شخصیات

میرے روحانی والد حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلیؒ قسط اول‘ دوم

مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے احسانوں تلے زندگی گراں بار ہے ۔ فکری آبیاری کے چشمۂ رواں کا سوتا یہیں سے پھلنا پھولنا شروع کیا۔ ندوہ العلماء کے دارالعلوم میں علماء واساتذہ کی بو قلمونی ایک کششِ و تاثیر کی دنیا رکھتی ہے۔ وہ تمام اساتذہ جنہوں نے ایک لفظ بھی سکھایا ہے وہ میرے محسن ہیں۔ ان تمام کا  دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا اپنا شاگردانہ فریضہ سمجھتا ہوں۔سردست یہاں حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی صاحب مرحوم سے وابستہ یادیں ذکر کررہا ہوں۔ اور استاذ چونکہ علم وعمل، فکر وکردار کا معمار ہوتا ہے تو یہاں ان سے اپنی نسبت جوڑنے اور ان سے پانے کی چیزوں اور انہیں کھونے کے احساس وشدت کو ظاہر کرنے کے لئے روحانی والد کا عنوان دیا ہے۔وہ ہزاروں ہزار طالب علموں کے استاد ومربی، بے شمار تشنگان علم کے مشیر و مخیر، لاتعداد فیض کشوں کے مشکور و ممنون ہیں ان ہی بے شمار فیض یافتہ شاگردوں میں سے ایک ادنی شاگرد خود کو تصور کرتا ہوں۔ اور اپنے یہ تاثرات اپنے محبوب ومحسن استاد کے سلسلے میں نقش دل پاتا ہوں۔
 دو دہے قبل یعنی ١٩٩٧ میں ندوہ کا رخ کرنا خود ایک انوکھا اقدام سمجھا گیا کہ میرے وطن محبوب نگر ضلع سے ندوہ پہنچنے والا راقم دوسرا طالب علم تھا۔ احقر سے پیش تر پورے ضلع میں صرف مولانا عبیداللہ واحد عالم تھے جنہوں نے مادر علمی سے فراغت حاصل کی تھی۔ اور وہ اب بیرون ملک حجاز میں مقیم تھے۔ اس آباد علمی دنیا سے روشناس کرانے اور وہاں تک پہنچانے میں میرے علمی رہبر حضرت مولانا احمد عبد المجیب قاسمی ندوی دامت برکاتہم کی دور رس فکر وتحریک اصل بنیاد ہے۔ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد کے پنجم عربی کے بعد چار ساتھیوں مولانا محمدصابر احمدحسامی، مولانا مقصود یمانی مظاہری، ہم نام مولانا محمد آصف ندوی گنٹوری پر مشتمل کارواں ندوہ پہنچا۔ اور بحمد اللہ میرا اور مولانا صابر کا داخلہ عالیہ ثالثہ شریعہ میں ہوگیا دوسرے دو ساتھی ندوہ کی ضیاء العلوم شاخ چلے گئے۔ ١٩٩٧ و ١٩٩٨ یہ دو سال اس چمنستان میں یادگار بن کر گذرے۔ آب وہوا، موسم وحالات نے بہت کچھ کمزور کیا لیکن کبھی وطن اور ماں باپ کی طرف پلٹنا نہ سوچا۔ اتنی شدت کی گرمی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھی، نکیسر بہنی شروع ہوگئی، ناتوانی و کمزوری اس درجہ بڑھ گئی کہ چلتے چلتے چکر آنے لگے۔ سردی وکہر کے کیا کہنے کہ رنگ نکھرنے لگا۔ یہ تو تھی جسمانی حالت اور آج تک میری تیسری ہمشیرہ کی شکایت ہے کہ میں  ان کی شادی میں شریک نہیں رہا اور ندوہ کے عالیہ رابعہ شریعہ کے سال کو اہمیت دی۔
عالیہ رابعہ شریعہ کے سال کی علمی گہما گہمی تو دیکھنے اور محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے۔  بقر عید کی تعطیلات اور گرماءی چھٹیوں میں بھی گھر نہیں آیا۔ الف ہمارا سکشن تھا۔ اسعد اللہ امین الصف تھے۔ مولانا محمد نفسِ خان ندوی، مولانا احمد علی ندوی، مولانا محمد فرمان ندوی، مولانا عنایت اللہ وانی وغیرہ ہم درس ساتھیوں میں تھے تو مسابقت بھی بہت تھی۔ وہیں اپنی ریاست کے مولانارکن الدین ندوی و مولانا ملک عنایت علی ندوی جیسے سینیر رفقاء ہم درجہ تھے۔ اب  نور علی نور کہ الف کو اس سال حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب، حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی صاحب و  حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی صاحب ، حضرت مولانا محمد زکریا سنبھلی صاحب ، حضرت مولانا محمد نیاز احمد ندوی صاحب ،حضرت مولانا خالد غازی پوری ندوی صاحب ، حضرت مولانا ابو سحبان روح القدس صاحب کے گھنٹے ملے تھے،پڑھنے والوں کی تو معراج ہوگیی اور جی چرانے والوں کے لئے تو جیسے قیامت کی گھنٹی بج گئی۔ رابعہ کے دیگر اساتذہ کرام میں حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب، حضرت مولانا اقبال ندوی صاحب، وغیرہ تھے۔ درجہ میں تیسری صف میں شہ نشین کے سامنے والے حصے میں کسی طرح جگہ ملی۔ لیکن حضرت مولانا برہان الدین صاحب کے درس تفسیر وصحیح بخاری میں ساتھیوں سے مان مناکر پہلی صف میں گھس آیا اور کسی طرح جگہ بنا پایا۔ تھوڑے ہی دنوں میں طالب علم کی اس قربت کو شفیق استاد نے بھی محسوس کرلیا اور پھر حاضر باشی و حاضر جوابی نے استاذ محترم کی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا، یاد نہیں پڑتا کہ کوئی ناغہ ہوا ہو، ہر درس کی ڈایری لکھنے کا تو معمول تو تھا ہی یہاں چونکہ ذہنی وابستگی عقیدت ومحبت سے بڑھ کر گرویدگی کی صورت اختیار کرچکی تھی تو درس کو  نا لکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ حضرت مولانا کے درس کی خوبی یہ ہوتی کہ وہ ذہن ودماغ میں رقم ہوتا اور درس بھی کلام اللہ اور اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری کا ہو تو مقناطیسیت وجاذبیت بام عروج پر ہوتی،اور مولانا محترم کے درس کو سننا نہیں بلکہ جذب کرنا شروع کیا، مولانا محترم کے تفسیر کے درس نے قرآن مجید سے عشق وفریفتگی کا کام کیا،الفاظ ومعانی کے بحر بیکراں کا مسافر، مسائل و معارف کا نکتہ شناس، تدبر وتفکر کا عادی، ربط و تعلق کی گہرائی کا معترف بنایا۔قرآن مجید کو ڈوب کر پڑھنے اور پڑھ کر عش عش کرنے کا جی بن گیا، اس وقت عمر کچھ بیس بائیس سال کی رہی ہو گی ایسی طالب علمانہ عمر میں حضرت ہی کے گھنٹے کے وہ دن ابھی تک یاد  ہیں کہ درس میں آنکھیں کلام اللہ کی تاثیر انگیزی و جادو بیانی وسحرآفرینی سے اشک بار بار بار ہوجاتیں۔ مزید اس پر مولانا محترم کا وہ دل موہ لینے والا انداز بیان رقت طاری کردیتا، طلبہ درس کو غور سے سنتے اس لئے کہ مولانا امتحان میں وہی جواب قبول فرماتے جو انہوں نے درس میں بتایا اور سمجھایا ہے لیکن بندے نے امتحان کے لئے نہیں بلکہ کلام اللہ کے فہم و بصیرت کا خزانہ اس سے سمیٹا۔ یہی وجہ ہے کہ امتحان کے موقع پر بہت بڑی تعداد میں ساتھیوں نے میری ڈائری کو زیراکس کروایا کہ اس میں وہ سارے نکات و پواینٹس لکھے تھے۔ درس جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا قرآن مجید سے قربت بھی دل میں موجزن ہونے لگی،اپنی کم علمی خود پر آشکارا ہوتی جاتی تھی اور نور قرآن کی بصیرت شمع بن راہ ہموار کرتی چلی جاتی، مولانا محترم سبق کے درمیان اپنے فوائد ونکات پوچھ لیا کرتے تھے تو یہ شاگرد ہمیشہ اول رہا کرتا تھا، ششماہی امتحان میں تفسیر وصحیح بخاری میں محصولہ نمبرات نے مولانا سے اور بھی قریب کردیا، مولانا محترم ہی کے مشورے سے حکیم الامت حضرت تھانوی کی بیان القرآن اور علامہ صابونی کی صفوت التفاسیر کا مطالعہ معمول بنالیا، حسب ارشاد دیگر تفاسیر سے بھی رجوع کرتا۔ درس کے بعد دور تک پیچھے پیچھے جانے کا دور شروع ہوا، پھر ایک دن مغرب بعد کوئی سوال پوچھا تو گھر پہنچنے تک رفاقت ملی اور یہ اتفاق اب معمولات میں شامل ہوگیا تھا کہ نماز مغرب سے فارغ ہوکر دروازے کے سامنے کھڑا رہتا اور حضرت مسجد سے باہر تشریف لاتے تو ساتھ ساتھ گھر تک درس وتفسیرقرآنِ سے متعلق سوالات وجوابات کا سلسلہ جاری رہتا۔ حضرت فارغ ہوتے تو کچھ دیر بیٹھنے کا بھی موقعہ مل جایا کرتا۔
مغرب کے بعد کا یہ معمول
نہایت مفید ثابت ہوا،قرآن مجید سے متعلق کوئی بھی سوال و اشکال پیدا ہوتا تو وہ مغرب بعد باقی نہ رہتا، سامنےایک اتھاہ سمندر تھا جس سے ایک کوتاہ علم سیراب ہونے کی جستجو لئے چل پڑا تھا، کبھی خود ہی سے کوئی علمی بات فرماتے، احقر کے بڑے بڑے سوالات آپ کے سامنے بچکانہ باتیں معلوم ہوتیں،اور آپ کے مختصر سے جملوں سے تہہ بہ تہہ گھتیاں سلجھ جاتیں،علمی وفکری راستے میں ایسے خضر راہ ہوں تو بھول بھلیاں میں بھٹکنے کا کہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔
یہ حضرت ہی کے درس وتدریس، شاگردگی و اتالیقی کے مرہونِ منت ہے کہ کلام اللہ کو ہمیشہ معری پڑھنے کا مزاج بنا، ترجمہ کی ضرورت بہت کم پیش آتی،اور کوئی خاص ترجمہ وتفسیر کبھی بھی حرف آخر کی صورت نہ لے سکی،یہ الگ بات ہے کہ تحقیق و بحث اور مقارنہ کے موقع پرساری ہی تفاسیر و تراجم دیکھنے کا مزاج ہے، کسی مفسر سے شخصی مرعوبیت کبھی پیدا نہیں ہوءی۔  آپ ہی کے مشورہ سے  اردو وعربی تفاسیر سے مراجعت ہوتی تھی،ان کے انداز و طریقہ تفسیر پر پہلے جامع ہدایات آپ سے مل جا تی تھیں۔ امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر کے بابت فرمایا تھا کہ اس میں تفسیر کے علاوہ سب کچھ ہے، نصرانیت اور اس کے باطل مزعومات کے جوابات کے لئے تفسیر ماجدی سے مراجعت کے لئے فرماتے تھے۔ مولانا محترم سے جو چیز بندہ نے پاءی اورسیکھی وہ تھی کلام اللہ سے براہ راست اخذ و استنباط کرنے کا مزاج بنانا ، اس میں ڈوب جانا اور اس کے گوہر پاروں سے اپنے فکر وعمل کو آراستہ کرنا،  تفسیر قرآن بالقرآن کی ایسی فکر پیدا فرمایی کی خود کلام اللہ اپنا بیان بن جاتا، حدیث کے استناد واستشہاد کو بھی کوٹ کوٹ کر بلکہ گھول گھول کر پلا دیا تھا۔حضرت مولانا لمبی لمبی بحثوں اور قیل وقال کے قاءل نہ تھے،بلکہ پیام قرآن کو پیش نظر رکھنے کے داعی تھے۔ اور تفسیر قرآن کی کلاس میں بارہا ارشاد فرماتے تھے کہ اس موقعہ پر دو صرف نکتے بیان کرونگا  زیادہ نہیں انہیں یاد رکھنا۔ ایسے اہم فوائد و باریکیوں کو واضح کرنے کے بعد موقعہ با موقعہ ان کا استحضار بھی فرماتے۔ ۔مولانا محترم کی یہ گرہ کشا قرآنی افادات اس سلسلہ مضمون کا حصہ بناکر پیش کرنے کی سعادت حاصل کرونگا۔( انشاءاللہ ) قبل ازیں  سن 2012 میں 1970کے دور کے  حضرت مولانا کے درس تفیسر کے انتخاب کو  حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب نے ” درس قرآن ” کے نام سےجمع فرماکر شایع کیا ہے۔ مغرب کے بعد گھر میں بھی بیٹھنے اور سننے کا موقعہ ملا، ضیافت کے شرف سے بھی بہت سے موقعوں پر مستفید ہوا ۔ زیر مطالعہ کتابوں کے سلسلہ میں دریافت کرتے اور حسب ضرورت رہنمائی فرماتے، اور اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب گھر پہنچ جاتے تو پوچھتے کہ کوئی اور ضرورت تو نہیں ہے۔ شاگرد اپنے استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے اور رکھنے کی کوشش کرتا تو منع فرمادیا اور سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے روک دیا۔ سادگی تو جیسے ندوہ کے اساتذہ کی میراث وروایت ہے، اس بحر ذخار کی ذرہ نوازی وخورد پروری پر سو جان نثار تھے۔ داستان وارفتگی تو دراز سے دراز تر ہے۔ سمیٹتے ہوئے کچھ جھلکیاں ہی ہدیہ بصیرت کرونگا۔
عالیہ رابعہ شریعہ کے سالانہ امتحانات تھے، ان ایام میں پرایے توپرایے ہیں اپنے بیگانے بن جاتے ہیں اور تو اور خود کی بھی  کہاں پرواہ رہتی ہے،بس یہ دھن طاری رہتی ہے کہ عالمیت کا آخری امتحان ہے اور بہرصورت بہتر سے بہتر تر مظاہرہ کرنا ہے،اسی دھن میں مگن کیی دن حضرت مولانا سے ملاقات نہ کرسکا۔تفسیر قرآن اور صحیح بخاری کا مشکل امتحان بھی ہوگیا ایک دن حسب معمول پیچھے پیچھے چل پڑا،فرمایا کہ تفسیر وبخاری کے امتحان ہوگیے توپھر پرچہ لاکر کیوں نہیں بتایا کہ کیسا رہا،اور یہ جملے اپناءیت سے دو تین مرتبہ دہراءے، کسی اور طالب علم نے بھی نہیں دکھایا کم سے کم تم تو دکھا دیتے، عرض گزار ہوا کہ اب پیش کرتا ہوں،جواب ملا کہ پوچھنے کے بعد کیا تعمیل کروگے شاگرد تو بن بولے کرنے کا نام ہے،آج کے شاگرد تو بس ایسے ہی ہیں، حضرت کےبارباردہرانے سے آپ کے تعلق واپناءیت کا پتہ چلا اور اپنی نادانی و غفلت پر پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جی چاہا، امتحان دینے سے پہلے طلبہ کو فکر رہتی ہے اور اس کے بعد وہ بے فکر ہو جاتے ہیں، یہاں استاد کو امتحان کے بعد فکر مندی ہے کہ پرچہ سوالات مشکل تو نہیں بن گیا، وہ بھی کیا دور تھا اور کیسے مخلص و متفکر اساتذہ تھے۔
ڈھونڈوگے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حضرت مولانا ہمارے دور کے اساتذہ کرام کے لئے ایک مینارہ نور ہیں کہ وہ امت کے ذہانتوں کے امین ہیں، مسقبل کے معماروں کی تعمیر ان کے ہاتھوں میں سونپ دی گئی، میدان عمل کے شہسواروں کی نکیل ان کے اشاروں پر ہے، یہی نہیں بلکہ نا تراشیدہ لعل و جواہر کی ہییت و ماہیت ان کے دست تربیت و ید صناعی میں ہے۔ کاش کہ نصف صدی کی مولانا محترم کی یہ عملی خدمات اساتذہ مدارس، ارباب جامعات، علماء دین کے لئے نقش راہ ، جادہ منزل بن جائے۔ اور وہ طلبہ علم جن کے پیشِ نظر دین ہے، اور جن کا مطلوب و مقصود قرآن مجید وحدیث نبوی ہے کاش وہ اپنے دور کے آفتاب علم،مہتاب فکر کی قدر دانی جان جاییں، فکر ونظر کو جلا بخشی والی شمع کے پروانے ہو جائیں۔ کاش کے ہمارے مدارس ان اکابر و حضرات کے صرف  نام ہی کو نہیں بلکہ کام کو بھی اپناءیں۔
نہیں نا امید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
امتحانات پورے ہوے، وطن کی کی یاد نے دل میں بسیرا کرلیا، ماں باپ ، بھائی بہنوں کے پیار نے تڑپاتا شروع کردیا، جذبات مچلنے لگے، فرط خوشی سے لمحے، گھنٹے لگتے، گھنٹے جیسے ہفتے اور وقت گزارنامشکل بن گیا تھا، عالمیت کی تکمیل، ندویت کی نسبت سے سینہ پھولا جارہا تھا، وہ یادگار دن بھی آپہنچا تھا جس کے سپنے سجا سجا کر سارے کڑوے گھونٹ خوش دلی سے پییے تھے، سند کامرانی جیسے ہاتھ لگ چکی تھی اور ایک ایک پل کی بے تابی تھی کہ اپنے والدین کو یہ سوغات دوں، دوستوں ساتھیوں سے گلے ملوں، اور انہیں دکھاؤں، ان مسرت کن گھڑیوں میں جب دیکھا کہ یہ چمن اور اس کے بےلوث مالیوں سے جدائی ہونے والی ہے، جن کے پاس رہ کر والدین کی محبت و شفقت پایی تھی، اور ایک بڑا خاندان چھوٹنے والا ہے تو دل ہی دل میں مغموم بھی ہوجاتا، اور واقعہ یہی ہے کہ اس سدا بہار وپرکیف ماحول کی دل کشی نے دل کے نہاں خانے میں محبت  کے بیج بوکر،چاہت کی کونپلیں کھلاکر، خلوص کاپانی دیکر، اخلاص کی ہواؤں میں لہراکر، عزم واستقلال کی دھوپ میں تپاکر، بے لوثی کی چادر سے ڈھانپ کر، عمل وکردار بنیادیں بناکر، صلاحیت وصالحیت کی شاخوں پر بٹھا کر ندوہ کی محبت کا پورا شجر سایہ دار کبھی کا کھڑا کردیا تھا، جس کا احساس جدائی کے ان گھڑیوں میں پوری شدت سے ہورہا تھا، ان متلاطم خیالات کا اظہار بھی اپنے روحانی والد ہی سے بے ساختہ کردیا تو فرمایا کہ نہیں، جاؤ رمضان المبارک بعد آکر فضیلت بھی کرلینا، کہا کہ معلوم نہیں والدین اجازت بھی دیں گے بھی کہ نہیں، آگے کے حالات تو یہی کہہ رہے ہیں کہ شاید اب پھر نہیں آپاونگا، استفادہ واستشارہ، تعلم و تعمل کے یہ سنہری مواقع ختم ہوجائیں گے، فیض یابی و باریابی ختم ہو جائے گی، عرض گزار ہوا کہ یہ سلسلہ دور رہ کر بھی کیسے جاری رہ سکتا ہے؟ فرمایا کہ اپنے اساتذہ کے حق میں دعائے خیر کرتے رہوگے،دور رہ کر بھی فیض یابوں میں رہوگے، ساتھ میں ایک شرط بھی ہے عمل کرتے رہنا ورنہ صرف دعا کرنا ہی کافی نہ ہوگا، فرمایا کہ رابطہ میں رہنا،اپنے حالات و کوایف سے مطلع کرتے رہنا، خط وکتابت کروگے تو ضرور جواب دیا کروں گا۔ ایک محسن ومشفق، ایک مربی و صالح بندہ کی یہ تسلی ڈھارس بندھایی، ٹوٹنے والے اس پھل و پھول کو اٹوٹ سرپرستی کا سایہ بخش دیا۔ اور بزبان شاعر یہ حوصلہ پاکر وطن لوٹا  ع
وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
قاریین با تمکین ! ابھی تک آپ نے اک طرفہ دعوے ہی دعوے دیکھے، ٹاٹ کا پیوند ریشم سے محبت کا دعویدار ہے، کلی زیبائش چمن کی عطر بیزی کا منھ ملارہی ہے، اک گل چمن ندوہ میں کھلتا ہے اور زینت وطن بن جاتا ہے، لاکھوں بلبلوں کے اس گلشن میں ایک چھوٹی سی چڑیا آتی، نشیمن بناتی ہے، چمنستان کے سارے پھولوں سے عطر ورنگ، دلفریبی ورعناءی کشید کرتی ہے، اور اپنے چھوٹے سے گھروندے کو مقدور بھر سجاسجا کر لوٹ جاتی ہے۔ تعلیمی و تحقیقی، تربیتی کارواں لگتا ہے کہ جیسے رک سا گیا تھا، نہیں،نہیں یہ تو وہ دریا ہے کہ جس کی لہروں میں تلاطم ہے، چمن میں نیی نیی کلیاں کھلنے لگی ہیں، شجر ندوہ پہ نیی نیی بلبلیں آشیانہ بنارہی ہیں، یہی تو حقیقت ہے، یہی تو زندگی کی پہچان اور ندوہ کی شان ہے۔ دعوے ہم نے ضرور کیے ہیں اور ہماری یہ شیفتگی و فرزانگی یک طرفہ بھی ہو تو کیا  ایک شاگرد کی یہ خوبی نہیں ہے، لیکن قربان جاؤں کہ اس شوریدہ سر کی فریفتگی کے دعوے  اور جواب میں کہ  حضرت الاستاذ استاذ العلماء مولانا محترم بھی اس گہنگار کو چاہتے تھے، ان کےپاک دل میں ایک ادنی شاگرد کے لئے بھی جگہ بن گیی تھی، لیجیۓ حضرت مولانا کا خود بیان پڑھ لیجئے۔سن ٢٠٠٤ میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کرام سے متعلق راقم کی ایک کتاب ‘ گلشن ہند کا علمی گلدستہ’ شایع ہوءی ہے، جس کے صفحہ ١٧ پر حضرت مولانا کی یہ تحریر موجود ہے۔ ” عزیز گرامی قدر مولوی آصف الدین ندوی قاسمی سلمہ ایک سعادت مند طالب علم ہونے کی حیثیت سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مجھ سے متعارف رہے،ان کے اندر طلب علم اور مسایل علمیہ کی تحقیق کے لئےسعی کا جذبہ میں نے  پایا، دارالعلوم ندوۃ العلماء سے درجہ عدلیہ رابعہ یعنی عالمیت کے نصاب کی تکمیل کے بعد وہ دارالعلوم دیوبند طلب علم کے لئے گئے وہاں جانے کے بعد انہوں نے مجھ سے رابطہ رکھا، پھر وہاں سے بھی اپنے وطن حیدرآباد چلے جانے اور مجلس علمیہ آندھراپردیش سے مربوط ہونے کے بعد بھی وقتاً فوقتاً رابطہ کرتے رہے، اس درمیان راقم کا جب حیدرآباد جانا ہوا عزیز موصوف ایک متواضع اور سعادت مند کی طرح ملے، اب انہوں نے ایک کتاب تیار کرلی ہے اور جسے دیکھنے اور اس پر کچھ لکھنے کی فرمائش کی ہے، لیکن راقم کو اپنی مشغولیات اور دیگر وجوہ سے اس پر ایک نظر ڈالنے کا کبھی موقعہ نہیں مل سکا، مگر آں عزیز کا اس پر اصرار رہا کہ یہ حقیر اس پر کچھ نا کچھ لکھ دے اور نہیں تو صرف دعائیہ کلمات ہی سہی چنانچہ اس کی خواہش کے احترام میں یہ چند سطریں لکھ کر دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آں عزیز کو علمی ودینی خدمات کے لئے قبول کرلے اور قدم قدم پر ان کی دستگیری کرے اور ان کا ناصر ومددگار ہو۔ "
اولیک آباء یی فجءینی بمثلھم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع
—————— جاری

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×