شخصیات

جہدِ مسلسل سے پُر عہد کا خاتمہ؛ مولانا ولی اللہ ولی بستوی مرحوم

شاعر اسلام مولانا ولی للہ ولی بستوی کی موت کی اچانک خبر سن کر غیر معمولی صدمہ ہوا۔اور اتنا صدمہ ہوا کہ دل کو کئی بار اس خبر کی غیر یقینی صورت حال میں مبتلاء کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ امکان کی حد تک دل کو سمجھاتا رہا۔ ادھر ادھر خیالات کو منتشر کرنے کے بہت سے حربےاختیار کیے تاکہ دل سےاس خبر کا اثر دور ہو جائے۔ لیکن تمام ممکن طریقے شکست کھا گئے۔ اور وہی ہوا کہ حقیقت جذبات پر غالب آگئی۔اور دل نے شکست تسلیم کرتے ہوئے مان لیا کہ ولی اللہ ولی بستوی کی جدائی خداوند قدوس کا فیصلہ ہے۔ اب اس میں کسی چوں چرا کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ولی بستوی صاحب سے پہلی ملاقات مفتی ساجد صاحب کھجناوری مدیر صدائے حق کے توسط سے ہوئی اور پہلی ہی ملاقات میں تکلف اور اجنبیت کے تمام پردے درمیان سے ہٹ گئے اور ایسا محسوس ہوا کہ ولی بستوی صاحب سے برسوں کی پرانی شناسائی ہے۔ یہ آج کی ملاقات تو صرف تجدید مراسم کی تمہید ہے ۔ہوا بھی یہی کہ اس پہلی ملاقات کے بعد تجدید مراسم کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی۔اخلاق اور انسانیت کا یہ پیکر مجسم واقعی جس خوبصورتی کے ساتھ وضعداریاں نبھاتا تھا اور تعلق خاطر برقرار رکھتا تھا اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔
مولانا ولی بستوی کی زندگی کا سفر مصائب اور حالات سے بھرا ہوا تھا بلکہ حالات کے بے حم تھپیڑوں اور سخت دھوپ نے بستوی صاحب کو کندن بنادیا تھا۔ غالباََ آپ کی عظمت اور توقیر کے راز انہیں سخت حالات کی رہین منت ہیں۔کن کن اور کیسے کیسے حالات سے یہ شخص گزرا۔کیا کیا اس کے ساتھ ہوا کتنے زخم اس کے جگر میں تھے کتنے کانٹوں نے اس کے کمزور پاؤں کو زخمی کیا۔ سخت حالات کے کتنے حملے اس کے بدن کو چھلنی کیے ہوئے تھے۔ غرض اس کی زندگی کی داستان کے عنوان اتنے غم زدہ اور کرب ناک ہیں کہ حساس طبیعتیں بے ساختہ مائل بہ غم ہوجائیں۔ راحت اندوری نے کہا تھا:

میں اپنا عزم لیکر منزلوں کی سمت نکلا تھا
مشقت ہاتھ پر رکھی تھی قسمت گھر پہ رکھی تھی
ولی بستوی صاحب کا تعلیمی سفر بہ حیثیت استاد کے جامعہ اشاعت القرآن اکل کوا سے شروع ہوا۔ برسوں ایک کامیاب مدرس کی خوبیوں کے ساتھ آپ کا یہ سفر جاری رہا۔ حالات اور وقت کی مشقتوں کے سبب وہاں سے آپ کو آنا پڑا۔ لیکن جلد ہی اپنی قابلیت اور مستقبل کی ادا شناسی کے ماہر حضرت مولانا خالد سیف اللہ نقشبندی صاحب کی توجہ سے دوآبے کی مشہور علمی دانشگاہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں آپ کا تقرر ہوگیا۔لیکن یہاں بھی قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور بہ قول شاعر:
تو تو اپنے مشوروں کے زخم دے کر چھوڑ دے
مجھ کو زندہ کس طرح رہنا ہے مجھ پر چھوڑ دے
اس کے بعد مفتی ساجد صاحب کھجناوری کی کرم فرمائی اور حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب( ناظم اعلیٰ مظاہر العلوم وقف سہارن پور) کی عنایتوں سے جامعہ مظاہر العلوم وقف سہارنپور میں تعلیمی خدمات کا موقع فراہم ہوا۔اس شہرہ آفاق ادارے میں بہ حسن خوبی محنت اور جدوجہد سے منزلوں کی طرف سفر جاری تھا۔ حالانکہ مشکلات کی جہاں تک بات ہے تو وہ یہاں بھی ساتھ ساتھ رہیں۔ ہر دن سہارنپور سے دیوبند کا سفر کرنا بڑا مشکل اور دشوار کن مرحلہ تھا۔ ہم نے کوشش بھی کی کہ آپ کو یہیں کوئی مکان رہنے کے لیے دلوادیتے ہیں ہر دن اتنے لمبے سفر میں مشکل ہوتی ہوگی۔آخر تمام کوششیں ندارد ہوگئی۔ اور ہر دن دیوبند سے آناجانا برابر جاری رہا۔ اگر کسی کو ولی بستوی کی زندگی کا گہرائی سے ادراک اور مطالعہ کرنا ہے تو وہ آپ کی شاعری اور نثری فن پاروں کی طرف رجوع کریں ۔ان کی شاعری میں ان کی پوری ز ندگی کی جلوہ گیری اور کرب زدہ حالات کی آنچ پوری شدت اور بانکپن کے ساتھ موجود ہے۔آپ کی شاعری کی یہی وہ امتیازی شان اور انفرادیت ہے کہ غم جاناں سے زیادہ وہ غم دوراں کا عنوان سے لیس ہے۔ ہر ہر شعر میں زندگی کے کرب زدہ حالات کی تپش کا جس شدت سے احساس ہے اس سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ یہ شخص زندگی کے نشیب و فراز کی داستان کو جگر کے لہو سے تجسیم کس طرح عنایت کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری جذبات اور احساسات کے ملے جلے سنگم کا نام ہے۔ بستوی صاحب لفظیات کے ڈکشن سے خوبصورتی کے ساتھ لفظوں کو پھول اور جملوں کو گلدستہ بنانے کے ہنر سے بھی بہ خوبی واقف تھے۔ ساتھ ہی پھول کی پتی سے ہیرےکا جگر کاٹنے کا ہنر بھی ان کی شاعری میں جا بجا مل جائیگا۔یقیناوہ ایک شاعر طلسم ہیں جو آنافاناََ میں لفظوں کا تاج بناکر تیار کردیتے کا ہنر رکھتے تھے۔ ان کے تخلیقی فن پاروں کی عظمت کو جہاں ان کی شاعری سے وقار اور اعتبار حاصل ہوا۔ وہیں آپ کا نثری بیانیہ بھی قاری کو سکون اور راحت عطاء کرتا ہے۔ سنا گیا ہے ہے کہ آپ کا قلمی سفر نثری شہ پاروں سے ہی شروع ہوا تھا۔ اور نثر ہی ابتداء میں آپ کی توجہ اور تخلیق کا عنوان تھی۔ اور پھر آپ کی نثر کو عظیم تخلیق کاروں کی محبوبیت اور پسندیدگی حاصل تھی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ولی بستوی کے اس سفر میں بہت سے لوگ ستون اور سائےکی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہے اوران کی غیر معمولی عنایتوں اور شفقتوں سے انہیں آگے بھی بڑھنے کے خوب مواقع میسر آئے۔ ایسے لوگ ہمیشہ یاد رکھیں جاتے ہیں جو گرتے ہوئے کو تھام لیں اور ٹوٹتے ہوئے کو جوڑ دیں۔ اور بھٹکے ہوئے راہی کو صاحب منزل بنادیں ان لوگوں کو ہی بنیاد کا پتھر کہا جاتا ہے۔ اس بنیاد کے پتھر کی حیثیت سے ولی بستوی کی زندگی میں جہاں بہت سے لوگ شامل ہیں ان میں حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ صاحب نقشبندی مدیر جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب ناظم اعلیٰ اور مفتی ساجد صاحب کھجناوری مدیر صدائے حق گنگو ہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ ولی بستوی کے اس سفر میں بہت سے لوگ ستون اور سائےکی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہے اوران کی غیر معمولی عنایتوں اور شفقتوں سے انہیں آگے بھی بڑھنے کا خوب موقع ملا۔لاریب ایسے لوگ ہمیشہ خوب یاد رکھیں جاتے ہیں۔ احسان اور ہمدردی کی اصطلاح میں ان لوگوں کو ہی بنیاد کا پتھر کہا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×