شخصیاتمفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی

یہ کون اٹھا ہے انجمن سے کہ ہُوْ کا عالَم نگر نگر ہے آہ! حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہری ؒ

ہائے وہ شخصیت کہ جن کا مزاج حقانی، لہجہ میں چاشنی،جن تک رسائی بڑی آسانی، تقریر شیرینی اور بروقت جملوں کی حیرت انگیز روانی،بڑی پیاری زبان دانی،مضبوط قوت باطنی،جو کرتے کام زمینی، جن کوحاصل تھی بلند مکانی، جوسناتے تھے اکابر کی یادیں پرانی،جو جلد بھانپ لیتے تھے طبع ِنفسانی،جن کی تھی بے پناہ دینی قربانی، اپنے مشن میںرکھتے تھے رفتاردیوانی، عیاں جن کے کارناموں کی تابانی، مسلکی تصلب میں شخصیت چٹّانی،جن کا مشغلہ تاج ختم نبوت کی دربانی،جن کی باتیں رحمانی، راتیں نورانی، خدمت خلق میں طوفانی،جن کی معروف خدمت قرآنی، جن کے ہاں دینی تقاضوں کی خوب فراوانی، اکابر کی کرتے تھے بے بدل میزبانی، لائق تقلید ثابت قدمی چاہے حالات ہوں ناگہانی، شرافت خاندانی، مداحِ آقائے مدنیؐ،جنہوں نے کی عظمت صحابہ ؓکی خوب پاسبانی،جو کرتے تھے اہل سنت کی بہترین ترجمانی،باطل کے دلائل کو کردیتے تھے پانی پانی ، جن کی مشہورسحرالبیانی،چہرہ کارنگ پکّا مگر نورانی،تابندہ پیشانی، جن کی زندگی ہے ایک لمبی کہانی،ادارہ اشرف العلوم کو حاصل جن کی نگرانی اور مدرسہ سبیل الفلاح کے بانی ،کے متعلق جیسے ہی ملی یہ خبر سنگینی، حواس ہوئے سنسنی، طبیعت ہوئی غمگینی کہ ایک شخصیت وزنی، جوچھوڑ گئی دارفانی، جن کو ہر تنظیم کی حاصل تھی رُکْنی، شاگردوں کے لیے ایک سایہ دار ٹہنی،مشہور جن کی قوت ذہنی، علم و عمل کی ایک روشنی، باتیں صاف صاف اور چھنی چھنی، جن کی ناقابل فراموش خدمات دینی، جن کا عزم آہنی،یعنی حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی صاحب مظاہریؒ بھی 8؍محرم الحرام ؍1443ھ مطابق 18؍اگسٹ ؍2021ء بہ روز چہارشنبہ رات 3بجے اپنی عمر تمام کر گئے۔ اناللہ والیہ راجعون۔
حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہریؒ ایک زبردست عالم دین اور بہترین دینی خدمت گزار تھے، ان کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع اور بلند تر ہے، انھوں نے اپنی شخصیت کو کسی ایک میدان میں مقید نہیں رکھا، تمام دینی شعبوں میں انھوں نے اپنی گراں قدر خدمات کے ذریعہ اہلیان دکن کے سینوں پر اپنے انمٹ نقوش ثبت فرمائے ۔ حضرت مولانامفتی عبدالمغنی مظاہری ایک دیوانہ وار شخصیت اور دور رسا ذہنیت کے حامل تھے، ان کی زندگی کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ کی عکاس تھی، انھوں نے اپنی زندگی میں وہ بے مثال کارنامے انجام دئیے ہیں جن کو فی زمانہ ایک انسان کے بس کا کہنابھی مشکل ہے، مشکل سے مشکل ترین راہوں میں انھوں نے احقاق حق وابطال باطل کا عظیم فریضہ انجام دیا ، ان کی حق بیانی اور قوت زبانی بڑی معروف تھی، وہ اپنے سینہ میں ایک دل دردمند اور ذہن میں فکر ارجمند رکھتے تھے، ان کے شب وروز ملت کے لیے وقف تھے، انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی حق کے خلاف سمجھوتہ نہیں کیا، چھوٹوں کی سرپرستی میں اپنی مثال آپ تھے، وہ اپنے اندر پنہاں لاکھ صلاحیتوں کے باوصف دوسروں کی حوصلہ افزائی اور کاموں کی قدردانی میں کسر روا نہیں رکھتے تھے، ان کی زندگی ایک روشن شمع کے مانند تھی جس سے اپناہویا پرایا ہر کوئی فیض یاب ہواچاہتا تھا۔ وہ ایسے شجر سایہ دار تھے کہ جس کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں میں ہزاروں نے فرحت وراحت اور شان وعظمت حاصل کی، ان سے وابستہ افراد ان کے ہوتے ہوئے کبھی فکر مند دکھائی نہیں دیتے تھے، ان کے ہر مسئلہ کا حل اور ہر معمہ کا جواب حضرت مفتی صاحب کے یہاں موجود تھا، وہ اپنے متعلقین و منتسبین ،مسترشدین ، متوسلین و متعلمین کے لیے ہر وقت دستیاب رہتے تھے، ان کے یہاں بے جا تکلفات کا گزر نہیں تھا، وہ اپنی خدمات بڑی آن و شان کے ساتھ انجام دیتے ؛ اگر کوئی اس کی قدرکرتا توفطرت انسانی کے عین مطابق خود بھی بڑیمسرت کا اظہار فرماتے اور فوراً بارگاہ ایزدی میں کلمات تشکر بجا لاتے کہ یہ ہمارے بس کا نہیں تھا ،اللہ کے فضل کی دین ہے۔
وہ ایک مرد دانا اور غیور زمانہ تھے، ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ، دمکتا آفتاب اورچمکتا ماہتاب تھی، ان کے کاموں کی خوشبو مثل گلاب تھی، انہوں نے علم کے کئی باب روشن کئے، عمل کی قندیلیں جلائیں، رفاہی خدمات کی ندیاں بہائیں، تصوف کے اسرار ورموز اپنے منتسبین پر منکشف کرتے ہوئے معرفت یزدانی کے جام بھر بھر کر پلائے، ان کی نظر میں کسی بھی کام کے میدان کی زمین بنجر نہیں تھی، وہ کاموں کو وسعت دینے کا بہترین ہنر اپنے اندر رکھتے تھے، ان کی سوچ وفکر میں بلا کی روانی تھی، ان کے احساسات میں مدبرانہ طغیانی تھی، وہ ریاست کے صف اول کے بزرگوں اور علماء میں شمار کئے جانے کے باوجود کبھی اپنی اَنا کا چولا زیب تن نہیں کیا، ہر چھوٹے بڑے اجلاس میں بڑی عظمت کے ساتھ شرکت فرماتے ، داعیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے، کام کرنے پر توجہ مبذول کرواتے، اپنوں کو سینہ سے لگاتے ، پرایوں کو اپنابنانے کا قدرتی فن استعمال کرتے، راہ حق میں کڑوی کسیلی سننے میں کبھی کسرِشان تصور نہ کرتے، اسلاف کی خوب ترجمانی فرماتے، حق تو یہی ہے کہ وہ خود اپنے اکابر کا عکس جمیل تھے ،وہ اپنی شخصیت کو خوب منجواتے تھے اور ہر میدان میں کام کرنیکے لیے ہمہ تن تیار رہتے ، کام چھوٹاہو یا بڑا خود بھی باعظمت ہوکر کرتے اور کارکنان کو ایسے پیرایہ میں تیار کرتے کہ مجمع میں موجود ہر کوئی اپنے اوپر فکر اوڑھ لیتا اور ہر حاضرشخص کام کی نزاکت وحساسیت کو غائب تک پہونچا بھی دیتا۔ وہ علم کے دھنی تھے، مخلوق سے بے نیاز اور اپنے خالق سے سراپا نیاز تھے، وہ حق کی آواز تھے، ایک مردِ جانباز تھے۔وہ متحرک لنفسہ اور محرک لغیرہ تھے۔کاموں میں ان کی فعالیت بڑی مشہور تھی، وہ بڑے ہوکر چھوٹے بنے رہتے تھے، جس کو مان لیتے اس کی کبھی ناقدری نہ کرتے ، وہ دل کے پاک تھے، سینہ میں بڑی کشادگی اور وسعت رکھتے تھے ، شاگردوں اور چھوٹوں کی غلطیوں کونظرانداز کرنے میں بڑے طاق تھے، ان کے اندر نباہ کی خدا داد اور بے بدل صلاحیت موجود تھی، ہر کسی کو اپنے کام میں لگانے اور بے جا الجھنوں میں الجھنے سے بچانے کا مدبرانہ فن جانتے تھے،کہیں بھی نہ چلنے والے ان کی انگلی پکڑ کر چل پڑتے تھے۔ ان میں قوت برداشت خوب تھی اور بلا کی تھی، بسا اوقات اپنی چھوڑ کر چھوٹوں کی ہی مان لیتے اور کام کرنے کی ترغیب دلاتے ، ملت کے تمام مسائل سے خصوصی دلچسپی رکھتے، سادگی اور قناعت کے دامن کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیتے، راحتوں کی کوئی فکر دامن گیر نہ کرتے ، جس میدان میں بھی قدم رکھا کام خوب کیا او رکام کو جمانے کا تو عجیب قدرتی فن اللہ نے ان کے اندر ودیعت فرما رکھا تھا،ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے زمانہ طالب علمی سے لے کر وقت آخریں تک متعلقین سے راہ و رسم میں کوئی دراڑ آنے نہیں دیا، رنجشوں کو پالنے کا کبھی برا شوق نہیں کیا ؛ بلکہ خلق حسن کو اپناتے ہوئے رنجشوں کو جلد مٹانے اور تعلقات میں بہتری لانے کی ہر دم فکر کرتے ،ان میں تقویٰ وریاضت کی مایہ خوب تھی، للہیت کے نمونہ تھے، کلفت ِدشت و صحراء جھیلنے کا سلیقہ بھی ان کے دروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔وہ عابد وزاہد، صابر وشاکر اور حددرجہ قانع تھے، ان کی زندگی میں نئی نسلوں کے لیے خدمت دین کے اور پرانوں کے لیے عزیمت واستقامت کے کئی اسباق پنہاں تھے، وہ اکابر سے تعلق رکھنے میں یکتا تھے، کام ان کی فطرت تھی، قناعت ان کی زندگی کا لازمہ تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ ان کی رخصتی نے ہر قدرداں کو آبدیدہ اور ہر اہل تعلق کو نمدیدہ کردیا۔
پیدائش ، تعلیم و تربیت
حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہریؒ کی ولادت غالباً1955ء میں ہردوئی میں ہوئی، والد گرامی کا وطن تلنگانہ ریاست کے ضلع نلگنڈہ میں واقع نارکٹ پلی کے اطراف میں موضع نارائن پور خورد ہے اور ننھیال عنبرپیٹ حیدرآباد ہے۔ حفظ کی تعلیم مدرسہ فیض العلوم سے حاصل کی ، حفظ کے اساتذہ میں خود آپ کے والد ماجد اسی طرح مولانا عبدالرؤف صاحبؒقابل ذکر ہیں ، شعبۂ عالمیت کا آغاز محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئیؒ کے حکم پر ہردوئی میں کیا اور ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندویؒ کے مدرسہ جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ میں داخل ہوئے اور درجات وسطیٰ تک فیضان علم ومعرفت سے مستفیض ہوئے بعدازاں جامعہ مظاہر علوم سہارن پورمیں علیا وفضیلت کی 1979ء میں تکمیل کی ، دورہ ٔ حدیث سے فراغت کے بعد وہیں پر 1980ء میں تکمیل افتاء کیا۔
تدریسی خدمات کا آغاز
جامعہ مظاہر علوم سہارن پور سے فراغت کے بعد1980ء میں آپ کا تقرر مدرسہ فیض العلوم سعیدآباد میںہوا، کچھ مہینوں بعد آپ کا تبادلہ برہم پور اڈیسہ میں کردیا گیاجہاں آپ نے مدرسہ کاشف العلوم کا قیام عمل میں لایا ، اس سلسلہ میں کافی جد وجہد کی حضرت محی السنہ بھی تقریباً تین روز آپ کے ساتھ وہاں قیام پذیر رہے ، ادارہ کے استحکام کے بعد آپ حیدرآباد چلے آئے ، اسی اثناء میں کاماریڈی میں کچھ حالات ناموافق پیش آئے تو غالباً 1983ء میں آپ کاماریڈی تشریف لے گئے اور جامع مسجد کاماریڈی میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم دین کا سلسلہ بھی جاری رکھا، کاماریڈی کے شاگردوں میں جناب محمد علی شبیر (سینئر سیاسی قائد) قابل ذکر ہیں، ڈیڑھ سال وہاں پر خدمات کی انجام دہی کے بعد آپ پھر مدرسہ فیض العلوم تشریف لے آئے اور ایک عرصہ دراز تک فیض العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، پھر 1992ء میں آپ کا دوبارہ تبادلہ بھونیشور اڈیسہ میں مدرسہ جامع العلوم کے کچھ ناموافق حالات کی بناپر کیا گیا جہاں آپ نے تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزارکر پھر فیض العلوم تشریف لے آئے اور اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا، اسی دوران آپ دو مرتبہ فیض العلوم کے نائب ناظم بنائے گئے ، آپ نے اپنے دونوں عہدنظامت میں فیض العلوم کی تعلیمی و تعمیری ترقی و استحکام کے لیے خوب کام کیا،اور دونوں مرتبہ شعبہ عالمیت کا قیام عمل میں لایا جوکہ آپ کے عہد انتظام تک کافی قبولیت کے ساتھ چلتا رہا۔
مدرسہ سبیل الفلاح کا قیام
1993ء میں حضرت مفتی صاحب نے مدرسہ سبیل الفلاح قائم کیا جو کہ ابتداء میں الفلاح لتحفیظ القرآن الکریم کے نام سے موسوم تھا، بعد میں مستقل مدرسہ سبیل الفلاح کے نام سے متعارف ومقبول ہوا،اس ادارہ کو بھی حضرت مفتی صاحب نے دعوۃ الحق ہردوئی سے ملحق فرمادیا تھا، 1997ء میں آپ اس ادارہ کے نائب ناظم منتخب کئے گئے، پھر اس ادارہ کا الحاق ہردوئی سے ختم ہوا تو چوں کہ آپ ہی اس کے بانی تھے بنابریں آپ ہی ناظم مقرر ہوئے اور تادم زیست اس کے روح رواں رہے، اس ادارہ نے آپ کی ہمہ تن کاوشوں کے بدولت کافی ترقی کی او رسیکڑوں حفاظ اس ادارہ سے نکل کر صرف تلنگانہ ہی نہیں ؛ بلکہ بیرون ریاست نیز بیرون ممالک میں بھی دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
مجلس دعوۃ الحق ہردوئی سے تعلق
مجلس دعوۃ الحق ہردوئی سے حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہریؒ کا گہرا تعلق رہا؛ بلکہ اسی پلیٹ فارم سے آپ کی شخصیت متعارف ہوئی، عرصۂ درازتک مجلس دعوۃ الحق سے وابستہ رہے، اس کے ایک معمولی فرد سے لے کر ریاستی نظامت تک کا آپ نے سفر کیا ، اس دوران لاکھ خم وپیچ کے باوجود اپنی شخصیت کو کبھی داغدارہونے نہیں دیا اور نہ ہی مجلس پر کوئی حرف شکایت آنے دیا؛ بلکہ مجلس دعوۃ الحق کو ریاست میں متعارف کرانے میں آپ نے کلیدی رول ادا کیا ہے ،ریاست میں اس کی کئی شاخوں کا قیام عمل میں لایا، مجلس کو پروان چڑھانے میں آپ نے کافی مشکلات کا سامنا بھی کیا اور ا س کی ترقی میں ہر ممکنہ جد وجہد بھی فرمائی۔
بزرگوں سے اجازت وخلافت
حضرت مفتی صاحب کو اپنے تمام بزرگوں سے تعلق رہا، اہل نسبت بزرگوں کی خوب قدر کرتے تھے، آپ نے اپنا پہلا اصلاحی تعلق محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئیؒ سے قائم کیا، حضرت نے آپ پر دینی واصلاحی اعتمادکرتے ہوئے آپ کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا، حضرت مولانا حکیم اختر صاحب ؒ نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا ، اسی طرح پرنامبٹ جنوبی ہند کی عظیم شخصیت حضرت مولانا سعید احمد صاحب دام ظلہ نے بھی آپ کو اجازت وخلافت عطافرمائی تھی۔
سفرحرمین شریفین
یوں تو حضرت مفتی صاحب نے اپنی زندگی میں حج وعمرہ کے کئی اسفار فرمائے ، حضرت مفتی صاحب کا پہلا سفر حج 1993ء میں ہوا او رآخری سفر2018ء میں ہوا،آپ نے متعدد حج وعمرے کئے اور حرمین سے کافی گہرا لگاؤ رکھتے تھے اور وہاں کی حاضری کے لیے ہر دم مشتاق رہتے تھے اور ساتھ رہنے والے جانتے ہیں کہ کس درجہ عقیدت واحترام سرزمین حرمین شریفین کا آپ کے جلو میں پایا جاتا تھااور وہاں عشق وکیف کی جو کیفیت آپ پر طاری ہوتی، وہ تو بس دیدنی تھی۔
تاجِ ختم نبوت کی پاسبانی
حضرت مولانا عبدالمغنی مظاہری تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں بڑے حساس اور متحرک تھے، انھوں نے ختم نبوت کی تحریک کو اپنے لیے اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا، وہ مجلس تحفظ ختم نبوت تلنگانہ وآندھرا کے اہم ترین ذمہ داراور مقبول نائب صدر تھے، انھوں نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے استحکام میں کافی اہم کردار ادا کیا تھا، ارکان میں ان کی رائے قابل قدر بھی ہوتی اور قابل عمل بھی۔ مجلس تحفظ نبوت کے ہرکاز میں انھوں نے خود کو پیش پیش رکھا،تاج ختم نبوت کی دربانی کے لیے اضلاع، بیرون ریاست اور ریاست کے چھوٹے چھوٹے قریوں تک کے دورے کئے ، جب قادیانیوں نے کاماریڈی کے ایک دیہات میں اپنی محنتوں کا زور دکھایا اور کئی مسلمانوں کو اپنے چنگل میں پھانس لے گئے تو حضرت مفتی صاحب نے اس علاقہ کا دورہ کیا،قادیانیوں نے مناظرہ کا چیلنج کیا تو اس کو قبول کیا اور بروقتمقامِمناظرہ پر حاضر ہوئے ؛ مگر جب قادیانیوں کو ان حقانی علماء کی آمد کی اطلاع ہوئی تو راہ فرار اختیار کرگئے۔ شہر حیدرآباد میں 2008ء میں جب قادیانیوں نے صدسالہ اجلاس کرنا چاہا توحضرت مفتی صاحب نے بڑی فکر مندی ظاہرکی، بڑے بڑے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیںجس کی بہ دولت دارالسلام کے وسیع میدان میں امیر ملت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامیؒ کی زیر صدارت کل جماعتی اجلاس عام منعقد ہوا،نصرت الہی شامل حال رہی اور قدرت کی کرشمہ سازی ہوئی بالآخر وہ اپنا اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور ہوئے۔مولانا عبدالمغنی صاحب کو ختم نبوت کے سلسلہ میں جب بھی جہاں بھی اور جس وقت بھی بلایا گیا انھوں نے کبھی بھی پس وپیش نہیں کیا؛ بلکہ بڑی تندی کے ساتھ تیار ہوگئے اور تاج ختم نبوت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دینے میں کوئی کسر روا نہ رکھا، حضرت کے برادر صغیر ترجمان اہل سنت حضرت مولانا عبدالقوی صاحب دام ظلہ کے بقول: تدفین سے قبل چند نوجوان ان سے ملاقات کرکے بتانے لگے کہ ہم فلاں(آندھراکے کسی ) گاؤں کے لوگ قادیانیوں سے متأثر ہوگئے تھے تو ہمارے گاؤں حضرت مفتی صاحب تشریف لے آئے اور ہم کو دوبارہ کلمہ پڑھا کر اسلام میں داخل کیا اور آج ہم حضرت مفتی صاحب کے جنازے میں آئے ہوئے ہیں۔
مجلس علمیہ سے وابستگی
حضرت مولانامفتی عبدالمغنی مظاہریؒ کوعلماء تلنگانہ وآندھرا کی مؤقر دینی وقدیم تنظیم مجلس علمیہ سے بھی گہرا لگاؤ تھا، وہ مجلس علمیہ کے بڑے متحرک اور مخلص رکن عاملہ تھے۔ انھوں نے مجلس علمیہ کے لیے بھی بڑی جد وجہد کی۔ حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب قاسمیؔ ؒ (سوریا پیٹ)کے دور نظامت میں انھوں نے خوب کام کیا اور جب تک مولانا عبدلعزیز صاحب ؒ حیات رہے ،ان کی نگرانی میں مکمل فعالیت کے ساتھ کاموں کو انجام دیتے رہے۔ مجلس علمیہ کے ہر چھوٹے بڑے کاموں میں خود کو شریک کرتے اور کئی کام بذات خود کرتے۔ مجلس علمیہ کے جلسوں کے کامیاب انعقاد کے لیے بڑی فکرو کوشش فرماتے اورآنے والے اکابر کی نیاز مندانہ ضیافت فرماتے اور کسی بھی کام میں عار یا چھوٹا پن محسوس نہیں کرتے ۔
جمعیۃ علماء سے وابستگی
حضرت مولانا مفتی محمد عبدالمغنی مظاہریؒ جمعیۃ علماء کے مقبول ترین ارکان میں شمار کئے جاتے تھے۔ انھوں نے جمعیۃ کے لیے جو انتھک کوششیں کی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں اور نہ ہی ان کا بآسانی احاطہ ممکن ہے، جمعیۃ کے کاز کو وسعت دینے اور نت نئے انداز سے کاموں کی تشکیل میں ان کا کردار ناقابل انکار ہے،خدائے غنی نے ان کو بے پناہ صلاحتیوں کا انبار بخش رکھا تھا۔ وہ کاموں کو پھیلانے اور کام لینے کے عظیم فن میںفردفرید تھے۔ کوئی کام ان کے لیے ناممکن نہیں تھا؛ بلکہ مشکل سے مشکل ترین کاموں کو بڑی آسانی کے ساتھ کربھی لیتے اور کروابھی لیتے تھے، ان کی باکمال ذہانتکے سب قائل تھے، مثبت انداز سے کام کرنے کا خوب سلیقہ رکھتے تھے۔ جمعیۃ کے تمام ارکان کی ہر ممکنہ وابستگیکے لیے مستقل مشاورت کرتے رہتے ۔ کسی سے لاکھ اختلاف کیوں نہ ہوں اس کو بالائے طاق رکھ کر کا م کی جانب اپنی اور سب کی توجہ مبذول کرتے،انھوں نے اپنے کارہائے دل بستہ سے سب کو اپنا بنالیا تھا۔ ان کے اندر چھوٹوں کو بڑا بنانے کا بے بدل فن تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی بے ناموں کو بڑا نام اور اونچا مقام عطا کیا۔ ان کی شخصیت میں وہ مقناطیسیت تھی کہ ہر کوئی ان کی جانب کھنچا چلا آتا تھا۔ وہ کاموں کو سراہتے اور ہنر مندوں کی قدر کرتے اور بے کار لوگوں کو بھی غیر محسوس طریقہ پر کام کے لائق بنادیتے تھے۔2007ء میں جمعیۃ علماء گریٹر حیدرآباد کے صدر منتخب کئے جانے کے بعد تو آپ کی فکری وعملی جولان گاہ جمعیۃ ہی رہی، آپ جمعیۃ کی دیوانہ وار خدمت کرتے اور جمعیۃ کے ہر پلیٹ فارم پر اپنی نمائندگی کرتے، نوجوان فضلاء کو آپ نے جمعیۃ سے جوڑ کر بڑا کارنامہ انجام دیا ، حلقوں کی منظم تشکیل، ہر حلقہ کی وقفہ وقفہ سے کارگزاری، کاموں کی قدردانی، ہفتہ واری مشورے اور اس جیسے کئی کام آپ ہی کی دین ہیں ۔
جلسہائے عظمت صحابہؓ واہل بیت اطہارؓ
اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ شہر حیدرآباد میں امیر ملت اسلامیہ حضرت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامیؒ کے بعد عظمت صحابہؓ کے متعلق اگر کسی نے بڑا کام کیا تو وہ صرف اور صرف حضرت مولانا عبدالمغنی مظاہریؒ کی شخصیت تھی۔ انھوں نے عظمت صحابہؓ کے جلسوں کو نئی جہت وشکل دے کر شیعیت کا غیر محسوس تعاقب کیا۔ لوگوں کو عقائد اہل سنت سے روشناس کرایا۔ عظمت صحابہؓ کے جلسوں میں شیعوں کے وہ عقائد جنھیں ناواقف لوگ اہل سنت کا شعار و مسلک متصور کرتے ہیں حضرت مفتی صاحب نے ان کو خوب اجاگر کیا ، شہر کے ہر محلہ میں ان جلسوں کا جال بچھادیا گیا۔ صرف ایک ہی حلقہ میں تیس سے زائد جلسہائے عظمت صحابہؓ منعقد ہوئے اور یہ سب حضرت مفتی صاحب کی فکروں کا نتیجہ تھا۔عظمت صحابہؓ حضرت مفتی صاحب کی پہچان بن چکی تھی، انھوں نے اس سلسلہ میں انتھک کوششیں کی ، شہر میں عظمت صحابہؓ کے کئی مرکزی اجلاس منعقد کروائے، سٹی جمعیۃ کے پلیٹ فارم تلے غالباً 2008ء میں مغل پورہ پلے گراؤنڈ پر پہلا اجلاس حضرت امیر ملت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامیؒ کی صدارت میں منعقد ہوا، اس کے بعد یہ سلسلہ بلا توقف جاری رہا۔ اسی نام سے کل ہند نعتیہ ومدح صحابہؓمشاعرے بھی ہوئے ، جس کی حضرت مفتی صاحب صدارت فرمایا کرتے تھے، ہر سال بہ پابندی یہ مشاعرے ہوتے رہے، کورونا وبا کے پیش نظر اس سلسلہ کو موقوف کریا گیا۔ غرض عظمت صحابہؓ واہل بیت اطہار ؓ کے سلسلہ میں حضرت مفتی صاحب نے اپنی فکرمندی کے ذریعہ ہزاروں مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح فرمائی اور صحابہ کرامؓ سے لگاؤ وتعلق پیدا کیا۔
شہرحیدرآباد میںفضائل حضرت امیر معاویہؓ پر ایک اجلاس رکھا گیا؛ مگر حاسدین ودشمنان حضرت معاویہؓ نے اس جلسہ کے انعقاد میں کافی رکاوٹیں پیدا کردیں جس کی وجہ سے وہ اجلاس نہ ہوسکا۔ حضرت مفتی صاحب کواس کا بڑا قلق رہتا تھا اور اس کا تذکرہ بھی کیا کرتے تھے، رجب ؍1442ھ مطابق 2020ء میں جب مسجد نزھت ٹپہ چبوترہ میں تحریک غلامان صحابہؓ کے بینرتلے جلسہ فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہؓ منعقد کیا گیاتو اس اجلاس میں اپنی صحت کی ناسازی اور دوسرے تقاضوں کے باوجود تشریف لے آئے اور خوب حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: یہ ہم شہریان حیدرآباد پر ایک قرض تھا جو آج الحمدللہ اترگیا اور ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔
خدمت خلق
حضرت مفتی صاحب نے خدمت کے کسی بھی میدان سے خود کو دور نہیں رکھا؛ بلکہ خلق خدا کی ہرمحاذ پر خدمت کرتے رہے، خدمت خلق کے میدان میں بھی آپ کی نمایاں خدمات رہیں، آپ نے 2009ء میں کرنول سیلاب کے موقع پراسی طرح حالیہ 2020ء کے حیدرآباد سیلاب کے موقع پر اور کئی مواقع پر آپ کی خدمات نہایت تابندہ رہیں، آپ نے عثمان نگر اورہر نشیبی علاقہ کا دورہ کر کے خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا ۔ وفات سے قبل2021ء میں کوکن سیلاب متأثرین کے لیے آپ کی ایماء و منشاء کے مطابق کارکنان جمعیۃ نے آپ کی سرپرستی میں بڑی فکرمندی کے ساتھ کام کیا۔آپ شہرحیدرآباد کے نہایت متحرک اورفعال ادارہ آل انڈیا بیت الامداد چیرٹیبل ٹرسٹ کے سرپرست بھی تھے۔
اسی طرح لوگوں کے مسائل کرنے میں آپ کافی مقبول تھے، لوگ اپنے مسائل آپ کے پاس لاتے اور آپ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو حل فرماتے تھے، آپ کی کونسلنگ بڑی معروف تھی، ہرلائن کی کونسلنگ کرتے تھے اور بین زوجین معاملات کی توآپ کے یہاں بھرمار ہوتی اور آپ کئی کئی نشستوں میں ان مسائل کوحل فرماتے ، اپنے مصروف ہونے کا کبھی حیلہ نہ کرتے اور نہ ہی کسی کے ساتھ کوئی ناگواری کا معاملہ کرتے ۔
سرفرازی یوں ہی نہیں ملتی ہے
اللہ تعالیٰ دنیا میں ہر کسی کو سرفرازی عطا نہیں فرماتا ہے اور سرفرازی بغیر قربانی و خوف خدا کے ملتی بھی نہیں ہے ۔ ایک عجیب واقعہ حضرت مفتی صاحب کی زندگی کا یہ بھی ہے کہ فیض العلوم کی نائب نظامت کے دوران جب صفائی کا جائزہ لینے نکلے تو دیکھا نالی میں چاول کے کچھ دانے پڑے ہیں ، چشم دید فرد کے بقول حضرت مفتی صاحب نے ان دانوں کو اٹھایا اور اسے دھو کر تناول فرمالیا اور اللہ کا شکر بھی ادا کیا اور چاول کے دانے نالی میں آنے پر افسوس کا اظہار بھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیںہے؛ بلکہ نہایت تواضع، خداترسی اور خدا کے حضور جواب دہی کے احساس کے بغیر ناممکن ہے۔
الغرض آپ کی زندگی دینی و ملی خدمات سے لبریز رہی ، کئی دینی اداروں اور ملی تنظیموں کے آپ سرپرست تھے۔ کئی تحریکوں میں آپ کے وجود سے دم خم تھا، آپ جہاں بھی گئے اور جہاں بھی رہے دینی و ملی خدمات کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے رکھا، اکابر و صلحاء کے طرز کے عین مطابق اپنی زندگی گزارتے رہے، علم کی شمعوں کو روشن کرتے رہے، جام معرفت پلاتے رہے، لوگوں کو اللہ اللہ کراتے رہے، لوگوں کو کام پر لگاتے رہے، چھوٹوں کی سرپرستی وحوصلہ افزائی کرتے رہے، بزرگوں سے گہرا تعلق رکھتے رہے۔ مسلک حق کی خوب ترجمانی کرتے رہے۔ فرق ضالہ کا تعاقب کرتے رہے۔ پوری زندگی خدمت قرآن سے وابستہ رہے ۔ اہل اللہ کے منہج ومزاج کی عکاسی کرتے رہے۔ اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ لوگوں نے آپ کی ویسی قدر نہیں کی کہ جو آپ کی شایان شان تھی، آپ کی رحلت کے بعد آپ کی شخصیت سب پر کھل کر سامنے آئی اور آپ کے شخصیت کی ضرورت و اہمیت اجاگر ہونے لگی۔آپ کے جنازہ نے عنداللہ وعندالناس آپ کی مقبولیت کا کھلا ثبوت پیش کیا۔ بہرحال تین ماہ کی طویل علالت کے بعد خدائے قیو م نے اپنی جائے پناہ میں آپ کو بلوالیا اورآپ اپنیتھکاوٹوں کو دور کرنے اور حقیقی آرام کرنے کے لیے 8؍محرم الحرام ؍1443ھ مطابق 18؍اگسٹ ؍2021ء بہ روز چہارشنبہ رات 3بجے اپنے محبوب حقیقی سے شرف لقاء حاصل کر گئے ۔
آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×