شخصیات

حیات مستعارکےچندگوشے مولانامتین الحق اسامہ قاسمیؒ۔

ممتازعالم دین،مشہورومقبول خطیب،قاضی شہرکانپور،وصدر جمعیت علماءاترپردیش، ”جامعہ محمودیہ اشرف العلوم “جاجمٶوکانپورکےناظم،اوردیگر بہت سے مدارس واداروں کےسرپرست،مولانامحمدمتین الحق اسامہ قاسمیؒ ، جمعہ وشنبہ کی درمیانی شب میں تقریبا ڈھاٸی بجےانتقال فرماگۓاورمالک حقیقی سے جاملے،اوراپنےپیچھے ایک عالَم کوسوگوارچھوڑگۓ، مولاناکے اچانک انتقال کی دلدوزخبرسن کربےانتہا صدمہ ہوا،جسنے بھی یہ خبرسنی غم وصدمہ سے دوچارہوتاگیا،اللہ مولاناکی بال بال مغفرت فرماۓاورجنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرماۓ۔
مولانااسامہ قاسمیؒ پوری زندگی دینی ومذہبی،ملی وقومی، تعلیمی وتدریسی،اوررفاہی کاموں،خدمت خلق، اورامت کی اصلاح وتربیت،اورہندومسلم ایکتاکےسلسلہ میں سرگرم رہے ، اورہرمیدان میں سرگرم قاٸدانہ رول اداءکرتے رہے ، وہ انتہاٸ متحرک،فعال، مخلص،بےباک،ذی استعداد،تجربہ کاراورفکرمندوصاحب بصیرت عالم دین تھے،اللہ نے انہیں حسن صورت کےساتھ حسن سیرت سے بھی نوازاتھا،اورکم عمری ہی میں غیرمعمولی مقبولیت، محبوبیت ومرجعیت عطافرماٸ تھی،مولاناملت کےدردوغم میں کڑھنے والے فردتھے،ہرکسی کے کام آنا،سبکوفاٸدہ پہونچانا،کمزوروں اورمظلوموں کی فریادرسی ودادرسی، چھوٹوں کی ہمت افزاٸی،امت کی اصلاح ورہنماٸی کی فکر،اوراسکےلۓ مسلسل جدوجہدوسعی میں مشغول رہنا انکانمایاں وصف تھا،مولاناؒملت کے ہرطرح کےمساٸل کےحل کےلۓہمیشہ کوشاں وسرگرم رہتے تھے، وہ مختلف محاذوں پرڈٹے ہوۓتھے،بہت سے میدانوں میں روشن ومفید خدمات انجام دےرہے تھے،انہوں نےبہت سےکام اپنے سرلےرکھے تھے اورانہیں ہمیشہ بہت ہی حکمت، اخلاص،خوبصورتی،اورانتہاٸ سلیقہ وقرینہ اورجوش وولولہ کےساتھ انجام دیاکرتے تھے،کانپور،فتح پور،اناٶ،ہردوٸی، باندہ وغیرہ میں مولاناکابہت اثرورسوخ تھا،ویسے وہ ایک بہترین خطیب ومقرر،اورخادم قوم وملت کی حیثیت سے پورے بھارت میں مشہورومعروف تھے،اورانکےمحبین واھل تعلق کاحلقہ پورے ملک میں پھیلاہواتھا اورہرجگہ انکودعوت دی جاتی تھی،
راقم کی مولانامرحوم سے کٸی ملاقاتیں رہیں، کٸی مرتبہ مولاناسے گفتگوواستفادہ کاموقع ملا ، ان ملاقاتوں میں راقم نےمولاناکوایک شگفتہ مزاج وبااخلاق ،انتہاٸی متواضع وملنسار،اوردل دردمندوفکرارجمند کاحامل، اورچھوٹوں کی غیرمعمولی ہمت افزاٸی کرنے والاانسان پایا،وہ چھوٹوں کی اوراپنےتلامذہ وشاگردوں کی کس طرح حوصلہ افزاٸ فرماتے تھے اورانکو کس طرح آگےبڑھاتے تھے اسکااندازہ دوتین واقعات سے ہوگا، ٢٠١٦م کاواقعہ ہے،راقم کانپورکےجاجمٶو میں واقع ، دارلعلوم ندوة العلماءلکھنٶ کی قدیم شاخ”مدرسہ دارالتعلیم والصنعت“میں مدرس تھا،فروری ٢٠١٦ میں ندوہ کی شاخوں کےاساتذہ کی ٹریننگ وتربیت کےلۓ دوروزہ تربیتی کیمپ مذکورہ مدرسہ میں منعقدہواتھا،اس پروگرام میں ندوہ کےاساتذہ کےعلاوہ،حضرت مولانااسامہ قاسمیؒ بھی بطورمحاضرمدعوتھے،پروگرام سے چندروزپہلےراقم نےحدودوتعزیرات کے موضوع پرایک کتاب مرتب کی تھی جسکاپروگرام کی افتتاحی نشست میں اجراءہواتھا،میں نےکتاب کاایک نسخہ حضرت مولانااسامہؒ کوبھی پیش کیاتومولانانےمجھ سے فرمایا ” ہمیں اپنی کتاب کے سونسخے ابھی قیمتادیدو ہم اپنے پاس آنےوالے لوگوں کو ایک ایک نسخہ بطورھدیہ دیتے رہیں گے تاکہ کتاب پڑھ کرانکوفاٸدہ ہواورانکےشکوک وشبہات دورہوں“ میں نے مولاناکوسو نسخے اسی وقت پیش کۓ اورمولانانےایک دودن کے بعد مجھے سونسخوں کی قیمت بھی عنایت فرمادی،اس واقعہ سے مولاناکی چھوٹوں کی ہمت افزاٸی ، اورانکے ٹوٹے پھوٹے اچھے کاموں کوسراہنے کی عادت کااندازہ ہوتاہے، ایک مرتبہ راقم جمعہ کےدن نمازجمعہ سے پہلے”مدرسہ دارالتعلیم والصنعت“کی مسجدمیں تقریرکررہاتھا،مسجدنمازیوں سے بھری ہوٸ تھی،مولاناکوجمعہ کےبعدایک نکاح پڑھاناتھا،اس لۓ مولانانےجمعہ ”مدرسہ دارالتعلیم والصنعت“ ہی کی مسجدمیں اداءکیا،مولاناجب مسجدمیں داخل ہوۓ تومیری تقریر ہورہی تھی،آدھی تقریرہوچکی تھی اور آدھی باقی تھی، مولانانےمیری بقیہ آدھی تقریربغور سماعت فرماٸ،میری وہ تقریرمغربی تہذیب کی کمزوریوں اورعیوب ونقاٸص کےبارے میں تھی،جمعہ کےبعد نکاح کی مجلس میں خطبہ نکاح سے پہلے مولانا نےاردومیں خطاب فرمایااوراپنےخطاب میں ، جمعہ سے قبل کی گٸ میری تقریرکی بعض باتوں کاحوالہ دیا جس سے میں بہت متاثرہواکہ مولانا جیسامقبول خطیب ومقرر، اوراتنابڑاقاٸد وعالم مجھ جیسےحقیرکی بات کاحوالہ اپنےخطاب میں دےرہاہے،
حضرت مولانااسامہؒ اپنےاساتذہ واکابرین سےبہت تعلق رکھتے تھے اورانسے استفادہ کی شکلیں بناتے رہتے تھے،مولاناکایہ تعلق دارالعلوم دیوبنداورجمعیت کے اکابرین کےعلاوہ ندوة العلماء کےاساتذہ واکابرین سے بھی تھا،یہ اکابرین مولانااسامہؒ پر پوری طرح اعتماد وبھروسہ کرتے اوروہ بھی ہمیشہ اپنے اکابرین کی امیدوں وتوقعات پر کھرااترتےاورکبھی بھی انکےاعتمادکو ذرہ بھربھی مجروح نہ ہونےدیتے،جب ندوہ کےکسی استاذ وذمہ دارکاانتقال ہوتاتومولانااسامہؒ ندوہ/لکھنٶ پہونچ کر انکی نمازجنازہ میں ضرورشرکت فرماتے،چندسال قبل مولانااسامہؒ نے مدارس کےتحفظ کے حوالہ سےکانپور میں ایک بڑی کانفرنس منعقدکرواٸ تھی جسمیں ندوہ کےاکابرین کوبھی مدعوکیا،مولانامرحوم بہت سے مدارس اوردینی مذہبی وملی اداروں کےسرپرست تھے ، اورطلبہ مدارس کےساتھ انکاتعلق محبت وشفقت اورخیرخواہی پرمبنی ہوتاتھا،وہ بہت سے مدارس کی چھوٹی بڑی مادی ضروریات وحواٸج کااتظام اپنےپاس سے کرتےرہتے تھے اورانکےاس تعاون وامداد کی کسی کوخبرتک نہ ہوتی تھی،مجھے ٢٠١٢ کاایک واقعہ یادآرہاہے،راقم اس وقت ندوة العلما میں زیرتعلیم تھا،دارالعلوم دیوبندمیں”شعبہ ردقادیانیت“کے زیراہتمام طلبہ مدارس کی تربیت کاایک کیمپ منعقدہواتھا ، جسکااشتہارندوہ میں بھی لگاہواتھا ، راقم نےجب وہ اشتہاردیکھاتوپروگرام میں شرکت کاارادہ کرلیا،میں ندوہ کےایک طالبعلم کی حیثیت سے پروگرام میں شریک ہوا،اور دارالعلوم دیوبند کےاساتذہ کےقیمتی محاضروں سے بہت علمی فاٸدہ بھی اٹھایا،پروگرام کی اختتامی نشست میں پروگرام کےکنوینروناظم ”شعبہ ردقادیانیت“ "حضرت مولاناشاہ عالم صاحب گورکھپوری مدظلہ”نے پروگرام کےانتظام وانصرام واخراجات اورپروگرام میں شریک طلبہ کوبطورانعام دی جانے والی کتابوں کےبارے میں بھی کچھ باتیں بتلاٸیں،مولاناشاہ عالم صاحب مدظلہ نےفرمایاتھاکہ”اے طلبہ!جن لوگوں نےآپکےکھانے پینےاوربطورانعام دی جانے والی کتابوں کاانتظام کیاہے ان میں ہمارے دوست مولانامتین الحق اسامہ قاسمی کانپوری پیش پیش ہیں جوہرسال فلاں فلاں ضرورت پوری کرتے ہیں اورہمیں انکاتعاون ملتاہے “ مولاناشاہ عالم صاحب گورکھپوری مدظلہ کی اس بات سے اندازہ ہوتاہے کہ مولانااسامہؒ دیگرمدارس اورطلبہ مدارس کی ضروریات پوری کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔
مولانااسامہؒ زمینی سطح پرکام کرنےوالے فردتھے ، انکی ملی ورفاہی خدمات کابھی ایک طویل سلسلہ ہے ،جمعیت کے پلیٹ فارم سے انہوں نے جوخدمات انجام دی ہں انہیں ہمیشہ یادرکھاجاۓ گا،ملک کےجس صوبہ وعلاقہ میں لوگ ناگہانی آفات وحوادث سے دوچارہوتے،ملک میں جس جگہ بھی فسادہوتا،زلزلہ آتا،یاسیلاب سے تباہی مچتی ایسے ہرموقع پر مولاناحادثات کاشکارہونےوالے لوگوں کی امدادوتعاون کی اپیل کرتے،اورایسے علاقوں میں پہونچ کرازخودحالات کاجاٸزہ لیتے اورمتاثرین کاہرطرح سے تعاون کرتے تھے،مولانامرحوم بلاشبہ قاٸدجمعیت حضرت مولانامحمودمدنی صاحب مدظلہ کادست وبازوبنے ہوۓ تھے،انکوہرطرح کی تقویت پہونچاتے اورقومی ملی ورفاہی کاموں میں مولانامدنی کے معاون وشریک بنے ہوۓ تھے۔مولانااسامہؒ،کانپور،اورکانپورکے اطراف کےاضلاع کے مسلمانوں کےلۓ سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے،انکی اصلاح وتربیت کےلۓ،اورانکو فتنہ غیرمقلدیت، فتنہ شکیلیت وقادیانیت سے بچانے کےلۓ غیرمعمولی کوششیں کرتےاوراس کے لۓ اپنے زیرانتظام وقتافوقتاچھوٹےبڑے پروگرام/جلسے/اورکانفرنسیں منعقدکرواتے تھے ، جنمیں عوام کی بڑی تعدادشریک ہوتی، اورملک کےنامورعلماء ،مقررین وقاٸدین کےبیانات ومواعظ سے مستفید ہوتی اوراپنےدین وعقیدہ کی حفاظت وصیانت کی فکرلیکرلوٹتی۔
مولاناؒنےابتداءمیں مدرسہ ”جامع العلوم“پٹکاپورمیں تدریسی خدمات انجام دیں،پھرمدرسہ ”جامعہ محمودیہ اشرف العلوم“جاجمٶ انکی جدوجہداورتدریسی وتعلیمی اورانتظامی خدمات وجدجہد کامرکزبنا،مولاناکےاس ادارہ میں شایدعربی ششم تک تعلیم ہوتی ہے،مجھے معلوم ہواتھاکہ مولانانے زمین کاایک بڑاقطعہ خریداہے جہاں مدرسہ کومنتقل کرنے کامنصوبہ شایدوہ بناچکے تھے۔
مولاناپرعصری ودینی علوم کویجاکردینے کی فکربھی غالب تھی،انکی دیرینہ آرزو تھی کہ ایسے علماءوفضلاءتیارہوں جو علوم شرعیہ کےساتھ جدیدعصری علوم کےبھی ماہرہوں،اورجوہرزبان میں تقریروخطاب کی استعدادرکھتے ہوں،اسکےلۓ مولانانےباقاعدہ عملی اقدامات کۓ،اورکانپورشہرکےاندر فارغین مدارس کوجدیدعلوم ومضامین سے آراستہ کرنے، اورہندی وانگریزی زبانیں سکھانےکےلۓ ایک ادارہ”حق ایجوکیشن اینڈریسرچ فاٶنڈیشن“کےنام سے قاٸم کیا،اس ادارہ سے بہت سے علماء وفارغین مدارس نےاستفادہ کیا۔
جدید فقہی مساٸل کےحل کےلۓ مولانانے ”کل ھنداسلامک علمی اکیڈمی“ قاٸم کی تھی جسمیں کانپورکےعلماءومفتیوں کوشامل کیاتھا،مولاناؒ اس اکیڈمی کےصدرتھے،ہرماہ کانپورکےعلماءومفتیان اس اکیڈمی کےتحت مساٸل پرغوروخوض کےلۓجمع ہوتے تھےاوراپنی اپنی آراءپیش فرماتےاورمناقشہ ومباحثہ کےبعد کسی ایک راۓپرجمع ہوتے تھے۔
حضرت مولانااسامہ قاسمیؒ ایک نکتہ سنج ، قادرالکلام وذی علم خطیب ومقرر بھی تھے،میں نے مولانامرحوم کی تقریرسب سے پہلےراۓ بریلی کے جلسہ شھداٸےاسلام میں سنی تھی اوراسی موقع پرپہلی مرتبہ مولاناکا دیداربھی کیاتھا، مولاناؒآیت کریمہ”محمدرسول اللہ والذین معہ الخ کی روشنی میں تقریرفرمارہےتھےاورعلم وحکمت کے موتی لٹارہے تھے، سامعین مکمل خاموشی سے خطاب سن رہےتھے،مولاناؒکی یہ تقریرسن کرمیں انکے علم،برمحل استدلال واستشہاد ، اوراندازخطابت سے بہت زیادہ متاثرہواتھا،وہ تقریرمجھے اتنی پسندآٸ تھی کہ میں نےاپنےپاس کھڑے ایک طالبعلم سے پوچھاکہ یہ خطیب کون ہیں،یہ چندتاثرات ومشاھدات میرے ذہن میں تھے جنہیں میں نے قلمبندکرنےکی کوشش کی تاکہ مولاناکےذکرخیرمیں مجھے بھی شمولیت کی سعادت حاصل ہوجاۓ۔
جہاں تک مولاناکےحادثہ وفات کاتعلق ہے تو یہ اھل کانپورکے لۓ،مسلمانان اترپردیش وھندکےلۓ،مولاناؒکےاداروں اورجمعیت کےلۓ ناقابل تلافی نقصان کی حیثیت رکھتاہے ، مولانامرحوم اتنی جلد،اتنی کم عمری میں ہم سب کےدرمیان سے رخصت ہوجاٸیں گے اسکاکسی کوبھی اندازہ نہ تھا،مولانااللہ کی طرف سے مختصر عمرلیکرآۓ لیکن اس مختصر مدت میں انہوں نےبڑے بڑے کام انجام دےڈالے،سب کےدلوں پرحکومت کی،شہرت وترقی کےاعلی منازل طےکۓ،اورملت کےایک کارگزاروفعال قاٸدورہنماکی حیثیت سے انمٹ نقوش مرتب کۓ،مجھے حضرت مولانااسامہؒ کی اچانک وناگہانی وفات پر اسی طرح کا صدمہ ورنج ہے جس طرح کارنج استاذ محترم عارف باللہ داعی اسلام حضرت مولاناعبداللہ حسنی ندویؒ،اوراپنے والدحضرت مولاناشفیق احمدصاحب قاسمیؒ کی وفات پرہواتھا،استاذ محترم مولاناعبداللہ حسنیؒ ، اورمیرے والدماجدؒ نے بھی کافی کم عمرپاٸ تھی ، دعاہیکہ اللہ مولانااسامہ قاسمیؒ کی بال بال مغفرت فرماۓ،انکےاھل وعیال کوصبرہمت وسکون نصیب فرماۓ،انکے چھوڑے ہوۓ کاموں کومکمل فرماۓ،اورامت کوانکانعم البدل نصیب فرماۓ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×