آئینۂ دکن

جو خدا کا خوف دل میں نہیں رکھتا وہ دنیا کی ہر شئے سے خوف کھاتا ہے

حیدرآباد: 21؍اگسٹ (عصر حاضر) مولانا عبدالقوی صاحب ناظم ادارہ اشرف العلوم ٹرسٹ حیدرآباد نے آج مسجد اکبری اکبر باغ حیدرآباد میں نمازِ جمعہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس نہ کسی کو دکھائی دے رہا ہے نہ کوئی اس وائرس کو دیکھ سکتا ہے۔ سائنسدان بھی اس کو ایک معمولی اور نہایت خفیف درجہ کا وائرس سمجھ کر تسلیم کررہے ہیں‘ میڈیا اس کو خوب دکھا رہا ہے اور پوری دنیا اس پر ایمان لارہی ہے۔ اور وباء کے خوف سے لوگ ہر طرح کے احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حالانکہ کسی نے دیکھا نہیں ہے نہ سائنسدانوں نے نہ حکمرانوں نے۔ لیکن اس پر پوری دنیا یقین کررہی ہے اور پوری قوت کے ساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہے۔ جس طرح کورونا پر لوگوں نے یقین کیا اسی طرح پوری شدت کے ساتھ خدا تعالی کے احکامات پر بھی یقین کی ضرورت ہے اور وباء کے خوف سے ہم احتیاطی تدبیر پر عمل پیرا ہیں بالکل اسی طرح پوری قوت کے ساتھ احکاماتِ خداوندی اور اطاعت نبوی کو اختیار کرنے کا حکم ہے۔ وائرس کو کسی نے نہیں دیکھا جبکہ نبیﷺ نیکی و بدی کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہمیں باخبر کرچکے ہیں۔اس کے باوجود ہم لوگ اپنے نبیﷺ کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔  بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ الله تعالی میرے سامنے میری امت کے اعمال کے نتائج کو پیش کرتے ہیں۔ اور مجھے ہر نیکی و بدی کا انجام بتلایا گیا ہے اور نبی صلی الله علیه و سلم نے اپنی امت کو آگاہ بھی کردیا ہے۔ حضراتِ صحابہ نے کبھی بھی کسی بھی حکم پر عمل آوری کے لیے دکھنے کا انتظار نہیں کیا‘ نبی علیہ السلام کا حکم ہوا اور فوراً بجا لانے کی فکر ہوئی۔ حضرت ماریہ قبطیہ سے نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ تیرا بیٹا ابراہیم جنت کی کیاریوں میں پھر رہا ہے نبی علیہ السلام کے کہنے کے بعد حضرت ماریہ نے کہا کہ آپ کے دیکھنے کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا اور مجھے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں اس لیے کہ آپ نے دیکھ لیا ہے۔  یہ در اصل ایمان ہے اور اسی لیے ہم سے کہا گیا کہ تم ایسے ہی ایمان لاؤ جیسے حضراتِ صحابہ نے لایا تھا۔ ایسا ایمان جیسا لوگ آج کورونا پر لائے ہوئے ہیں۔ ہر موقع پر لوگ بچنے بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج عالمی ادارۂ صحت کی ہر بات پر جس طرح یقین کررہے ہیں ایسا یقین در اصل خدا کی ذات اور نبی علیہ السلام کے ارشادات پر ہمارے اندر پیدا ہونا چاہیے۔ دنیا کی آبادی کا ہر چوتھا انسان ایمان والا ہے؛ لیکن یقین بہت کمزور ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم کے کہنے پر پچھلے چار مہینوں میں لوگ اس وباء سے بچاؤ کے لیے اتنے کاڑے پی گئے جتنے کبھی زندگی بھر نہیں پیے اس کا مقصد محض اپنی حفاظت ہے۔ لوگ صرف اپنی جان کی حفاظت کے لیے تو اتنے سارے اقدامات کررہے ہیں لیکن کیا جان جانِ آفرین کے سپرد ہونے کے بعد والی زندگی کا بھی ہم نے کچھ سامان کیا ہے؟ ہمارے لاکھ اقدامات کے باوجود یہ بات تو طے ہے کہ موت اپنے وقت پر آکر رہے گی۔ لوگ دواخانوں کو اس لیے نہیں جارہے ہیں کہ اگر کورونا کے باعث موت ہوگئی تو ہمیں بے دردی کے ساتھ قبروں میں دبا دیا جائے گا۔ ان تمام خدشات کو سمجھتے ہوئے جس سمجھ داری کا ثبوت دے رہے ہیں تو دین وایمان کے بارے میں بھی اس طرح کی سمجھ داری کا ثبوت کیوں نہیں دیتے؟ چار مہینے گزر جانے کے باوجود بھی ہماری آنکھیں کھلنے کے لیے تیار نہیں ہے ہم لوگ فرصت نہ ملنے کا بہانہ کرکے تو بہت کوتاہیاں کرتے رہے لیکن جب فرصت مل گئی تو چار مہینے میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو گھروں رہتے رہتے کاہل ہوگئے‘ نکمے بن گئے سونے کے عادی ہوگئے ،محنت مزدوری پر جانے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اَن لاک مراحل کے ساتھ مساجد میں باجماعت نمازوں کی اجازت بھی مل گئی ؛ لیکن اس کے باوجود بھی مصلیوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں وہی برائے نام دو چار۔ ان سب حالات کی وجہ سے آج دنیا کا خوف ہمارے دلوں میں بیٹھتے جارہے ہیں آج کورونا سے خوف کھانے والے کل اس سے چھوٹے چھوٹے مراحل سے بھی خوف کھاتے رہیں گے۔ ہم لوگ اس وقت تک خوف کھاتے رہیں گے جب کہ خدا کا خوف اپنے دلوں میں پیدا نہ کرلیں ایک حدیث میں آتا ہے جو بندہ الله سے ڈرتا ہے دنیا اس سے ڈرتی ہے اور جو الله سے نہیں ڈرتا پھر دنیا اس کو ڈراتی ہے۔ آج ساری مخلوق ہم کو ڈرارہی ہے اس کا ثبوت یہی ہے کہ ہمارے اندر خدا کا خوف نہیں رہا۔ اگر ہم لوگ اپنے دین پر ثابت قدم رہ جائیں اور یہ یقین کرلیں کہ الله کی بھیجی ہوئی مصیبت کو روکا نہیں جاسکتا تو پھر بڑی سے بڑی مصیبت بھی ہمیں خوف میں مبتلا نہیں کرسکتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×