قطب ربانی شیخ عبد القادر جیلانیؒ حیات ، کمالات، تعلیمات
محبوب سبحانی، قطب ربانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کا شمار ان مبارک ہستیوں میں ہیں جنکے فیوض سے ایک خَلقِ کثیر مستفید ہوئی ،اور ہورہی ہے۔آپ کی ارشادات وتعلیمات کتاب وسنت سے ہم آہنگ ہیں ، آپ صوفی باصفا اور محبوب ِخدا تھے ، بلند ہمتی ،خوش اخلاقی ،منکسر المزاجی، وسیع الظرفی، تعلق مع اللہ جیسے اوصاف ِ حمیدہ کے جامع تھے،سنن کے شائق اور بدعات سے متنفر تھے، امراء سے کنارہ کشی فقراء کی ہمنشینی کو پسند فرماتے تھے ، حکام وسلاطین یک گونہ دور اہل دل سے قریب رہنے کو ترجیح دیتے تھے، علماء وطلباء کا ایک جُھنڈ ہمہ وقت آپؒ کے ساتھ رہتا تھا ، آپؒکی مجالس میں طبقہائے ملت کے افراد شریک ہوکر فکر ِ آخرت کیساتھ بادیدہ نم رخصت ہوتے تھے، شہر بغداد نصف سے زیادہ آپؒ کے حلقہ ارادت سے وابستہ تھا، ہزاروں قلوب آپؒ کے دست ِ حق پر تائب ہوئے، آپؒ کے ذریعہ لاکھوں افراد نے اسلام قبول کیا،یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ آپؒ ایک سچے عاشق ِ رسول، متبعِ سنت، پابند ِشرع کیساتھ انتہائی درجہ کے متقی تھے، انابت الی اللہ ہر وقت استحضار رہتا تھا،جسکی بناء مقربین خدا میں شمار ہوئے۔
ولادت: آپؒ کی پیدائش یکم رمضان ۴۷۱ھ یا ۴۷۰ھ /م ۱۷؍ مارچ۱۰۷۷ ء یا ۱۰۷۸ء میںجیلان کے ایک مقام نَیف میں ہوئی ، اسی کی طرف منسوب کرتے ہوئے جیلانی کہا جاتا ہے ، جیلان یہ ایران کا شمالی مغربی حصہ میں آتا ہے اسکا شمار ایران کے خوبصورت شہروں میں ہے ( تاریخ دعوت وعزیمت)
خاندانی پس منظر : نام ۔ عبد القادر ،کنیت۔ابو محمد،لقب۔ محی الدین اور شیخ الاسلام، والدہ کا نام۔ ام الخیر امۃ الجبار فاطمہ ،والد کا نام ۔ ابو صالح بن جنگی دوست تھا،والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سید تھے، دس واسطوںکے بعد آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت علی ؓسے جا ملتا ہے۔اولاد:علامہ ذہبی ؒ نے شیخ کے بیٹے کے حولہ سے لکھاہے کہ میرے والد کی کل اولاد ۴۹ تھیں ، جن میں ۲۷؍ بیٹے اور ۲۲؍ بیٹیاں تھیں ۔ (شیخ جیلانی ؒ حیات وتعلیمات)
تعلیمی روداد:سن ۴۸۸ء میں جس وقت آپ ؒ کی عمر ۱۸ سال تھی ،بغداد کو حصول ِ علم کیلئے آپہونچے،حسن ِ اتفاق کہئے یا تقدیری فیصلہ عین اسی سال بغداد امام غزالی سے محروم ہوا ، تو امام ربانی عبد القادر جیلانی ؒ وہاں وارد ہوئے۔آپؒ وہاں پورے عزم وحوصلہ کیساتھ وقت کے نابغہ روزگاراساتذہ سے کسب ِ فیض کیا، باوجود عبادت وریاضت میں طبعی میلان کے تحصیل ِ علم میں جھول نہ آنے دیا،(تاریخ دعوت وعزیمت) فنون ِ ادب کی تعلیم التبریزیؒ سے ، فقہ حنبلی کی تعلیم ابو الوفاء بن العقیل اور ابوسعد المبار اک المخزومیؒ سے، حدیث کی تعلیم ابو جعفر السراج ؒسے ،اور تصوف سے انہیں ابو الخیر حماد الدباس ؒنے آگاہ کیا۔(غنیۃ الطالبین ،اردو۔)
مکارم ِ اخلاق : انسان کو یکساں طور پرخالق ومخلوق کے یہاںمقام محبوبیت جس عمل سے ملتی ہے وہ حسن ِ اخلاق ہے ،یہی وہ مورچہ ہے جس پر سے نبی ﷺ نے جانی دشمنوں کو بھی دین ِ حق کی طرف مائل کرلیا، اور جس کے ذریعہ اسلام روز افزوں ترقی پذیر ہورہا ہوا،بالکل یہی رنگ اہل اللہ کی شان ہوا کرتی ہے ، شیخ جیلانی ؒ بھی اپنے معاصرین ، متبعین ، مریدین ، متوسلین ، حتیٰ کہ فقراء ومساکین سے اس قدر خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے کہ دیکھنے والاعش عش کرتا اپنے نصیب پر نازاں رہتا، کوئی غریب ہوتا تو اسکے ساتھ بیٹھ جاتے اسکو شریک دسترخوان کرتے ، بھوکوں کو کھلاتے ، ضرورتمندوں پر خرچ فرماتے، علامہ ابن البخار آپؒ سے نقل کرتے ہیں اگر ساری دنیا کی دولت مجھے حاصل ہوجائے تو میں بھوکوں کو کھلادوں اور یہ بھی فرماتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری ہتھیلی میں سوراخ ہے ، کوئی چیز اسمیں ٹہرتی نہیں،ابو الحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ صاحب قلائد الجواہر نے لکھا ۔۔۔حکم ہوتا تھا رات کو وسیع دسترخواں بچھے ،خود مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے ،کمزوروں اور غریبوں کی ہم نشینی اختیار کرتے ،طلبہ کی باتوں کو برداشت کرتے، ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ اس سے بڑھ کر کوئی شیخ ؒؒؒ کا مقرب نہیں ہے، ساتھیوں میں سے جو موجود نہ ہوتا اسکا حال دریافت فرماتے، تعلقات کا پاس ولحاظ رکھتے، غلطیوںپرعفوِ ودرگزر کا معاملہ کرتے ۔ (تاریخ دعوت وعزیمت)
شیخ جیلانیؒ کے عہد کا بے دینی وسیاسی آ ئینہ:آپ ؒ بغدادمیں تقریبا۷۳ سال رہے ، اس وقت کا ماحول دین بیزاری ،اقتدار پرستی کا،جس طرح ہر دور میں اقتدار کی حصولیابی ، کرسی کی ہوس حکام وخلفاء کا محبوب عمل کا رہاہے،اور عوام بھی اپنے نظریاتی آقاوؤں کو کامیاب وبا مراد بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے ،چاہے اس دورانیہ میں اپنی جان کی بازی لگ جائے، واقعہ یہ ہے کہ سلجوقی سلاطین عباسی اقتدار کو حاصل کرنے میں بارہا معرکہ آرائی کرتے تھے، خلیفہ مُسترشدجو عہد عباسی کا طا قتور خلیفہ تھاسلطان مسعود سے جب اسکی لڑائی ہوئی تواتفاقاً خلیفہ کو شکست فاش ہوگئی اور وہ قید کرلیا گیا ، اہل بغدادجو اسکے حامی تھے کفن بردوش نکل کھڑے ہوئے ، عورتیں نوحہ خواں ہوگئیں ، سروںسے دوپٹے ہٹا کر اپنے خلیفہ کی بحالی کیلئے کمربستہ ہوگئیں ،عوام نے مسجدوں کے منبر ومحراب کو مسمار کر ڈالا،جماعتوں میں شریک ہونا چھوڑ دیا، سطح ِ زمین پر یہ سیاسی زلزلہ کسی بڑے حادثہ سے کم نہ تھا ، اور علاقے بھی اہل بغداد کے ہم نوا بن گئے تھے، نتیجۃً سلطاں مسعود نے نبض کی حرارت دیکھتے ہوئے فی الفورمسترشد کی رہائی کا حکم نامہ صادر کیا ، لیکن سلجوقیوں نے مسترشدکا راستہ ہی میں قتل کرڈالا، اور یہ سب نظارہ شیخ جیلانی ؒ اپنی انکھوں سے دیکھ رہے تھے ، اور بظاہر جسم وجاں سے علیحدہ تھے لیکن فکر واحساس سے ان کے حق میںکافی سنجیدہ تھے ،کہ یہ امت محمدیہ اس خون آشام تاریکیوں کے دلدل سے نکل جائے اور ِ آخرت کو اپنا نصب العین بنالے ۔(تذکرہ شیخ جیلانیؒ )
انقلابی کارنامے:ایک ایسے دور میںجب چوتھی صدی کا سورج غروب ہونے کو تھا،عالم اسلام بالخصوص بغدادمیںدینی ، فکری ، اعتقادی ، اور اسلامی اقدار کی تہذیبی روایات اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں ، جسکی وجہ سے خالص موحدانہ افکار ورجحانات میں اعتزال ، ملحدانہ فلسفیات ، خَلقِ قرآن جیسے نظریات امت ِ مسلمہ میں در آگئیں تھیں ،اس پُر آشوب ماحول میں امام غزالیؒ اور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ عالم ِ اسلام کیلئے منجانب اللہ منتخب ہوئے، جن کے ذریعہ اللہ نے انقلابی کام لیا، امام غزالیؒ کی فکری تحریک سے ایک طرف الحاد ودہریت کا سد باب ہوا ، دوسری جانب شیخ جیلانی ؒ کے ذریعہ امت کی اعتقادی کمزوری ، بے عملی وبے یقینی اور حب دنیا پر بند لگا ۔
شیخ جیلانی ؒ ۔ عقائد وتعلیمات :آپ ؒ اعتقاداً اہل السنۃ والجماعۃ کے پابند تھے ، وہ فرماتے تھے اعتقادنا اعتقاد السلف الصالح والصحابۃ ( سیر اعلام النبلاء ) ہمارا عقیدہ وہی ہے جو تمام صحابہ کرامؓ اور سلف ِ صالحین کاہے۔ آپ ؒ امت کو توحید ورسالت اور آخرت کی تعلیم دیا کرتے تھے ، دنیا کی بے حیثیتی کو بتلاتے تھے ، اعمال صالحہ پر ابھارتے تھے، بے عملی ،وبد عملی کے انجام بد سے آگاہ کرتے تھے، تعلق مع اللہ کی طرف راغب کرتے تھے، لوگوں کے قلوب میں انسانیت سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے تھے، کتاب وسنت سے امت کو قریب فرماتے ،حب دنیا سے دور رہنے کو بتلاتے، حاجت روا ، مشکل کشا، اور تمام مسائل کا حل خدا کی بارگا ہ سے ہوتا ہے اس فکر کی ترویج کرتے تھے،آپؒ کے ارشادات کا لب لباب یہی تھا کہ مخلوق عاجز ہے خالق قادر ِ مطلق ہے ، ہر چیز اسی کے دست ِ قدرت
میں ہے۔ توحید خالص اورغیر اللہ کی بے حقیقی سے پُر وعظ فرمایا کرتے تھے۔ بڑے دلسوز انداز میں فرماتے تھے کہ لوگو ! جناب رسول اللہﷺ کے دین کی دیواریں پے در پے گررہی ہیں اور اسکی بنیاد بکھرہی ہے اے باشندگان زمیں آؤ جو گرگیا اسے مضبوط کرو ، جو ڈھب گیا اسکو درست کریں ،یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوتی سب ہی کو مل کرنا چاہئے اے سورج اے چاند اور اے دن تم سب آؤ۔(فیوض یزدانی، بحوالہ تذکرہ شیخ جیلا نیؒ )
وفات:ایک لمبے عرصہ تک اپنے علمی وباطنی کمالات کے ذریعہ لوگوں کے قلوب میں رشد وہدا یت کا دیا جلا یا اور طبعی عمر کی آخری سانس لیکر بعمر ۹۰ سال ۱۰؍ربیع الآخر ۵۶۱ ھ/۱۱؍ اپریل۱۱۶۶ء میں وفات پائی۔ ابن خلکان کہتے ہیں لم یکن فی آخر عمرہ فی عصرہ مثلہ وکان الشیخ الشیوخ ببغداد ، اخیرعمرمیں انکے زمانہ میں انکی نظیر نہ تھی اور وہ بغداد کے سب سے بڑے شیخ اور فن میں مرجع تھے، (وفیات الاعیان )شیخ ندوی ؒ رقم طراز ہیں کہ آپکے صرف ایک خلیفہ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ سے ہندوستان میں جو فیض پہنچا ہے اس سے شیخ جیلانی ؒکی جلالت قدر اور عظمت شان ظاہر ہوتی ہے۔ ( تاریخ دعوت وعزیمت )