شخصیات

صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی آہ! مولانا علاء الدین انصاریؒ

ذہن سے یہ بارگراں ہٹنے کو تیار ہی نہیں کہ ایک کرم فرما شخصیت داغ مفارقت دے گئی،جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد کے منتظم عمومی مولانا علاء الدین انصاری صاحبؒ ایک مشفق وملن سار ، ہرایک کے غم گسار،محبت والفت کے انبار دار، انتظامی امور میں نہایت تیزکار،بڑے جگردار،جامعہ کے لیے مثل کہسار، پیار کی ایک پھوار،خوشبوؤں کی مہکار،ہر وقت مزاج ہموار، اپنے برادراکبر کے انتہائی وفادار،شخصیت سدابہار،ہمیشہ لہردار و موجدار،البیلے لہجہ کے منجدھار،اپنی ذمہ داری پہ ہر لمحہ برقرار،ہر صبح وشام جامعہ میں نمودار، جامعہ کے لیے ایک کشت کار و مہردار،فداکارو رضاکار،زوردارو قددار، جن کی خدمات لائق افتخارگویا جامعہ کے وہ ایک نمبردار تھے، وہ بیزار انتشار وخلفشار تھے، حافظ اشعار تھے، مزاج کی خشکی وکڑواہت سے دست بردار تھے، وہ نہ دل آزار تھے اور نہ ہی قلب فگار تھے،ہردم مزاج بیدار تھے،جامعہ کے خلاف کوئی بات ہوجائے تو بروقت آہنی تلوار و سراپا یلغارتھے ، جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد کے وہ ایک فردِیادگارتھے۔
پیدائش ، تعلیم و فراغت
مولانا علاء الدین انصاری ضلع بیدر کرنانک کے مشہور قصبہ بسوا کلیان میں6؍شعبان 1382ھ مطابق2ٖ؍جنوری 1963ء کوپیدا ہوئے، وہیں پر اپنی ابتدائی زندگی گزاری اور بنیادی تعلیم بھی حاصل کی، اپنے والد گرامی اور برادر اکبر کے شہر حیدرآباد منتقل ہوجانے کے بعد وہ بھی شہر حیدرآباد منتقل ہوگئے ، اپنی عالمیت کی تعلیم کی ابتداء جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد میں کی ، بعدازاں جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں ششم وہفتم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم وقف دیوبند میں دورۂ حدیث شریف میں داخلہ لے کر سند فراغت حاصل کی۔
خدمات
مولانا علاء الدین انصاری نے اپنی فراغت کے بعددارالعلوم حیدرآباد کی شاخ درگاہ خلیج خان حمایت ساگر کے مدرسہ میں صدرمدرس کی حیثیت سے اپنی خدمات کا آغاز کیا، تھوڑے ہی عرصہ بعد جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد میں بہ حیثیت منتظم مقرر ہوئے تو اپنی آخری سانس تک جامعہ کے منتظم عمومی رہے۔
دارالعلوم حیدرآباد سے والہانہ تعلق
مولانا علاء الدین انصاری نے تیس سال سے زائد جامعہ میں خدمات انجام دیں، وہ جامعہ سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے، اپنی لیل ونہار جامعہ کے لیے وقف کئے ہوئے تھے، کوئی بھی چھوٹا یا بڑا معاملہ پیش آجاتا تو فورا جامعہ حاضر ہوجاتے اور معاملہ کی یکسوئی ہونے تک جامعہ سے ہٹتے نہیں تھے، وہ ایک مضبوط ستون کی طرح جامعہ کے نظم ونسق میں حصہ لیتے تھے؛ بلکہ جامعہ کے ہر شعبہ سے اپنا تعلق بنائے ہوئے تھے، ہر شعبہ میں ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور اکثر وبیشر ان کی رائے پرہی فیصلہ ہوتا، وہ جامعہ کے اندرونی انتظامی امور کے روح رواں تھے، ہر روزصبح جامعہ حاضر ہوجاتے ، چاہے چھٹی کا زمانہ بھی کیوں نہ ہو آپ اپنے وقت پر جامعہ میں موجود رہتے تھے، یہاں تک کہ لاک ڈاؤں کے سخت ترین مرحلہ میں بھی بہ پابندی آپ جامعہ تشریف لاتے رہے اور تمام امور کی نگرانی کرتے رہے، انہوں نے اپنی زندگی کی تمام بہاریں جامعہ کے لیے وقف کیں ،ہر کام اپنی نگرانی میں کرواتے اور بذات خود کام کرتے تھے، گاہے بہ گاہے جامعہ کے مطبخ میں حاضر ہوتے اور طلبہ کے کھانے کی نگرانی بھی کرتے ، جامعہ میں کوئی بھی پروگرام ہو پوری مستعدی کا ثبوت پیش کرتے اور کسی بھی طرح کی غیر ذمہ داری یا سست روی نہ دکھاتے ؛ بلکہ چاق وچوبند ہوکر پوری ذمہ داری نبھاتے او رہر امر پر اپنی نگرانی رکھتے۔
انصاری صاحب سے تعلق
مولانا علاء الدین انصاری اپنے برادر کبیر مولانا رحیم الدین انصاری کے معتمد خاص تھے، انصاری صاحب ان پر کافی اعتماد کرتے تھے اور وہ ان کے اعتماد کی خوب قدر بھی کرتے تھے اور حفاظت بھی، اپنے بڑے بھائی  کے اشارہ پر کام کرنے کا ہنر اپنے اندر رکھتے تھے، ان کے مزاج کی مکمل رعایت کرتے اور مزاج کی خلاف ورزی سے بچے رہتے، ان کی ہر خوشی وغم میں شریک رہتے اور ہر لمحہ انصاری صاحب کے دست راست بنے رہتے، جامعہ سے متعلق کئی ذمہ داریوں کابوجھ اپنے شانوں پر لاد کر اپنے برادرکبیر کو راحت بہم کرتے۔
اساتذۂ جامعہ کی قدردانی
مولانا علاء الدین انصاری اساتذہ ٔ جامعہ کے بڑے خیر خواہ تھے، وہ ہر استاذ کی قدر کرتے ، ان کو عزت بخشتے، ان کے آداب بجالاتے تھے، کسی بھی استاذ کی کوئی بھی شکایت سامنے آتی تو چشم پوشی کرتے اور معاملہ کو الجھانے کے بجائے فورا سلجھا دیتے ، اساتذہ کے جائز تقاضوں کو انصاری صاحب کے سامنے بہ حسن وخوبی پیش کرتے اور اسے منظور بھی کروالاتے، تنخواہوں کے اضافے کے سلسلہ میں بھر پور نمائندگی کرتے اور انصاری صاحب کا ذہن بنا کر ہر سال اضافہ کرواتے،وہ اساتذہ و ملازمین کے مسائل کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ سمجھتے اور حتی المقدور بذات خود انہیں حل بھی کرتے ، وہ اساتذہ سے دوستانہ اور بے تکلفانہ تعلق رکھتے تھے، ہردم خوش مزاجی سے پیش آتے ، جامعہ کے مقامی اساتذہ کی بھر پور نمائندگی کرتے ، ان کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ، کام کرنے والوں کی خوب قدر کرتے تھے، کسی کو کسی کی نظر میں نہ گراتے اور نہ ہی ایسی گفتگو میں خود کو الجھاتے، وہ بڑے ملن سار اور خوش گوار انسان تھے، اساتذہ کے بچوں کے ساتھ بھی مشفقانہ تعلق رکھتے تھے، چھوٹے بچوں کو انعام دیتے اور ان کو اپنے سے قریب بھی کرتے تھے۔
طلبۂ جامعہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ
طلبہ جامعہ کی بھی خوب عزت کرتے ، ان کے مسائل کو بغور سنتے ، سمجھتے اور ان کو حل بھی کرتے،ان کی خیر خواہی کرتے ، طلبہ کو سہولیات مہیا کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے،طلبہ کے تئیں انتہائی نرم رویہ رکھتے ، شروع سال میں ان کی سفارشیں کرتے ، ان کی فیس میں تخفیف کرواتے، کئی طلبہ کی داخلہ کے سلسلہ میں اساتذہ سے سفارش کرتے؛ بلکہ دوران سال بھی کوئی طالب علم آجائے تو اس کے داخلہ کی ہر ممکنہ سعی کرتے، اپنے بس کی تمام تر کوشش کرتے اور طلبہ کی خوب دعائیں لیتے، ان کے انتقال کے وقت حضرت مولانا مجیب الدین صاحب دام ظلہ نے فرمایا: مولانا علاء الدین صاحب مہمانان رسول کی سفارش کرتے تھے، امید ہے کہ اسی سفارش کی وجہ سے ان کو بھی سرکاردوعالمﷺ کی سفارش نصیب ہوجائے۔
خادمین کے ساتھ حسن سلوک
مولانا علاء الدین انصاری کو جامعہ کے خادمین سے بھی بڑا لگاؤ تھا، ان کی تنخواہوں کے سلسلہ میں بڑی فکر کرتے تھے، ان کو ضرورت کے وقت قرض بھی دیتے تھے، ہر ایک کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہتے، جامعہ کے کسی بھی خادم کو کوئی بھی ضرورت پیش آجائے تو خود کو آگے رکھتے، وہ کسی دواخانہ میں شریک ہوجائے تو جاکر اس کی عیادت کرتے، ان کی دوا دارو میں معاونت کرتے، بیشتر اوقات چھٹی کے بعد ان کو اپنی کار سے چھوڑتے، کسی کی غربت یا ثروت کو معیار نہیں بناتے، ہر ایک کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے، ان کے انتقال کے بعد جامعہ کے خادمین نے اپنے جس غم کا اظہار کیا اور ان کے آخری دیدار پر جیسے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تو اس سے اندازہ ہوا کہ خادمین کے دلو ں میں ان کی کتنی عزت تھی اور حقیقت بھی ہے کہ وہ ہر ایک کی رعایت کرتے تھے اور نظر انداز کرنے میں توبالکل جداگانہ مزاج رکھتے تھے۔
خوش مزاج طبیعت کے حامل
مولانا علاء الدین انصاری ایک خوش مزاج طبیعت کے حامل تھے، ہر وقت اپنے خوش مزاجی سے سب کو اپنے قریب کرلیتے تھے، کوئی کسی پریشانی میں گرفتار ہوکر آزردہ نظر آجائے تو اپنی گفتگو سے اس کے چہرہ پر مسکان لے آتے، اہل تعلق میںسے کسی کو اگر غصہ کی حالت میں بھی دیکھتے تو اس کو مسکرانے پر مجبور کردیتے ، انتہائی محبت بھری گفتگو کرتے ، ان کے یہاں تسلی بھرے جملوں کا ایک انبار تھا، کسی کو پریشانی میں دیکھتے تو حتی المقدور اس کی پریشانی کو دور کرتے ، اکثر اوقات لوگوں کے سامنے انجان ہوجاتے ؛ مگر بعد میں اس کی ضرورت پوری کرتے یا اس سلسلہ میں معاون ضرور بنتے، ان کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہت سجی رہتی، خوش مزاجی کی چادر ہمیشہ تنی رہتی ، چاہے جامعہ کی کوئی بڑی شخصیت ہویا ادنیٰ خادم یا کوئی طالب علم ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتے اور ان کے ساتھ مذاق کرتے اور ان کا دل بہلانے کی کوشش کرتے۔
ایک مجلسی انسان
مولانا علاء الدین انصاری ایک مجلسی آدمی تھے، خاموشی ان کی طبیعت کا حصہ نہ بن سکی، وہ ہروقت کسی نہ کسی کے ساتھ اپنی مجلس جمائے رہتے، ہر ایک کے ساتھ دل بھری گفتگو کرتے، کسی بھی مجلس کو ضرورت سے زیادہ سنجیدہ نہ رکھتے، ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی مزاحیہ جملہ کہتے جس سے سب کے لبوں پر مسکراہت آجاتی، جامعہ کی بڑی سے بڑی اور اہم میٹنگ کیوں نہ ہو؟ وہ اپنی ظرافت کا مظاہرہ کرتے ، ہنسی مذاق کے ساتھ میٹنگ کرتے، کام پر بھر پور توجہ بھی رکھتے، کسی کو اپنی ملامت کا نشانہ نہ بناتے ، اپنے وجود کا ضرور ثبوت پیش کرتے، اپنے بڑے مقام کا خوب احساس رکھتے اور ضرورت پڑنے پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے؛ مگر کسی کی تحقیر نہیں کرتے تھے، جامعہ میں کوئی جدید استاذ ہویا قدیم ہر ایک کے ساتھ وہی مزاج برقرار رکھتے ، ہر مجلس کو زعفران زار بنانے میں وہ طاق تھے، وہ مجلس کی اداسی کو برداشت نہیں کرسکتے تھے، اور بغیر چائے وائے کے مجلس کے خاتمہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔
شاعری سے لگاؤ
مولاناعلاء الدین انصاری کو اشعار بڑی مقدار میں یاد تھے، وہ نعت بھی پڑھتے تھے، بالخصوص حضرت امیر ملت مولانا محمد حمیدالدین حسامی عاقلؒ اور بے ہوش محبوب نگری کی دکنی نعتیں خوب پڑھتے تھے،غزلیات کا ایک اچھا حصہ ان کو یاد تھا، شاعری کا ذوق رکھتے تھے، مشاعروں میں شرکت کرتے تھے، شعراء سے لگاؤ رکھتے تھے، النادی کے سالانہ پروگرام میں بیت بازی کو خوب اہمیت دیتے تھے اور وقت معلوم کرکے اس میں شرکت کرتے تھے، وہ اشعار و غزل گنگناتے رہتے تھے، حسب موقع اشعار پڑھتے اور بسااوقات بروقت شعرکہتے تھے، حیدرآباد کے معروف شعراء سے کافی تعلق رکھتے تھے۔
اہل خاندان سے حسن تعلق
مولانا علاء الدین انصاری اپنے خاندان میں بھی بڑے ملن سار شخصیت کے مالک تھے، خاندان کے ہر فرد سے مخلصانہ ودوستانہ تعلق رکھتے تھے، ہر چھوٹے کو اپنے سے قریب کرتے تھے، ان کی دلجوئی کرتے تھے، اپنے خاندانی مسائل سے بھر پور واقف تھے ، خاندان کے ہر فرد کے ساتھ اچھا تعلق بنائے ہوئے تھے، ان کے اکثر بھائی او رتمام بہنیں ان سے خوب تعلق ومحبت رکھتے تھے، اپنے اہل خاندان کی معاونت بھی کرتے تھے، ان کے دکھ درد کا حصہ ہوتے تھے اور ان کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، ان کو اپنی نواسی سے بڑا لگاؤ تھا، ہروقت اپنی نواسی کا خیال رکھتے ، اس کی فرمائشیں پوری کرتے ، ذرہ برابر بھی اس کو تکلیف ہونے نہ دیتے، ہروقت اپنے ساتھ رکھتے اور اس کوپر ممکنہ خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔
اب وہ ہم میں نہیں رہے
غرض مولانا علاء الدین انصاری ایک ہر دل عزیز شخصیت اور سراپا محبت تھے، کئی لوگوںکے ساتھ انہوں نے احسان کا معاملہ کیا، مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ انہوں نے جامعہ میں میری خوب معاونت فرمائی، تقرری کے موقع پر پورے اعتماد کا اظہار کیا، النادی کے کاموں میں شانہ بہ شانہ رہے،ہمارے ہر کام کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے رہے، ہر معاملہ میں اپنا تعاون پیش کیا، بڑی محبتوں اور شفقتوں سے نوازا، ہرترقی پرخوشی کا کیا ، ہر مشکل وقت میںانہوں نے سہارا دیا، ان کی محبت وشفقت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، ان کا انداز وفا کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، ان کے سلوک کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان کے اطوار وکردار سے کبھی انحراف نہیں کیا جاسکتا، آج وہ ہمارے درمیان نہیں؛ مگر ان کے جدا ہونے کا یقین بھی جلدی نہیں آتا، ہروقت ان کے جامعہ میں موجود رہنے کا احساس زندہ ہے، محسوس ہوتا ہے کہ وہ دفتری محاسبی ، دفتر تعلیمات یا مہمان خانہ میں موجودہوں گے، ان کا وجود جامعہ میں اب بھی ہر کوئی محسوس کرتا ہے، یہ محبوب شخصیت ہم سے 24؍صفرالمظفر 1442ھ مطابق 12؍اکٹوبر2020ء کورخصت ہوگئی، اور غیر محسوس طریقہ سے جدا ہوگئی، فیصلۂ خداوندی پر رضامندی کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں، اللہ تعالیٰ بندوں کے حق میں جو بہتر ہوتاہے وہی فیصلے فرماتا ہے،وہ جامعہ کے حق میں ایک مضبوط ستون اور نافراموش کردار کے حامل تھے، اب وہ چل بسے ، اللہ تعالیٰ ان کے سئیات کو معاف فرمائے، حسنات کو قبول فرمائے، درجات بلند فرمائے، ان کی خدمات کو ثواب جاریہ بنائے اور ان کے حق میں اپنی رضا مقدر فرمائے۔
کلیوں کو خونِ جگر دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×