شخصیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

’’منصف‘‘ کے ہفتہ واری ایڈیشنوں کی افادیت وتعارف (بموقع رحلت آبروئے اردو صحافت خان لطیف خان صاحب)

اردو زبان خالص اسلامی اور دینی زبان ہے ، جہاں بھی اردو زبان ہوگی وہاں اسلامی دینی چھاپ ، اسلامیت کی بو ضرور نظر آئے گی، اردو صحافت اور اس کی آبرو وعزت کی محافظت، اس نوک وپلک کو درست کرنا، اس کی خدمت در اصل اسلامی تہذیب وثقافت کی حفاظت ہے ،جو در اصل مشرقی تہذیب بھی ہے، اردو زبان کے بے وقعتی اس دور میں جب کہ ہر جگہ انگریزی زبان کا چرچا ہے ، پرانے لوگ انگریزی پر عبور اور واقفیت کے باوجود اردو زبان کے بولنے اور لکھنے کو باعث افتخار سمجھتے تھے، اردو کی شیرینی اور مٹھاس اس کا طرز تکلم سامعین کو محظوظ کئے دیتا تھا، جہاں اب اردو میں انگریزی الفاظ کے بکثرت استعمال کو عزت وقار کا پیمانہ سمجھاجاتا ہے، نسل نو کی تربیت بھی اسی انداز میں کی جاتی ہے وہ انگریزی پر عبور حاصل کریں، اردو کو بے وقعت بے حیثیت سمجھا جاتا ہے، بہت سارے عصری تعلیم یافتہ، معاشرہ اور سماج میں وقعت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے ارود زبان سے بالکل نابلد اور نا آشنا ہوتے ہیں، ٹھیک ہے ، انگریزی زبان ہر شخص کو ضرور سیکھنا چاہئے، انگریزیزبان عالمی زبان ہے ، اس میں معاش ہے ، عزت واحترام ہے ، لیکن اردو زبان سے ہمارے قوم کی اتنی بے اعتنائی اور بے توجہی کے ساری تعلیم سے فراغت اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے بعد بھی اردو سے بالکل نا آشنا، یہ بالکل زیب نہیں دیتا، اردو تو مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی زبان بھی ہے ، تکلم توٹھیک ، لیکن اردو تحریر کی پڑھنے سے واقفیت بالکل نہ کے درجے میں ہوتی ہے ۔
اخبار’’منصف‘‘ خان صاحب مرحوم کا لازوال کارنامہ
خان لطیف خان صاحب نے اردو صحافت کو ہندوستان کی سطح پر ’’منصف ‘‘ کو نئے آب وتاب، نئے رنگ وآہنگ میں لا کر جو لازوال کارنامہ انجام دیا، اردو صحافت کی ہر پہلو سے جو خدمت کی ہے ، یہ ان کے لئے روز آخرت میں ذخیرہ آخرت اور ان کی بلندی درجات کا باعث ہوگا، اس لئے کہ خان لطیف خان صاحب نے ’’منصف‘‘ کو 1996میں اپنی باگ ڈور میں لیا، اس لئے کہ ’’منصف ‘‘ کے ابتدائی بانیوں میں جن کی ادارت میں ’’منصف‘‘ کی اشاعت ہوتی تھی، جناب محمود انصاری صاحب جنہوں نے منصف کی ادارت سنبھالی، وسائل کی کمی وجہ سے اس کی اشاعت میں مسلسل کمی واقع ہورہی تھے، پھر ان کے رحلت کے بعد ان کے بھائی جناب مسعود انصاری کے لئے اس اخبار کو چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا، نوبت اخبار کے بند ہونے کی آگئی، ایسے مشکل مرحلے میں ’’خان لطیف خان صاحب مرحوم‘‘ جیسے مرد آہن نے اس بند ہوتے ہوئے اخبار کی ادارت اور اشاعت کا ذمہ اپنے کاندھوں پر لیا، پھر اس کے بعد ’’خان لطیف خان صاحب ‘‘ جس رنگ وآہنگ کے ساتھ، پوری دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ اخبار کی اشاعت میں لائی، قابل دید ، نہایت خوبصورت طباعت، رنگ ، دیدہ زیب، خوشنما سرورق نے اخبار کو شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا، دیکھتے ہی دیکھتے اخبار ہندوستان کی سطح پر سرفہرست ، مقام اول حاصل کرنے والا اخبار بن گیا ۔
منصف کی مقبولیت کی وجہ
’’منصف‘‘ اخبار کی مقبولیت کی وجہ دیگر اخبارات کے مقابلے جہاں اس کے دیب زیدہ ہونا، رنگ وروغن سے مزین ومرصع ہونا، خبروں کا انتخاب تھا، جو کہ تمام اخبارات کی مشترکہ کوشش ہوتی ہے ، بلکہ منصف اخبار کو اس حیثیت سے بھی امتیاز حاصل تھا کہ اس کے چار صفحات رنگین شائع ہوتے ہیں ، لیکن سب سے زیادہ ’’منصف ‘‘ کی مقبولیت کا راز ، اس کے قبولیت عامہ کا سر نہاں، اس کے ہر روز کے ایڈیشن ہیں ، جو ہفتہ واری ہر پیشہ سے متعلق شخص کی جہاں روح کی غذا اوراس کی صلاحیتوں اور لیاقتوں کو مہمیز دینے کا باعث ہوا کرتے ہیں ، وہیں عام قارئین کے لئے مختلف پہلوں پر دلچسپ معلومات کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔
ان میں سر فہرست’’ منصف ‘‘کاجمعہ کا ایڈیشن ’’مینارہ نور ‘‘ ہے جو خان صاحب مرحوم کے ساتھ ساتھ اس کے مرتبین کی جدوجد کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے ، جس نے نا صرف اسلامی تاریخ، سیر وسوانح، اسلامی تعلیمات، اسفار کی روداد کو بیان کرتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ اس ایڈیشن نے کئی لوگوں کی قلمی صلاحیتوں کو نکھارا اور ابھارا ہے ، خصوصا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ العالی کا ’’شمع فروزاں‘‘ واقعتا حالات کی مناسب سے اسم با مسمی ہوا کرتا، بلکہ امت مسلمہ کے وقت اور مشکلات میں رہنمائی ورہبری کی ’’شمع فروزاں ‘‘ ہوا کرتی ہے ، جو ہفتہ واری انداز میں یہ’’ شمع‘‘ جل کر اپنے آپ کو خاکستر کر کے امت مسلمہ کی رہنمائی ورہبری کا سامان فراہم کرتی ہے، وہیں اس کے ساتھ ساتھ اس ایڈیشن کے موادخطباء وائمہ حضرات جمعہ کے بیان کے لئے استفادہ کرتے اور خطبہ جمعہ کی تیاری کرتے ہیں، نہ جانے کتنے قلم کاروں نے اس ایڈیشن کے ذریعہ اپنی قلمی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا بلکہ علمی اور دینی پیاس بچھائی۔حقیر کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری ترجمہ کردہ ’’کلیلہ ودمنہ‘‘ جو عربی ادب کا شاہکار ہے ، دیگر مضامین کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس ایڈیشن کی مختلف تقریبا 21 قسطوں میں اشاعت کا باعث بنا، مولانا احمد ومیض ندوی مد ظلہ العالی بھی اس ایڈیشن کے خصوصی قلم کاروں میں رہے ، محسن عثمانی صاحب کی قلمی کاوش بھی ایک’’دیدہ ور، دوربیں نگاہ ‘‘ شخص کی طرح اس صفحہ کی زینت کا سامان بن رہے ہیں، ابھی بھی یہ ایڈیشن یکساں مقبولیت کے یکساں طور پر اپنے سمت وجہت پرجاری وساری ہے ۔اس کی مقبولیت کی بنا پر اس کو آٹھ صفحات پر شائع کیا جاتا ہے۔
روز ہفتہ ’’نئے منزلیں نئے قدم‘‘ اس میں بھی نئی منزلوں کے متلاشیوں، روزگار اور نوکریوں کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے نئے نئے گر بتائے جاتے ہیں ، ان کی منزل مقصود کی تعیین کرنے کے لئے مختلف مضامین عصری تعلیم یافتہ لوگوں کی رہنمائی ورہبری کے لئے سپرد قرطاس کئے جاتے ہیں۔، اخیرش باذوق حضرات کے لئے کھیل سے متعلق بھی معلومات فراہم کی جاتی ، یہاں پر اس ایڈیشن کے موضوع احقر نے مختصر قلم آزمائی کی کوشش کی ہے ۔
روز ’’اتوار‘‘ کا ایڈیشن ’’نقوش‘‘ بھی نہایت مقبول عام ہے ، جس میں سیاسی وملکی وعالمی احوال کا تجزیہ ، نہایت تجربہ کار قلم کاروں کی تحریر میں شائع ہوتا ہے، پہلا صفحہ پر نہایت نمایاں عالمی اور ملکی خبروں کو جگہ دی جاتی ہے، دوسرے صفحہ پر ملکی خبریں کا تجزیہ ہوتاہے، پھر عالمی خبریں تین صفحات پر مشتمل ہوتیں ہیں، اخیر ش پھر ملکی احوال پر مضامین لکھے جاتے، میں نے بھی ایک چھوٹے قلم کار ہونے کی حیثیت سے بہت خواہش تھی اس ایڈیشن میں جو کہ اپنے مقبول عام ہونے کی وجہ سے آٹھ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے ، اس میں کئی ایک مضامین الحمد للہ لکھے شائع ہوئے ۔اس میں ایک صفحہ فلمی معلومات پر مشتمل ہوتا ہے ، البتہ منصف کی دیگر اخبارات کے مقابلہ میں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فلموں سے متعلق روزانہ خبریں شائع نہیں کی جاتی ، البتہ اس فلمی صفحہ کو بھی احتراما بموقع رمضان رمضانی معلومات ، احوال رمضان کی عالمی تصاویر پر مشتمل کر دیاجاتا ہے ۔
اس میں محترم ’’عادل صاحب‘‘ کا کالم ’’طرفہ تماشا‘‘ لائق مطالعہ ہوتا ہے ، بڑا خوب لکھتے ہیں، بسااوقات اپنے احوال پر مشتمل ایسے مضامین ترتیب دیتے ہیں، الفاظ کی ہیرا پھیری ، برجستگی اس میں نیا رنگ وآہنگ عطا کرتی ہے ، خوب مزہ آتاہے ، مزاح سے بھر پور مضامین کئی دفعہ ساتھیوں کی محفلوں میں سنا کر جہاںزبان وادب کو سیکھنے کا موقع ملا، محفل یاراں ہنسی وخوشی لالہ زار ہوگئی ۔
روز پیر کا ’’گلدستہ ‘‘ ہے ، یہ تو بچوں کی جان ہوا کرتی ہے ، معصوم کلیوں کو مختلف پرائے میں ان کو دینی واصلاحی وعلمی وسماجی ومعاشرتی اور عصری انداز میں پروان چڑھانے کا کام بڑے سلیقہ سے چار صفحات پرنہایت خوب تر انداز میں کہانیوں، خبروں ، خطوط ورسائل اور مہندی کے ڈیزائن سمیت ، بچوں کی ہمت افزائی کے لئے سالگرہ کے موقع سے ان کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں، بلکہ بسا اوقات پینٹنگ کے مسابقہ کے انداز میں اس میں بچوںکی مقابلہ بازی ہوتی ہے ،سرفہرست کو نمایاں چھاپا جاتا ہے، میری بچپن سے اس ایڈیشن اور صفحہ کے ساتھ لگاؤ رہا ہے ، یہی صفحہ کا کردار ہے جس نے مجھے لکھنے کی صلاحیت عطا کی ، جس میں نے فراغت کے بعد عربی کتب سے ترجمہ کر کے کئے ایک کہانی شائع کروائی ، بچپن میں ’’چچا جان کے نام خط‘‘ میں کئے ایک خصوط لکھے ۔کہانیاں پڑھیں ، ساتھیوں کو سنائی، لڑکپن میں واقعی خوب محظوظ ہونے کا سامان حاصل ہوا ،اساتذہ سے طلب کر کے پڑھتے ، بمشکل حاصل ہوتا۔یا مدرسہ سے باہر ایک صاحب ’’دوکان‘‘سے دوستی کرلی، وہاں جاکر سارا صفحہ چاٹ کر آجاتے۔
بروز منگل ’’سائنس طب وٹکنالوجی‘‘ سے متعلق معلومات پر مشتمل یہ ایڈیشن بھی نہایت وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، سائنس سے متعلق معلومات بہم پہچائی جاتی ہیں، طب اور صحت سے متعلق معلومات اطباء اور ماہرین فن فراہم کرتے ہیں، اس کی بھی خصوصیت حیثیت ہے ، یہ اطباء کی جولان گاہ ہے ، ان کی قلمی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے ۔یہاںپر بھی میں نے کچھ مضامین طب سے متعلق عربی زبان سے ترجمہ کر کے شائع کروائے، بڑا مزہ آیا۔
بروز ’’چہارشنبہ‘‘ ’’گھر آنگن‘‘ ایڈیشن یہ معاشرت کے حوالے سے نہایت پرمعز مواد پر مشتمل ہوتا ہے ، اس میں خاندانی ، گھریلو احوال ، معاشرتی زندگی میں میں میاں بیوی، ماں باپ سمیت دیگر رشتہ دار وں سے احسان وسلوک کے حوالہ مضامین شامل اشاعت ہوتے ہیں، خصوصا عورتیں مضامین لکھا کرتی ، کئی ایک خواتین ماشاء اللہ بڑا خوب لکھا کرتی ، اس میں افسانہ بھی ہوتے ہیںجو معاشرت اور گھریلو زندگی کے بناء اور بناؤ پر مشتمل ہوتے ہیں ، آخیرش اس صفحہ میں صنف ناز ک کے بناؤ وسنگار ، صحت وخوبصورتی سے متعلق مضامین ومعلومات بھی شامل ہوتے ہیں، کھانے پکانے کے حوالے سے مختلف مواقع اور موسم سے متعلق مختلف ڈشش بنانے کی رہنمائی بھی مزیدار ہوتی ہے۔یہ وہ صفحہ ہے جس پر میں نے قلم آزمائی ’’گلدستہ ‘‘ کے بعد کی ، کئی ایک مضامین ابتدائی مرحلہ میں شائع ہوئے ، بڑی خوشی اور مسرت ہوتی جب اول صفحے پر مضامین شامل ہوتے ۔
بروز ’’جمعرات‘‘ ایڈیشن ’’ آئینہ شہر ‘‘واقعتا یہ صفحہ شہر’’حیدرآباد‘‘ کا آئینہ دار ہوتا ہے، یہاں کی تہذیب وتمدن ، سماج ومعاشرہ میں پیش آنے والے احوال، تاریخ شہر’’حیدرآباد‘‘ اس کے مختلف ادوار اور حکمرانوں کے تذکرے پرمشتمل ہوتا ہے، بڑا خوبصورت ، دیدہ زیب ، اس کے اندرونی حصہ میں دو صفحات پر ’’آئینہ ادب ‘‘ کے نام سے ادیبوں کی قلموں کی جولانگاہ ہوتی ہے ، جس میں ادیبوں ، شاعروں کی طبع آزمودہ اشعار شامل ہوتے ہیں، نہ جانے کتنے شاعر اور ادیبوں نے اپنی قلم کی اس ایڈیشن کو جولانگاہ بنایا، طبع آزمائی کی، اس میں بڑے شعراء کے سوانح حیات کو بھی شامل اشاعت کیا جاتا ہے ، ادبی اور شعری مجموعوں کا تعارف بھی اس ایڈیشن کی زینت بنتا ہے ، خصوصا آئینہ شہر کے حوالہ سے جو شہر حیدرآباد کی تہذیب وتمدن کا عکاس ہوتا ہے ، اس حوالے سے یہ بتاتا چلوں گرچہ مضمون طویل تر ہوتا جارہا ہے ، لیکن جس خوان پر کھایا اس کی تعریف نہ کی جائے تو بڑی ناسپاسی ہوگی، میں نے اس میں ایک مضمون’’ دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے ‘‘ کے عنوان سے طبع کروایا، جس میں شہر حیدرآباد میں قبرستانوں کو جو جوؤں اور شراب نوشیوں کے اڈے بنائے جارہے ہیں، یا قبرستانوں کو منہدم کر کے اس پر تعمیرات کی جارہی ہیں، اس میں یہ بتلایا ہے یہ جگہ جائے عبرت ہے ، نہ کہ جائے تماشا، ولہو ولعب، ایک دوسرا مضمون’’شہری راستے اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے شائع کروایا، جس میں یہ بتلایا گیا کہ شہری راستوں کو اپنی ضروریات اور خصوصی تقاریب اور تعمیرات کے لئے اس طرح پاٹ دینا یہ اخلاق وتہذیب اور شہری رواداری کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شریعت کے خلاف بھی ہے، ایک مضمون میںنے سپرد قلم کیا’’ شہر میں شوقیہ کتے پالنے کا رجحان‘‘ میں نے ایک دفعہ شہر کے پاش علاقے بنجارہ ہلز میں لوگوں کو کتوں کے ساتھ تفریح کرتے ہوئے دیکھا جس میں مسلمان بھی شامل ہیں تو مجھے یہ بڑا برا لگا کہ ویسے بھی شریعت میں کتے کو بغیر ضرورت کے گھر میں شوقیہ پالنا غلط ہے ، لیکن ان گھرانوں کی یہ صورتحال ہوتی ہے ، کتوں کا تو احترام کیا جاتا ہے ، ان کی وقعت وقدر کی جاتی ہے گھر کے چپراسی کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی، کتاانسان سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، ایک مضمون ’’ شہرمیں فقیروں کی کثرت لمحہ فکر ‘‘ یہ بالکل سرورق پر شامل اشاعت ہوا تھا، اولا تو اخبار کی خریداری کے بعد اخیر صفحہ پر نظر کی تو دیکھا کہ میرا مضمون تو شائع نہیں ہوا ،پھر اس کو لپیٹ کر نہایت غم افسوس کے ساتھ گھر لے آیا، پھر دوبارہ نظر کی تو دیکھا سر ورق پر شائع ہوا ہے ، خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی ، اس کے علاوہ بھی دیگر مضامین شائع ہوئے ۔
اس ’’آئینہ شہر ‘‘ کے تذکرہ کے میں خصوصا محترمہ’’ادویش رانی ‘‘ محترم ’’سید عباس متقی صاحب‘‘ کا ذکر نہ کروں بڑی ناسپاسی ہوگی ، یہ اس ایڈیشن کی زینت ہیں، اس میں ادویش رانی صاحبہ کے قلمی صلاحیتوں ، اردو کے ساتھ حد درجہ محبت اور شہر حیدرآباد کی تاریخی عکاسی واقعی باسیان شہر حیدرآباد کے لئے خوان غیرمترقبہ ہوتے ہیں، محترم عباس متقی صاحب کی قلمی جولانیوں پر تو دل اش اش کرنے کو چاہتا ہے ، ذاتی احوال کو بھی ادبی زبان ، فارسی زبان کے واقعی چربے کے ساتھ اس خوبصورتی کے ساتھ شامل کرتے ہیں کہ زبان اردو کے شہنشاہ نظر آتے ہیں۔
اخیر میں ’’ادارتی صفحہ ‘‘ کا بھی تذکرہ کرتا چلوں ، یہاں پر بھی میں نے خوب قلم آزمائی کی ، بڑا شکر گذارہوں تمام مرتبین ایڈیشن اس حقیر نواجوان کو اس قابل سمجھا کو انہوں ن اپنے ایڈیشنوں میں مضامین کو شامل کیا، اس کا ’’اصل اداریہ‘‘ واقعی احوال کے لحاظ سے اردو صحافت موجودہ احوال کا آئینہ دار ہوتا ہے ، پھر مضمون والا حصہ بھی مختلف قلم کاروں اور تجزیہ نگاروں کی قلمی کاوش سے ملکی وعالمی احوال کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ، ’’زیر وزبر‘‘ یہ ادیبوں کی ادبی صلاحیتوں کا عکاس ہوتا ہے ، جس میں نہایت خوبصورتی اور اردو کی ادبی زبان میں اپنے ذاتی احوال کو پیش کرتے ہیں، بڑا مزا آتا ہے ، جب فرصت کے لمحات تھے، طالب علمی کا زمانہ تھا، خوب پڑھتے ، محظوظ ہوتے ہیں ، ’’میڈیاکی آنکھ‘‘ میں ملکی وغیر ملکی احوال مختلف اخباروں کے تراجم کر کے پیش کئے جاتے جو نہایت پرمغز اور قابل استفادہ بھی، ’’ایڈیٹر کے نام خط‘‘ یہ ماشاء اللہ یہ لوگوں کے احوال ، وکوائف، بستیوں اور سماج ومعاشرے کی کمزوریوں کو لوگوں تک پہنچانے اور ان کوائف واخبارات کو عام کرنے مسائل کو حل کروانے کا ایک واقعی ایک بڑیا پلیٹ فارم ہے ۔
میں در اصل ان ایڈیشنوں ان کی خصوصیات کے تذکرہ کے ذریعہ یہ بتلانا چاہتا ہوں ، خان لطیف خان صاحب ان کے معاونین ، احباب اور مرتبین نے کتنی کاوش سے ان صفحات کو ترتیب دیا، جس کا سہرا تو در اصل مرحوم خان صاحب کے سر جاتا ہے ، جنہوں نے اس ’’خوان ہمہ اقسام طعام ذوق ‘‘ کو ترتیب دیا، یہ ادبی محفل سجائی ، جس میں ہر شخص کے میدان کا مواد اور مغز موجود ہوتا ہے ، ہر شخص کو اس کے ذوق کے مطابق اپنے قلمی جولانیوں کو پروانے چڑھانے اور اس کے ساتھ ساتھ قارئین کو متعلقہ ذوق کے مطابق معلومات فراہم کرنے کا یہ کتنا بڑا ذریعہ ہے ، یہ سب سارا کارنامہ احباب کے ساتھ اصل چیف ایڈیٹر مرحوم خان لطیف خان صاحب کے حساب میں آتا ہے ، جنہوں نے اس کارنامہ کو انجام دیا اور خصوصا حیدرآباد کی سطح پر اردو صحافت کی لاج رکھنے کے لئے خوب کام کیا۔
مجھے تو ذاتی تعارف زیادہ نہیں بحوالہ حضرت مولانا احمدومیض ندوی صاحب مدظلہ العالی: سب کے سرخیل جوائنٹ ایڈیٹر متین صاحب،’’ مینارہ نور‘‘ کے مرتب مبین صاحب، مرتب ’’نقوش‘‘ رضی الدین صاحب، ’’گھر آنگن‘‘ اور ’’آئینہ شہر ‘‘ کے مرتب محترم حمید عادل صاحب سمیت’’اداریہ ‘‘ کے مرتب ’’ضیاء المصور ‘‘ مزید مرتب’’نئی منزلیں نئے ندقدم‘‘اور’’سائنس طب ٹکنالوجی‘‘ کے مرتبین کا ذکر کرتا چلوںجو اس میر کارواں کے رفقاء نمایاں ہیں ، جن کے محنتوں کا یہ ’’خوان روحانی وعلمی‘‘ ہے جس سے ہم مستفید ہورہے ہیں
اللہ عزوجل ہمارے خان لطیف خان صاحب کی سماجی ، ملی ، تعلیمی، ہر اعتبار سے خدمات کو قبول فرمائے ، ان کو جنت میں اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے، ان کے احباب ومتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ، اس ’’منصف ‘‘ کے پلیٹ فارم کو اردو صحافت کی بقا وجدوجہد کا ذریعہ بنائے ، ان مختلف المذاق ایڈیشنوں اس کے قلم کاروں اور قارئین کی جانب سے اس کا ثواب اور صدقہ جاریہ خان لطیف خان صاحب کو عطا فرمائے (آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×