شخصیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ، حیات وخدمات

پانچویں صدی ہجری اپنی انتہا پر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ایک لمبا عرصہ بیت چکا تھا، دنیا پھر جہالت اور گمراہی کی اندھیروں میں سرگرداں اور حیراں وپریشان تھی، امت مسلمہ نت نئے فتنوں سے دور چار تھی، اہل ایمان خود دین بیزار ، اخروی زندگی سے بے بہرہ ، دنیوی لذتوں اور چاہتوں میں منہمک ہوچکے تھے ، ایسے میں اللہ عزوجل نے سرزمین بغداد سے ہدایت کے سرچشمہ کو جاری کردیا، جس سے بے شمار مخلوق فیضیات ہوئی، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی پیدائش باسعادت کا یہ موقع تھا، بے شمار خلقت ان کے دست حق پر تائب ہوئی، بہرور اسلام ہوئی ، اسلام کی حقیقی تصویر سے آشنا ہوئی ۔
نام وپیدائش
آپ کا نام عبدالقادر ،کنیت ابو محمد ،لقب محی الدین ،پیدائش مقام جیلان ہے آپ کی ولادت ۴۷۱ ھ ؁ مطابق۱۰۷۸؁ء کو ہوئی جن کا سلسلۂ نسب والد صاحب کی طرف سے سیدنا حضرت امام حسنؓ تک اور والدہ ٔ محترمہ کی طرف سے سیدنا امام حسین ؓ تک پہنچتا ہے ۔آپ کی ولادت کے تھوڑی ہی مدت کے بعد والد محترم دنیائے سے رخصت ہوگئے، آپ کی پرورش وپرداخت آپ کے نانا محترم سید عبد اللہ صومعی نے کی، یہی وجہ تھی کو بسا اوقات آپ ’’ابن الصومعی‘‘ کے نام سے مخاطب کیاجاتا۔
ابتدائی حالات
آپ کے اندر ابتداء ہی سے وہ تمام صفات ظاہر ہونے لگی جو مقا مِ صدیقیت کیلئے مخصوص ہیں، ابتداء حفظِ قرآن،ادب،فقہ وغیرہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے علمی تشنگی کی تکمیل کیلئے شہر بغداد کا رخ کیا ،وہاں پر آپ نے اس زمانہ کے مشہور اہل علم وفضل سے کسب فیض کیا ،جن میں ابوسعیدؒ اور ابو غالب باقلانی ؒاور احمد بن المظفربن سوسؒ،اور ابولقاسم بن بیانؒ ،جعفر بن احمد السراجؒ وغیر ہ سر فہرست ہیں۔
زمانہ ٔ طالبِ علمی کی ریاضت
زمانۂ طالب علمی ہی سے حضرت شیخ مجاہدات وریاضات میں مصروف تھے، آپؒ خود فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ مجھ پر وہ بھی گزراہے کہ مجھ پر فاقوں کی کثرت ہوا کرتی تھی، ایک مرتبہ بڑا لمبا فاقہ ہوا تقریباً بیس روز تک کچھ کھانے کی چیز دستیاب نہیں ہوئی اور میں بھوک کی شدت کو برداشت نہ کرسکا، اب میں گری پڑی چیزوں کی تلاش میں نکل پڑا تلاش کرتے کرتے میں ایک بازار پر پہنچاجہاں پہنچ کر دیکھا کہ مجھ سے پہلے کئی محتاج بازار میں موجود ہیں تو میں ان کے لئے بازار کو چھوڑ کر واپس چلا آیا اور ایک مسجد میں آکر بیٹھ گیا اور ایسے محسوس ہونے لگا کہ میں موت سے مصافحہ کررہا ہوں ،اچانک ایک آدمی اپنے ہاتھ میں روٹی اور بھنا ہوا گوشت لئے ہوئے مسجد میں داخل ہوا اور ایک کنارہ پر بیٹھ کر کھانے لگا وہ لقمہ منھ تک اٹھایا ہی تھا کہ اس کی نظر مجھ پر پڑی اس نے مجھ کو بھی کھانے پر بلایا اولاً تو میں نے انکار کیا مگر جب اس نے قسم دے کر بلایا تو میں پہنچ گیا اور کھانے میں شریک ہوگیا ،دورانِ طعام اس نے گفتگو کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا تم کون ہو ؟ کیا نام ہے ؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟جب میں نے اپنا نام اور سکونت بتائی تو اس شخص کے حیرت کی انتہاء نہ رہی، پھر اس شخص نے کہا کہ میں تم کو کئی دنوں سے تلاش کررہاہوں تمہارا کوئی پتہ ہی نہیں چل رہا تھا، حتٰی کے میرا خرچ بھی ختم ہوگیا اور میں خود تین دن سے بھوکا ہوں بھوک کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میرے لئے مردار بھی حلال ہوچکا تھا میرے پاس سوائے تمہارے مال کے اور کچھ نہ تھا او رآج میں نے چوتھے روز تمہارے مال سے یہ خریداہے تاکہ پیٹ میں کچھ پڑجائے،اب تک تو میں یہ سمجھ رہا تھا کہ تم میرے مہمان ہو لیکن اب سمجھ میں آیا کہ میں تمہارا مہمان ہوں ،یہ تمہارا مال ہے جو تمہاری والدہ نے تم کو پہنچانے کیلئے دیا ہے،آپؒ نے اس شخص کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرتے ہوئے اس کو بھی کچھ مال دیا ،اور انہیں رخصت کیا، یہی وہ مجاہدات تھے جس کی وجہ سے حضرت شیخ ؒکو آگے چل کراتنااونچامرتبہ نصیب ہوا(دیکھئے ، الذیل علی طبقات الحنابلۃ لابن رجب: ۱؍۲۹۸)
، صحیح کہاا بن عطاء اللہ الاسکندری ؒنے :
من لم تکن بدایۃ محرقۃ لم تکن لہ نہایۃ مشرقۃ ۔
جس کیلے مشقتوں سے بھر پور ابتداء نہ ہو اس کا مستقبل تابناک نہ ہوگا۔
حلیہ ٔ مبارک
آپؒ میانہ قد ،نحیف البدن ،کشادہ سینہ ،پتلے ہاتھ پاؤں،لانبی داڑھی اور اونچی ناک والے تھے، آپ ہمیشہ صوفیانہ اور زاہدانہ لباس زیب تن کئے ہوئے رہتے تھے،ظا ہری سیرت کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں سے بھی آراستہ تھے نیک خو،خوش مزاج، کریم النفس، وسیع الاخلاق، متواضع ، رقیق القلب اور مستجاب الدعوات تھے، جب کسی کو آزردہ خاطر دیکھتے تو اس کو مسرور کردیتے اور اس کی ضرورت پوری فرمادیتے ۔
طریقۂ باطنی کی تکمیل
تزکیۂ نفس ان تین فرائض ِمنصبی میں سے ایک ہے جس کی بناء پرنبیٔ اکرم ﷺ کی بعثت ہوئی، تزکیہ کے معنی ظاہری وباطنی نجاسات سے پاک کرنا ہے ظاہری نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں اور باطنی نجاسات مثلاً کفر وشرک ،غیرا للہ پر اعتمادِ کلی اور اعتقاداتِ فاسدہ ، تکبر، حسد ،بغض اور حبِ دنیا۔
فطری اور عملی طور پر کسی فن کے حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور کمال حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ کسی مربی کے زیرِ تربیت اس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے ،سلوک وتصوف کی منزل میں کسی شیخِ کامل کی تربیت کا یہ مقام ہے کہ قرآن وسنت میں جن احکام کو عملی طور پر بتلایا گیا ہے اس کو عملی طور پر کرنے کی عادت ڈالی جائے ،آپؒ نے علم باطنی کی تکمیل شیخ حماد ؒ اور ابو سعیدؒ کے زیر ِتربیت کی اس کے بعد آپؒ نے اس باب میں وہ نمایاںخدمات انجام دیں جن کا احاطہ دشوار ہے ۔
حضرت شیخ کی باطنی خدمات
آپؒ نے اطیعوا ا للّٰہ واطیعوا الرسول کے منازل طئے کرتے ہوئے محبوب ِربّانی کے درجہ پر فائز ہوکر مخلوقِ خدا کی رہبری و ہدایت کا کام شروع کیا، بغداد کی سرحد پر باب الازج کے پاس ایک مدرسہ جو شیخ ابو سعیدؒ نے آپؒ کے سپرد کیا تھا وہاں بیٹھ کرلوگوں کو نصیحت کرنا شروع کیا، اتنا کثیر مجمع ہوتا تھاکہ مدرسہ تنگ دامنی کا شکوہ کرتا ،آپؒ نے اپنی خدمات کو وسعت دیتے ہوئے سلسلہ قادریہ کی بنیاد ڈالی ،دیگر سلاسل وطبقات کی شہرت توصرف ان کے حدود تک ہی محدود رہی لیکن یہ سلسلہ اپنے حدود سے متجاوز ہوکر ہر خاص وعا م میں رائج ہوا ،آپؒ نے اپنے بعد اپنے تلامذہ کا ایک جمِ غفیر اور اپنے ملفوظات کا بیش بہا خزانہ امت کے لئے سرمایۂ ہدایت کے طورپرچھوڑاجس سے امت رہتی دنیا تک سیراب ہوتی رہے گی ۔
شیخ کی عالی شان
آپ کے علو مرتبت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حفاظؒ حدیث نے آپؒ کی سوانح لکھی ،شیخ الاسلام علّامہ ذھبیؒ(متوفی۷۴۸؁ھ)نے آپ کی توصیف میںیوں لکھا ہے: الشیخ الامام، العالم، الزاہد، العارف، القدوہ، شیخ الاسلام، علم الاولیاء، ان کے بعد حافظ بن حجرؒ (متوفی۸۵۲؁ھ) نے بھی درر کامنہ میں توصیفی کلمات لکھے ہیں ،اسی طرح علّامہ نوویؒ ،ابن رجب حنبلیؒ ،ابن کثیرؒ،حافظ بن عمادؒ اور حافظ سمعانیؒ نے بھی آپؒ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور آپؒ کی خدمات کا اعتراف ببانگ دہل کیا ہے ۔
حضرت شیخ ؒکی علمی خدمات
آپؒ اپنے تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کے بعدبغدادہی کے ایک مدرسہ میں تدریسی خدمات پر فائز ہوئے ،یہیں سے آپؒ کے علمی وروحانی فیضان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ،آپؒ نے یہاں تدریس کے ساتھ افتاء کا کام بھی شرورع کیا ،آپ ؒکے کمالِ علم کا یہ عالم تھا کہ دور دورسے استفتاء آتے اور آپ ان کا برجستہ جواب لکھ دیا کرتے تھے، آپؒ کی وسعت نظری اور تبحرعلمی کی شاہد آپؒ کی کتب فتوح الغیب و غنیۃ الطالبین وغیرہ ہیں ۔
مدرسہ میں ایک سبق تفسیر کا، ایک فقہ کا اور ایک اختلافاتِ ائمہ اوران کے دلائل کا پڑھاتے تھے، صبح شام تفسیر، حدیث ، فقہ ، مذاہب ائمہ اصول فقہ اور نحو کے اسباق ہوتے ، ظہر کے بعد تجوید کی تعلیم ہوتی، اس کے علاوہ افتاء کی مشغولیت تھی بالعموم مذہب شافعی اور مذہب حنبلی کے مطابق فتوی دیتے ، علماء عراق آپ کے فتاوی سے بڑے متعجب ہوتے اور بڑی تعریف کرتے ( الطبقات الکبری للشعرانی: ۱؍۱۲۶، تاریخ دعوت وعزیمت: ۲۰۳)
ایک مرتبہ استفتاء آیا کہ ایک شخص نے قسم کھائی کہ وہ کوئی ایسی عبادت کرے گا جس میں عبادت کے وقت کوئی دوسرا شریک نہیں ہوگا، اگر اس نے قسم پوری نہیں کی تو اس کی بیوی کو تین طلاق ، علماء یہ استفتاء سن کر حیرت میں پڑگئے کہ ایسی کونسی عبادت ہوسکتی ہے جس میں وہ بالکل تنہا ہو اور روئے زمین پر کوئی شخص بھی اس وقت وہ عبادت نہ کر رہا ہوں حضرت شیخ ؒ کے پاس استفتاء آیا تو بے تکلف فرمایا کہ ’’مطاف ‘‘ اس کے لئے خالی کردیاجائے اور وہ سات چکر کر کے خانہ کعبہ کو طواف تنہا مکمل کرے ، علماء نے یہ جواب سن کر بے ساختتہ داد تحسین دی اور کہا کہ یہی ایک صورت ہے ہک وہ بلاشرکت غیرے عبادت کرے اور اپنی قسم پوری کرے ،اس لئے طواف بیت اللہ پر موقوف ہے اور مطاف اس شخص کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے ، اب اس عبادت میں کہیں بھی شرکت کا امکان نہیں ( الطبقات الکبری للشعرانی : ۱؍۱۲۶بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت : ۱؍۲۰۳)
حضرت شیخ کی کرامات
کسی ولی سے کوئی خرقِ عادت امر ظاہر ہو تو اس کو کرامت کہتے ہیں پوری امت اولیاء کے کرامتوں کو مانتی ہے ،کرامات اولیاء حق، اولیاء سے صادر ہونے والی کرامات حق ہیں، کرامات کے باب میں آپؒ کو جو فوقیت حاصل ہے وہ کسی اور کو شائد ہی حاصل ہو ،شیخ عز الدین عبد السلامؒاور علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ جتنی کرامات آپؒ کی مشہور ہوئیں کسی اور کی اتنی تواتر سے مشہور نہیں ہوئیں۔(تاریخ دعوت وعزیمت،:۱؍۲۰۱، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ)
ان میں سے سب سے بڑی کرامت مردہ دلوں کی مسیحائی تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوںں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی عطا فرمائی، آپ کا وجود اسلام کے لئے ایک بادبہار ی تھا، جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی، اور عالمِ اسلام میں ایمان وروحانیت کی ایک نئی لہر پیدا کردی تھی، (جلاء العینین بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت: ۲۰۱)شخ عمر کیسائی کہتے ہیں کہ کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں یہودی اور عیسائی اسلام قبول نہ کرتے ہوں اور رہزن خونی اور جرائم پیشہ توبہ سے مشرف نہ ہوتے ہوں، فاسد الاعتقاد اپنے غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں(قلائد الجواہر بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت: ۲۰۱)
آپؒ امراء سے بے نیاز رہتے تھے اور بادشاہوں کے ہدایا وغیرہ قبول کرنے سے احتراز کرتے تھے ،ایک وقت خلیفۂ وقت نے حاضر ہوکر اشرفیوں کا ذخیرہ پیش کیا آپؒ نے حسب معمول انکارکیا ادھر سے اصرار شدید ہوا، آپؒ نے اس ذخیرہ سے دو اشرفیاں لیکر آپس میں رگڑا تو اس سے خون بہنے لگا، پھر آپؒ نے خلیفہ سے مخاطب ہوکر فرمایا : اللہ سے شرم نہیں آتی کہ انسانوں کا خون بہاتے ہو ،اور ان کا مال کھاتے ہواور اس مال کو جمع کرکے میرے پاس لاتے ہو، خلیفہ یہ منظر دیکھ کر بیہوش ہوگیا،
ابو محمد اخفشؒ کہتے ہیں میں سخت سردی میں آپؒ کے یہاں جایا کرتا تھااورآپؒ پر صرف ایک چادر ہواکرتی تھی پھر بھی آپؒ کے جسم سے پسینہ ٹپکتا رہتا اور آپؒ کے ارد گرد شاگرد پنکھا ہلاتے رہتے ،بچپن سے ہی آپ سے کرامات کا ظہور ہونے لگا تھا والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ ایّام رضاعت میں آپؒ احکام شریعت کا اتنا احترام کرتے تھے کہ رمضان بھر دن میں دوددھ نہیں پیتے تھے، ایک مرتبہ ۲۹ شعبان کو ابر کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دیا تو دوسرے دن آپ نے دودھ نہ پیا تحقیق کے بعد پتا چلا کہ وہ دن رمضان کا تھا۔
حضرت شیخ کے ملفوظات اور مواعظ
آپؒ کے ارشادات اور مواعظ میں انتہائی شدت کے ساتھ اتباعِ سنت وپیرویٔ شریعت کی دعوت دی گئی ہے، آپؒ نے وفات سے پہلے اپنے لڑکے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :تجھ پر لازم ہے کہ اللہ کی اطاعت کرے اور اسی سے ڈرتا رہے اور کسی سے نہ ڈر،اللہ کے سواء کسی سے امید بھی مت باندھ اور اپنی تمام حاجتوں کو صرف اللہ ہی کی طرف رجوع کر اور جو کچھ مانگنا ہو صرف اسی سے مانگ، توحید کو لازم پکڑ اس لئے کہ توحید اجماعی مسئلہ ہے ۔
ایک جگہ آپؒ فرماتے ہیں کہ مخلوق سے سوال کرنا ضعف ِمعرفت کی دلیل ہے، بیم ورجاء عارف کے دو بازو ہیں ،ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا آخرت کو سرمایہ بناؤاور دنیا کو اس کا نفع ،اسی طرح ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:حصول مقصد میں ناکامی پر اللہ سے شکوہ کرنا ممنوع ہے ۔
حضرت شیخ کے یہاں رہبانیت کی تعلیم نہیں ، وہ دنیا کے استعمال اور اس سے بقدر ضرورت انتفاع سے منع نہیں فرماتے ، اسکی پرستش اور غلامی اوراس سے قلبی تعلق اور عشق سے منع فرماتے ہیں، ان کے مواعظ درحقیقت حدیث نبوی ’’ إن الدنیا خلقت لکم وأنتم خلقتم للآخرۃ‘‘ (بیشک دنیا تمہارے لئے پیدا کی گئی (یعنی تمہاری لونڈی ہے ) اور تم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ) کی تفسیر ہیں ، ایک موقع پر فرماتے ہیں:
’’ دنیا میں اپنا مقسوم اس طرح مت کھا کہ وہ بیٹھی ہوئی ہو اور تو کھڑا ہو ، بلکہ اس کو بادشاہ کے دروازہ پر اس طرح کھا کہ تو بیٹھاہوا ہو اور طباق اپنے سر پر رکھے ہوئے کھڑی ہو ، دنیا خدمت کرتی ہے اس کی جو حق تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑا ہوتا ہے اور جو دنیا کے دروازہ پر کھڑا ہوتا ہے اس کو ذلیل کرتی ہے ، کھا حق تعالیٰ کے ساتھ عزت وتونگری کے قدم پر ‘‘ (فیوض یزدانی مجلس : ۲۱، ۱۴۵، بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت : ۲۱۵)
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان ملفوظات کے آئینہ میں ہم اپنی زندگی کو جانچیں اور پرکھیں اور سونچیں کہ کیا وہ چیزیں جس کی حضرت پیران ِپیرؒ نے امت کو دعوت دی ہے اور جس کی طرف امت کی رہبری کی ہے وہ ہماری زندگی میں موجود ہیں؟ اور آج ہم شریعت مصطفوی ﷺسے کس قدر دور ہوچکے ہیں؟ خلاصہ یہ کہ حضرتؒ شیخ نے اپنی پوری زندگی دعوت دین ،احیائِ سنت ،اور ہدایتِ خلق میں گزاردی اور آپ کے صحیفۂ زندگی کی ایک ایک سطر احکامِ شرعی کے مطابق تھی، مکتوبات ومواعظ کا ایک ایک لفظ قرآن وسنت سے ماخوذ ومستنبط ہے۔
دین پر استقامت
حضرت شیخ استقامت کے پہاڑ تھے، اتباع کامل، علم راسخ اور تائید غیبی نے آپ کواس مقام پر پہونچادیا تھا کہ حق وباطل ، نور وظلمت ، الہام صحیح اور کید شیطانی میں پورا امتیاز ہوگیا تھا، آپ یہ حقیقت پوری طرح واشگاف ہوچلی تھی شریعت محمدی کے احکام اور حلال وحرام میں قیامت تک کے لئے تغیر وتبدل کا امکان نہیں ، جو اس کی خلاف دعوی کرے وہ شیطان ہے ، ارشاد فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ایک بڑی عظیم الشان رورشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے کنارے بھر گئے، اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی، اس نے مجھ سے خطاب کر کے کہا کہ اے عبد القادر ! میں تمہارا رب ہوں، میں نے تمہارے لئے سب محرمات حلال کردیئے ہیں، میں نے کہا: دور ہو مردود! یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت سے بدل گئی، اور وہ صورت دھواں بن گئی، اورایک آواز آئی کہ عبد القادر ! خدا نے تم کو تمہارے علم وتفقہ کی وجہ سے بچالیا ، ورنہ اس طرح میں ستر صوفیوںو کو گمراہ کرچکا ہوں، میں نے کہا کہ : اللہ کی مہربانی ہے ، کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیسے سمجھے کہ شیطان ہے ، فرمایا کہ اس کہنے سے کہ میںنے حرام چیزوں کو تمہارے لئے حلال کردیا (الطبقات الکبری للشعرانی : ۱؍۱۲۶، ۱۲۷، بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت : ۲۰۳)
آپ کی تصانیف
آپ کی تصانیف میں درج ذیل کتب بہت مشہور ہیں ’’الغنیۃ لطالب الطریق الحق ‘‘’’الفتح الربانی‘‘فتوح الغیب‘‘’’ الفیوضات الربانیہ ‘‘’’جلاء الخاطرفی الباطن والظاہر‘‘’’سر الاسرارومظہرالانوار فیما یحتاج الیہ الابرار‘‘’’اٰداب السلوک والتوصل الی منازل الملوک ‘‘’’الکبریت الاحمر فی الصلوۃ علی النبی ﷺ‘‘’’مراتب الوجود‘‘’’یواقیت الحکم‘‘ا للہ تعالی ہمیں شیخ ؒکی کامل اتباع نصیب فرمائے اٰمین ۔
شیخ کے تلامذہ
آپؒ کے مشہور تلامذہ میں ابن نجارؒ ،علّامہ سمعانیؒ ،علامہ بن عمر علی القرشیؒ،حافظ عبد الغنیؒ،موفق الدین بن قدامہؒ،عبدالرزاق ابن موسٰیؒ،شیخ علی ابن ادریسؒ اور اس کے علاوہ کئی مشہور شخصیات ہیں ۔
وفات
آپ کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے کسی نے ۸؍۹اور کسی نے ’’۱۰‘‘ کہا ہے مشہور قول گیارہ تاریخ کا ہے، مہینہ ربیع الآخر متعین ہے اور ۵۶۱؁ ھ ہے گویا کل عمر ۹۰؍سال ہوئی ۔(اس مضمون کی تیاری میں مفتی مجیب الرحمن صاحب دیوردرگی کے مضمون سے بھی استفادہ کیا گیا ہے )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×