امیرشریعت مفکراسلام حضرت مولانامحمدولی رحمانی علیہ الرحمہ کی شخصیت ہمہ جہت خدمات کاسرچشمہ اورمتنوع صلاحیتوں کامجموعہ رہی ہے۔ان کی خدمات کی مختلف جہتوں اورصلاحیتوں کے الگ الگ پہلوئوں پرگفتگوہوتی رہے گی ۔ان شاء اللہ ۔یہاں ہم صرف آپ کی صحافتی خدمات کے حوالہ سے چند سطور پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دوران طالب علمی صحافتی کاوش:
ایامِ طالب علمی میں ہی آپ کی تحریرمنظرعام پرآئی۔پہلی تحریرجامعہ رحمانی کے عہد طالب علمی میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ پر1959ء میں سامنے آئی جس کی علمی حلقوں میں تحسین کی گئی۔ دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں 1963ء میں آپ نے عربی زبان میں قلمی ماہنامہ ’النہضہ‘ جاری کیا،جوپہلی صحافتی کاوش تھی۔مضمون نگاری کاسلسلہ بڑھاتوآپ نے’دارالعلوم کا کتب خانہ اور اس کا دارالمطالعہ‘نامی رسالہ تحریرکیا۔ دارالعلوم دیوبند کے طالب علمی کے زمانہ میں ہی ’ربط آیات قرآنی اور شاہ ولی اللہؒ ‘ کے موضوع پر ایک تفصیلی مضمون لکھا، اس سلسلہ کی تیسری کڑی آپ کی معروف تحریر’تصوف اورحضرت شاہ ولی اللہ ‘ ہے۔ تصوف سے متعلق یہ مضمون ،فکرولی اللہی کی بہترین ترجمانی کے ساتھ ساتھ زبان وادب کااعلیٰ نمونہ بھی ہے۔ مختلف اخبارات و رسائل میں مضامین لکھنے کاسلسلہ طالب علمی کے دور سے لے کر 1974ء تک مسلسل جاری رہا۔
نقیب اورامیرشریعت:
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے ساتھ ہی آپ’ ہفت روزہ نقیب‘ کے ذمہ داربنائے گئے۔ آپ کے بعض تجزیوں پر’نقیب ‘کے اس وقت کے ایڈیٹراصغرامام فلسفی کو محکمہ خبر رسانی کی طرف سے دشواری کاسامناکرناپڑا۔ فلسفی صاحب نے حضرت امیرشریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے صورت حال پیش کرکے آپؒ کے نام کوہٹا نے کی درخواست کی۔امیرشریعت رابعؒ نے مولانا محمد ولی رحمانی سے فرمایا’’ اب ’نقیب ‘کی نگرانی اورہر ہفتہ اس پر تحریری تبصرہ بھی آپ کا کام رہے گااور جامعہ رحمانی میں تدریسی خدمت بھی آپ کی ذمہ داری ہوگی‘‘۔حسب حکم مولانارحمانی، تواترکے ساتھ نقیب کے تازہ شمارہ پر’م،و،ر‘کے قلمی نام سے تجزیے لکھتے رہے۔پھرآپ ہی کے مشورہ کے مطابق مرحوم شاہد رام نگری جو اس وقت روزنامہ ’ساتھی‘ میں کام کررہے تھے اور ہفت روزہ ’الکلام‘کی ادارت کرچکے تھے، کونقیب کامدیراعلیٰ بنایاگیااوراصغر امام فلسفی حسب سابق مدیررہے۔اس کے بعدبھی طویل مدت تک آپ ’نقیب ‘ کے معیار و اعتبار کو بڑھاتے رہے ۔امیرشریعت منتخب ہونے کے بعدانھوں نے دوسرے شعبوں کی طرح ’نقیب ‘کی طرف پوری توجہ دی۔مضامین میں تنوع پیدا کیا، معیارکوبلندکیا، ظاہری حسن کے ساتھ مشمولات کوبھی مفیدبنایا۔
’صحیفہ‘کی ادارت :
’نقیب ‘کے علاوہ آپ نے’ایثار‘اور’صحیفہ‘ کی ادارت کی ذمے داری انجام دی ۔ان کے ذریعہ آپ نے خوب لکھا،اُس زمانے میں آپؒ کے تقریباََتین سو مضامین شائع ہوئے۔’صحیفہ ‘کی خاص بات آسان زبان اورمختصرمضامین ہیں۔اس رسالہ کوملک بھرمیں مقبولیت ملی۔سارے ا نتظامات آپ خو د دیکھتے ۔ایڈیٹر کی حیثیت سے سرورق پر جناب حافظ رضی احمد صاحب رحمانی استاذدرجہ حفظ جامعہ رحمانی کا نام ہوتا تھا۔جب آپ کی مصروفیت زیادہ ہوئی تویہ سلسلہ رک گیا اور اخباربھی۔’صحیفہ‘ کا پہلا شمارہ 1391ھ میں جاری ہوا اور آخری شمارہ 1394ھ میں نکلا۔ مولانا کی خواہش تھی کہ ’صحیفہ‘ کودوبارہ جاری کیا جائے۔ چنانچہ راقم سے آپ سے اس سلسلے میں متعددبارگفتگو ہوئی،آپؒ نے اس کاروڈمیپ بتایا،یہ بھی رہنمائی کی کہ مضامین ایک صفحہ سے زائدنہیں ہوں گے،موضوعات اورذمے داران متعین کرلیجیے ،رجسٹریشن کا مسئلہ دیکھ لیجیے،کوشش جاری تھی کہ لاک ڈائون لگ گیااور منصوبہ پورانہیں ہوسکا۔کاش ان کی اس خواہش کی تکمیل ہوپاتی۔
’صحیفہ ‘میں شائع آپ کے اہم مضامین ’سوچنے کاغلط انداز‘،’سماجی روگ‘،’کام کی ابتداء کاوقت‘،’خریداہوابگاڑ‘،’انجام‘،’تجربے سے فائدہ اٹھایئے‘،’روپیے کا مصرف‘، ’سماجی روگ‘،’عیدکاایک رخ‘،’کوئی جوڑنہیں‘ اور’نئی نسل میں دینی تعلیم‘ دستیاب ہیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں مضامین کی فہرست ہے جو آسان زبان کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی سے لبریزہیں۔ایسالگتاہے کہ دل چسپ پیرایے میں لڑیاں پرودی گئی ہیں۔چنانچہ’خریداگیابگاڑ‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’بگڑنے کی دواخریدکرہم بچوں کوپلاتے ہیں اورہمیں احساس تک نہیں ہوتاکہ ہم کیاکررہے ہیں۔آپ نے سمجھا،یہ دواکیاہے۔یہ سنیمابینی ہے جوہمارے سماج میں پورے طورپرآچکی ہے۔
بہت سے گھرانے بال بچوں سمیت اس گھرکارخ کرتے ہیں جہاں پیسہ کے بدلے ’بگاڑ‘ملاکرتاہے۔ہم گاڑھی کمائی خرچ کرتے ہیں اور بچوں کو نامناسب مناظرسے مانوس کرتے ہیں۔ٹھنڈے دل سے غورکیجیے گاکہ ان گانوں سے گونجاہواذہن بڑاہوکرکیابنے گا۔ان کااخلاق،ان کی طبیعت اوران کامزاج کس رُخ پرکام کرے گا۔‘‘ (صحیفہ، ص10،خریداہوابگاڑ)
’کوئی جوڑنہیں ‘کے عنوان کے تحت رقمطرازہیں:
’’آپ اگرکسی آبادی میں پہونچ کرمسلمانوں کی آبادی کے پھیلائوکااندازہ لگاناچاہیں تواس کی ایک علامت بہت آسان ہے جہاں آپ کو گندگی کاڈھیرنظرآئے،بے ترتیبی اوربدسلیقگی کازیادہ ا حساس ہو،میلے کچیلے کپڑوں میں بچوں کی ٹولیاں سڑک پربھٹکتی نظرآئیں،صفائی سے کسی قسم کی دل چسپی محسوس نہ ہو،سمجھ لیجیے کہ یہ مسلم آبادی ہے۔
سمجھ میں نہیں آتاکہ مسلم قوم جسے نظم وضبط ،سلیقہ،صفائی کانمونہ ہوناچاہیے تھا،اس نے یہ رخ کیوں اپنالیاہے۔اسے توقدم قدم پرصفائی کی تعلیم دی گئی،اسے ہمیشہ پاک رہنے کی تلقین کی گئی،روزانہ پانچ باروضواورنمازکے ذریعہ جسم اوردل کوصاف رکھنے کاحکم دیاگیا،مگران احکام کے باوجودگندگی ان کا نشان بن گئی ہے۔ان کے طرزِعمل اوراسلامی احکام میں کوئی جوڑنظرنہیں آتا۔‘‘(صحیفہ، ص4،کوئی جوڑنہیں)
’نئی نسل میں دینی تعلیم‘کے عنوان کے تحت انہوں نے اسکول کے طلبہ کے دینی امورسے عدم واقفیت کے دوواقعے بیان کرنے کے بعداپنے دردکوالفاظ کاجامہ یوںپہنایاہے :
’’نئی نسل کی یہ تکلیف دہ معلومات،والد اورسرپرستوں کے لیے ایک حادثہ ہے اوریہ حادثہ اس لیے پیش آرہاہے کہ نئی نسل کی دینی تعلیم کانظم نہیں کیا جاتا، گھریلو ماحول میں انہیں دین کی باتیں سننے کونہیں ملتی ہیں۔اگرہمیں اپنی آئندہ نسل کومسلمان رکھناہے توپھرگھریلوماحول میں اتنی تبدیلی کرناہوگی کہ بچوں کے کان شروع ہی سے دینی باتوں سے آشنارہیں اوردینی معلومات ان کے مزاج میں گھرکرلیں۔‘‘(صحیفہ، ص12،نئی نسل میں دینی تعلیم)
سیاسی صورت حال پراپنے مضمون’کام کی ابتداء کاوقت‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’ہم اپنے آ پ کویہ کہہ کرمطمئن کرلیتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں ہم سے جھوٹے وعدے کرکے وقت پرہمیں خوش کردیتی ہیں اوربعدمیں ہمیں دغادے دیتی ہیں۔اس میں ہماراکیاقصور؟۔اتناسونچ کرپھرآرام کرتے ہیں اورہماری بیداری کاوقت وہ ہوتاہے جب دوسراالیکشن سرپر آجاتاہے۔ہمیں سونچناچاہیے کہ سیاسی پارٹیوں کوہم سے جھوٹ بولنے کی ہمت کیوں ہوتی ہے؟۔
وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعدسے بدلے ہوئے حالات میں جووقت ہمارے کام کاہوتاہے اس وقت ہم آرام کرتے ہیں اورجب فصل کاٹنے اورنفع اٹھانے کاموسم آتاہے توہم بھی بیدارہوکرآگے بڑھتے ہیں۔ایسی صورت میں جھوٹے وعدوں یالہلہاتی کھیتی کے نظارہ کے سوااورکیاہاتھ آسکتاہے؟ہم کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ کھیتی کاکچھ حصہ ہمیں بھی حق کے طورپرملے گا؟۔‘‘(صحیفہ، ص12،کام کی ابتداء کاوقت)
یہ ہیںمولانارحمانیؒ کی اس دورکی تحریرکی سرسری جھلکیاں۔لفظ بلفظ غورکیجیے ،ایک ایک جملہ دردسے معمورہے ۔سلاست وروانی اورزبان کی آسانی میں سرسید کا اسلوب محسوس ہوتاہے۔ چونکہ آپ کامقصدبھی سرسیدکی طرح اصلاح معاشرہ تھا بلکہ زندگی کامشن یہی رہا۔اسی لیے ہمدردی کاجذبہ صاف صاف جھلکتا ہے۔ سماجی نوعیت کے مضامین میں یہ رنگ اورنمایاں ہے۔
’صحیفہ‘ میں کم تحریریں’مولانامحمدولی رحمانی استاذجامعہ رحمانی مونگیر‘کے نام سے شائع ہوئیں،بیشترمضامین دوسرے ناموں سے لکھے۔مثلاسماجی مسائل پر’ہماراسماج‘ نامی کالم’اصغررحمانی‘نام سے لکھاکرتے ۔جس طرح1927میں حضرت مونگیریؒ کی حیات میں جامعہ رحمانی کے ترجمان کی حیثیت سے شائع ہونے والے رسالہ’الجامعہ‘ (جس کے ایڈیٹرمولاناعبدالصمدرحمانیؒ اورمولانامنت اللہ رحمانی ؒ تھے،جامعہ رحمانی کا دیواری پرچہ ’الجامعہ‘ اسی کی ایک کڑی ہے جو انجمن نادیۃ الادب کے تحت شائع ہوتاہے۔)میںآپ کے والدامیرشریعت ؒمولانامنت اللہ رحمانیؒ،’سیدابوالفضل رحمانی‘ کے نام سے لکھتے بلکہ ’الجامعہ‘ کے سرورق پریہی نام درج ہوتا۔اس سے واضح ہو تاہے کہ نام نہیں،کام مقصدتھا۔اسی طرزپرخلف رشیدمولانامحمدولی رحمانیؒ گامزن تھے اورآپ نے بھی بیشترتحریریں دیگرنام سے لکھیں۔
روزنامہ ایثارکااجراء:
1980ء کی دہائی میں ’قومی آواز‘بہار کا سب سے اہم اردو اخبار تھا۔’ سنگم‘،’ صدائے عام‘ اور’ ساتھی‘ جیسے اخبارات توتھے مگران کی اشاعت بہت کم تھی،’قومی تنظیم‘ کی اشاعت بھی ہفت روزہ تھی۔’ قومی آواز‘ ،صحافتی اقدارکی کسوٹی پرپورانہیں اتررہاتھا۔ان حالات میں عوام کی ایک مضبوط آوازکی شدیدضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔ چنانچہ مولانا رحمانیؒ نے اس ضرورت کومحسوس کرتے ہوئے روزنامہ’ایثار‘ جاری کیا۔مولانارحمانی ،شاہین محسن اورشاہدرام نگری کی انتھک کوشش سے اس اخبارکی مقبولیت کایہ عالم ہواکہ مہینہ بھرمیں اس کی اشاعت تیرہ ہزار تک پہونچ گئی،اردو داں طبقہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا،حکومت نے بھی دبائومحسوس کیا۔ رفتہ رفتہ ’قومی آواز‘ کا سرکولیشن کم ہوتاگیایہاں تک کہ چندمہینوںمیں ’قومی آواز‘کا پٹنہ ایڈیشن بندہوگیا۔ ’ ایثار‘ ہندوستان کاواحد اخبار تھا، جس کی لیڈ نیوز پر اردو کاکوئی بر محل شعر یا مصرعہ دیا جاتا تھا،اس نے اردوصحافت کی نئی تاریخ رقم کی۔یہ بہارکاپہلااردوآفسیٹ روزنامہ تھا۔مختلف موضوعات پرمشتمل اداریے اور مضامین سنجیدہ اورتجزیاتی ہواکرتے،عالمی حالات، معاشی اور تہذیبی صورتحال پیش کی جاتی نیزحکومت کے منصوبوں سے واقف کرایاجاتا۔یہ ساری ذمہ داریاں مولانا رحمانیؒ کی ہواکرتیں ۔ کامیابی کے ساتھ تین سال سے زیادہ عرصہ تک یہ اخبار جاری رہا۔اس دوران’ ایثار‘نے صحافتی ذمہ داریوں کو بھر پور نبھایا۔یہ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی صحافتی خدمات کااہم باب ہے۔بعض نامساعدحالات کی بنیاد پر ’ایثار‘ بند ہوگیاجس کے بعدمولانا رحمانی بھی صحافتی سرگرمی سے عملاََالگ ہوگئے۔لیکن زندگی کے آخری برس تک خاص موضوع پر، خاص حالت میں،آپ کی زرخیز تحریریں سامنے آتی رہیں۔ ’مولاناآزاد:کئی دماغوں کاایک انسان‘،آپ کی شاندارتحریرہے جس میں مولاناآزادؒ کی زندگی کی مختلف جہتوں کو اچھوتے اورادبی اسلوب میں بیان کیاگیا ہے کہ قاری محظوظ ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔حالیہ برسوں میں آپ کے کئی مضامین اخبارات میں شائع ہوئے۔ جن میں ’ قومی تعلیمی پالیسی‘پرآپ کی تفصیلی تحریر یقینا چشم کشاہے۔اس پالیسی کے مندرجات اوراس کے مضمرات پرجس طرح آسان لفظوں میں روشنی ڈالی، یہ آپ کاہی حصہ تھا۔
لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی:
آپؒ نئے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے،نئے نام پرنظرپڑتی ،ان سے بات کرکے حوصلہ افزائی کرتے اورترغیب دیتے کہ لکھنے کاسلسلہ جاری رکھیے۔ کئی نئے نام اخبارمیں دیکھے تومجھ سے ان کے نمبرات طلب کیے اورفون کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی۔یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ متعدد بار آپ ؒ کواپنامضمون اصلاح کے لیے کبھی ای میل کے ذریعہ توکبھی براہِ راست بھیجایادکھایاتوکافی توجہ فرمائی اورغلطیوں کی نشان دہی کی۔بہارالیکشن کے وقت اخبارات میں میراایک مضمون شائع ہواجس میں ایک دوجملے ان کے نظریات سے میل نہیں کھاتے تھے ۔اگلی صبح آپؒ کافون آیاتوخیال آیاکہ شایداس پرکچھ فرمائیں گے۔آپ نے مبارک باد دی،اورفرمایا کہ’’ میں نے مکمل پڑھا،لکھتے رہیے،بہت فاصلہ ہوجاتاہے،ہرہفتہ لکھیے،یاکم ازکم پندرہ روزپرضرورلکھیے۔‘‘کوئی اورہوتاتواپنی ناراضگی ضرورظاہرکرتایاکم ازکم دل پرلے لیتا۔یہ آپ کی وسعت ذہنی اورآزادی اظہار رائے کے احترام کی واضح دلیل ہے۔دہلی کی ملاقات میںکئی امورسے اختلاف کیا،اوراعتراض کیا،آپ پہلے پوری رائے سنتے پھرتفصیل سے سمجھاتے۔ہرمسئلے کے جزئیات کی بھرپورتفصیل معلوم ہوتی۔حیرت تویہ ہوتی کہ اتنا مصروف شخص ،ہرکام کے لیے وقت کیسے نکال لیتاہے ۔
سہل مت لکھیے،آسان لکھیے:
مضبوط دلائل،آسان زبان میں بیان کردینامستقل فن ہے ،آپ اس فن میں درک رکھتے تھے۔قانونی موشگافیاں ہوں یاعلمی مباحث،بہت آسانی کے ساتھ ان کے نکات بیان فرمادیتے۔جن لوگوں کوامیرشریعت ؒ کی مجلس میں فیضیاب ہونے کاتجربہ ہے،وہ شہادت دے سکتے ہیں۔یہ سادگی تحریرمیں نمایاں ہے۔امیرشریعت سابعؒ کاطریقہ ہمیشہ آسان لکھنے کا رہاہے اوراس کی ترغیب دیتے ہوئے اپناواقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت امیرشریعت رابعؒنے نصیحت کی’’سہل مت لکھو، آسان لکھو۔‘‘ والد صاحب کی یہی نصیحت آپ کی تحریروں میں صاف نظرآتی ہے ۔ آپؒ نے راقم الحروف کے ایک مضمون کی اصلاح کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’سہل مت لکھیے ،آسان لکھیے ۔عربی کے فلاں فلاں لفظ عام طورپرلوگ نہیں سمجھ پاتے،جملے مختصرہوں،کلمات حصرکااستعمال کم سے کم ہونا چاہیے،جوکچھ آپ لکھیں ،ان کے اعدادوشمارواضح لکھیں،سینکڑوں،ہزاروں کی بات نہ ہو،بلکہ اگرمکمل اعدادکے ساتھ بات لکھی جائے گی تو مستند ہوگی۔‘‘
الحاصل مولانامحمدولی رحمانی ؒ نہ صرف ماہرقانون،زبردست عالم دین اورصاحب اسلوب خطیب اورادیب تھے بلکہ ان کی ایک حیثیت صحافی کی بھی ہے اوراس حیثیت سے انھوں نے وسیع خدمات انجام دی ہیں۔بلکہ کہناچاہیے کہ بہارکی صحافتی تاریخ امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانیؒ کے بغیرمکمل نہیں ہوگی۔