شخصیات

مولانا متین الحق اسامہ صاحب قاسمیؒ جوارِرحمت میں

امسال وفات پانے والے ملت اسلامیہ کے سیکنڑوں علماء و بزرگانِ دین کی صف میں مولانا متین الحق اسامہ صاحب قاسمیؒ بھی شامل ہو گئے۔ان کی فعال و متحرک زندگی کا یوں یک بہ یک اختتام ان کے ہزارہا متعلقین و تلامذہ کے لیے واقعی ایک بڑا سخت اور کٹھن مرحلہ ہے۔دلی دعا ہے کہ خداوندقدوس جملہ پس ماندگان و متعلقین کو صبرجمیل کی توفیق بخشے۔

مولانا اسامہ صاحبؒ کو اللہ رب العزت نے گوناگوں اوصاف و محاسن سے نوازا تھا،وہ بہ یک وقت کئی مختلف النوع محاذوں پر سرگرم تھے۔رابطۂ مدارس عربیہ،جمعیۃ علماء،مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور یوپی،جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جاجمؤ اور اس کے زیرِانتظام چلنے والے بیسیوں مکاتب و مدارس اور دیگر متعدد دینی و ملی اور سیاسی و رفاہی تنظیموں کے وہ سرپرست یا رکن تھے،خاص بات یہ کہ کسی بھی جماعت و ادارے سے ان کا یہ تعلق کوئی محض رسمی نہ تھا،بلکہ متعلقہ جامعات و مدارس اور تحریکوں و تنظیموں کی تعمیر و ترقی اور ان کا عروج و استحکام انھیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا،مالی نسبت پر جب کوئی ادارہ یا تنظیم ان سے رجوع ہوئی،تو اس مردِخدا نے اپنے ذاتی صرفے سے بہ خوشی اس کی جانب دستِ تعاون دراز کیا اور یہ حسنِ عمل ایسی خاموشی کے ساتھ عمر بھر جاری رہا کہ ان کی حیات کے اس اہم گوشے سے اب ایسے وقت پردہ اٹھ رہا ہے،جبکہ وہ اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہو چکے ہیں،جہاں انھیں ان کی حسنات اور مخلصانہ خدمات کا صلہ خوب خوب مل رہا ہوگا۔ان شاءاللہ

راقم سطور نے جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے انھیں چند ایک دفعہ خطاب کرتے سنا و دیکھا،مگر پچھلے تقریباً آٹھ دس سال سے ان کا نام و کام مختلف عنوانات و جہات سے برابر سامعہ نواز ہوتا رہا ہے۔ملکی سطح کے اہم پروگراموں میں ان کی شرکت لازم سی سمجھی جاتی تھی،وہ ملکی سطح کے ایک معروف و ہر دل عزیز قائد و مقرر تھے اور ان کا ہر خطاب دقیق و عمیق مشاہدے و مطالعے اور فہم و فراست کا منہ بولتا ثبوت ہوتا تھا۔عوام تو عوام علماءکرام میں بھی اہم محاضرات کے لیے بہ طورِمحاضر جب انھیں مدعو کیا جاتا تھا،تو وہ متعلقہ پروگرام میں اپنی معروضات و تجربات ایسے مرتب و دلکش اور سہل و سلیس انداز میں پیش کیا کرتے تھے،کہ سامعین ہم تن گوش رہتے تھے۔

فی الوقت آپؒ جمعیۃ علمائے ہند کے ایک مؤقر و مستند نمائندہ و ترجمان تھے،جمعیۃ علماء اور اس کے اکابر کی فکر و مزاج کی ترجمانی کا انھیں بڑا عجیب ملکہ حاصل تھا،دلائل و براہین سے مدلل و مبرھن ان کی ہر بات دل میں اترتی چلی جاتی تھی،جمعیۃ علماء کے فکر و مزاج اور اس کی روشن تاریخ سے ناواقفیت اور اس کے نامناسب نتائج کی بات جہاں کہیں سے سامنے آتی،تو ایسے مواقع پر بھی کئی بار دیکھا گیا کہ مولانا اسامہ صاحبؒ وہاں پہنچ کر اپنے مسحورکن خطاب سے جمعیۃ علماء کے افکار و خدمات سے لوگوں کو روشناس کرا رہے ہیں اور حاضرینِ مجلس دل کے کانوں سے انھیں سن اور سمجھ رہے ہیں،یوں تو مولانا مرحوم اپنے مادرہائے علمیہ جامع العلوم پٹکاپور،دارالعلوم دیوبند اور دیگر سینکڑوں مدارس و جامعات اور دینی و ملی تنظیموں کے دل سے قدرداں تھے؛لیکن جمعیۃ علماء سے ان کے تعلق کی نوعیت یکسر مختلف تھی،انھیں عشق کی حد تک اس جماعت سے تعلق تھا،جمعیۃ علمائے ہند سے ان کی یہ وابستگی انھیں اپنے والدماجد مولانا مبین الحق صاحب قاسمیؒ سابق شیخ الحدیث جامع العلوم پٹکاپور و صدرجمعیۃ علماء ضلع کانپور سے وراثت میں ملی تھی،مولانا اسامہ صاحبؒ نے اس وراثت کا حق ادا کر دیا۔ان کی وقیع و ہمہ جہت خدمات اور عوام و خواص میں ان کی یکساں مقبولیت و محبوبیت کے پیشِ نظر،آخر کے سالوں میں جمعیۃ علمائے اتردیش کا آپؒ کو صدر منتخب کیا گیا اور پچھلے تقریباً دس بارہ سال سے وہ جمعیۃ کے ہر اہم اجلاس اور اس کی میٹنگوں کا حصہ ہوتے تھے۔

مولانا علیہ الرحمہ کی زندگی کا بیش تر حصہ ملت اسلامیہ سے متعلقہ زمینی کاموں کے حل و تکمیل میں صرف ہوا اور انھیں ایک مقرر و خطیب کے طور پر زیادہ شہرت و عزت حاصل ہوئی۔ان کی تعلیمی و تدریسی صلاحیت و مہارت بھی ہمیشہ مسلم رہی،اساتذۂ دارالعلوم دیوبند اور مولانا صدیق صاحب باندھویؒ ایسے جلیل القدر اکابراساتذہ کا اعتماد انھیں ابتداء ہی سے حاصل رہا،کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے معاً بعد ہی اراکینِ شوری دارالعلوم دیوبند نے ان کے دارالعلوم دیوبند میں تقرر کا اپنے نزدیک من بنا لیا تھا،لیکن ان کے والدماجد مولانا مبین الحق صاحبؒ اس پر آمادہ نہ ہو سکے تھے اور والدماجد کی حسبِ منشا ان کا تدریسی سفر جامع العلوم پٹکاپور سے شروع ہوا اور پھر آپؒ نے جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جاجمؤ کے نام سے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی،جس سے ان کا علمی و تدریسی فیض مزید وسعت پذیر ہوا۔مولاناؒ کو من جانب اللہ رجال شناسی و رجال سازی کی دولت سے وافر حصہ عطا ہوا تھا،انھوں نے نت نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے کانپور کے تمام بڑے مدارس کے اربابِ افتاء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی،جس کے صدر وہ خود تھے،یہ کمیٹی ہفتے عشرے میں جمع ہوکر پیش آمدہ مسائل پر غور و خوض کرتی اور طویل بحث و مباحثے کے بعد ان کے معقول حل پر اتفاق کیا جاتا،کمیٹی کی اس سلسلے کی سرگرمیاں ھفت روزہ الجمعیۃ اور دیگر ملکی جرائد و رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔

مولانا مفتی منظور احمد صاحبؒ سابق شہر قاضی کانپور و رکنِ شوری دارالعلوم دیوبند نے اپنی حیات ہی میں اپنا قائم مقام مولانا متین الحق صاحبؒ کو منتخب کر لیا تھا اور مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد سے، آپؒ ہی شہرقاضی کے عظیم منصب پر فائز تھے اور اہالیانِ شہر کو ان کے اس چہارسالہ زمانۂ قضا میں بڑے فوائد حاصل ہوے۔

لدھیانہ میں مولانا مرحوم کے محب و معتقد جناب تاج الدین صاحب قائم گنج فرخ آبادی کے ساتھ ہونے والی مجالس میں،وقتاً فوقتاً مولانا مرحوم کا ذکرخیر ہوتا رہتا تھا اور وہ حددرجہ عقیدت کے ساتھ مولانا مرحوم کے ساتھ اپنی یادوں کو مشترک کیا کرتے تھے،ابھی گذشتہ پرسوں کی بات ہے،تاج الدین صاحب نے مولانا کی قائم گنج آمد کی حسیں یادوں کا ذکر چھیڑا تھا اور پھر تا دیر وہی موضوعِ سخن رہے تھے۔

آہ! کسے خبر تھی کہ مولانا باون سال کی عمر ہی میں ہمیں داغِ مفارقت دے جائیں گے اور ان کا وہ روشن و نورانی چہرہ اب جیتے جی کبھی دیکھنے کو نہ مل سکے گا۔وکم من حسرات فی بطون المقابر

یہ عاجز اپنی جانب سے اور اپنے محسن و کرم فرما جناب تاج الدین صاحب قائم گنج فرخ آبادی کی جانب سے،صاحب زادۂ محترم مولانا امین الحق عبداللہ صاحب،برادرِنسبتی شیخِ طریقت مولانا طلحہ صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم حال مقیم ممبئی اور مولانا مرحوم کے دیگر جملہ پس ماندگان کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ رب کریم ان کے اخلاف کو ان کے دینی و علمی مشن کی تکمیل کے لیے قبول فرمائے اور جامعہ محمودیہ اشرف العلوم اور جمعیۃ علماء سمیت تمام اداروں اور تنظیموں کو ان کے نعم البدل سے نوازے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×