سیرت و تاریخشخصیات

کتابِ نور میں لکھے ہو ئے ہیں مشورے اس کے یومِ شہادت حضرت سیدنا عمر فاروقؓ

انسانی تاریخ میں تین ایسی دعائیں ہیں جن کے اثرات و نتائج نے صفحہ ہستی پر انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔
١۔ بیت اللہ میں تلاوت آیات، تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس کے لئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت مانگی۔
۲۔ فرعونی استبداد سے ٹکرانے اور مظلوموں کے حقوق کی بحالی کے لیے حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے ہارون علیہ السلام کی خطابت مانگی ۔
٣۔ گلشنِ اسلام کی آبیاری کے لیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی شوکت و جلالت مانگی،
 ان کی آمد پر پہلی بار حلقۂ رسالت میں نعرہ تکبیر بلند ہوا،اور یہ واحد شخصیت ہے جومرادِرسولﷺ بن کر آئے۔
 اللهم اعز الاسلام بابي جهل بن هشام او بعمر بن الخطاب فاصبح عمر فغدا على النبي صلى الله عليه وسلم فاسلم ثم صلى في المسجد ظاهرا (رواه احمد والترمذي)
ذخیر احادیث میں کم از کم ١٥/ (اور سیرت وتاریخ میں٢٢/) ایسے واقعات کا ذکر ملتا ہے کہ کسی مسئلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی کی ایک رائے ہوئی یا ان کے قلب میں داعیہ پیدا ہوا کہ کاش اللہ تعالی کی طرف سے یہ حکم آجاتا بس وہی حکم وحی کے ذریعے پروردگار عالم نے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر آسمان سے نازل فرما دیا۔
معارف الحدیث ٢٠٥/٨
ذیل میں قرآن مقدس کی اُن آیات کوسپردِقرطاس کیا جا رہا ہے،جو متعدد مراحل پرسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے اور آپ کے مشورے پر  نازل ہوئیں۔
 مقام ابراہیم علیہ السلام پر دورکعت نفل:
سیدنا فاروق رضی اللہ تعالی  کی رائے تھی کہ مقام ابراہیمؑ پر نوافل ادا کرے تاکہ عبادت میں ذوقِ ابراہیمی کی تقلید ہو جائے یہ تجویز بارگاہ عالم میں مقبول ومنظور ہوئی اور عرش بریں سے قرآن بن کر نازل ہوئی، جب سے اب تک بلکہ تاحشر مقام ابراہیمؑ پر سجدے ہوتے رہیں گے اور فاروق اعظمؓ کی اصابتِ فکر کا اعتراف ہوتا رہے گا۔ واتخذوا من مقام ابراهيم مصلى”اور مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیا کرو”(البقرہ:١٢٥)
۔
 ازواجِؓ رسولِؐ مقبول کو پردہ کاحکم:
ابتدائے اسلام میں مستورات کے لئے حجاب یعنی پردے کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا،عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی آمدورفت ہوتی تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں اللہ تعالی نے داعیہ پیدا فرمایا کہ خاص کر ازواجِ مطہرات کے لیے حجاب کاخصوصی حکم آجائے، چنانچہ اس بارے میں آیت نازل ہوگئی۔ واذا سالتموھن متاعا فسئلوهن من وراءحجاب "اور جب مانگنے جاو بیویوں کے پاس کچھ چیز کام کی تو پردے کے باہر سے مانگ لو” (الاحزاب:٥٣)
اسیرانِ بدر کے قتل کا مشورہ اور آیت کا نزول:
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے یہ تھی کہ اسیرانِ بدر اسلام، صاحب اسلام اور فدایانِ اسلام کے جانی دشمن اور اکابر مجرمین ہیں، ان سب کو قتل کردیا جائے، ان کو زندہ چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے زہریلے سانپوں کو زندہ چھوڑنا لیکن سیدنا صدیق اکبرؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم دلی کا غلبہ تھا، ان کی رائے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کی ہوئی اور اسی پر عمل کیا گیا،لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کے مطابق اس آیت کا نزول ہوا۔لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما اخذتم عذاب عظيم
”اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب”۔(الانفال:٦٨)
رئيس المنافقين کی نمازِ جنازہ اور فکرِ عمرؓ پر آیت کا نزول:
عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین نے وصیت کی تھی کہ میری نماز جنازہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائے، نیز ان ہی کی قمیص سے میرا کفن تیار کیا جائے، اس کے بیٹے نے بعدازمرگِ پدر باپ کی آخری آرزو رحمتِ عالم کی خدمت میں عرض کی تو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم آمادہ ہوگئے۔
 اور فرمایا: اگر میری نمازِ جنازہ پڑھانے سے تیرے باپ کو جہنم سے جنت مل سکتی ہے تو تم تیاری کرو، میں آ رہا ہوں، نماز جنازہ کی تیاری ہوگئی، رحمت عالم تشریف لے آئے، فاروق اعظمؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ آپ کس کا جنازہ پڑھانے لگے ہیں، آپ تو جانتے ہیں اسے یہ کون ہے ؟ رحمت عالم نے فرمایا: ہاں اچھی طرح جانتا ہوں یہ کون ہے فاروق اعظمؓ سمجھ گئے، کہ میرے آقا میرے دشمن کو معاف کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، عرض کیا: اس کی تمام زیادتیاں معاف ہوجائیں مگر کیا اس سنگ دل کا وہ ظلم بھی قابلِ معافی ہے جو اس نے عفیفہ کائنات امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ پر الزام تراشی کرکے انہیں اشکبار و بےقرار کیا، اگر آپ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے تو امی عائشہؓ کی غیرت پہ کیا گزرے گی۔
 فرمایا: عمر میری رحمت کا تقاضا ہے، میں نمازِ جنازہ پڑھاؤں گا نماز جنازہ ہوگئی، عمرؓ ہٹ گئے، مگر روح الامین پہنچ گئے، فاروق اعظمؓ کی غیرت عرش بریں سے قرآن بن کر اتری اور فکرِ عمر کو رب العزت کی طرف سے توثیق حاصل ہوگئ ۔ ولاتصل علی احدمنھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ ”اور جب ان (منافقوں) میں سے کوئی مَرے تو اس پر نماز نہ پڑھیے”۔
منافق کا سر قلم اور عرشِ بریں سے پذیرائی کا شرف:
ایک یہودی اور منافق کا کسی چیز کی ملکیت پر جھگڑا ہوا، یہودی نے تجویز پیش کی اور منافق سے کہا: محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو مجھے ان کا فیصلہ منظور ہے، منافق بڑا خوش ہوا کیونکہ وہ کلیمہ گو ہے، فیصلہ تو میرے حق میں ہی ہوگا، لیکن اللہ کے رسولﷺ نے شہادت کی بنیاد پر فیصلہ یہودی کے حق میں صادر کردیا، کیونکہ منافق اپنے موقف کے ثبوت میں کوئی شہادت پیش نہ کرسکا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسول اکرمﷺ کے فیصلے سے اتفاق کیا۔
پھر منافق نے کہا: میں تمہارے کہنے پر محمدﷺ کے پاس چلا آیا، تو اب تم میرے کہنے پر عمر فاروقؓ کے پاس بھی چلو، فاروق اعظمؓ کے پاس دونوں آئے اوراپنا اپنا مؤقف بیان کیا، لیکن یہودی نے یہ بتا دیا کہ ہم قبل ازیں رسولِ اکرمﷺ کے پاس گئے تھے اور ان کا فیصلہ تو میرے حق میں تھا اور صدیقِ اکبرؓ نے بھی یہی فیصلہ بحال رکھا، لیکن یہ کلمہ گو مطمئن نہیں ہوا، فاروق اعظمؓ کے تیور جلالی ہوگئے، فرمایا: ٹھہرو ! ابھی فیصلہ کرتا ہوں، تلوار لائے اور منافق کا سر قلم کرتے ہوئے فرمایا: جسے رسول اکرمﷺ کے فیصلے پر اطمینان نہیں، اس کا فیصلہ میری تلوار نےکر دیا۔
اب شور مچ گیا٠ کہ عمر ابن خطابؓ نے ایک کلمہ گو کی گردن اڑا دی، اس کے ورثاء نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں فاروق اعظمؓ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا کہ ہمیں انصاف چاہیے چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی۔ کے ایسے بدبختوں کا یہی انجام ہونا چاہیے_  کہاں کا بدلہ اور کہاں کا خون بہا….
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔ ترجمہ: سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے۔ (النساء ٦٥)
صدیقہ کائناتؓ کی آہوں پر فاروق اعظمؓ کی صدائیں قرآن بنی:
غزوہ بنی المصطلق سے واپسی کے موقع پر منافقین نے ابن ابی کی قیادت میں طے شدہ منصوبے کے تحت حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے خلاف بدزبانی اور الزام تراشی کا طوفان اٹھایا، اللہ کے رسولﷺ نے اصحاب الرائے کا ہنگامی مشاورتی اجلاس بلاکر رائے لی، صحابہ کرام تو اس اندوہناک صدمہ میں گھائل تھے، ہر شخص اشکبار ودل فگار تھا،
ایک طرف سے آواز آئی، اللہ کے رسولﷺ ! پیغمبر کے لیے بیویوں کی کمی تو نہیں (یعنی عائشہؓ کو آزاد کیا جاسکتا ہے) اس پر فاروق اعظمؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ بتائیے کہ عائشہؓ کو آپ کی رفیقۂ حیات بنانے والا کون ہے ؟ رسول اکرمﷺ نے انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی، فاروق اعظمؓ نے اس بلیغ کنایے سے بھرپور تاثر لیا اور عرض کیا یہ کیس اب اللہ کی عدالت میں ہے اور مزید فرمایا: "یہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا پر بہتان عظیم ہے” جو الفاظ آپ نے کہے انہی الفاظ میں پروردگار عالم نے قرآن کی ایک آیت کو نازل فرمایا سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان عَظِیْم” ۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ (النور:١٦)
تاجدارِ شہادت سیدنا عمر فاروقؓ:
 اللہ نے اس مثالی انسان میں بیک وقت کئی خوبیاں پیدا کرکے انہیں عبقری بنادیاتھا،
وليس على الله بمستنكر أن يجمع العالم فى واحد
 "اور اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں کہ وہ کسی ایک انسان میں دنیا بھر کے محاسن جمع کردے”
 فاروق اعظم بیک وقت امیر بھی تھے، سراپا فقیر بھی، سراپا جلال بھی تھے، جمال بھی، عالم بی تھے، عابد بھی، شب زندہ دار بھی تھے، مجاہد برسرپیکار بھی،
  عمرؓ حدیث شجاعت حکایت شمشیر
  عمرؓ شکوہ قیادت ہیں،قصۂ توقیر
  عمرؓ کے نام سے طاغوت لرزہ براندام
 عمرؓکی سطوت وشوکت سے سرنگوں اصنام
 عمرؓ قبول عمرؓ قابل وعمرؓ مقبول
  عمرؓ دعاءِپیغمبرؐ عمرؐ مرادِرسولؐ
٢٧/ذوالحجہ کو صبح کی نماز  مسجد نبویؐ میں پڑھا رہے تھے کہ گھات میں بیٹھا ہوا ایران کا فیروز مجوسی حملہ آور ہوا اور امیر المومنین سیدنا فاروق اعظمؓ پر زہرآلود خنجر کے ٦ وار کیے، جس سے اسلام کا مایہ ناز فرزند گھائل ہوگیا اور ایک محرم الحرام کو شہر مدینہ مسجد نبوی مصلی رسول پر جام شہادت نوش کیا۔
 دو دعائیں مانگی تھی کہ مدینے میں موت آئے اور شہادت نصیب ہو، بحمداللہ آرزو کی تکمیل کا وقت آ پہنچا، سبز گنبد کے مکینوں میں تیسرا نمبر آپ کا ہوا، 22 لاکھ مربع میل کا فرمانروا، جس کا حکم ہواؤں، دریاؤں، جنگل کے درندوں اور دھرتی پر مانا جاتاتھا، وہ ١/محرم الحرام کو اس دارفانی سے رخصت ہو گیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون
یہ دنیا ان سے اب تک اکتسابِ ِفیض کرتی ہے
کتابِ نورمیں لکھے ہوئے ہیں مشورے اس کے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×