تبصرہ بر کتاب ’’ حیاتِ فریدی‘‘
- نام کتاب: حیات فریدی (سوانح حیات مفتی نسیم احمد امروہیؒ)
- مصنف: حضرت مولانا محب الحقؒ
- صفحات: 304 – قیمت: 300روپے
- سن اشاعت: 1437ھ / 2016ء
- ناشر: مرکز علم وادب، فریدی منزل، پروہی، مدھوبنی بہار
- ملنے کا پتہ: مولانا امداد الحق بختیار، دار العلوم حیدرآباد، 9032528208
- تعارف نگار: ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی، مدرس دار العلوم دیوبند
دار العلوم دیوبند کے قابل فخر فرزندان کی فہرست بڑی طویل ہے، ماضی قریب میں ایک بڑی شخصیت حضرت مولانا مفتی نسیم احمد فریدی امروہیؒ کی گزری ہے، ان میں عبقریت کی مختلف جہات جمع تھیں، وہ بیک وقت مصنف، خطیب، محقق، فقیہ، مفسر، مؤرخ، صوفی، ادیب اور شاعر تھے، ان کا نسب شیخ الاسلام فرید الحق والدین مسعود گنج شکر کے واسطے سے بابا فرید گنج شکر سے مل جاتا ہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اور پرائمری کی تعلیم منشی نسیم احمد سے حاصل کی، یو. پی بورڈ سے منشی، مولوی اور کامل کا امتحان پاس کیا، جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1355ھ کو دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، خصوصی استفادہ حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مفتی محمد سہولؒ، حضرت مولانا اصغرؒ اور علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ سے کی۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور شیخ التفسیر مولانا احمد لاہوریؒ سے بھی ملاقات کی اور استفادہ کیا۔ ادباء میں علامہ اقبال سے ملاقات کا ذکر ملتا ہے۔ فراغت کے بعد حضرت شیخ الادبؒ کے مشورے سے مدرسہ اشفاقیہ بریلی میں مدرس ہوئے، چار سال بعد جامع مسجد امروہہ تشریف لائے، شیخ الحدیث اور صدر مدرس بنائے گئے اور بڑی دل جمعی کے ساتھ علم دین کی خدمت کی، درمیان میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شعبہ دینیات کی نظامت کی پیش کش ہوئی؛ مگر آپ نے اس کے قبول کرنے کو مصلحت نہ سمجھی، یہاں یہ ذکر کرنا بے جانہ ہوگا کہ مشہور مفکر اور اہل قلم پروفیسر خلیق احمد نظامی صدر شعبہ تاریخ اور پرو وائس چانسلر علی گڑھ موصوف کے قریبی عزیز یعنی اپنے خاص بھانجے تھے۔
بیعت حضرت مدنی سے ہوئے، خلافت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا سے ملی، موصوف کی زندگی کا متاثر کن پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی اور بھتیجوں کی پرورش اور تربیت کی غرض سے خود اپنا نکاح نہ کیا۔
’’ حیات فریدی‘‘ میں مولانا کی زندگی کو بڑے مفصل اور مرتب انداز میں جمع کیا گیا ہے، کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں امروہہ کی تاریخ ذکر کی گئی ہے، وجہ تسمیہ میں آم کی طرف نسبت کو صحیح قرار دیا گیا ہے، آم اور روہو مچھلی کی طرف نسبت کو غیر صحیح بتایا ہے، یہ باب عمومی معلومات پر مشتمل ہے، مثلاً یہ بتایا گیا ہے کہ امروہہ ڈھائی ہزار سال قدیم قصبہ ہے، ابن بطوطہ نے اس کو ’’ بلدۃ صغیرۃ حسنۃ ‘‘ (چھوٹا خوبصورت شہر)کہا ہے، یہاں شروع سے اہل علم وفضل، اطباء اور شعراء رہے ہیں، یہ مولانا احمد حسن محدث امروہیؒ تلمیذ حضرت الامام محمد قاسم نانوتویؒ کا وطن ہے۔
دوسرے باب میں مولانا فریدیؒ کے خاندانی امتیاز وانفرادیت کو بیان کیا ہے، تیسرے باب میں سوانحی مواد ہے اور چوتھے باب میں پندرہ تصانیف کا ذکر ہے، پھر ملفوظات پر مشتمل ایک باب ہے اور آخری باب منظوم خراج عقیدت اور مراثی کا ہے۔
مرتبِ سوانح مولانا محب الحقؒ معروف اہل قلم میں شمار ہوتے ہیں، بہت پہلے ’’ الفرقان‘‘ فریدی نمبر میں موصوف کا مضمون پڑھ کر عقیدت ہوگئی تھی، چودہ کتابوں کے مؤلف ہیں، ان کو سوانح نویسی کا خاص ذوق حاصل ہے، شاگرد رشید اور عقیدت مند ہونے کے باوجود غلو پسندانہ تعبیرات سے موصوف کا قلم پاک ہے، نثر تو سلیس لکھتے ہی ہیں، شعری ذوق بھی بلند ہے، کتاب میں جگہ جگہ بر محل اشعار سے با ذوق قاری انبساط محسوس کرنے لگتا ہے، حواشی بڑے قیمتی ہیں، اس میں ابہام واجمال کو دور کیا گیا ہے، متن میں آئی ہوئی شخصیات کا تعارف بھی لکھا گیا ہے، یہ نقش ثانی ہے، اس سے پہلے ’’ فیضان نسیم ‘‘ کے نام سے خاکہ مرتب ہوا تھا۔ حیات فریدی ’’ نقاش نقش ثانی بہتر کشد از اول ‘‘کی مصداق ہے اور سوانح نویسی کے جدید اسلوب کے تقاضے کو پورا کرتی ہے۔