اللہ والوں کی توہین غضب ِ الہی کا سبب!
اسلام نے انسانوں کو اخلاق کی مبارک تعلیمات سے نوازا ہے،ادب واحترام اور بڑوں کی تعظیم وتکریم کی تلقین فرمائی ہے۔اورخاص اللہ تعالی کے نیک بندوں کا احترام اور ان کا پاس ولحاظ رکھنا اس جانب بھرپورتوجہ دلائی ہے ۔اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی یا بے ادبی انسان کو دوجہاں کی سعادت سے محروم کردیتی ہے۔اللہ تعالی نے بڑے اہتمام سے قرآن کریم میں اپنے نیک بندوں کی صفات اور ان کی عادات کو بیان بھی فرمایااور ان کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے اور کس طرح برتاؤ کرنا چاہیے اس سلسلہ میں باضابطہ نبی کریمﷺ نے ہدایات بھی عنایت فرمائی ہے۔
اللہ والوں کی گستاخی غضب ِ الہی کو دعوت دینا ہے ۔اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں سے سخت ناراض ہوتے ہیں اور انہیں خطرناک انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ:اللہ رب العزت نے صرف دوگناہوں کے بارے میں ارشاد فرمایاکہ ان کاارتکاب براہ ِ راست غیرت ِ خداوندی کو للکارنا اور اس کی طرف سے اپنے خلا ف اعلان ِ جنگ کروانا ہے۔ان میں سے ایک گناہ تو سود لینااور دینا ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد فرمایاگیا:یاایھاالذین امنوااتقواللہ وذروامابقی من الربوا ان کنتم مؤمنین فان لم تفعلوافاذنوابحرب من اللہ وروسولہ وان تبتم فلکم رء وس اموالکم لاتظلمون ولاتظلمون۔(البقرۃ:۲۷۸۔۲۷۹)’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو،اورجوکچھ سودکا بقایا ہے اسے چھوڑدواگرتم ایمان والے ہو۔لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیاتو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لئے خبردار ہوجاؤاور اگر تم توبہ کرلوتوتمہارے اصل اموال تمہارے ہی ہیں ،نہ تم کسی پر ظلم کروگے اور نہ تم پر کسی کا ظلم ہوگا۔‘‘
دوسرا بڑا گناہ جس پر اللہ تعالی کی طرف سے اعلان جنگ کیاگیا ہے وہ اللہ کے محبوب بندوں سے دشمنی ہے۔حضوراقدس ﷺ کا ارشاد ہے:من عادی لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب۔۔۔۔۔(بخاری:۶۵۰۲)جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے،میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔(اہانت ِ رسول ﷺکاوبال:۱۷)
حضرت معاذ بن جبل ؓ کو جس وقت یمن کا گورنر بناکر نبی کریم ﷺ روانہ فرمارہے تھے،تو آپ ﷺ ان کو رخصت کرنے کے لئے ساتھ ساتھ چلنے لگے ،ا س موقع پر آپ نے ان سے فرمایاکہ اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کرسکوگے ،اور میری وفات کے بعد میری قبر کے پاس سے گزروگے۔اس وقت آ پ ﷺ نے حضرت معاذبن جبل ؓ کو چند باتوں کی نصیحت فرمائی۔جب حضرت معاذؓبعد میں مدینہ منورہ تشریف لائے اور نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے تو آپ کو نبی کریمﷺ کی وہ نصیحتیں یاد آگئیں ،اورپھر حضرت معاذ ؓ زار وقطار رونے لگے ،ادھر سے حضرت عمر ؓ کا گزرہو اتو دیکھا کہ معاذؓ رورہے ہیں،حضرت عمرؓ نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تومعاذ ؓ نے نبی کریمﷺ کی وداع کرتے وقت کی ہوئی نصیحتوں کا ذکر فرمایااور کہاکہ اس وقت مجھے وہ نصیحتیں اور آپﷺکی باتیں یاد آگئیں جس کی وجہ سے بے اختیار رورہاہوں ۔ان نصیحتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ:من عادی للہ ولیا فقد بارز اللہ بالمحاربۃ۔(ابن ماجہ:۳۹۸۹)جو شخصی اللہ کے کسی ولی اور نیک بندہ کے ساتھ عداوت رکھتا ہو تویقینا وہ اللہ تعالی کے ساتھ جنگ کے لئے مقابلہ پر آتا ہے۔حضرت معاذ ؓ کوکی جانے والی نصیحت میں آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:ان اللہ یحب الابرار الاتقیاء الاخفیاء قلوبھم مصابیح الھدی۔کہ بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے ان لوگوں کو محبوبیت کا درجہ عطافرماتا ہے جو نیک ہوتے ہیں ،متقی ہوتے ہیں اور اپنی عبادت ونیکیوں میں ایسے چھپے رہتے ہیں کہ لوگوں میں ان کی نیکی ،ان کے تقوی اور ان کی خفیہ عبادتوں کی نہ کوئی شہرت ہوتی ہے اور نہ کوئی چرچا ہوتا ہے،ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں۔( ابن ماجہ:۳۹۸۹)
دنیا میں کسی انسان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ کے مقابلے میں جنگ کے لئے تیار ہو،انسان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ وہ اللہ کے مقابلہ میں تیار ہو،وہ معمولی چیز پر بذات ِ خود اختیار نہیں رکھتا،اللہ کے حکم کے بغیر کسی چیز پر قدرت نہیں ،وہ بھلا اللہ سے کیامقابلہ کرے گا۔اس لئے اللہ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانا ہو اور دوجہاں کی محرومی سے محفوظ رہنا ہوتو اللہ تعالی کے نیک بندوں کے بارے میں زبان وقلم کو محتاط رکھنا ضروری ہے۔معمولی سے لغزش اور کوتاہی بدبختی کا ذریعہ ہوجائے گی۔جو بندے عبادات وطاعات کے ذریعہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرلیں اور اس کے نیک بندوں میں شامل ہوجائیں ان کی بے ادبی اور توہین یقینا خسارہ کی بات ہے۔
انبیاء کرام ،صحابہ عظام یہ سب اللہ کے نیک بندے ہیں اور جسے ہم ’’بزرگان ِ دین ‘‘کہتے ہیں یہ سب اولیاء اللہ ہیں ،ان کے خلاف زبان درازی ہلاکت وبربادی کا ذریعہ ہوگی۔تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کی توہین وتذلیل کرنے والے دنیا میں بھی رسو اہوئے اور آخرت کے عذاب میں مبتلا کئے گئے ۔ایک واقعہ عبرت کے لئے ملاحظہ ہو۔مشہور عالم علامہ ابن حجر ہیثمی ؒ نے’’فتاوی حدیثیہ‘‘میں نقل کیا ہے کہ ابن السقاء نام کا ایک شخص جس نے علوم اسلامیہ میں زبردست مہارت حاصل کرکے فرق ِ باطلہ سے بحث ومناظرے کا ملکہ حاصل کرلیا تھا،اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے اس کو خلیفۃ المسلمین کا تقرب حاصل ہوااور خلیفہ نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے بادشاہ روم کے دربار میں اپنی حکومت کا سفیر بناکر بھیج دیا۔رومی بادشاہ نے اس کے اعزاز میں بڑے بڑے امراء اور عیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں اور پادریوں کی ایک عظیم مجلس منعقد کی جس میں عقائد پر بحث کے دوران ابن السقاء نے ایسی مدلل گفتگو کی کہ سارے حاضرین پر سناٹاچھاگیااور کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔عیسائی بادشاہ کو مجلس کا یہ رنگ دیکھ کر سخت ناگواری ہوئی اور اس نے ابن السقاء کوشیشے میں اتارنے کے لئے خلوت میں اس کے سامنے اپنی حسین وجمیل بیٹی کو پیش کیا،ابن السقاء نے اس کے حسن وجمال پر فریفتہ ہوکر بادشاہ سے اس سے نکاح کی درخواست کی ،بادشاہ نے یہ شرط لگائی کہ اگر تو عیسوی مذہب قبول کرلے تو نکاح ممکن ہے۔چناںچہ وہی ابن السقاء جس نے بادشاہ کی مجلس میں عیسوی مذہب کے تار وپور بکھیر کر عیسائیوں کو لاجواب ہونے پر مجبور کردیاتھا محض ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوکر عیسوی مذہب قبول کرکے مرتد ہوگیااور اسی ارتدادی حالت میں جہنم رسید ہوا۔کہتے ہیں کہ ابن السقاء نے شروع طالب علمی کے زمانہ میں ایک بڑے بزرگ کی شان میں گستاخی کرنے اور انہیں ذلیل کرنے کاارادہ کیا تھااور ان بزرگ نے اسی وقت کہہ دیاتھا کہ میں تجھ کو جہنم میں جلتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔(اللہ سے شرم کیجیے:۲۴۳)
امام ابوتراب ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کا دل اللہ جل شانہ سے اعراض کے ساتھ مانوس ہوجاتا ہے تو اہل اللہ پر اعتراض کرنا اس کا رفیق اور ساتھی بن جاتا ہے،یعنی جو شخص اللہ تعالی سے نامانوس ہوجاتا ہے تو وہ اہل اللہ پر اعتراض کرنے کا خوگر ہوجاتا ہے۔اسی طرح صاحب ِ مظاہر حق نے بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالی سے بندوں کی لڑائی دلالت کرتی ہے کہ خاتمہ بدہونے پر۔ایک مسلمان کے لئے خاتمہ بالخیر ہوناانتہائی مرغوب اورلازوال نعمت ہے اور جس چیز سے خاتمہ کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتم ہی سوچو کہ کتنی خطرناک چیز ہوگی۔(شریعت وطریقت کا تلازم :۲۴۵)حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کاارشاد ہے کہ:جولوگ علمادین کی توہین کرتے ہیں اور ان پر لعن وتشنیع کرتے ہیں ،ان کا قبر میں قبلہ سے منہ پھر جاتا ہے۔( اولیاء اللہ کی توہین کا وبال:۲۳)
بہرحال اللہ والوں کی توہین کے سلسلہ میں احادیث میں مختلف قسم کے سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور گستاخان اولیا ء کا برا انجام دنیا والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی ہے اور ہر دور میں بزرگوں کی توہین کرنے والے ،ان کی شان میں بے ادبی کرنے والے رسوااور ذلیل ہوئے ہیں۔اس وقت نیوز ۱۸کے اینکر امیش دیوگن کی سلطان الہند،امام الاولیاء حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی شان میں گستاخی ودریدہ دہنی سے مسلمانوں میں سخت اضطراب ہے،سلطان الہند حضرت اجمیری ؒ کی عظیم المرتبت شخصیت پر زبان درازی یقینا سخت نازیبا حرکت ہے،اس سرزمین پر جس ہستی کے عظیم احسانات ہیں ،ایمان واسلام کے لئے ،انسانیت اورپیارومحبت کے لئے ،بندگان ِ خدا کے لئے جن کی قربانیوں اور کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ،مسلمانوں کے ساتھ انگنت وبے شمار غیر بھی جن سے عقیدت محبت کا اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں ،ایسی عظیم ومحسن شخصیت کے خلاف زبان کھولنااور زہر اگلنااس کی خباثت ورذالت کی علامت ہے۔ہم ایسے واقعات کی اور ان نازیبا حرکتوں کی سخت مذمت بھی کرتے ہیں اور مجرم کے خلاف سخت اقدام کی پر زور اپیل بھی کرتے ہیں ،اس نے حضرت خواجہ ؒ کی شخصیت پر نامناسب الفاظ کہہ کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے عقیدت مندوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے۔
دوسری طرف ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم بھی کسی بھی طرح اللہ والوں کی گستاخی وبے ادبی کرنے والے نہ بنیں،بعض مسلکی جذبات میں ہم ایک دوسرے کے متفقہ علماء اور اکابر کو برابھلا کہتے ہیں،ان کی تذلیل کرتے ہیں ،اوربرائیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے ہیں یہ بھی بالکل نامناسب طریقہ اور اخلاقی تعلیمات کے خلاف ہے۔جن علماء اور بزرگان دین کی دینی خدمات ،ملت کے تئیں ان کی بے لوث کوششیں،قرآن وسنت کی تشریح وتبین میں جن کی عظیم کاوشیں ،دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں جن کی شبانہ روز جدوجہدہیں ان کو یکسر فراموش کرکے لعن طعن کرنا یہ بھی توہین ِ اولیاء ہے ،ان سے بھی احتیاط کرنا چاہیے،علمی اعتبار سے جن کو کسی سے اختلاف ہوگا وہ علمی طریقہ پر اس کو حل کرلے گا،لیکن ہر کوئی زبان درازی کرنے لگے،اور بغیر علم وتحقیق کے غلط گفتگوکرنے لگے تو یہ بھی اسلامی ہدایات کے خلاف ہے۔اللہ والوں کی تعظیم وتکریم سعادت ِ دارین کا ذریعہ ہے اور توہین ووگستاخی غضب ِ الہی کا سبب اور ہلاکت وبربادی کا موجب ہے۔