شخصیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

مولانا ابوالکلام آزادؔ؛ ایک ہمہ پہلو شخصیت

انیسویں صدی کے اواخر اوربیسویں صدی کے اوئل میں ملت اسلامیہ کا دست وبازو بن کر ابھرنے والی،امت کو اپنی بصیرت افروز،دوربیں اور دانشمندانہ فکروں سے شعوروآگہی بخشنے والی اورہندوستان کےدینی علمی اور سیاسی افق کو روشن و تاباں کرنے والی ہشت پہل شخصیات میں سرفہرست کوئی نام نظر آئے گا تو وہ جلی حرفوں میں"مولانا ابوالکلام آزادؔ "ہوگا؛جس نابغۂ روزگارنے اپنی دینی غیرت ،ایمانی حمیت اور سیاسی بصیرت سے نہ صرف کشتئ ملت کومنجھدار سے نکالا؛بل کہ مستقبل کے لیے وہ روشن خطوط وزریں اصول عنایت کیے جو آج بھی لاقانونیت کے اس دور میں مشعل راہ اور خضر طریق ہیں۔

آپ کی ذات،علم و ہنر،سنجیدگیٔ فکرونظر، اخلاص و سادگی،احسان و بےلوثی ،نبض شناسی و دوراندیشی اور خشیّت وطاعت جیسی صفاتِ عالیہ کا مرقع تھی۔ بلاشبہ اِن تمام اوصافِ حمیدہ کے مجموعے نے اُنہیں بیسویں صدی کے احیائے اسلام کے معماروں میں ایک منفرد مقام پر فائز کر دیاتھا۔انہوں نےقلم کوجنبش دی تو غبار خاطر اور تذکرہ جیسی شاہکارکتابیں تراوش فکر کی بلندیوں کا نمونہ بنیں، میدان ِصحافت میں قدم رکھا تو بڑے بڑے صحافی اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے نظر آئے، استخلاص وطن کی تحریک چلائی تو جوش بیان و ولولۂ خطابت سےایک عالم کو مسحورکردیا،دینی علوم کی غواصی کی تو تفسیر قرآن میں ایسے موتی دریافت کیے جو اہل فکر ونظرکے لیےسرمۂ بصیرت ثابت ہوئے۔

مختصر یہ کہ مولانا ، ایک نامور عالم،حوصلہ مندمجاہد ،صاحب طرز انشاءپرداز، بلندپایہ مصنف،سحر انگیز خطیب،قادرالکلام شاعر،اور دردمند قوم وملت کی حیثیت سے تاقیامت یادرکھےجائیں گے ۔

مولانا آزادکی حیات اور اُن کی علمی خدمات کے مختلف پہلو ؤں کو قلم بندکرناایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے۔ تاہم زیرِ نظر تحریر میں اختصار کے ساتھ ،مولانا کے سوانحی نقوش،صحافتی خدمات ،سیاسی بصیرت اور انقلابی کارناموں کا تعارف پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔

سوانحی خاکہ :

ابوالکلام محی الدین احمد آزاد : (پیدائش 11 نومبر 1888ء – وفات 22 فروری 1958ء)

مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔

مولانا سیاسی مسلک میں کانگریس کے ہمنوا؛بل کہ رہبر ورہنماء تھے، ان کے دل میں مسلمانوں کا دردکوٹ کوٹ کر بھرہواتھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔ آپ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ 22 فروری 1958ء کودنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔

ناقابلِ فراموش صحافتی خدمات :

متعددلکھنے والوں نے لکھا کہ مولانا آزاد کو اُن کی سیاسی مصروفیات نے زیادہ لکھنے کا موقع نہ دیا؛مگر جس قدر بھی اُنہوں نے لکھا عمدہ لکھا اور ادب میں خاص مقام حاصل کیا۔ کہاجاتاہے کہ وہ رومانوی طرز تحریر کے حامل تھے؛مگر اُن کے ہاں مشرقیت اپنے اعلیٰ اقدار کے ساتھ موجود تھی،مولانا کی ادبی ، سماجی ، تاریخی اور سیاسی تحریریں آج بھی زندہ و پائندہ ہیں اور ایک دنیا ان سے استفادہ کررہی ہے ۔

مولانا نے سب سے پہلا رسالہ ماہ نامہ ’’نیرنگِ عالم‘‘ 1899 میں جاری کیا ۔ اس وقت مولانا کی عمر صرف گیارہ برس تھی ۔یہ رسالہ سات ، آٹھ مہینے جاری رہا بعد میں المصباح ، احسن الاخبار ہفت روزہ پیغام ، الجامعہ وغیرہ رسائل میں خدمت انجام دیں ۔ 1909 میں ’’لسان الصدق‘‘ ماہ نامہ رسالہ کا پہلا شمارہ کلکتہ سے شائع ہوا ۔ اس کا اول مقصد اصلاح معاشرت ، دوسرا مقصد ترقی ، تیسرا مقصد علمی ذوق کی اشاعت اور چوتھا مقصد تنقید یعنی اردو تصانیف کا منصفانہ جائزہ لینا ۔ مولانا نے 31 جولائی 1906 ء کو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا ۔ اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا ۔ الہلال مسلمانوں کی ملی غیرت ، ایمانی حرارت اورمذہبی حمیت کا بڑا محاذ بن گیا ۔ الہلال میں ادبی ، علمی ، سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ سماجی و تہذیبی مسائل پر اظہار خیال ہوتا ۔ مختصراً یہ کہ الہلال نے اردو صحافت کو نیا راستہ دکھایا ۔ الہلال ہندوستان کا پہلا اخبار تھا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے سیاسی و غیر سیاسی مقاصد کی تکمیل اور اپنے اعمال میں اتباع شریعت کی تلقین کے ساتھ ساتھ ادبی ، علمی ، سیاسی اور تاریخی مضامین بھی شائع ہوتے تھے ۔ حکومت نے الہلال پریس کو ضبط کرلیا تو مولانا نے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا۔ جس میں ادب ، تاریخ، مذہب اور معاشرت کے مسائل بیان کئے جاتے تھے ۔ البلاغ کو مذہبی تبلیغ کا ذریعہ بنایا گیا ۔

رانچی قیام کے زمانے میں ترجمان القرآن ترتیب دیا اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ’الصلوۃ و الزکوۃ‘ اور ’النکاح‘ وغیرہ تصانیف مکمل کی ۔ ان کے علاوہ آپ نے بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے اور کئی ایک ادبی رسالوں کی سرپرستی بھی فرمائی۔

مولانا عبد الماجد دریا آبادی ’ الہلال ‘ کے اسلوب پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں:

’’خدا جانے کتنے نئے اور بھاری بھرکم لغات اور نئی ترکیبیں‘ نئی تشبیہات ،نئے استعارے اورنئے اسلوبِ بیان ہر ہفتہ اس ادبی اور علمی ٹکسال سے ڈھل ڈھل کر باہر نکلنے لگے اور جاذبیت کا یہ عالم تھا کہ نکلتے ہی سکّہ رائج الوقت بن گئے ، حالیؔ و شبلیؔ کی سلاست و سادگی سرپیٹتی رہی، اکبرؔ الٰہ آبادی اور عبدالحق بابائے اردو سب ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے ۔ ‘‘

پروفیسر رشید احمد صدیقی مولانا کے اسلوب بیان کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں :

’’ مولانا کا اسلوبِ تحریر وہ ان کی شخصیت تھی اور ان کی شخصیت ان کا اسلوب دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ، صاحبِ طرز کی ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ مولانا کے لکھنے کاانداز، لب و لہجہ اور مزاج قرآنِ پاک سے لیا ہے جو ان کے مزاج کے مطابق تھا ، وہی اندازِ بیان اور زورِ کلام جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں پر رعشۂ سیماب طاری کردیتا ہے ۔‘‘

حسرت ؔ موہانی اپنی شاعری کو مولانا کی نثر کے سامنے بے حقیقت خیال فرماتے ہیں :

جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر

نظمِ حسرتؔ میں بھی مزہ نہ رہا

شہنشاہ خطابت کی گھن گرج :

آزادئ ہند کی ہماہمی اور تحریک حریت کی گہماگہمی میں صحرائے خطابت کے بے شمارشہسوار دیکھےگئے،نطق و گویائی کےان گنت تاج دار نمودار ہوئے ؛ مگرایک ایسی صدائےدلنواز جس نے دل موہ لئے،جس کا غلغلہ چہار سو سنا گیا،جس کی سماعتوں سے یہ آوازۂ حق ٹکرایا وہ اسی کا ہورہا…….. یہ امتیازات صرف مولانا کو حاصل تھے۔

مولاناآزاد کے فنِ تقریر کے ملکۂ خدا داد اور زورِ خطابت کا زندہ ثبوت ’خطباتِ آزاد‘ ہے ۔ آپ نے جس طرح مختلف مواقع پرخطبات میں اپنے افکارو نظریات پیش کئے ، ان کے مطالعہ سے تقریر میں مہارت وکمال کا اندازہ ہوتا ہے ۔ بلاشبہ خطبات میں کہیں کہیں طنز و تعریض کے تیر و نشتر بھی ملتے ہیں؛ لیکن بہ ایں ہمہ آپ کی زبان و بیان ، طرزِ اظہار اور اندازِ بیان ‘ بالخصوص آپ کی قرآنی تعبیرات ‘ تلمیحات و استعارات‘ اشارات و کنایات اور طرزِ تخاطب کے مختلف پیرایے آپ کی عبقری شخصیت ‘ ذہانت و ذکاوت ‘ فراست و فطانت ‘ کے مختلف پہلوؤں کو طشت ازبام کرتے ہیں ۔

آپ نے تقسیم ہند کو روکنے کے لئے اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعہ اپنے کرب اور اپنی آواز کو ہر ہندوستانی تک پہنچانے کی کوشش کی ۔ خاص طور پر وہ مُسلمان جو پاکستان کے قیام کے حامی تھے اور ہجرت کے لئے تیار ہوگئے تھے اُن کو بہت آمادہ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ تم نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے عظیم قربانیاں دیں ۔ اپنے ملک ہندوستان کو چھوڑ کر مت جاؤ یہ ملک تمہارا ہے ، اسکی آزادی اور ترقی میں تمہاری حصہ داری ہے ۔انھوں نے ایک موقع پر دہلی کی شاہی مسجد میں اپنے خطاب کے دوران اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :

‘‘آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اُتر آئے اور قُطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کردے کہ سوو راج (آزادي)24 گھنٹے کے اندر مِل سکتا ہے ، بشرطیکہ ہندستان ہندو مُسلم اتحاد سے دستبردار ہو جائے ، تو میں سوو راج سے دستبردار ہو جاؤں گا مگر آپسی اتحاد سے دستبردار نہ ہو ں گا ۔ کیونکہ اگر سو و راج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصا ن ہوگا ، لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم ِ انسانیت کا نقصان ہے ۔ ‘‘

گہری سیاسی بصیرت :

مولانا کی عملی زندگی کا آغاز1904سے ہوا ۔ 1923، 1930 اور 1939میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے قائم مقام صدر مقرر کیے گئے۔ بیس برس کی عمر میں آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے، قید و بند کا سلسلہ رانچی بہار سے شروع ہوااور قلعہ احمد نگر میں 1945میں ختم ہوا۔ کل 68برس اور سات ماہ۔ اس میں 9برس اور 8ماہ انگریز کی قید کاٹی۔ گویا عمر عزیز کا ہر ساتواں روز جیل میں کٹا۔اب جسے مولانا ابو الکلام آزاد کی سیاسی بصیرت میں شک ہو وہ غیر جانب داری کے ساتھ ملک کی تاریخ کامطالعہ کرلے کہ اس وقت ملک کے حالات کیا تھے ؟کس دباوٴ کا سامنا تھا؟مسلمانوں کی کیفیت کیا تھی؟

اپنی ایک تقریر میں مولانا نے یوں اظہار خیال فرمایاہے:

"میں مسلمان ہوں اورفخرکےساتھ محسوس کرتاہوں کے میں مسلمان ہوں!اسلام کی تیرہ سوسال کی شاندارروایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں،میں تیار نہیں کہ اس کاچھوٹے سےچھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں،اسلام کی تعلیم،اسلام کی تاریخ،اسلام کےعلوم وفنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کاسرمایہ ہےاورمیرافرض ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں.بحثیت مسلمان ہونےکے میں مذہب اورکلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتاہوں اورمیں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے؛لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور بھی احساس رکھتاہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نےپیداکیا،اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی،وہ اس راہ میں میری راہنمائی کرتی ہے،میں فخر کےساتھ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں،میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا عنصرہوں،میں اس متحدہ قومیت کاایک اہم عنصرہوں؛جس کے بغیراس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتاہے،میں اس کی تکوین کا ایک ناگزیر عامل ہوں میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا….(خطبہ رام گڑھ سے مقتبس)

مولانا محض ایک فرد نہیں تھے ؛بل کہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، ملت کا درد اُن کے سینے میں پنہاں تھا ، وہ سچے مُحب وطن ، مُسلم قوم پرست اور جدوجہد آزادی کے علم بردار تھے ،انہوں نے سیکولر ہندستان کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ، آزادی کے حصول کے لئے قومی یکجہتی کے اصول کو فروغ دیا ، مولانا نے ہندو مُسلم اتحاد ، مشترکہ تہذیب اور متحدہ قومیت کی حفاظت کو ہمیشہ اولین ترجیح دی ۔

مولانا کی سیاسی بصیرت پر لکھنے والے ایک نامور ادیب نے لکھاکہ :جسے مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت میں شک ہو وہ ’انڈیا ونز فریڈم‘ پر ایک نظر ڈال لے۔ نہرو ہوں یا پٹیل، گاندھی ہوں یا جناح، مولانا کی رائے نپی تلی لیکن کوئی ایک لفظ شرافت سے گرا ہوا نہیں۔ کوئی ایک جملہ نہیں جو توازن اور حقیقت سے خالی ہو۔ سچ پوچھیے تو مولانا نے اس تصنیف میں جسے آزادی ہند کے بنیادی ماخذ میں سرفہرست شمار کیا جاتا ہے، سب سے کڑا احتساب خود اپنی ذات کا کیا ہے۔

 

سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن

تیری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×