شخصیات

” مولانابدر الدین اجمل” ایک مشن ایک مثال

مرکز المعارف دہلی کے ٢٥ سالہ خدمات کے ضمن میں منعقدہ اجلاسوں کی رپورٹنگ سوشیل میڈیا پر پڑھنے کو ملی تو دو باتوں نے دلچسپی پیدا کی ۔
پہلی محترم مولانا بدر الدین اجمل صاحب قاسمی کا بیان کہ مرکز المعارف کا مقصد قیام کیا ہے اور وہ کیا عزائم لے کر اس کو قائم کیا تھا۔ ” اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکز المعارف کے بانی و رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی نے کہا کہ مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر نہ کوئی عصری درسگاہ ہے، نہ ہی کسی اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے اس کا کسی طرح سے کوئی الحاق ہے اور نہ ہی اس کے قیام کا مقصد سرکاری و نیم سرکاری یا پرائیوٹ کمپنیوں میں انگریزی زبان کے راستے سے ملازمت کے مواقع فراہم کرنا ہے؛ بلکہ یہ ایک خالص مدارس سے وابستہ تحریک و مومنٹ ہے جس کا مقصد ایسے باصلاحیت، سنجیدہ، معتدل اور باکردار افراد تیار کرنا ہے جو انگریزی زبان میں اسلام کی صحیح ترجمانی کرسکیں- برادران وطن اور اسلام سے ناواقف غیر مسلم بھائیوں میں اسلام کا جامع تعارف کراسکیں اور ان کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا تسلی بخش جواب دے سکیں- ”
دوسری بات یہ ہے۔ ” این آر سی مسئلے میں جو ہم بھگت رہے ہیں اس سے بہت احساس ہوتا ہے کہ ہمارے علمائے کرام کے اندر وکلاء کی بہت ضرورت ہے، ایسے لوگ جن کے دلوں میں قوم کا درد ہو اور وہ قوم کی خدمت کے لیے تیار ہوں تو آئیں آگے بڑھیں ہم اس کام کے لیے سرمایہ صرف کرنے کو تیار ہیں ادارہ آپ کا مکمل تعاون کرے گا اور مجھے امید ہے ان شاء اللہ ہمارا یہ خواب بھی پورا ہوگا- ”
ان خیالات کو پڑھنے کے بعد ان کے مشن وشخصیت میں دلچسپی پیدا ہوئی اس لئے کہ یہ میرے خوابوں اور تمناؤں کا عملی مظاہرہ تھا ۔ اڑتی اڑتی معلومات تو تھیں لیکن ذاتی و شخصی احوال سے زیادہ با خبر نہیں تھا اس سلسلہ میں انٹرنیٹ کا سہارا لیا تو پورے ٣ دن سے اجمل فاؤنڈیشن ہی کی کارکردگی و کارگذاری کو مختلف طریقوں سے دیکھنے میں گذرے۔واقعی مولانا محترم اور ان کا پورا خاندان ملت کی جانب سے شکریہ وتحسین کا مستحق ہے اور نا چیز تو دل کی پے پناہ گہرایئوں سے آن کی مختلف النوع خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ قاریین! اجمل فاؤنڈیشن کی مثالی خدمات کے سلسلے میں انٹرنیٹ پر سرچ کرسکتے ہیں۔
ان گونا گوں خدمات کے دیکھنے کے بعداس موقعہ پر کچھ چیزیں ذہن میں آتی ہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان دولت مندوں میں بےشمار خاندان ہیں لیکن بہت کم ایسے خاندان ہیں جنہوں نے اپنی دولت وشہرت سے قوم وملت کا بھلا کیا ہے ۔ اور دولت و ثروت . تجارت و صنعت کے باوجود دین کو فراموش نہیں کیا۔ بلکہ دینی خدمات کے لئے وقف ہوئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حاجی اجمل علی نے بڑی محنت کےبعد ایک تجارت شروع کی اور اس میں وہ کام یاب ہونے انہوں نے ایک کامیاب تجارت ہی اپنے پیچھے نہیں چھوڑی بلکہ ٥ دیندار بیٹے اور ٢ بیٹیاں چھوڑیں جنہوں نے اپنے والد کے ارادوں کو عملی جامہ پہنایا۔
تیسری بات یہ ہے کہ حاجی اجمل علی اور ان کے سپوتوں نے تجارتی بلندی پر پہنچنے کے باوجود اپنے علاقے اور اپنے آسامی ضرورت مندوں کو فراموش نہیں کیا بلکہ ان کے فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کیے۔آج بڑے بڑے سرمایہ کار بھی خیراتی ادارے چلاتے ہیں لیکن ان کا مقصد ٹیکس ڈیڈکشن ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اجمل فاؤنڈیشن کی مثالی خدمات محدود نہیں ہیں اسکول و کالج۔ ہاسپٹل و نرسنگ ہوم۔مرکز الیتا می وہ ہر میدان میں فعال و متحرک ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ فلاحی و رفاہی , تعلیمی وسیاسی خدمات عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں اور آج ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ دینی خدمات اسی طرح عصری ہوں ۔
چھٹویں بات یہ ہے کہ اجمل فاؤنڈیشن کے کے کام کو دیکھنے کہ وہ کام کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کی ایک بہترین مثال ہے کہ مظلوم و ضرورت مند ہمارا سلوگن ہونا چاہیے۔
آیے اب ان دو نکتوں پر گفتگو کرتے ہیں کہ ڈگریوں کے حصول کے اس دور میں قابلیت وصلاحیت کا مطمح نظر اسلام اور مسلمان ہوں بلکہ دعوت ہو۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قانون دان افراد کی ایک مخلص ٹیم تیار ہو۔ وکالت کرنے والے مسلمان آج بھی ہیں لیکن ایسے افراد تیار کیے جاءیں جو قوم وملت کے مسایل کے لئے وقف ہوں۔
خدا تجھے اتنی بلندی عطا کرے
دنیا تیری رفعتوں پہ ناز کرے

Related Articles

One Comment

  1. الحمد للہ مولانا بدر الدین اجمل صاحب کے اس ادارہ (مرکز المعارف)کی خدمات بڑی ہی قابل قدر و تحسین ہے. اللہ دن دوگنی ترقی عطا فرمائں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×