سلطان الاولیاء حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ
اسلام دشمن عناصر کی جانب سے ہر دم اسلام کے حوالے سے دریدہ دہنی کی جاتی ہے ، اسلام کی مصفی ومجلی تعلیمات اور اس کے صاف وشفا ف چہرے پر نعوذ باللہ شبہات واعتراض کئے جاتے ہیں، اسلام کی عظیم ہستیوں پر کیچڑ اچھال کر اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے کی تگ ودو کی جاتی ہے ، مزید اس کے ذریعہ اسلام اوراسلام سے وابستہ شخصیات کی شبیہ اور ان کی اوصاف حمیدہ ، خصائل مجیدہ دیگر لوگو ں کے سامنے واضح ہوجاتے ہیں، جس سے اسلامی تعلیمات اور اسلام کے نظام اخلاق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، جس طرح حضرت خواجہ معین چشتی رحمہ اللہ پر ایک ٹی وی اینگر نے اپنی بدزبانی کا ثبوت دیا، حالانکہ حضرت خواجہ معین چشتی رحمہ اللہ کی سوانح حیات اوران کی زندگی کے تمام گوشے اور پہلو امت مسلمہ کے سامنے واضح اور بین ہیں ۔ان کی اخلاقی تعلیمات سے متاثر ہو کر بہت سارے برادران وطن نے قبول اسلام کیااور حظیرہ اسلام میں داخل ہوگئے ، جو بات کہ زبان زدعام وخاص ہے ، لیکن چند حضرات اپنی متنازعہ شخصیت کو صرف ایسے لوگوں کے حوالے سے دریدہ دہنی کر کے اپنی شہرت کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ :
کیا بدنام ہوں گے کیا نام نہ ہوگا؟
بلکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جسکے حق ہونے کی گواہی ارض وسماء کے مالک اور کل جہاں کے خالق نے دی ہے، جسکی تبلیغ کیلئے تمام مخلوقات میں سب سے افضل واعلی ہستی کو منتخب کیا ہے ،اس مذہب کی بے شمار خصوصیات ہیں ،جن پر درجنوں کتب ورسائل موجود ہیں ، سب سے اہم اور بنیادی خصوصیت یہ ہیکہ یہ مذہب فطرت انسانی کے جذبات سے ہم آہنگ ہے، تھوڑا غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ جو بات فطرت کے متقاضی ہے وہی حکم اسلام کا ہے ،منجملہ دیگر خصوصیات کے ایک خصوصیت اس مذہب کی یہ ہے کہ اسکے یہاں فن اسماء الرجال نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اسکی با قاعدہ تعلیم دی جاتی ہے ،بے شمار شخصیات کی سوانح حیات پر مشتمل کتابیں آج بھی بحفاظت موجود ہیں ،عربی ، اردو، فارسی، اور مختلف زبانو ں میں موجود ہیں ،اسلامی تاریخ کی کوئی نامور شخصیت ہو اور انکی سوانح موجود نہ ہو ممکن نہیں،بہرحال اسی سلسلہ کی ایک مختصر تحریر سلطان الاولیاء امام الاتقیاء حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی سوانح حیات پر مشتمل ہے، آپ بڑے متقی ،پرہیزگارخوش مزاج ،خوش گو تھے، آپؒکی طبیعت میں سادگی اور ملنساری تھی ، آپؒ کی فطرت میںبلند ہمتی اور عالی حوصلگی تھی ، آپؒ سچے عاشق رسول ﷺ اور متبع سنت تھے ، پابند شرع رہنا طبیعت ثانی تھی، حسن سلوک اور اخلاق کریمانہ کے نہ صرف مسلمان بلکہ اغیار بھی آپؒ کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان تھے، ایسی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنا انکے متعلق نازیبا اور گھٹیا الفاظ استعمال کرنا ، در اصل خلاقی پستی ،کج ذہنی اور مردہ دلی کی زندہ مثال ہے۔
ولادت حسب نسب ار خاندان:
امام الاتقیاء حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی ولادت ووصال نیز جائے ولادت بھی مبہم اور مشکوک ہیں ، تاریخ نہیںالبتہ سن ولادت کے متعلق دو قول ہیں ، معین العارفین نے۵۳۰ھ فرض کیا، جبکہ مولانا شرر لکھنویؒ اور دیگر حضرات نے ۵۳۶ھ لکھا ، اسی طرح سن وصال کے متعلق بھی دو رائے ہیں ، بعض نے ۶۲۷ھ سے ۶۳۴ھ کے درمیان سال وصال مانا ہے ، اور کچھ حضرات سیر الاقطاب وغیرہ نے ۶۳۳ھ کو سال وصال تسلیم کیا ہے ، اس لحاظ سے کل مدت عمر کا اندازہ قطعی طور پر لگانا مشکل ہوگیا ہے،مدت عمر کے متعلق بھی مختلف اقوال مذکور ہیں ، ۹۷،۹۸،۹۹، اور۱۰۰ سال مدت حیات مفروض کئے ہیں ، مگر سوانح نگار نے اسمائے حسنیٰ کے عدد کو ملحوظ رکھ کر نناوے مانا ہے ، اس اعتبار سے آپؒ کی حیات عارضی نناوے برس رہی ہے سوانح نگار نے ۶۳۳ھ کو سال وصال مان کر ۵۳۴ھ کوسال ولادت لکھا ، اب رہی بات جائے ولادت کی تو اسمیں بھی مختلف اقوال ہیں لیکن متفقہ قول کے مطابق سنجر نامی گاوں صوبہ سیستان فیصل ہے ااور اسی پر اجماع ہے۔(سوانح خواجہ معین الدین چشتیؒ)
حسب نسب۔ حضرت والاؒحسب نسب کے اعتبار سے بلاشک واختلاف مستند ومتفق حسنی وحسینی سادات ہیں ، والد بزرگوار کی طرف سے حسنی اور والدہ ماجدہ کی نسبت حسینی ہیں۔
خاندان۔
نام۔ خواجہ معین الدین حسن ؒ
والد گرامی۔سید غیاث الدین حسن ؒ نام تھا ، آپؒ دنیوی اور اخروی نعمتوں سے مالا مال تھے ، صاحب ثروت اور بااثر لو گوں میں آپؒ کا شمار ہوتا تھا ، اس کے ساتھ ساتھ متقی اور پرہیز گار بھی تھے۔
والدہ محترمہ۔ سیدہ ام الورع بی بی ماہ نور نام تھا ،وہ بھی بڑی باہمت اور زاہدہ خاتون تھیں ۔آپؒ کے دو بھائی اور ایک یا دو بہنیں تھیں ۔
بچپن۔ یہ قدرتی دستور ھیکہ خدائے ذوالجلال کو جس سے جس قدر احیائے دین اور اشاعت اسلام کا کام لیناہے، اسی قدر احوال وکوائف مختلف طرق سے اس بندہ پر لاتے ہیں ، بے شمار نظیریں اور دلیلیں اس پر موجود ہیں ،خود آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی اسکے لئے شاہد عدل ہے ، یہی کچھ حضرت والاؒ کے ساتھ ہوا ابتدائی تعلیم والدین کی نگرانی میںہوئی ابھی چار پانچ برس ہی ہوئے تھے آفات ارضی وسماوی آپؒ کی تعلیم میں رخنہ انداز ہوئیں، وقت کی حکومتوں نے سیستان جو آپؒ کا علاقہ تھا اسپرحملہ کیا اور پے در پے کیا جس سے معمولات زندگی زیر وزبر ہوگئے دریں اثناء تین چار سال؎ بیت گئے ، آپ ؒ کی عمردس برس ہوئی علاقہ کے کچھ حالات سازگار ہوئے تو مدرسہ نیشاپور میں داخلہ کروایا گیا، چار پانچ سال گذرے ہی تھے دوبارہ صوبہ سیستان ک احوال ناموافق ہوگئے اور اس قدر مظالم ڈھائے گئے گویا کہ مقتل بن گیا ۔ محافظ حقیقی آپؒ کی بھر پور حفاظت فرمائی اور بحفاظت اپنے والد کے یہاں جو اسوقت بغداد میں تھے پہنچ گئے ، ان حالات سے آپؒ کے دماغ پر جو اثر ہو اوہ قرین قیاس ہے۔ ابھی ان حالات سے سنبھل ہی نہ پائے تھے کہ والد ؒ کی حیات عارضی تمام ہوئی اور وہ مالک حقیقی سے جاملے اسوقت آپؒ کی عمر مبارک پندرہ برس تھی اندریںحالات سے تعلیمی سلسلہ عرصہ سے منقطع رہا ، خانگی ذمہ داریاںسر پر آگئیں ، معاشی مسائل کھڑے ہوگئے ، ابھی عشق کے امتحان اور باقی تھے ، ایک سال بعد والدہ ماجدہ بھی آپؒ سے جدا ہوگئیں ، ورثہ میں ایک پن چکی اور ایک باغ نصیب ہوا ، اب کچھ اور مشغلہ سوائے باغبانی کہ نہ رہا ، والدین کی محبتیں اور سابقہ یادیں آپؒ کے اندروں کو رلادیتی تھیں ، مگر یہ سب ایک طئے شدہ نظام کے رفتہ تھیں،یہ حالات واثرات خدائے ذوالجلال سے تعلقات میں مضبوطی کا باعث تھیں ، اور یہ حالات بمشکل دو تین برس ہمنوا تھے۔
جوانی ۔ اب آپؒ کی عمر اٹھارہ برس ہوگئی ، ایک دفعہ آپؒ اپنے باغ میں درخت وغیرہ کو پانی سے سیراب کررہے تھے ، ایک مجذوب الحال بزرگ ابراھیم قندوزی ؒ باغ میں داخل ہوئے ، جوں ہی ان بزرگ پر خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی نظر پڑی فورا حاضر خدمت ہوئے اور سلام عرض کیا حال احوال دریافت کرنے لگے ،ابراھیم قندوزی ؒ کی کچھ دیر کی گفتگو سے آپؒ کے دل مضطر کا کچھ سامان تسکین ہوا آہستہ آہستہ حزن وملال کے بادل ہٹنا شروع ہوئے ، اور اضطراب کی جگہ اطمینان نے لی تو مجذوب مہمان کی پھل وغیرہ سے تواضع فرمائی ، وہ بھی صاحب دل بزرگ تھے اپنی جیب سے روٹی یا کھلی کا ایک ٹکڑا نکالا اور میزبان کے منھ میں رکھدیا ، جوں ہی وہ حلق سے نیچے اترا دل کی دنیا بدل گئی اور ظاہری باطنی ترقیات کی ازسر نو بنیاد پڑی ، راہ عشق میں حائل تمام موانعات سے ایک دم فرصت ملی ، اپنے باغ اور چکی کو راہ خدا میں وقف فرماکر سمرقند وبخارا کا رخ کیا جو اپنے وقت کے مراکز علوم وفنون تھے۔
علوم ظاہری کیلئے کوشاں۔ سمرقند وبخارااسلامی دنیا کے مرکز علم وفن رہے ہیں ، جہاں جبال علم اور اساطین امت کا قیام رہا ہے ، چناچہ شوق وطلب نے حضرت اجمیریؒ کو انہی جگہوں کا رخ کرنے پر آمادہ کیا ، اور وقت کی نابغہ روزگار شخصیات شیخ حسام الدین ؒ اور صاحب شرع الاسلام مولانا اشرف الدین ؒ کے سامنے زانوئے تلمذ طئے کیا ، جب یہاں علوم ظاہری سے بہرور ہوگئے اور جملہ علوم دینی وعقلی سے سند یافتہ ہوگئے تو علوم باطنی کیلئے مرشد کامل کی تلاش ہوئی۔
علوم باطنی کی جستجو۔معرفت حق کی چٹکلی تو والکدین نے بچپن ہی میں پلادی تھی ،اب دوبارہ اسکی احیاء کی خاطر حضرت اجمیری ؒ کسی مرشد کامل کی تلاش میں سرگرداں نکلے اس زمانہ میں حضرت خواجہ عثمان ہرونی ؒ ممتاز صوفی کامل اور مشہور صاحب نسبت بزرگ تھے ، ان کی خدمت میں حاضری کو سعادت ایزدی سمجھی ،قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید جیسے ہی خواجہ عثمان ہرونی ؒ کی نظر آپؒ پر پڑی فورا یہ کہا یہ شخص مقتدائے زمانہ ہوگا اور چشم فلک نے دیکھا کہ یہ پیشن گوئی پوری حر ف بحرف صادق ہوئی، آپؒ عثمان ہرونی ؒ کی خدمت میں تقریبا بیس برس رہے سرد وگرم ہر موسم اور سفر وحضر ہر موقع پر اپنے پیر ومرشدؒ کے ساتھ رہ کر مدارج سلوک طئے کیا اور طویل مدت بعد خلعت خلافت سے سرفراز کئے گئے ۔ اسوقت آپؒ کی عمر چوبیس سال تھی۔ (سوانح حضرت معین الدین چشتیؒ )
آپؒ کے اخلاق کریمانہ ۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اشاعت اسلام میں حسن سلوک واخلاق کا جتنا کردار رہا ہے واقعہ یہ ہے کہ تیر وتلوار کا نہیں رہاہے ، نبی آخر الزماں ﷺ کی زندگی ، آپﷺ کی تعلیمات حسن اخلاق سے پر ُ ہیں ، ارشاد مبارکہ ہے کہ بعثت لاتمم حسن الاخلاق(رواہ فی الموطاء ورواہ احمد بحوالہ کتاب الاخلاق معارف الحدیث) حضرت اجمیری ؒ جہاں دیگر اعمال وافعال میں متبع سنت اور پابند شریعت تھے وہیں اخلاق وکردار کے باب میں اخلاق نبوی ﷺکے آئینہ دار تھے،ایک روز خنجر بردار آپؒ کے حجرہ مبارکہ میں گھس آیا آپؒ اسے دیکھ کر اپنے برابر بٹھالیا اور چپکے سے اس سے کہا موقع غنیمت ہے کام کر ڈالو ، وہ انتہائی شرمندہ ہوا اور اپنا خنجر نکال کر رکھدیا اقبال جرم کرتے ہوئے اصرار کیا اس سے میرا کام تمام کردیجئے ، آپؒ نے فرمایا انتقام لینا ہمارا شیوہ نہیں اور تم سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا ، اسی پر اکتفاء نہیں کیا اسے بہت ساری دعاوں سے نوازا ، آخر کار وہ جو دشمن کا بن کر آیا تھا عقیدتمندوں میں شامل ہوگیا اور تمام عمر آپؒ کی خدمت میں رہا تاآنکہ حج بیت اللہ جاکر وہیں سپر دخاک ہوگیا۔ ( سوانح حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ )
در حقیقت یہ ان اللہ والوں کی وسعت ظرفی اور خلق خدا سے دلی ہمدردی کا ثبوت ہے، جس نے اپنے جانی دشمن سے بھی عفو درگزر کا برتاو کیا ، آپؒ میں تواضع بھی حد درجہ تھا ہمسائیوں سے ایسا سلوک فرماتے جیسا اپنے گھر والوں سے ، جب کسی کا جنازہ دیکھتے تو اسکے ہمراہ جاتے اور تدفین کے بعد سب سے آخر میں تشریف لاتے ۔یہی وہ اوصاف حمیدہ ہیں جسکی بناء پر آپؒ کے پیر ومرشد فرمایا کرتے تھے معین الدین خدا کا محبوب ہے اور مجھے اسکی مرید ی پر فخر ہے (سیر العارفین)
یہ حضرت خواجہ معین چشتی رحمہ اللہ کی حیات واخلاق حسنہ پر مشتمل وہ خاکہ ہے جس میں آپ کی حیات مبارکہ کی تصویر واضح اور بے غبار نظر آتی ہے ۔