شخصیات

اک چراغ اور بجھامولانا قاضی سمیع الدین قاسمی نرساپوریؒ

موت ایک حقیقت ہے ، دنیوی دستور کا حصہ ہے ، تقدیر الٰہی کا فیصلہ ہے، موت کا آنا یقینی ہے اور ہر نفس کوموت سے دوچار ہونا ضروری ہے ، انسان جتنی رفتار سے سانسیں لے رہا ہوتا ہے موت اتنی ہی تیزی سے اسکا پیچھا کر رہی ہوتی ہے ،وہ جہاں کہیں جاتا ہے موت اس کا تعاقب کرتی رہتی ہے ،موت سے کسی کو مفر نہیں ،آج کسی کی تو کل کسی اور کی باری ہوتی ہے ، انسان کے مرنے پر اہل خانہ اور اہل تعلق آنسو بہاتے ہوئے اس کی موت پر اظہار افسوس کرتے ہیں ،مرورِ ایام کے ساتھ لوگ مرنے والے کو بھول جاتے ہیں لیکن بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی موت پر پورا عالم روتا ہے ،وہ مبارک اشخاص کوئی اور نہیں بلکہ علماء امت ہیں ،حدیث شریف میں علماء کی موت کو عالَم کی موت کہا گیا ہے ، علماء ہی ہیں جو اپنی پوری زندگی احکامات الٰہی اور نبوی تعلیمات کی ترویج واشاعت کے لئے وقف کردیتے ہیں ،علماء کرام امت کا وہ عظیم طبقہ ہے جنہیں زبان نبوت سے انبیاء کے وارث ہونے کا خطاب دیا گیا ہے ،ان کی زندگیاں قرآن وحدیث کا عملی نمونہ ہوتی ہیں اور ان کا ہر عمل سنت نبوی ؐ کے مطابق ہوتا ہے ،یہ حضرات ربانی خواہشات پر اپنی خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں اور اپنا ہر قدم رضاء الٰہی کے راستہ پر رکھتے ہیں ،وہ صداقت کے علمبردار اور حق گو ہوتے ہیں ،وہ حق کی خاطر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ،وہ دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دیتے ہیں اور سادگی ،تواضع اور انکساری کا پیکر ہوتے ہیں ،وہ خدا کے لئے جیتے اور مرتے ہیں ،انہیں دیکھ کر خدا یاد آتا ہے،یادگار سلف حضرت مولانا قاضی سمیع الدین نرساپوری ؒ اسی مبارک ومحترم جماعت کے ایک معروف فرد تھے ، مقام تقویٰ وللہیت پر فائز تھے ،دل میں خشیت الٰہی رکھتے تھے ،زبان ذکر الٰہی میں تر رہتی تھی اور ہر عضو سے صبر وشکر نمایاں جھلکتا تھا ،سادگی کا اعلیٰ نمونہ تھے ،خوش مزاجی کے وصف سے متصف تھے اور صبح وشام اشاعت علم دین ،دعوت دین اور مخلوق کی خدمت میں سرگرداں و مصروف رہتے تھے ۔
حضرت قاضی صاحب ؒ نے ابتدائی تعلیم دکن کی قدیم اسلامی دینی درسگاہ جامعہ عربیہ سیوا نگر سے حاصل کی تھی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے ام المدارس دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور ۱۹۶۶ میں تعلیم مکمل کرکے اپنے علاقہ کو واپس تشریف لائے تھے اور یہیں سے اپنی دینی تعلیمی ،دعوتی ،اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا، حضرت قاضی صاحب ؒ نے اپنے علاقہ میں دینی تعلیم کے فروغ کی خاطر ’’مدرسہ مفتاح العلوم ‘‘ کے نام سے ایک دینی واقامتی ادارہ کی بنیاد ڈالی اور زندگی کی آخری سانس تک اس ادارہ کی ترقی کے لئے کوشش کرتے رہے ،آپ ؒ کو اپنے علاقہ کے مسلمانوں کی بڑی فکر رہتی تھی یہی وجہ تھی کہ حیدرآباد شہر میں بہت سے مواقع حاصل رہنے کے باوجود آپ نے نرساپور میں قیام پذیر ہونے کو ترجیح دی اور پوری زندگی یہیں کی فکر کرتے ہوئے گزاردی ،جب کبھی دینی مدارس کے جلسوں یا جمعیۃ علماء کی میٹنگوں یا پھر اصلاحی اجلاس میں شرکت کی غرض سے حیدرآباد تشریف لاتے تو اجلاس کے ختم ہوتے ہی اپنے علاقہ کو لوٹ جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہاں تو بڑے بڑے علماء ومشائخین موجود رہتے ہیں مگر وہاں کی صورت حال اس کے برعکس ہے ،مقامی ہونے کے ناطے دینی مسائل میں ان کی رہنمائی کرنا اور ان میں دینی فکروں کو پروان چڑھانا میرا دینی واخلاقی فریضہ ہے اسی وجہ سے ان سے زیادہ دیر اور زیادہ دور رہنا مجھے پسند نہیں ہے ، اخلاص وللہیت اورآپ ؒ کی شب وروز محنتوں کے نتیجہ میں بہت کم عرصہ میں ادارہ ترقی کے منازل طے کرتا چلا گیا ،اس ادارہ سے امت مسلمہ کے نونہالوں کا ایک بڑا طبقہ مستفید ہوا اور اپنی دینی وعلمی پیاس بجھائی ،کئی طلبہ نے حفظ قرآن مجید کی تکمیل کی اور بہت سے طلبہ دینیات اور ابتدائی عالمیت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علاقہ تلنگانہ اور ملک کے دیگر علاقوں کے ممتاز دینی درسگاہوں میں داخل ہو کر اپنی بقیہ تعلیم مکمل کی ،اس وقت نرساپور ضلع میدک اور اس کے اطراف واکناف میں جتنے علماء وحفاظ ہیں سب بالواسطہ یا بلاوسطہ حضرت قاضی صاحب ؒ کے شاگرد اور تربیت یافتہ ہیں ۔
حضرت قاضی صاحب ؒ نے اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی تعلیم کے فروغ ، دعوت دین واصلاح امت کی کوششوں کے ساتھ ملک و ملت کے لئے بھی کوششیں کرتے رہے ،چنانچہ اکابر ؒ کی قائم کردہ عظیم وقدیم تنظیم ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ سے آخری سانس تک وابستہ رہے اور اس کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کی گراں قدر خدمات انجام دیں ،آپ ؒ طبیعت کی ناسازگی ، پیرانہ سالی ،مدرسہ کی ذمہ داری اور دیگر مصروفیات کے باوجود جمعیۃ علماء کی میٹنگوں میں پابندی سے شرکت فرمایا کرتے تھے اور اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازتے تھے ،اسی طرح آپ ؒ علماء دکن واہل حق علماء کی سب سے قدیم تنظیم ’’ مجلس علمیہ‘‘ سے بھی وابستہ تھے ،آپ ؒ اس تنظیم کے رکن تاسیسی تھے اور نائب ناظم بھی رہے ،اس عظیم وقدیم تنظیم کے پروگراموں میں برابر شریک ہوتے تھے اور اس کی ترقی اور اس کے خدمات کے دائرہ کو وسعت دینے کی ہر وقت کوشش فرماتے تھے ،حضرت قاضی صاحب ؒ میدک ،نرساپور اور اس کے اطراف واکناف میں قائم بہت سے دینی اداروں ،مکتبوں اور دینی ورفاہی تنظیموں کے سرپرست بھی تھے اور ان کے ذمہ داروں کے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہتے ہوئے ان کی مکمل رہنمائی فرمایا کرتے تھے ۔
حضرت قاضی صاحب ؒ کو راقم الحروف نے سب سے پہلے آپ ہی کے ادارہ مفتاح العلوم کے سالانہ جلسہ میں دیکھا تھا،راقم کے والد بزگوار حضرت مولانا شاہ محمد اظہار الحق قریشی مظفر قاسمی دامت برکاتہم خلف اکبر وخلیفہ مجاز حضرت قطب دکنؒ اس جلسہ کے مہمان خصوصی تھے ،حضرت والد صاحب مدظلہ اور حضرت قاضی صاحب ؒ زمانہ طالب علمی دارالعلوم دیوبند میں ایک ساتھ تھے،البتہ والد صاحب کی فراغت آپ سے ایک سال قبل ہوئی ہے ، اس موقع پر حضرت قاضی صاحب ؒ کی سادگی اور تکلف سے پاک شیریں کلامی دیکھ کر راقم بہت متاثر ہوا تھا،دوسری مرتبہ زمانہ طالب علمی دارالعلوم حیدرآباد میں ملاقات وزیارت کا شرف حاصل ہوا تھا ،آپ ؒ ارباب دارالعلوم کی دعوت پر ’’انادی الادبی والعربی‘‘ کے سالانہ مسابقتی پروگرام میں بحیثیت مہمان خصوصی تشریف لائے تھے ، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے منتظمین ،اساتذہ اور مسابقہ میں شریک طلبہ کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی تھی ،مجھے یاد ہے کہ آپ نے اُس موقع پر طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’ آپ مہمان رسول ہیں،بڑی بڑی عصری درسگاہوں میں پڑھنے والے طلبہ سے بھی اونچا مقام رکھتے ہیں ،آپ اس امت کا مستقبل اور اس کا عظیم سرمایہ ہیں ، گرچہ اس وقت آپ خطابت کے ابتدائی دور میں ہیں مگر میں آپ کو منبر ومحراب اور جم غفیر میں خطاب کرتا ہوا دیکھ رہاہوں ‘‘ حضرت قاضی صاحب ؒ کشادہ ظرف کے مالک اور بلند حوصلہ کے حامل تھے ،چھوٹوں کی ہمت افزائی کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے ،طلبہ عزیز ،خدام دین اور اپنے ماتحتوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے تھے ،یقینا بڑوں کی حوصلہ افزائی ہی چھوٹوں کو آگے چل کر بڑا بناتی ہے ۔
حضرت قاضی صاحب ؒ سے احقر کی آخری ملاقات جمعیۃ الحفاظ نرساپور کے جلسہ میں ہوئی تھی ، اس وقت احقر کو گلے لگایا اور بڑی محبت وشفقت فرمائی تھی ،دوران گفتگو راقم کے دادا قطب دکن حضرت مولانا شاہ محمد عبدالغفور قریشی قاسمیؒ خلیفہ اجل شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کو یا د کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت قطب دکنؒ کا سر زمین دکن پر بڑا احسان ہے ،آج جہاں کہیں بھی علماء کرام اور دیوبندی مکتب فکر کے مدارس نظر آرہے ہیں یہ سب انہیں کی مرہون منت ہے ،حضرت قاضی صاحب ؒ اس جلسہ میں صحت کی ناسازی کے باوجود آخر تک تشریف فرما تھے اور آخر میں مختصر مگر بڑی اہم نصیحتیں فرمائی تھی ،حضرت قاضی صاحب ؒ نے پوری زندگی قناعت کے ساتھ گزاری اور بے لوث ہوکر دین کی خدمت کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے ،جمعہ ۷؍ اگست ۲۰۲۰ کو دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ،انا للہ ونا الیہ راجعون، وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی وسیع تر دینی ،دعوتی ،اصلاحی اور رفاہی خدمات ان کی یاد دلارہی ہیں،سینکڑوں حفاظ وعلماء اور آپ کا لگایا ہوا علمی باغ آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے ،اللہ تعالیٰ آپ کی بھر پور مغفرت فرمائے ،آپ کی خدمات کو قبول فرما کر اسے ذخیرہ ٔ آخرت بنائے اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے ،آمین ۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×