شخصیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

حضرت مولانا عبدالرحمن مظاہری ؒکی وفات ایک عہد کا خاتمہ اور تاریخ ساز شخصیت کی رحلت

عصر حاضر اسلامی پورٹل حیدرآباد کے ذریعہ یہ اندوہ ناک خبرپڑھنے کو ملی کہ جدہ (سعودی عرب) میں مقیم سرزمین حیدرآباد کے عظیم سپوت،علم وفضل،تقوی وطہارت،تصنیف وتالیف کی عظیم شخصیت حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مظاہری ؒ (بانی وناظم اول مجلس علمیہ حیدرآبادوخلیفہ محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی ؒ) کابتاریخ 30/ جون2019ء بروز اتوارجدہ میں انتقال ہوگیا۔
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب ؒ اپنے عہد کے ایک عظیم انقلابی کارنامے انجام دینے والے عالم ِ دین تھے،جنہوں نے ایک زمانہ میں سرزمین حیدرآباد میں زبردست علمی،دینی،اصلاحی،تدریسی خدمات انجام دیں،اور پھر نامساعد حالات کے بعد1977ء میں حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے اوروہیں سعودی عرب کی اقامت حاصل کرلی اورتادم ِ آخر قیام پذیر رہے بالآخر وہیں سے دنیا سے رخصت ہوئے۔
چوں کہ آپ کی زندگی کا بڑا حصہ اور عمر کا آخری دور سعودی عرب میں گذرا ہے اس لئے بہت سے حضرات کو ان کی زندگی،ان کی قربانیوں اور دین کے لئے ان کی محنتوں کاعلم کم ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دور میں سرزمین ِ حیدرآباد بلکہ علاقہ ئ دکن میں آپ کی بیش قیمت خدمات اور ناقابل ِ فراموش کارنامے رہے ہیں۔مجلس علمیہ آندھراپردیش جو علماء کرام کی قدیم اور عظیم تنظیم شمارکی جاتی ہے،اس کے بانی مولانا عبدالرحمن صاحب مظاہری ؒ ہیں۔جامعہ نظامیہ میں سولہ سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کا آپ کو اعزاز حاصل ہے۔پیام ِ توحیدوسنت کی اشاعت اور اس کے لئے جدوجہدکرنے میں آپ نے اپنی صلاحیت،اپنی قوت اوراپنی جوانی کو لگایا۔اس کے لئے حالات کو جھیلا،مجلس علمیہ کے قیام کے ذریعہ علماء کرام سے استفادہ کی راہوں کو ہموار کیا،شہر واطراف میں دروس قرآن وحدیث کے ذریعہ دینی فکر اوردینی مزاج کو پروان چڑھانے میں بڑی کوششیں کیں۔وعظ وخطابت کے ذریعہ قوم وملت کی گراں قدر خدامات انجام دیتے رہیں۔بزرگوں کی نگرانی اور اکابر کی سرپرستی میں علم دین کو حاصل کیااور اسی علم کی نشر واشاعت کے لئے اپنے آپ کو کھپایا۔حصول ِ علم کے لئے بھی آپ نے غیر معمولی مجاہدوں کو برداشت کیا۔
2008ء میں جب راقم الحروف دارالعلوم دیوبند میں دورہ ئ حدیث شریف میں تھا،دیوبند میں آپ کی تشریف آوری ہوئی،اپنے پاس موجود نسبت ِاکابر کو منتقل کرنے اور طلبائے علوم ِنبوت کو اجازت ِ حدیث عطاکرنے کے لئے آپ نے بطور ِ خاص یہ سفر کیا تھا،دودن دیوبند میں قیام فرمایا اور ایک دن مظاہر العلوم سہارنپورمیں۔الحمدللہ اس راقم کو تین دن آ پ کے ساتھ رہنے اور خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔اس موقع پر بہت سی باتیں اور بیش قیمت نصیحتیں سننے کو ملیں اور مختصر وقت میں کچھ استفادہ کرنے کا موقع ملا۔سادگی،خلوص،محبت،علم،فضل اورتقوی میں آپ بلاشبہ نمونہ ئ اسلاف تھے۔آپ کی سوانح ”کاروان ِحیات“ کو پڑھنے کے بعد ہرکوئی آپ کا گرویدہ ضرورہوگااور آپ کی داستان ایمان افروز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔آپ کے انتقال کی خبر سن کر وہ روشن چہرہ نگاہوں میں ہے،میٹھی اور نرم گفتگوآج بھی محسوس ہوتی ہے۔خدا آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کی عظیم خدمات کو ثوابِ جاریہ بنائے۔آمین
آپ کی علمی وعملی زندگی جس نشیب وفراز سے گذری،اور ابتلاء وآزمائش سے دوچار ہوئی اس کی دلچسپ او ر فکر انگیز و ایمان افروزداستان آپ نے اپنی سوانح”کاروان ِ حیات“ میں لکھی ہے،جسے ہر طالب علم اور ہر عالم ِ دین کو پڑھنا چاہیے تاکہ آپ کی تاریخی خدمات اور انقلابی کارناموں کااندازہ ہواور احقاقِ حق کے لئے آپ کی جدوجہد کاعلم بھی ہوسکے،کن حالات میں آپ نے اپنی خدمات کا آغاز کیااور کس طرح سے مسائل ومشکلات کا سامنا کرتے ہوئے علم کی شمع کوروشن کیا ان تمام باتوں کو بہت ہی دلکش پیرائے میں آپ نے قلمبند کیاہے۔ذیل میں آپ کے مختصر حالات کو آپ ہی کی خودنوشت سے نقل کیا جاتا ہے۔
ولادت:
آپ کی ولادت 12 ربیع الاول 1352ء میں حیدرآباد کے قدیم محلہ ”یاقوت پورہ“ میں ہوئی۔والد بزرگوار کانام احمد شریف تھا۔جو نظام حیدرآباد کے دورِ حکومت میں تحصیل شرقی کے صیغہ ئ ہراج کے ذمہ داتھے۔لکھتے ہیں کہ:عمر کے پانچویں سال میں اسکول میں داخل کیاگیا،ساتویں کلاس پاس کیا تھا کہ ستمبر1948ء حیدرآباد پر انڈین یونین کا حملہ کیااور یہ چھوٹی اسلامی ریاست جس کے آخری تاجدار نظام سابع میر عثمان علی خان بہادراقتدار سے بے دخل کردئیے گئے اس طرح ساتویں نظام پر خاندان ِ آصف جاہی کا دوسوسالہ اقتدار ختم ہوگیا۔اس حادثے نے مسلمانان ِ دکن کی بساط ہی الٹ دی،اس افراتفری میں میرا تعلیمی سلسلہ بھی منقطع ہوگیا،والد صاحب مرحوم نے تجارتی سلسلے میں منسلک کردیا۔“
تعلیم وتربیت:
دل میں حصول ِ علم کا شوق موجزن تھا اس لئے 1949ء میں کسی طرح اشرف المدارس ہردوئی پہنچے اور یہاں سے فراغت ِ تعلیم تک ایک ایمان افروز سلسلہ ہے کہ آپ نے تحصیل ِ علم کے لئے کیسی کیسی قربانیاں دیں اور حالات کا مقابلہ کیا۔بالآخر1953ء مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور یوپی میں داخل ہوئے اور 1958ء سے فراغت حاصل کی۔آپ فرماتے ہیں کہ:یہ چند سال میری حیات ِ دنیا کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جس نے مستقبل میں خدمت ِ دین واسلام کے لئے سب کچھ مہیاکردیا۔حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ؒ ناظم مظاہر علوم کی خدمت،شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریاکاندھلوی ؒ سے کسب ِ فیض اور مولانا سید ظہور الحسن ؒ کی نگرانی میں آپ نے اپنی شخصیت کو سنوارااور اوصاف واخلاق سے مزین کیا۔زمانہ ئ طالب علمی میں اپنے اساتذہ اوراکابرین کے منظور ِ نظر رہے۔
آغازِ آخدمات:
عالمیت سے فراغت کے بعد صرف دیڑھ سال میں حفظ قرآن کی تکمیل کی۔1960ء میں بھونگیرمیں امامت وخطابت سے دینی خدمات کا آغا ز کیا،تعلیم ِ بالغان کاسلسلہ بھی یہاں شروع فرمایا لیکن دل میں تدریس ِ کتب کی خواہش تھی،بالآخر250روپئے کی تنخواہ چھوڑکر جامعہ نظامیہ میں 60 روپئے کے مشاہرہ اپنی تدریسی خدمات شروع کی،جامعہ نظامیہ میں آپ کے تقرر کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔یکم جون 1961ء میں جامعہ نظامیہ میں آپ کا بحیثیت ”استاد دینیات“تقررہوا۔اس کے بعد جامع مسجد ملے پلی میں جمعہ کی خطابت بھی آپ کو مل گئی۔بقول حضرت مولانا:جمعہ والی خطابت جس سے عوامی دعوت وتبلیغ کی راہیں فراہم ہوئیں۔جمعہ کا ہر خطبہ دوسرے جمعہ کے لئے پیام ِ دعوت ثابت ہونے لگا،چارچھ ماہ کے اندراندر مصلیوں کی تعداد سہ چند ہوگئی،پھر بہت جلد مسجد کی توسیع بھی عمل میں آئی۔
ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ:1961ء سے 1971ء کا دس سالہ دور میری زندگی میں درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کا عنوان رہا ہے۔جامعہ نظامیہ میں حدیث شریف کی اساسی کتب کے علاوہ دیگر علوم کی کتابیں بھی زیر درس رہی ہیں،خارجی اوقات میں عام مسلمانوں کے لئے قرآن وحدیث کے درس کا سلسلہ جاری رہا۔تفسیر،حدیث وفقہ کے ان تینوں دروس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثرت رہاکرتی تھی،سن رسیدہ اورمعمر حضرات بھی اہتمام سے شریک ہواکرتے تھے۔ان دروس میں درس فقہ کو بہت جلد مقبولیت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں رسم ورواج اور تقلید آباء واجداد کے جامد تصورات متزلزل ہونے لگے،قرآن وحدیث کی روشنی میں حق وباطل،سنت وبدعت،ہدایت وضلالت کے باہمی فرق کو دیکھا اور سمجھاجانے لگا۔اس طرح ذہنی وفکری راہیں کشادہ ہونے لگیں۔بدعات وخرافات سے بچانے اور سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے آپ نے گویا مجاہدانہ کام انجام دیا۔

مجلس علمیہ کی تاسیس:
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحبؒ اور ان کے ساتھ مولانا سید اکبر صاحب مدظلہ بھونگیر،مولانا شبیر صاحب نرمٹہ،مولانا عبدالعزیز صاحب ؒ سوریا پیٹ،مولانا رضوان القاسمی صاحب ؒ،مولانااکبر الدین قاسمی صاحب ؒاور بعض احباب کو یہ فکر تھی کہ دیوبند،سہارنپور،دہلی،ندوۃ العلماء کے فارغین متفرق طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ان کو ایک سلسلہ سے جوڑا جائے۔چناں چہ اس کے لئے جامعہ اسلامیہ بھونگیر میں علماء کا ایک اجتماع رکھا گیااوردودن کے بحث ومباحثہ کے بعد ”مجلس علمیہ“ کا قیام1973ء میں پانچ مقاصد کے تحت عمل میں آیا۔وہ پانچ مقاصد یہ ہیں۔(۱) تنظیم مدارس دینیہ۔(۲)دعوت وتبلیغ۔(۳)تصنیف وتالیف۔(۴)اکابرین ملت سے استفادہ۔(۵)مکتبہ دینیہ کا قیام۔الحمد للہ مجلس علمیہ اپنے روز قیام سے آج تک اکابر علماء کی سرپرستی میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور اس کا نمائندہ ترجمان ماہنامہ ”ضیائے علم“ برابر شائع ہورہا ہے۔اللہ تعالی اس کو دائم وقائم رکھے۔اس کے تحت سابق میں پالن حقانی صاحب ؒکو شہر میں پہلی مرتبہ بلایا گیا تھا۔اور بڑے تاریخی جلسے منعقد ہوئے۔
جامعہ نظامیہ سے علیحدگی:
شہر میں آپ کی خدمات کا سلسلہ روز بروز بڑھ رہا تھا،اوربدعات کے خلا ف آپ کی کوششیں بھی جاری تھیں،لیکن بہرحال حالات کچھ ایسے بنائے گئے کہ آپ کو مدرسہ جامعہ نظامیہ چھوڑنا پڑا۔14/ مئی1977ء آپ جامعہ نظامیہ علیحدہ ہوئے اور اس طرح آپ کا سولہ سالہ تدریسی خدمات کا اختتام ہوا۔یہاں تک کہ جامع مسجد ملے پلی میں جہاں آ پ کی خطابت تھی وہاں پر بھی کوشش کرکے آپ کے دروس وخطابت پر بھی پابندی لگادی گئی اور یہاں سے بھی آپ سبکدوش ہوگئے۔
حالات پر حضرت کا تجزیہ:
پالن حقانی ؒکے بیانات اور بدعات کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب ؒ پر سخت حالات آئے،بارہ سال سے جاری دروس وبیانات پر کچھ لوگوں کی طرف سے پوری شدت کے ساتھ پابندی لگائی گئی،مدرسہ سے برطرف کروایا گیا،مسجد کی ذمہ داری سے دورکیا گیا۔اس پر حضرت مولانا لکھتے ہیں:اللہ عظیم کا نظام جاہل انسانوں کے طور وطریق سے کس قدر مختلف ہے۔انسان اپنی کامیابی پر ناز کرتا ہے لیکن تقدیرالہی اس پر روتی ہے،یہ کتنی بڑی نادانی ہے کہ وہ صرف اپنے دست وبازو پر اعتماد کرلیتا ہے،اس کو یقین نہیں کہ اللہ علیم وخبیر کی بیدارآنکھیں اس کو دیکھ رہی ہیں،مظلوم کا حق ضائع نہیں ہواکرتا،ظلم جس قدر بھی زیادہ ہوتا ہے،تائید ِالہی مظلوم سے قریب تر ہونے لگتی ہے،ظالم کا ظلم توخود اس کو اپنے انجام تک پہنچادیتا ہے لیکن اس مرحلہ پر مظلوم کی نئی اور کامیاب زندگی کاآغاز ہونے لگتا ہے۔ایسا ہی کچھ راقم الحروف(حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب ؒ)کے ساتھ ہوا ایک بہت بڑا درِ خیر کھلنے والا تھا،جس کے لئے را ہ کے خس وخاشاک دور ہونے ضروری تھے۔“
سعودی عرب منتقلی:
چناں چہ انہی ایام میں آپ کے ایک مخلص دوست نے حج کے لئے بلوایا۔حج سے فراغت کے بعد دوست نے کہا کہ اب ان شاء اللہ آپ کا یہاں مستقل قیام رہے گا واپسی کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا۔آپ کی جملہ کفالت میرے ذمہ ہوچکی ہے۔حج کے دوماہ بعد 1978ء میں حکومت ِ سعودی عرب نے ملک میں اعلان کیا حج یا عمرہ ویزا پر یہاں قیام کرنے والے اندرون تین ماہ کسی بھی سعودی کی کفالت پر قیام کی قانونی اجازت (اقامہ) حاصل کرلیں۔چناں چہ اس کے بعد وہاں آپ کا قیام قانونی ہوگیا،میزبا ن اور مخلص دوست کے گھرپرحدیث،تفسیر وفقہ کے دروس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔قیام کے چھ آٹھ ماہ بعد مقامی مسجد کی امامت مل گئی۔”مسجد الہدی“جدہ میں محکمہ ئ اوقاف کی جانب سے آپ کا تقررہوگیا۔
حضرت مولانا سعودی عرب میں اپنی خدمات کے بارے میں لکھتے ہیں:بنیادی طور پر جوم کام اپنے وطن میں کیاکرتاتھا اس کا سلسلہ یہاں (سعودی عرب میں) بھی جاری ہے۔اگرچہ نوعیت کچھ مختلف ہوگئی،درس حدیث،تفسیر،فقہ کے حلقے بعینہ باقی ہیں،البتہ تدریسی سلسلہ یہاں ممکن نہ رہا۔اللہ تعالی نے بہت جلد اس کا نعم البدل تصنیف وتالیف کی شکل میں مہیا کردیا جو اپنے وطن میں ممکن نہ تھا۔“
آپ کی تصنیفات:
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب ؒ نے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔جن میں یہ ہیں:(۱)ہدایت کے چراغ(سیرت ابنیاء کرام) چودہ سو صفحات پر مشتمل۔(۲)قرآنی تعلیمات۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب ”مسائل السلوک“ کی عام فہم توضیح
وتشریح۔صفحات 750۔(۳)فرامین ِ رسول ﷺ(۴)فتاوی رسو ل اکرم (عربی)(۵)یوم عظیم حوادث ِ قیامت کی قرآنی تشریح۔(۶)سیرت تابعین۔(۷)منتخب دعائیں۔(۸)مختصر سیرت رسول ﷺ۔(۹)آخری سفر:سکرات سے تدفین تک۔(۱۰)کاروان ِ حیات۔(۱۱)مولانا احمد رضاخان:حیات وکارنامے،علماء بریلی کے اختلاف کی مستندتاریخ۔(۱۲)امام اعظم ابوحنیفہ:حیات وکارنامے۔یہ تمام کتابیں ربانی بک ڈپو کٹرہ چاند لال کنواں دہلی سے شائع ہوئی ہیں۔اور ان میں بہت سی کتابوں کے کئی ایڈیشن پاک وہند سے نکل چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×