ناگفتہ بہ حالات میں مدارس اسلامیہ کا تعاون نہایت ضروری اور اہم: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
حیدرآباد: 10؍مئی (پریس ریلیز) کورونا وباء کی وجہ سے اس وقت کاروبار، تجارت اور محنت مزدوری کا سلسلہ بند ہے، اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ مدد کے مستحق ہیں، بے حد خوشی کی بات ہے کہ اس مشکل موقع پر مسلمانوں نے بلا امتیاز مذہب ومسلک زیادہ سے زیادہ غرباء تک اپنی امداد پہنچانے کی کوشش کی ہے، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا منصبی فریضہ ہے؛ لیکن اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ مدارس اسلامیہ ہماری شہہ رگ ہیں، بظاہر ان ہی کے ذریعہ ہمارا دینی وجود قائم ہے، مدارس ہی سے ائمہ وخطباء، دعاۃ و مبلغین، اساتذہ، قضاۃ ومفتیان، اسلامی مصنفین اور اسلام کا دفاع کرنے والے قلم کار پیدا ہوتے ہیں، ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے اب تک یہ مدارس ہی ہیں۔ جو ملت اسلامیہ کی تمام دینی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں، اور ہر محاذ پر اسلام کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ انجام دیتے آئے ہیں، انھوں نے اپنے آپ کو سرکاری مدد حاصل کرنے سے دور رکھا ہے، اور رمضان المبارک میں نکالی جانے والی زکوٰۃ ہی پر ان کے سال بھر کے اخراجات کا مدار ہے؛ اس لئے مولانا رحمانی نے اصحاب خیر سے اپیل کی ہے کہ کورونا وباء کے پس منظر میں غرباء کی مدد تو عطیہ کی مد سے کریں، اور یوں بھی ضرورت مندوں میں سب لوگ زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہوتے، اور اپنی زکوٰۃ کی رقم مدارس اسلامیہ کو دیں، بہت سے لوگوں نے رمضان المبارک میں عمرہ کا ارادہ کیا تھا؛ لیکن ان کا یہ ارادہ پورا نہیں ہو سکا، بعض حضرات نے حج نفل کا ارادہ کیا ہوگا، اور اس کے لئے رقم جمع کی ہوگی، یا اپنے پاس محفوظ رکھی ہوگی؛ لیکن بظاہر شاید اس سال سعودی عرب کی طرف سے مملکت کے باہر کے لوگوں کے لئے حج کی اجازت نہیں مل سکے گی؛ لہٰذا ان حضرات سے درمندانہ درخواست ہے کہ حج وعمرہ کی نیت سے محفوظ کی ہوئی اپنی یہ رقوم مدارس کو عطا کریں، ان شاء اللہ ان کو اس کی وجہ سے اپنی نیت کے مطابق اجرو ثواب بھی حاصل ہوگا، اور مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ان کے لئے صدقۂ جاریہ بنیں گے۔