شخصیات

شاہین باغ کا دریا دل میزبان

دنیابنانے والے نے دنیا کو بہت خوبصورت بنایا ہے ،اس کی خوبصورتی اور دلکشی قابل دید ہے ،جو دیکھتا ہے بس دیکھتے ہی رہ جاتا ہے ، ہر شے حسین و دلکش اور لاجواب و بے مثال ہے،اس قدر مرتب ومنظم اور سلیقے سے سجائی گئی ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ،بے ساختہ اس کی زبان سے تعریفی جملے نکل جاتے ہیں ،درحقیقت دنیا اور اشیائے دنیا قابل تعریف نہیں ہے بلکہ حقیقی تعریف وستائش کے لائق تو وہ ذات ہے جس نے اس زبردست دنیا کو اس قدر حسین وجمیل اور دلکش ودلفریب بنایا ہے ، دنیا کی خوبصورتی اس وقت دوبالا ہوئی اور اس وقت اس کے حسن میں چار چاند لگ گئے جب اشرف المخلوقات کو اس میں بسایا گیا اور اسے آباد کیا گیا ،بلاشبہ دنیا ئے جہاں کی خوبصورتی انسانوں ہی سے وابستہ ہے ، دیگر مخلواقات کے مقابلہ میں انسانوں کا انسانوں کے درمیان غیر معمولی اُنس وپیار پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ نہ صرف خونی رشتوں کا لحاظ کرتا ہے بلکہ انسانی رشتے کا بھی غیر معمولی پاس ولحاظ رکھتا ہے ، انسان کی خوبی یہ ہے کہ وہ رشتوں سے ہٹ کر چیزوں ،علاقوں اور ہم سایوں سے بے پناہ محبت و پیار کرتا ہے ، اس کے اظہار کے لئے میل جول بڑھاتا ہے اور اس کے دکھ سکھ میں برابر شریک ہوتا رہتا ہے ،جس انسان میں یہ خوبیاں ہوتی ہیں دراصل اسے ہی حقیقی انسان کہاجاتا ہے اور جو انسان ان خوبیوں سے خالی ہوتا ہے تو اسے انسان نہیں بلکہ انسان نما حیوان کہا جاتا ہے ، انسانیت والی خوبی کسی میں کم ،کسی میں زیادہ اور کسی میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے انسانوں کے درمیان اس کا قدر ،مرتبہ اور مقام بلند ہوتا ہے ۔
انسانوں میں بعض وہ ہوتے ہیں جو اپنی ذات کے علاوہ اپنے گرد وپیش کے لئے جیتے ہیں ،بعض اپنے ساتھ اپنوں کے لئے ،بعض صرف اپنے لئے اور بعضے وہ ہوتے ہیں جو اپنے لئے کم اور دوسروں کے لئے زیادہ جیتے ہیں اور آخری صفت کے حاملین ہی انسانوں میں اعلی وارفع شمار کئے جاتے ہیں اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے ،اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کو حقیقی انسان اور ایسی زندگی کو اصل زندگی کہاجاتا ہے ،کسی نے شاعر نے دوسروں کے لئے کچھ کرگزرنے کے جذبہ کو حقیقی زندگی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؎
زندگی اس کی ہے جو جیتا ہے اوروں کے لئے

اس کا جینا ہیچ ہے جو جیتا ہے اپنے لئے
مذہب اسلام نے انسانوں کو اور خصوصاً اپنے ماننے والوں کو اسی کی تعلیم دی ہے اور انہیں پابند بنایا ہے کہ وہ دوسروں کا بھر پور خیال کریں بلکہ اپنے اندر ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کریں تاکہ حقیقی انسان بن سکے ، کیونکہ دوسروں کو نفع پہنچائے بغیر کوئی انسان انسانیت کی منزل طے نہیں کر سکتا ہے اور انسانیت کی منزل تک وہی پہنچتا ہے جو بلا تفریق انسانوں کی مدد ونصرت کرتا ہے ،انسانیت کے محسن اور خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐ نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی صلاح وفلاح اور ان کی خدمت واعانت میں گزاردی تھی ،انہوں نے انسانوں کو انسانیت کا پیغام سناتے ہوئے وہ بات کہی تھی جسے سننے کے لئے صدیوں سے انسان بے چین وبے قرار تھے ،محسن انسانیت ؐ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا ’’ اے لوگو! تمہارا رب بھی ایک اور تم ایک باپ(حضرت آدمؑ) کی اولاد ہو،لہذا کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر ،اسی طرح کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ،فضیلت کا معیار تو صرف تقویٰ اور پزہیز گاری ہے (مسند احمد)،محسن انسانیت ؐ کی تعلیم وتبلیغ اور کمال تربیت کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ ؓ کے دلوں میں انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کر بھر ا ہوا تھا ، وہ خود پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتے تھے ،خود کو کمتر اور دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھتے تھے ،ضرورت مندوں کی حاجت ،مصیبت کے ماروں کو راحت ،بھوکوں کو کھلانا ،ننگاوں کو پہنانا ،یتیموں کو گلے لگانا ،بیو اؤں کی کفالت کرنا اور بے سہاراؤں کا سہارا بننا انکا محبوب مشغلہ بن چکا تھا ،ایثار وقربانی میں وہ ضرب المثل بن چکے تھے ،ان کے اخلاق دیکھ کر لوگ ان کے دیوانے ہو چکے تھے ،وہ جدھر جاتے تھے ادھر اپنے اخلاق وکردار کے جھنڈے گاڑ دیتے تھے ،ان کی انسانیت نوازی ،دلی ہمدردی اور خلوص ومحبت دیکھ کر لوگ انہیں فرشتوں سے تعبیر کرتے تھے ، یہ سب اسلام کی عظیم تعلیمات اور محسن انسانیت ؐ کی کامیاب تربیت کا نتیجہ تھا ۔
ایسے لوگ ہر زمانے ،ہر علاقے اور ہر معاشرہ میں پائے جاتے ہیں جو اپنے لئے کم دوسروں کے لئے زیادہ جیتے ہیں اور دوسروں کے کام آنے کو اپنے لئے سعادت اور خوش نصیبی سمجھتے ہیں ،یقینا اپنی ذات میں گم ہوکر اپنے اندار کے انسان کو تلاش کرنے کے بعد ہی یہ محمود صفت پیدا ہوتی ہے ،کسی نا صح نے نصیحت کرتے ہوئے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ اپنی ذات میں ایک ایساانسان ڈھنڈو جسے صرف اپنے لئے ہی نہیں دوسروں کے لئے بھی جینا آتا ہو ،جس نے اپنے اندر کے اس انسان کو ڈھنڈ لیا تو سمجھ لو کہ اس نے انسانیت کی منزل کو پالیا ،مگر جان لو کہ وہاں تک رسائی بہت کم انسانوں کی ہوتی ہے ‘‘ ، ملک کی موجودہ صورت حال سے سبھی اچھی طرح واقف ہیں اور یہ بات بھی ہم پر مخفی نہیں ہے کہ موجودہ حکمران رنگ ونسل ،مذہب وملت اور اعلی وادنیٰ کے درمیان نفرتوں کی دیوار کھڑی کرکے انہیں باٹنا چاہتے ہیں ،اس کے لئے انہوں نے ایک سیاہ قانون بھی تیار کیا ہے جو سرا سر ظلم ،انسانیت کے منافی ، جمہوریت اور اس کے دستور کے خلاف ہے بلکہ جمہوریت کا قتل ہے ،ملک کا ہر باشندہ اور دستور ہند سے معمولی واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ دستور ہند نے بلا لحاظ مذہب وملت اپنے ہر شہری کو مذہب کی مکمل آزادی دی ہے اور ذات وبرادری کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھی تفریق سے باز رکھا ہے ، ملک کا دستور دراصل ملک کی روح اور اس کی جان ہے ،دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ صرف جمہوریت کی توہین ہے بلکہ یہاں کے باشندگان کی حق تلفی اور ملک کے امن وامان کے لئے سخت خطرہ ہے ، موجودہ حکمران ملک کے امین و محافظ ہیں نہ کہ ملک کے مالک وخریدار ،چنانچہ حکمرانوں کو ان کے اوقات یاد دلانے ،ان کی حیثیت سے آگاہ کرنے اور دستور کی حفاظت وملک کی سلامتی کے لئے پوری عوام سڑکوں پر اتر کر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے ،جن میں خاصی تعداد عورتوں اور لڑکیوں کی ہے ،مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی اس سیاہ قانون کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں ،مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس وقت پورے ملک میں تقریبا ً ایک سو نو مقامات پر منظم ،مسلسل ،مستحکم اور پُر اثر دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے اور دہلی کا شاہین باغ ان سب کا مرکز بنا ہوا ہے، جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے تقریبا ساٹھ دن ہو چکے ہیں شاہین باغ میں خواتین کو دھرنا دیتے ہوئے ،وہاں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں خواتین کا نہایت پُر اثر احتجاج جاری ہے ،بلاشبہ ملک میں آزادی کے بعد سے خواتین کا اس قدر منظم احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ہے ،شاہین باغ کے احتجاج نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ،ان کے جذبے اور حوصلے کو دیکھ کر تحریک آزادی میں شریک عورتوں کی یاد تازہ ہو رہی ہے ،اتنے طویل عرصے تک منظم ،مستحکم اور پُر زور انداز میں احتجاج جاری رکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہے ،عورتوں نے اپنا حوصلہ دکھاکر بتایا ہے کہ وہ ملک ودستور کی حفاظت اور ظلم وبربریت کے خلاف جدجہد کے لئے ہر طرح سے تیار ہیں ،وہ حکو مت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں بتارہی ہیں کہ صنف نازک اولاد کی پروش کرنا اور ملک کی حفاظت کرنا دونوں بھی جانتی ہیں ،جس طرح نہایت تسلسل کے ساتھ اس سیاہ قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر یہ خواتین قابل مبارک باد ہیں اسی طرح تحریک کو تقویت پہنچانے اور اسے مضبوط کرنے میں جو ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں وہ بھی مبارک باد میں برابر کے حقدار ہیں ۔
شاہین باغ میں تقریبا ً دوماہ سے دن ورات ،صبح وشام جہاں بہت سے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق خدمات انجام دے رہے ہیں ان میں ایک نمایاں نام دریا دل ،محب وطن ، گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار اور ہندوستانی یکتا کے زبردست حامی ایڈوکیٹ ڈی ایس بندرا ہیں جو روز اول ہی اس منظم تحریک کا حصہ بن کر آواز حق بلند کرنے والوں کی بھر پور خدمت میں لگے ہوئے ہیں ،ڈی ایس بندرا جو ایک قابل ترین ایڈوکیٹ ہیں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں جہاں کئی باتوں کا انکشاف کیا ہے وہیں ان سے فلیٹ بیچ دینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کو میں نے شاہین باغ کی شیر نیوں کی خدمت کے لئے بیچا ہے ،یہ پیسہ ان خواتین کی خدمت کے لئے لگاؤں گا جو شاہین باغ میں ملک کے دستور کی حفاظت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،انہوں نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میرے پاس کل تین فلیٹس ہیں اس میں سے ایک بیچ دیا ہوں ،چونکہ یہاں کوئی ڈونیشن نہیں لے سکتا اور نہ کوئی ہم امدادی کام کر رہے ہیں بلکہ ہمارا یہ کام ملک کی فلاح وبہبود کے لئے ایک اہم سنگ میل ہے ،اس دریا دل نے بتایا کہ صبح سے لے کر شام تک پکوان کے لئے تقریباً پچاس ہزار روپئے خرچ ہو رہے ہیں اور یہ ہر دن کا خرچ ہے ،چونکہ میرا تعلق مالی اعتبار سے ایک مستحکم خاندان سے ہے اس لئے مجھے اس کا م کے لئے اپنا فلیٹ بیچ دینے میں کچھ تردد نہیں ہوا ،میرا لڑکا بھی اس کام سے بہت خوش ہے ،انہوں نے کہا کہ اس طرح خدمت کا مقصد مظلوموں کی صدائے احتجاج کو مستحکم کرنا ،سیاہ بل جو دستور کے خلاف ہے اور ہر شہری کے لئے نقصاندہ ہے اس سے حکومت کو آگا ہ کرنا اور اسے واپس لینے کے لئے انہیں مجبور کرنا ہے ،انہوں نے بڑے حوصلہ سے کہا کہ یہ سلسلہ انہیں جھکانے تک جاری رہے گا، یہ دریا دل ،سخی اور محب وطن نہ صرف روپیوں سے خدمت کر رہاہے بلکہ عملی میدان آستین لپیٹ کر دن ورات خدمت میں مصروف ہے ،اس کے انہماک کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے پیروں میں دو جوتے الگ الگ ہیں انہیں اس کا تک بھی خیال نہیں رہا ہے ،جب توجہ دلائی گئی تب انہیں پتہ چلا کہ ان کے پیر میں دو الگ جوتے ہیں ، بندرا جیسے لوگ ملک کے لئے قابل فخر ہی نہیں بلکہ قابل تقلید ہیں اور یہ اس وقت ہو راہ ہے جب کے بہت سے لوگ محبت کا نام لے کر زہر اگلنے میں اور سرکاری عہدوں پر بیٹھ کر خزانہ ہڑپنے میں مشغول ہیں ،یہ سچا محب وطن ملک کی سلامتی ،دستور کی حفاظت کے لئے محنت ولگن سے کمایا ہوا فلیٹ بیچ کر اس کی رقم سے ملک کی تعمیر نو کرنے چلا ہے ،یہ ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو صرف نفرت پھیلانا جانتے ہیں اور رشوت خوری ،سود خوری اور سرکاری املاک پر ناجائز ہاتھ مارکے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں ،یقینا اس وقت ملک نازک ترتین دور سے گزر رہا ہے ،بعض لوگ تعصبیت کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں اور عوام الناس کے درمیان نفرت کی دیوار بنانے میں جٹے ہوئے ہیں ایسے میں بلالحاظ مذہب ومشرب ،محض ملک سے محبت کی خاطر آپسی ملاپ کے استحکام کے لئے محبت کا پل تعمیرکرنا قابل قدر عمل ہے ،یقینا جب تک ایسے لوگ رہیں گے ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا ،ملک میں نفرت پھیلانے والے اور بُرے عزائم رکھنے والے کبھی بھی اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ،ان حالات میں ان سے تحریک لے کر ہر شخص کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق آگے آنے کی ضرورت ہے اور سیاہ بل کے خلا ف ملک کے کونے کونے میں بلا لحاظ مذہب وملت چلائی جانے والی تحریک کو مستحکم کرنا ہوگا ،بلاشبہ حکومت وقت کو ان شیر دل ،جانثاران وطن اور شاہین صفت کے آگے گھٹنے ٹیکنا ہی پڑے گا اور دستور کے منافی ،مذہبی منافرت پر مبنی اور جمہوریت کے خلاف بل کو واپس لینا ہی ہوگا ۔

Related Articles

One Comment

Md Sanaullah کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×