حیدرآباد و اطراف

بابری مسجد انہدام کیس کے ملزمین کی برأت عدلیہ پر سوالیہ نشان!

حیدرآباد: یکم؍اکتوبر (پریس ریلیز)مفتی محمد عامر قاسمی صدر تحفظ شریعت ٹرسٹ نے اپنے صحافتی بیان میں کہا کہ بابری مسجد انہدام کیس کے تمام ملزمین کےحوالے سے خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو کا اپنے فیصلے میں یہ کہنا کہ” 28 برس قبل بابری مسجد کا انہدام کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا اس لیے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے”انصاف کا خون اور عدلیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔مفتی صاحب نے کہا کہ تاریخی واقعات کی روشنی میں ایودھیا کی بابری مسجد کے حوالے سے دو مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے۔ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نومبر سناتے ہوئے یہ کہا کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد تھی وہ مندر کی زمین تھی۔ اسی مقام پر دو مہینے قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک پُرشکوہ تقریب میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔دوسرا مقدمہ بابری مسجد کے انہدام کا ہے۔ چھ دسمبر 1992 کو ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد دو مقدمے درج کیے گئے تھے۔ایک مقدمہ مسجد پر یلغار کرنے والے ہزاروں نامعلوم ہندو رضاکاروں کے خلاف درج ہوا تھا اور دوسرا مقدمہ انہدام کی سازش کے بارے میں تھا۔ اس مقدمے میں ایل کے اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا اور وشو ہندو پریشد کے کئی رہنما شامل تھے۔ابتدائی طور پر 48 لوگوں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی؛مگر تین عشروں سے جاری اس کیس کی سماعت کے دوران 16 ملزمان اپنے انجام کو پہونچ چکے ہیں۔اس طویل انتظار کے بعد حال ہی میں تمام ملزمین کی براءت کاجو ناقابل یقین فیصلہ آیا ہے وہ ملک کے جمہوری نظام پر بدنما داغ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×