شخصیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

حضرت شیخ عبد القادرجیلانی ؒ کی تعلیمات اور ارشادات

اولیاء اللہ میں ایک ممتاز ہستی اور سرخیلِ اولیاء حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی ہیں جن کا گروہِ اولیا ء میں بہت اونچا مرتبہ ہے اور ولایت و تصوف میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔آپ کی پوری زندگی دین و شریعت ،اور اتباع سنت کی حسین تصویر تھی اور بدعات و خرافات کی اندھیریوں میں اور بے دینی و بے راہ روی کے تاریک ماحول میں اصلاح و ہدایت کا ایک روشن مینار ہ تھی ۔
ماہِ ربیع الثانی کو ہمارے معاشرہ میں شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ،کیوں کہ اسی مہینہ کی دس تاریخ کوآپ کی وفات ہوئی چناں چہ دس ربیع الثانی ۵۶۱ھ ؁ میں انتقال فرماگئے۔( سیر اعلام النبلاء :۲۰/۴۵۰)اس مناسبت سے لوگ آپ کا تذکرہ کرتے ہیں اور آپ کی طرف ماہِ ربیع الثانی کی نسبت کرکے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ بہت بڑے ولی بلکہ امام الاولیا ء گزرے ہیں ،آپ کی بزرگی اور ولایت کو شروع سے پوری دنیاتسلیم کرتی آئی ہے اور اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ اصلاح وہدایت کا بڑا کام لیا ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ والوں کی زندگیاں صرف بیان کرنے اور جلسوں میں سنانے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان کی باتوں پر ،ہدایتوں پر اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کے قرب کو حاصل کرنے اور دل کی ویران دنیا کو آباد کرنے اور تعلق مع اللہ کو مضبوط کرنے کے لئے ایک نسخۂ اکسیر ہوتی ہیں ۔لہذا ہمارے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم صرف ان کی حیات کو سننے اور سنانے سے زیادہ اور زبانی محبت وعقیدت کا اظہار کرنے کے بجائے ان کی قیمتی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے بنیں اور جس راہ پر چل کر وہ خدا کے نیک بندے بنے اسی راہ کو اختیار کرنے والے بنیں ۔حضرت جیلانی ؒ نے اپنی تعلیمات اور ارشادات میں انسانوں کو خدااور نبی سے جوڑنے اور دل کی دنیا کو آباد کرنے کی بہت سی باتیں بیان کی ہیں ،خلافِ دین باتوں سے بچنے اور نبی کریم ﷺ کی شریعت میں نئی چیزوں کو ایجاد کرنے اور رسم و رواج کو عام کرنے سے سختی سے منع کیا ہے ۔حضرت شیخ جیلانی ؒ کے مواعظ کے بارے میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں:حضرت شیخ کے مواعظ دلوں پر بجلی کا اثر کرتے تھے ،اور وہ تاثیر آج بھی آپ کے کلام میں موجود ہے ،فتوح الغیب اور الفتح الربانی کے مضامین اور آپ کی مجالس کے وعظ کے الفاظ آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں ،ایک طویل مدت گزرجانے کے بعد بھی ان میں زندگی اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔( تاریخِ دعوت وعزیمت :۱/۲۰۸)تو آئیے ان تعلیمات کاکچھ حصہ ملاحظہ کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالی اس کی برکت سے ہمیں بھی نورِ ایمان سے روشن کرے اور حلاوتِ ایمانی سے مستفید فرمائے۔
مومن کے لئے تین لازمی صفات:
حضرت قطبِ ربانی ؒ فرماتے ہیں کہ :ہرمومن کے لئے تمام احوال میں تین صفات لازمی ہیں۔(۱) پہلی یہ ہے کہ ’’اوامر‘‘یعنی احکامِ خداوندی کی تعمیل کرے۔(۲) دوسری یہ ہے کہ ’’نواہی ‘‘ یعنی محرمات وممنوعات سے بچے۔(۳) اورتیسری یہ ہے کہ مشیتِ الہی اور تقدیر پر راضی رہے۔پس مومن کی ادنی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت ان تین چیزوں سے غافل نہ ہواور اس کا دل ان کے ارادہ و نیت کو لازمی قراردے ،وہ نفس کو ہمیشہ ان کی تلقین کرے اورتمام احوال میں اپنے اعضائے جسم کو ان کا پابند بنائے۔( فتوح الغیب ،مقالہ نمبر۱:۱۱)
توحید کی تعلیمات:
تو حید و تفویض کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:تو اللہ تعالے کے احکام او ر افعال کا احترام کرتے ہوئے اپنی خواہشات و لذات کوفنا کردے ۔اپنی خواہشات سے فنا ہو جانے کی علامت یہ ہے کہ نفع و نقصان ،دفع ضرروشر،اسبابِ دنیوی اور جدوجہد کے تمام معاملات میں اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے ان امور کو کلی طور پر اللہ تعالی کے سپرد کردیا جائے اور قاضی الحاجات سمجھا جائے ،خدا کو مختارِ کل نہ سمجھ کر اپنے نفس پر اعتمادکرلینا ہی شرک ہے ۔صرف اللہ تعالی ہی زمانۂ ماضی میں اپنے ہر بندہ کے امور ومعاملات کا کفیل وذمہ دار رہاہے ۔زمانۂ حال میں بھی وہی کفیل و ذمہ دار ہے اور مستقبل میں بھی وہی رہے گا۔(فتوح الغیب مقالہ نمبر ۶: ۲۱)
اے گمشدگانِ راہ !اس کے طالب بنوجو تم کو دنیا و آخرت کاراستہ بتائے ۔اللہ تم سب پر بالا ہے ۔اے مردہ دل والو!اور اے اسباب کو شریکِ خدا سمجھنے والو!اے اپنی قوت وطاقت اپنی معاش اپنے راس المال کے بتوں کو اپنے شہروں اور جن کے اطراف کی جانب پہنچ رہے ہو ان کے بادشاہوں کو پوجنے والو!یہ سب اللہ عزوجل سے محجوب ہیں ۔ہر وہ شخص جو نفع ونقصان غیر اللہ کی طرف سے سمجھے وہ اللہ کا بندہ نہیں ہے ،وہ اسی کا بندہ ہے جس کی طرف سے نفع و نقصان سمجھا ،پس آج وہ غصہ وحجاب کی آگ میں ہے اور کل کو جہنم کی آگ میں ہوگا ۔اللہ کی آگ سے وہی بچ سکتے ہیں جو پرہیز گار ہوں ،صاحب توحید ،ہوں ،مخلص اور تائب ہوں۔( مواعظ شیخ عبد القاد رجیلانی:۱۴۳)
اتباعِ سنت کی تلقین :
حضرت شیخ جیلانی ؒ کے خطبات اور مواعظ میں کثرت سے اتباعِ سنت کی تلقین موجود ہے ،آپ ؒ لوگوں کو اس طرف بہت زیادہ متوجہ فرمایا کرتے تھے۔چناں چہ آپ کا ارشاد ہے:جو شخص نبی اکرم ﷺ کی پیروی نہیں کرتا ، ایک ہاتھ میں آپ کی شریعت اور دوسرے ہاتھ میں قرآن پاک نہیں تھامتا اس کی رسائی اللہ تعالی کی بارگاہ تک نہیں ہوسکتی ۔وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا،گمراہی اور ضلالت اس کی مقدر ہوگی۔یہ دونوں بارگاہِ الہی تک تیرے راہنما ہیں ۔قرآن پاک تمہیں دربارِ خدا تک اور سنت بارگاہِ مصطفی تک پہنچائے گی۔تم اپنی نسبت اپنے نبی ﷺ کے ساتھ صحیح کرلو،جو صحیح معنوں میں آپ کا پیروکار ہوا اس کی نسبت صحیح ہے ،اتباع کے بغیر تمہارا یہ کہہ دینا مفید نہیں کہ میں حضورکی امت میں سے ہوں ،جب تم اقوال و افعال میں حضورانورﷺ کی اتباع کروگے تو آخرت میں آپ کی صحبت میں ہوگے۔( الفتح الربانی :۳۲)ایک جگہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور اتباع سنت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:پس مسلمان کے لئے توحید اور سنت کی پیروی لازم ہے اور اسی طرح شرک و بدعت سے پرہیز لازم ہے ۔بدعت یہی ہے کہ اپنے پاس سے بے سند چیزیں ایجادکرکے دین وشریعت سے منسوب کردی جائیں اور ان کی پیروی کو اسلام کی پیروی سمجھاجائے جیسا کہ اللہ تعالی نے ایک قوم کے متعلق فرمایا : ان لوگوں نے رہبانیت کا ایک طریق ایجاد کرکے اسے اپنے لئے لازم سمجھا ،حالاں کہ رہبانیت یعنی گوشہ گیری اور دنیا کی جائز وحلال نعمتوں کا استعمال ترک کردینا ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا اور نہ اس کا حکم دیا تھا۔اس لئے ہر وہ عقید ہ یا عمل جس کی کتب سماوی اور شریعت میں کوئی سند نہ ہو بدعت ہے ۔اختراع نفس ہے اور اس کی پیروی عین گمراہی ہے ۔راہ ِ سنت سے انحراف ہونا ہے ۔بدعت سنت کی ضد ہے اور سنت آں حضرت ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا وہ دستور عمل ہے جسے اسوہ حسنہ کہا۔۔۔پس اللہ تعالی نے متعدد آیات میں واضح طور پر فرمایاکہ اللہ کی محبت وحمایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ رسول اللہ ﷺ کے قول وفعل کا مکمل اتباع ہے اور اس کا خلاف بدعت وگمراہی ہے۔میں تمام مسلمانوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنے اعمال وعقائد کی صحت وقبولیت کے لئے صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا اتباع کریں ورنہ تباہ وبرباد ہوجائیں گے ۔( فتوح الغیب :۱۰۲)
توبہ اور تقوی اختیارکرنے کی تعلیم:
گناہوں سے توبہ کرتے رہنا اور تقوی کے راستہ کو اختیا رکرنے کی تعلیم دیتے ہوئے شیخ جیلانی ؒ فرماتے ہیں:صاحبو!تقوی چھوڑکربیٹھنے سے توبہ کرو،تقوی دواہے اور اس کا چھوڑنا مرض ہے،توبہ کروکہ توبہ دواہے اور گناہ مرض ہے ،جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہؓ سے فرمایا :کیا تم کو نہ بتاؤں کہ کیا چیز تمہاری دواہے اور کیا چیز تمہارا مرض ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ ہاں حضرت (ضروربتائیے)تب آپﷺ نے فرمایاکہ :تمہارامرض توگناہ ہیں اور ان کی دوا توبہ ہے ،گناہ ایمان کو بیمار( ضعیف ) بنادیتے ہیں اور ذکر خیر اورطاعتِ حق پرمداومت رکھنا ان کے لئے شفا ہے۔بزبان ایمان سچی توبہ کروکہ یقیناًفلاح نصیب ہوگی ۔( مواعظِ حضرت عبد القادر جیلانی:۱۵۸)
بدعت سے اجتناب کی ترغیب:
حضرت شیخ جیلانی ؒ بڑے درد اور تڑپ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ:اے قوم!اسلام رورہا ہے ان فاسقوں ،فاجروں ،مبتدعین ،گمراہوں ،جھوٹ کا لباس پہننے والے ظالموں اور جھوٹے دعویداروں سے سرپر ہاتھ رکھ کر پناہ مانگ رہا ہے اور فریاد کررہا ہے کہ ان لوگوں کو دیکھو جو تم سے پہلے گزرگئے اور جو تمہارے ساتھ تھے ،امر ونہی کے ساتھ حکم چلاتے تھے،کھاتے پیتے تھے ،اب حالت یہ ہے کہ گویا کبھی موجود ہی نہیں تھے۔۔دینِ محمدﷺ کی دیواریں گررہی ہیں ،بنیاد بکھر رہی رہے ،اے زمین کے باسیو!آؤ جو منہدم ہوچکا ہے اسے مضبوط کریں اور جو کرچکا ہے اسے بحال کریں۔( الفتح الربانی :۲۸)
آخری بات:
حضرت شیخ جیلانی قطب ربانی ؒ کی تعلیمات نہایت ہی سبق آموز اور ایمان و عمل کے لئے کیمیا اثر ہیں ۔اللہ تعالی نے دین کے مختلف موضوعات پر آپ سے کہلوایا ۔آپ کے تمام مواعظ وخطبات ،تعلیمات وارشادات نہایت فکر انگیز ہیں ۔ضرورت ہے کہ ان کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایاجائے اور حقیقی تعلق اور محبت کے تقاضو ں کو پورا کیا جائے۔بالخصوص توحید و سنت سے متعلق آپ نے جو بیش بہا ارشادات سے رہبری فرمائی ہے اس سے استفادہ کیا جائے تاکہ آپ کا نام لے کر بدعات و خرافات کو رواج نہ دیا جاسکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×