شخصیات

عظیم سلف کے عظیم خلف!

تقدیر تمام تر تدابیر پر غالب آئی، کشتی وہیں غرقاب ہوئی جہاں سے ساحل تک پہونچنے کی کوئی راہ نہیں ملتی اور حضرت مفتی سعید صاحب کو دارالبقاء کی طرف لے گئی،ملت اسلامیہ ہند کے واسطے اپنی کرنوں کے ساتھ جو چراغ ٹمٹما رہا تھا اور سالوں سے اپنے نحیف و نزار جسم کے ساتھ بیماری کے تیز و تند جھونکوں سے لڑ رہا تھا آج اس کی ہمت ٹوٹ گئی اور مفتی صاحب کو عقبی کی راہ کا راہی بنادیا۔۔۔۔

مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی مسند صدارت پر بیٹھا ہوا ہمہ جہت عالم دین آج ملت اسلامیہ کو روتا چھوڑ کر دنیا کے جھمیلوں سے آزاد ہوگیا،برصغیر میں مسند حدیث کا سب سے بڑا محدث آج محفل حدیث کو نوحہ کناں کرگیا۔۔۔اکابر کے ورثے کا محافظ،چمنسان قاسمیت کا باغباں اور ذوق قاسمیت و رشیدیت کا مداح آج اس دنیا کو چھوڑ کر اس جہاں کا راہی بن گیا جہاں سے لوٹنا ناممکن ہے۔۔۔
اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
اس بار درد ہجر کی شدت عجیب تھی!
اس دور آخر میں حضرت مفتی صاحب جیسے عالم باعمل،نکتہ داں محدث،دیدہ ور فقیہ،حقائق آشنا مفسر اور نبض آشنائے منطق و فلسفہ کی نظیر کم ہی ملے گی،بل کی صحیح یہ ہے کہ وہ بے مثال تھے،عالم اسلام میں علامہءکبیر،محدث جلیل،مفکردور اندیش،مفتئ باخبر اور قاضئ بصیرت کی کوئی کمی نہیں ؛ البتہ ایسے انسانوں کی بیشک کمی ہے جو اپنے علمی و عملی منصب کے معیار پر سیرت و کردار اور عمل و اخلاق کے ساتھ پورے اترتے ہوں۔وسیع العلمی،سلاست قلمی اور دقیق ا لنظری کے ساتھ بہت سارا پیہم اور مضبوط عمل یہی وہ امتیاز ہے جو مفتی صاحب کو اپنے بہت سے اقران سے جدا کرتا ہے۔
علم کے اعتبار سے وہ صرف ایک دو فنوں کے غواص نہیں تھے؛بلکہ سلف صالحین اور علمائے متقدمین کی طرح بہت سے علوم کے شناور تھے،تفسیر و تاریخ حدیث و فقہ اور اصول فقہ کے ساتھ ساتھ وہ منطق و فلسفہ کے بھی صاحب نظر عالم اور ماہر مصنف تھے۔وہ عالم اسلام میں ہزاروں علماء عصر کے دلوں کی دھڑکن تھے،وہ دنیائے علم کا ایک تاب ناک ترین ستارہ اور حلقہ فقہاء و محدثین و علماء و زاہدین کا گوہر شب تاب تھے۔۔
قندیل ماہ و مہر کا افلاک پہ ہونا
کچھ اس سے زیادہ ہے میرا خاک پہ ہونا

وہ شب بیدار اہل دل اور خوش اوقات عالم دین تھے،تہجدگزاری اور آہ سحرگاہی محبوب مشغلہ تھا "فارس بالنہار اور راہب باللیل”کا حقیقی پرتو تھے۔ ان کے درس میں ذہانت بجلی بن کر دوڑتی تھی،وہ صرف لفظ علم کے پجاری نہ تھے ؛ بل کہ علم و عمل دونوں کے شہسوار تھے۔۔ایک ایسا عالم دین جس کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا،جس کا ظاہر و باطن دو رنگا نہیں تھا۔اللہ نے آپ کو دلوں پر اثر کرنے والی شخصیت۔بے پناہ علم و آگہی اور گہرے مشاہدے سے نوازا تھا۔آنکھوں میں دلوں تک پہونچنے والی روشنی اور مصافحے میں قرون اولی کے مجاہدوں کی گرمی ملتی تھی۔۔۔
ان کے درس کی مقبولیت کے بےپناہ اسباب تھے،ان کا علم بے پناہ تھا۔عمل بے ریا تھا۔اخلاص ان کی شخصیت کی کلید تھی،حلم و کرم سے ان کا خمیر اٹھاتھا، ان کی یاد داشت کا سرمایہ حیرت انگیز خزانہ تھا،ان کی ذہانت بڑی اخاذ تھی۔خدائے قادر و وہاب نے عظمت و عبقریت اور کمال و یکتائی کے بہت سے عناصر جمع کردیے تھے۔یعنی آپ کی ہستی اس قدر دلپذیر تھی جو آپ کی شکل میں پائی گئی اور آپ پر ختم ہوگئی۔اب چراغ روم اور رخ زیبا کی لے کر بھی ڈھونڈیں تو ایسی شخصیت نہ مل سکے گی۔آہ! اسلاف کی امانتوں کا آخری پاسبان کہاں غائب ہوگیا!

بسیار خوباں دیدہ ام؛لیکن تو چیزے دیگری!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×