شخصیاتمفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی

حامد محمد خان تیری جرأت کو سلام

اس وقت ملک بڑے نازک حالات سے گزر رہا ہے، ہر سمت صدائے احتجاج بلند ہے، حکومت وقت کے مظالم، فرعون وقت مودی اور ہامان دوراں امیت شاہ کی تانا شاہی نے پورے ملک میں آگ لگا رکھی ہے، نظریاتی بھید بھاؤ، مذہبی عدم رواداری، ہندو انتہا پسندی اور اسلام دشمنی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ووٹوں کی بھیک اور مشینی دھاندلیوں سے بنی حکومت کے نشہ نے ان شیطانوں سے عدل و انصاف، امن و آشتی، محبت و مروت تو کجا انسانی قدروں کو بھی چھین لیا ہے، اسلام اور مسلمانوں سے تعصب پسندی ان کی فطرت کا لازمہ محسوس ہوتی ہے،آئے دن مسلمانوں کے ساتھ نا روا سلوک ان کی عادت سی بن گئی ہے، مسلمانوں کے تئیں ان کی مخالف زبان ہی کیا کم تھی کہ اب تو مسلمانوں کے خلاف قانون سازی بھی ان کے لیے بازیچۂ اطفال سے کچھ کم نہیں- غالب نے سچ کہا تھا
بازیچۂ اطفال سے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے تماشہ شب و روز مرے آگے
موجودہ C A A اور N R C نے تو ان کی مسلم دشمنی کا پردہ چاک ہی کر دیا ہے، مسلمانوں کو بے دیشی اور غیر ملکی بنانے کی ایک منظم سازش رچی گئی ہے، یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے مسلمان اور دلت بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں-
ایسی اندوہناک صورت حال میں ظالم و جابر حکومت کے خلاف آوازۂ حق بلند کرنا کسی جہاد سے کم نہیں، اپنے حق کا مطالبہ کرتا اس وقت ہر صاحب فہم ہندوستانی کی اولین ذمہ داری ہے، اس کربناک ماحول میں صدائے احتجاج بلند کرنا فرض نہیں تو اور کیا ہے؟
ایسے ظالمانہ قانون کے خلاف
میدان عمل میں آنا اور اپنے ضمیر کی آواز کا اظہار کرنا یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، مجاہدانہ شان و شوکت
کے ساتھ اپنے حق کا مطالبہ کئے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں۔
بفضل الہی آج بھی ایسے جیالے زندہ ہیں جو ملک و ملت کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ، ان کو اپنی جان سے زیادہ ملت کا مفاد محبوب ہوتا ہے، وہ ظالم وقت سے ہاتھ ملانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے، ملت کا سودا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، ان کا دل قوم و ملت کی خاطر محزوں و مغموم رہتا ہے، وہ اپنی قوم کے مفاد کے لیے خود کو کلفتوں میں ڈالنا گوارا کر لیتے ہیں ، وہ ابن الوقت نہیں ہوتے، وہ اپنے ضمیر کی آواز کا سودا نہیں کرتے، نہ وہ ملت فروش ہوتے ہیں اور نہ ہی لبادۂ رہبری میں رہزنی کرتے ہیں۔
ان ہی جیالوں میں ایک شیر دل مرد مجاہد، ملت کی بے کسی پر کڑھنے والا انسان، قائدانہ صلاحیتوں سے لبریز، فکر و نظر میں با کمال، خطیبانہ لیاقتوں میں ممتاز ، باہمت اور باحوصلہ شخصیت جناب حامد محمد خان صاحب امیر جماعت اسلامی حلقۂ تلنگانہ و اڑیسہ ہیں۔
حامد محمد خان صاحب کی شخصیت اہلیاں حیدرآباد کے لئے کوئی محتاج تعارف نہیں، وہ جہاں جماعت اسلامی کے عظیم سپہ سالار ہیں تو وہیں مسجد قطب شاہی مہدی پٹنم کے بے باک و جرأتمند خطیب بھی ، وہ جہاں ایک قابل قدر استاذ ہیں وہیں ایک مایہ ناز منتظم و مؤدب بھی۔
حامد محمد خان صاحب! آپ نے ملک کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھ کر جو قدم اٹھایا ہے، وہ قابل قدر ہے، آپ کی جرأت و بے باکی آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی عکاس ہے، آپ نے جس جواں مردی کے ساتھ باطل کو للکارا نے وہ لائق تقلید ہے، آپ کا کسی کی پرواہ کئے بغیر میدان عمل میں کود پڑنا یہ آپ کے عزم جواں کی دلیل ہے، آپ کا مصلحت پسندی کے بجائے اظہار ما فی الضمیر کرنا آپ کے بلند حوصلہ ہونے کی بین نشانی ہے، مخالف ماحول کی بربریت کے باوجود اپنے حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنا آپ کے سچے قائد ہونے کی کلید ہے، دنیوی آسروں کے بغیر خدائے رحیم و کریم کی ذات یکتا پر بھروسہ کر کے نکلنا آپ کے مؤمن صادق اور بے باک لیڈر ہونے کا بڑا ثبوت ہے۔
خان صاحب! آپ نے جو کیا بہت اچھا کیا، جو قدم اٹھایا ہے بڑا اچھا اٹھایا ہے ۔
اس وقت تمام نوجوانوں کی نظریں آپ پر جمی ہوئی ہیں، جب کہ ہر طرف سے عوام اور علماء کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، پولیس عدم توازن اور دورخی برت رہی ہے، خان صاحب!اس وقت آپ نے بلا خوف و خطر میدان عمل میں کود کر دلوں کو جیت لیا ہے، سچی قیادت کے مفہوم کو عملی کردار سے واضح کیا ہے۔
خان صاحب! اس وقت ملت کے بڑے حضرات مصلحت پسندی کے نام پر میدان عمل میں آنے سے کترا رہے ہیں، زبانوں پر خاموشی ساندھی ہوئی ہے، بعض لوگ اپنی تنظیموں کے اکابر کے حکم کے منتظر ہیں، قیادت یا تو ملت فروش ہے یا سارا سہرہ اپنے ہی سر باندھنا چاہتی ہے، خان صاحب! آپ نے مجاہدانہ کردار ادا کر کے مردہ ضمیروں کو آئینہ دکھایا ہے، مصلحت پسندوں کی بزدلی کو للکارا ہے ، آپ کی گرفتاری رائیگاں نہیں جائے گی، اسے ضرور رنگ لانا ہے، سچا قائد قوم کے آگے چلتا ہے، پہلے اپنا سینہ پھر قوم کا پسینہ ایک حقیقی قائد کا عملی نعرہ ہوتا ہے ، خان صاحب! آپ اسٹیجوں تک ہی محدود نہیں رہے، آپ کی آواز اسٹیجوں سے اٹھ کر اب پولیس اسٹیشنوں میں گونج رہی ہے، آپ کی آواز کسی پلیٹ فارم تک محدود نہیں، آپ نے علامہ اقبال کے اس شعر کو دوبارہ زندگی دی ہے کہ
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
خان صاحب! اللہ تعالی آپ کی عمر میں درازی عطا فرمائے آپ کے عزم و حوصلہ کو مزید جوانی عطا فرمائے، آپ کے عزم کے آگے چٹانوں کو چور چور فرمائے ۔
خان صاحب آپ کی عظمت کو سلام
خان صاحب آپ کی جرأت کو سلام

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×