱۳۸۳ھ ؍۱۹۶۳ء میں ہوئی جہاں حضرت مولانا محمد یوسفؒ صاحب امیر تبلیغ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒالحسن صاحب وغیرہ حدیث کی اعلیٰ کتابیں پڑھاتے تھے ۔
حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے بیعت ہوئے اوراجازت وخلافت حضرت شیخ الحدیث ؒ نے عطا فرمائی۔
۱۴۰۲ھ ۱۹۸۲ء میں مظاہر علوم سہارن پور کے رکن شوری وسرپرست منتخب ہوئے ، ۱۴۰۸ھ؍۱۹۸۸ء میں جامعہ مظاہر العلوم کے امین عام کا عہدہ شروع ہونے کے بعد آپ پہلے امین عام (جنر ل سکریٹری ) مقرر ہوئے اور اس منصب پر ۱۴۱۳ھ؍۱۹۹۳ ء تک فائز رہے ۔
۱۴۲۸ھ؍۲۰۰۷ میں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے ، اس کے علاوہ آپ بہت سے اہم مدارس ومعاہد کے سرپرست اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے شیخ ومرشد رہے ۔
حضرت کی خصوصیات:
آب بیتی میں نہایت تلاش وجستجو کے بعد حضرت کے علاوہ سے چند خصوصیات ، خوبیوں خصوصا بزرگوں کی عنایات کا تذکرہ بڑے دلچسپ انداز میں موجود تھا، در اصل یہ اقتباس ہی حضرت کی للہیت، توجہ الی اللہ، بزرگان دین کی ان پر خصوصی شفقت وعنایت ، ا ن کی انتظامی صلاحیت ، توازن واعتدال اور خدمت کے جذبہ اور اصابت رائے کا پتہ دیتا ہے جو انہیں پدری وراثت میں ملی تھی ، میری اس حقیر سراپا تقصیر کی حضرت سے ملاقات ایک دفعہ دار العلوم کے طالب علمی کے زمانے میں دورہ حدیث کے موقع سے مسلسلات میں مظاہر العلوم میں شرکت کے وقت ہوئی تھی اور اس کے بعد حضرت کی دعا میں شرکت بھی میسر آئی تھی، اتفاق سے اسی رات سہارنپور کا مشہور مشاعرہ تھا، جس میں طلبہ نے شرکت کی تھی، جس کا تذکرہ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندہلوی ؒ نے فضائل اعمال میں کیاہے، یہ خطاکار بھی بعض حیدرآبادی طلبہ کے ساتھ اس مشاعرہ میں میں گیاتھا، فجر کے بعد حضرت کا نہایت دل دہلا دینے والا خطاب اور جمعرات کی مبارک رات کے ایسے بے حیاء اور حواس باختہ مشاعروں میں گذارنے پر بڑی ڈانٹ پلائی تھی، بڑا افسوس ہوا تھا، واقعۃ اس مشاعرے میں شرکت جیسا کہ حضرت شیخ زکریا صاحب ؒ نے بتایا ہے کہ کب رات کے گیارہ بجے مشاعرے میں گئے اور کھڑے کھڑے مشاعرہ سنا اور صبح آئے پتہ بھی نہیں چلا، یعنی عبادت گزار ، اللہ کے محبوب بندوں کی شب گزاری پر حضرت نے یہ مثال فضائل اعمال میں پیش کی تھی، کہ وہ اللہ کی محبت میں ایسے شب گزاری کرتے ہیں، جیسے ان معصیتوں میں شرکت کرنے والوں کی راتوں کا پتہ ہی نہیں چلتا ، کب گزری ، اس مشاعرے میں شرکت کے بعد جب مظاہر العلوم میں بعد فجر حضرت مولانا طلحہ صاحب رحمہ اللہ کا نہایت پرمغز اور خوف وخشیت اور ضیاع وقت اور خصوصا ایسے مشاعروں میں جمعرات کی مبارک رات گزارنے پر پر مغز خطاب نے دل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔
آپ بیتی کے آخری حصہ کایہ اقتباس ملاحظہ ہو ، جس میں حضرت مولانا طلحہ صاحب رحمہ اللہ کی خصوصیات اور خوبیوں کا جامع تذکرہ موجود ہے ۔
’’ مولوی محمد طلحہ صاحب : صاحبزادہ عزیز گرامی قدر مولوی محمد طلحہ کی زندگی ہی میں حافظ وعالم وذاکر وشاغل اور صاحب اجازت ہوگئے او ر ان پر شروع سے حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی خاص نگاہِ شفقت تھی اور بعض اوقات حضرت نے ان کی خاطر اپنے سفر کا پروگرام ملتوی فرمادیا اور فرمایا:’’ طلحہ نے مجھے روک دیا ‘‘ ویسے بھی تمام معاصر بزرگوں اور شیخ کے یہاں آنے جانے والے صلحاء علماء کی ان پر نظر خاص رہی، اللہ تعالیٰ نے ان کو انتظامی صلاحیت، توازن واعتدال ، تواضع اور خدمت کا جذبہ اور اصابت رائے کا جوہر عطا فرمایا، جو ان کی پدری میراث بھی تھی، حضرت شیخ کے سہارنپور میں رمضان گزرانے کے آخر میں وہی بڑے محرک تھے ، شیخ سے تعلق رکھنے والوں اور جن سے شیخ کو تعلق تھا، کے مرات کو وہ دوسروں سے زیادہ پہنچانتے تھے، اوراسی کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرتے تھے ، شیخ نے ان کی خصوصی تربیت فرمائی اور امکانی حد تک ان کی اندر صاحبزادگی اور مخدومیت کی بو نہیں پیدا ہونے دی ، اسلئے ان کے دوروں اور شیخ کے اہل ِ تعلق میں جانے کو ہمیشہ ناپسند کرتے رہے اور خود بھی اسے محترز رہے ۔
شیخؒ کے آخری زمانہ قیام مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے مع والدہ صاحبہ کے ان کو حضرت شیخ کے پاس پہنچادیا اورا ن کو خدمت کا پورا موقع ملا، شیخ کی وفات پر انہوں نے اسی صبر وتحمل اور وقار و سکینت کا مظاہرہ کیا اور دوسرے کے لئے باعث تقویت وتسلی بنے ، جیسے خود شیخ اپنی زندگی میں تعزیت کرنے والوں کے لئے بن جاتے تھے ۔‘‘(آپ بیتی: ۲؍۵۴۳، مکتبہ عمر فاروق کراچی )
حضرت قدس سرہ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ کے صاحبزادے اور صاحب علم وفضل اور کئی ایک مدارس کے سرپرست ، خصوصا سہارنپور اور دار العلوم دیوبند کے رکن شوری تھے اور سب سے بڑی قابل توجہ بات یہ تھی کہ ان کو حضرت زکریا صاحب کی صاحبزادگی کے نسبت سے تمام اکابر علماء اوراسلاف کی مشفقانہ عنایتوں سے سرفرازی اور آخری دور میں امت کے لئے نعمت عظمی تھے ، حضرت کا وصال امت کے لئے ایک بڑا سانحہ اور خصوصا موجودہ حالات میں ایک بڑا خلا ہے ، اللہ عزوجل حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور محبین معتقدین ، متوسلین اور اقرباء ورشتہ داروں کو صبر جمیل نصیب فرمائے ۔